حمید اللہ قاسمی کبیر نگری
19 نومبر، 2014
لسان العصر اکبر الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ درحقیقت ایک منفرد شاعر اور غیر معمولی ذہانت کے مالک تھے ، جنہو ں نے اپنی طنزیہ شاعری کے بل بوتے وہ کارنامے انجام دیئے کہ جس کو دیکھ کر ان کے معاصر شعراء بھی اپنے دانتوں تلے انگلی دبانے پر مجبور ہوئے، اردو داں طبقہ خصوصیت کےساتھ ان سے واقف ہے،اکبر ایک شاعر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ صدق و صفا ، اخلاق و للّٰہیت ، خلق وراستی ، فطرت کے پیامی اور عالم کے ماہر نباض انسان تھے ، شاعری میں ان کا مقابلہ کوئی دوسرا ہندوستانی شاعر نہیں کرسکتا گویا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، پڑھا لکھا طبقہ چاہے وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، ان کی فصاحت و بلاغت اور ان کی ذہانت و فطانت کی داد دیتا نظر آتا ہے، یہی نہیں بلکہ آنجہانی پنڈت مدن موہن مالوی نے ان کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے : ‘‘ بلاشبہ آپ ہمارے سب سے بڑے قومی شاعر ہیں ، ایشور آپ کی عمر دراز کرے ، ہمیں آپ پر فخر اور ناز ہے’’۔
تجھے ہم شاعروں میں کیوں نہ اکبر منتخب سمجھیں
بیان ایسا کہ سب مانیں ، زباں ایسی کہ سب سمجھیں
اکبر الہ آبادی کی شاعری میں وحدانیت اور للّٰہیت پورے طور پر عیاں تھی، ان کی شاعری کا مقصد لوگوں کو صحیح راستے پر لانا تھا، اس کے لیے انہوں نے اپنی شاعری میں طرح طرح کے حربے استعمال کئے، جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں تلخی محسوس کی جاتی رہی اور طنز و مزاح کا عنصر بھی ان کی شاعری میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ اکبر کی شاعری سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی شاعری میں تو حید اور وحدانیت کاپہلو بھی کافی حد تک پایا جاتا ہے ، چونکہ اکبر کی زندگی میں مذہب کو خاص اہمیت حاصل تھی ، وہ مذہب کو انسانی زندگی کا محور جانتے تھے، ان کاعقیدہ تھا کہ مذہب ہی وہ ادارہ ہے جو انسان کی صحیح رہنمائی کرسکتا ہے، انہیں مذہب اسلام سے گہرا لگاؤ تھا ، وہ مذہب اسلام کے ارکان کی بھی پابندی کرتے تھے، مگر ان کے خیالات میں کٹر پن نہیں تھا، لیکن اگر کوئی ایمان والانماز ، روزہ کی پابندی نہیں کرتا، یا ان امور کو ترک کرتا، تو اس کو اپنی شاعری ہی میں طنز و مزاح کے انداز میں سمجھا تے تھے ، یہی نہیں بلکہ اکبر غیروں کو بھی وحدانیت کی تعلیم دیتے تھے ، اور مذہب کی پاسداری کرنے کا حکم کرتے تھے ، جیسا کہ ایک مرتبہ انہو ں نے اپنے ایک خط میں مہاراجہ سرکشن پرشاد کو لکھتے ہیں : ‘‘ اپنےنسبی اور قومی بزرگوں سے استناد اور ان سے محبت نیچرل بات ہے، لیکن بلا کسی قید نسب قوم و ملک کے تمام بزرگان دین اور عارفان الہٰی کا احترام کرنا خدا پرستی، خدا شناسی او ربلندی طبع کی دلیل ہے۔’’
میرے نزدیک تو بے اصل یہ اشکال ظاہر ہیں
جو اچھے ہیں وہ مومن ہیں،برے جو ہیں وہ کافر ہیں
مولانا عبدالماجد دریا آبادی رحمۃ اللہ علیہ ان کے فکر و عقیدہ او رمسلک کو یوں بیان کرتے ہیں : ‘‘ عجب جامع کمالات ذات تھی ،توحید کا اتناغلبہ میری نظر نے تو بہت ہی کم کسی پر دیکھا ہے،کوئی بات کہیں سے بھی شروع ہوتی جھٹ سے اس کا سر ا اللہ میاں سے ملادیتے ،بزرگوں اور اولیاء کا ذکر زیادہ دیر تک نہیں سن سکتے تھے، فوراً توحید پر لے آتے، حد یہ ہے کہ نعتیہ مضمون یا شاعری کو بھی دیر تک چلنے نہ دیتے،بلکہ کوئی نہ کوئی فقرہ اس طرح کا ضرور بول دیتے کہ جی ہاں! ہمارے اللہ میاں کا کیا کہنا دیکھئے کس قیامت کا جامع بشر پیدا کیا’’۔ ( ازمعاصرین)
اکبر الہ آبادی کے جذبہ للّٰہیت ، اعلاء کلمۃ اللہ اور فروغ دین کو انہی کے الفاظ میں مولانا دریا آبادی رحمۃ اللہ علیہ نےاس طرح بیان کیا ہے: ‘‘ ایک دن بولے کہ جن شاعروں نے محض شاعری اور ادبی زبان کی بنا پر کمال حاصل کرنا چاہا، انہیں قبول عام حاصل نہ ہوا اور فن کی شہرت بھی ادبی علمی حلقوں محدود رہی ، مثلاً ‘‘ شاہنامہ ’’ اور ‘‘ سکندر نامہ’’ لکھنے والے، لیکن جنہوں نے اپنے کو مٹا کر اللہ کا نام بلند کیا، اللہ نے ان کی یاد کو بھی محفوظ کردیا، اور ان کا نام گھر گھر پہنچا دیا جیسے مولانا روم ، مجذوب ، شیخ سعدی یا امیر خسرو وغیر ہم’’۔
اکبر آلہ آبادی خدا پرستی ، خدا شناسی کا بیج ہر ایک کے دل میں بونا چاہتے تھے، ہر کام میں وحدانیت کاپہلو ہی غالب رہتا، بر خلاف دوسرے شعراء کے، کہ ان کے شاعری کے اندر وحدانیت کا پہلو کم ہی نظر آتا ہے، اکبر کا مطمح نظر اپنی شاعری کے ذریعہ دین و مذہب کی بقا و سلامتی اور اس پر مغربی تہذیب کو غالب آنے سے بچانا تھا، مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مغربیت کے ساتھ رہنا ہمارے لیے کوئی غلط بات نہیں ہے، بلکہ اپنی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانا درست ہے ، جیسا کہ انہوں نے انگریزی تعلیم کے سلسلہ میں ایک جگہ کہا تھا :
سر میں سودا آخرت کا ہو، یہی مقصود ہے’
مغربی ٹوپی پہن یا مشرقی دستار باندھ
تم شوق سے کالج میں پھلو ، پارک میں پھولو!
جائز ہے غباروں میں اڑد، چرخ پہ چھولو!
بس اک سخن بندۂ عاجز کا رہےیاد
اللہ اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو!
اب دیکھئے کہ ان اشعار میں وحدانیت کا پہلو کس طرح جھلکتا ہوا نظر آرہا ہے، ان کا مقصد یہ تھا کہ تم دنیامیں آگے بڑھو، مغربی تعلیم بھی حاصل کرو، ڈاکٹر اور انجینئر بھی بنو مگر خدا کو یاد رکھو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس دنیا کے چکر میں پھنس کر خالق کائنات کو بھول جاؤ۔ اکبر کی تعلیم یہی تھی کہ مغربی تعلیم ضرور حاصل کرو، مگر ایمان کا پاس و لحاظ رکھ کر، رزق تلاش کرو مگر رزاق کو دھیان میں رکھ کر ، سبب اختیار کرو مگر مسبب الاسبان کو دل میں بسا کر، یہی نہیں بلکہ اکبر الہ آبادی نے قرآن کریم کی آیات کو بھی اکثر اپنے شعروں کا حصہ بنایا ہے، جو وحدانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے، ایک جگہ فرماتے ہیں:
سند ہماری ہے ایاک نستعین اے دوست!
اسے یگانۂ حاجت روا تو مانتے ہیں
نظر میں آیت ایاک نستعین بھی رہی
صنم کے پاؤں پہ لیکن میری جبیں بھی رہی
طاعت باری سے دل کو شاد رکھ
اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقّ یاد رکھ
قول ملحد ہے کہ نیچر ہوگیا میرا معین
اور فلک کی ہے صدا واللہ خیر الماکرین
ہم خموشی سے تماشہ دیکھتے ہیں دیر کا
دیکھنا ہے کون سچ کہتا ہے دنیا یا کہ دین
نہ بھول ‘‘ ان مع العسریسرا’’ اے اکبر
خدا سکون بھی دے گا اس اضطراب کےبعد
اللہ عز و جل نے اکبر الہ آبادی کو شعر و سخن میں بے پناہ صلاحیتوں سےنوازا تھا، انہوں نے اپنی شاعری سے اگر ایک طرف لوگوں کو مسحور کیا، تو دوسری طرف خدا کی طرف لانے کی بھی کوشش کی ہے، مولانا عبدالماجد دریا بادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی نوجوانی کے زمانے میں جدید تعلیم و فلسفے کے اثر سے مذہب سے بیگانہ ہوگئے تھے، اکبر ان سے بہت محبت رکھتے تھے، او ربڑی شفقت فرماتے تھے، ان کی مذہب سے بیگانگی کا اکبر کو بہت رنج تھا، مگر وہ اس پر بجائے اس کے کہ ان پر رنج و غصے کا اظہار کرتے، لعن طعن کرتے،بلکہ ان کی مذہب کی طرف متوجہ کرتے، اور ان کی خوبیاں بیان کرتے اور ان کو قرآن پاک پڑھنے کی ترغیب یوں دیتے : ‘‘ ثواب کا عقیدہ نہ سہی، لٹریچری لطف و ذوق کا خیال کیجئے ، ہر وقت طبیعت یکساں نہیں رہتی ، کسی وقت کوئی آیت دل کو متوجہ کر لے گی، اسٹڈی اور مضمون نگاری کے لیے قرآن مجید کو خاص طور پر جا بجا حسب مرضی دیکھنے کاکوئی موقع نکال لیجئے۔’’ ( اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ)
19 نومبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/akbar-allahabadi-factor-oneness-his/d/100075