New Age Islam
Sun Jun 22 2025, 01:55 PM

Urdu Section ( 31 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hamas Has Only Grown In Strength حماس 1987 کے بعد سے صرف مضبوط ہی ہوتا آیا ہے

نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر

 14 اکتوبر 2023

 اسرائیل کو عسکریت پسند تنظیم پر لگام لگانے کے لیے ایک فکری متبادل کی ضرورت ہے۔

Hamas ‘terrorists’ riding seized Israeli military vehicle in northern Gaza Strip on 7 October, 2023 | REUTERS/Ahmed Zakot

-----

حماس 1987 سے لیکر اب تک اسرائیل کے لیے مسلسل درد سر بنا ہوا ہے، جب یہ ایک عسکریت پسند گروپ کے طور پر سامنے آیا تھا۔

1989 میں، اس نے دو اسرائیلی افسران کے اغوا اور قتل کا پہلا آپریشن انجام دیا۔

اس سے پہلے یاسر عرفات کی جماعت الفتح فلسطینیوں میں مقبول تھی کیونکہ انہوں نے اخوان المسلمین کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ الفتح نے اوسلو میں یزاک رابن کی سربراہی میں اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت دونوں ممالک نے دو قومی ریاستوں کے طور پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن یاسر عرفات اور یزاک رابن کے بعد نیتن یاہو نے اوسلو معاہدے کو سبوتاژ کیا اور دونوں کے درمیان شدید عداوت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔

حماس نے اس خلا کو پر کیا اور عروج حاصل کیا۔ 2006 کے انتخابات میں، اس نے کامیابی حاصل کی اور محمود عباس کی حکومت کو ایک بغیر نمائندگی والی آمریت میں تبدیل کر دیا۔ اس کے بعد سے یہ اسرائیل کے ساتھ مُسلسل برسر پیکار ہے اور اسرائیل کی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے۔

نیتن یاہو کے عظیم ترین اسرائیل کی تشکیل کے منصوبے بھی دونوں کے درمیان شدید تصادم کا باعث بنے ہیں۔ برسوں سے حماس ایران کی مدد سے اپنے ہی گھر میں ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت پیدا کر رہا ہے۔ اس نے اسرائیلی فوج سے بچنے کے لیے غزہ پٹی میں زیر زمین سرنگیں بھی بنائی ہیں۔ اس لیے اسرائیل کو اپنے ہی پیدا کیے ہوئے شیطان سے نمٹنے کے لیے ٹینکوں اور میزائلوں سے زیادہ سیاسی اور سفارتی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔

-----

Hamas Isn’t Just A Blood Cult. More Than Tanks, Israel Needs Political Imagination To Crush It

حماس صرف ایک خونی دھڑا نہیں۔ ٹینکوں سے زیادہ، اسرائیل کو اسے کچلنے کے لیے سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہے

  از، پروین سوامی

 11 اکتوبر 2023

 کہانی کا آغاز ایک تدفین سے ہوا، جیسا کہ غزہ کی بہت سی کہانیاں ایسے ہی شروع ہوتی ہیں۔ صوفی مبلغ شیخ عزالدین القسام اور نومبر 1935 میں فلسطینی پولیس کے ساتھ لڑتے ہوئے ان کے ساتھ مارے گئے دو ساتھیوں کی لاشیں شہر کے عبد الحمید کلاک ٹاور کے سائے میں الجرینا مسجد میں رکھی گئی تھیں۔ حیفہ ڈاکس کے علاقوں سے ہزاروں افراد جنازے میں شامل ہوئے۔ عرب بینک کے گورنر راشد الحاج ابراہیم نے لاشوں پر سعودی عرب، عراق اور یمن کے جھنڈے چڑھائے۔

اسکالر مارک سناگن نے ان کے جنازوں پر دیے گئے خطبے کو ان الفاظ کے ساتھ محفوظ کیا ہے، "دوست اور شہید، میں نے تمہیں اس پلیٹ فارم سے اپنی تلوار پر ٹیک لگائے تبلیغ کرتے سنا ہے۔ اب جب تم ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کر چکے ہو تو خدا کی قسم تم ایک عظیم مبلغ بن گئے ہو"۔

 پچھلے ہفتے، حماس کے مسلح ونگ، عزالدین القسام بریگیڈز نے 1,200 سے زیادہ اسرائیلیوں کی جانیں لیں، جن میں سے بہت سے لوگوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اگرچہ ہلاکتوں کی اس وحشیانہ کارروائی کے باعث بہت سے لوگ حماس کا موازنہ اسلامک اسٹیٹ سے کرنے لگے ہیں، لیکن یہ تنظیم ایک خونی دھڑے سے کہیں زیادہ ہے۔ اپنی دہائیوں پرانی کہانی کے ذریعے، حماس نے فلسطینی قوم پرستی کا مقابلہ کیا ہے، اسرائیلی انٹیلی جنس کا ساتھ دیا ہے، اور علاقائی جغرافیائی سیاست کا فائدہ اٹھایا ہے۔ یہ جہادی گروپ نہ صرف دہشت گردی بلکہ سیاست میں بھی ماہر رہا ہے۔

 غزہ میں حماس کو شکست دینے کے لیے اسرائیل کو ٹینکوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہتھیار کی ضرورت ہے: مایوسی اور غصے کی زہریلی سیاست کا ایک تصوراتی متبادل جس نے نوجوان فلسطینیوں کو جہادی پیغام کو قبول کرنے پر مجبور کیا ہے۔

 اخوان المسلمین کی پیداوار

 سمیر سنیما کا مارننگ شو، غزہ کے مغرب زدہ حصے میں بالکل ایک نیا مووی تھیٹر کا ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ سرمئی داڑھی والے بزرگ لوگ جو عام طور پر اس طرح کی ذلت کی جگہ سے نفرت کرتے ہیں، جیسے جج شیخ عمر ساون اور مبلغ شیخ عبداللہ القیچاوی، اخوان المسلمین کے غزہ باب کے قیام کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔

 نومبر 1946 میں اس اجلاس کے اٹھارہ ماہ بعد اسرائیل کی ریاست کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ مؤرخ جین پیئر فیلیو نے لکھا ہے کہ اخوان المسلمین نے غزہ کو جہاد کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔

 عزالدین کی قیادت میں اس جماعت نے ایک ہاری ہوئی جنگ لڑی، جس میں یہودیوں اور برطانوی اہلکاروں کو قتل کیا گیا تھا۔ اخوان المسلمین سے منسلک غزہ کے اسلام پسندوں نے زیادہ بہتر کام نہیں کیا۔ مصری فوجی افسران کی قیادت میں، باغیوں نے 1948 کے موسم گرما میں کفار داروم پر ناکام حملے کیے اور تھوڑی دیر کے لیے یاد موردچائی میں تارکین وطن یہودیوں کی کالونی پر قبضہ کر لیا۔

 غزہ جو کہ تقریباً 360 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اسرائیل میں اپنی سرزمین سے بے دخل کیے گئے 2,00,000 فلسطینیوں کا گھر بن گیا جس میں 80,000 باشندے پہلے سے ہی آباد تھے۔

 عربوں کی شکست کے بعد، کرشماتی نوجوان ظفر سہوا، جو سمیر سنیما کے اجلاس میں غزہ اخوان المسلمین کا سیکرٹری جنرل مقرر ہوا تھا، اس کا رہنما بن گیا۔ ظفر نے لوگوں کا مذہب تبدیل کرنے اور انہیں اپنی جماعت میں بھرتی کرنے جیسی سرگرمیوں، یوتھ کیمپوں اور ثقافتی تقریبات کے انعقاد پر توجہ دی۔ سرحد پار سے ہونے والی کارروائیوں سے لیکر اپنی صفوں میں موجود نوجوان بنیاد پرستوں کی اشتعال انگیزیوں تک، اخوان نے اپنے آپ کو الگ رکھا۔

کشیدگی فروری 1955 کے بعد بڑھ گئی جب نوجوان فوجی افسر ایریل شیرون، جو بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنے، کے ایک چھاپے میں 38 فلسطینیوں کی جان چلی گئی۔ غزہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے، جو فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مصر کی ناکامی پر مشتعل فلسطینی مظاہرین پر مشتمل تھے۔

 خلیل الوزیر، صلاح خلف، یوسف النجار، کمال عدوان، اور اسد صفتاوی جیسی شخصیات نے اخوان المسلمین سے الگ ہو کر شباب الثار، یا ایوننگ جنریشن جیسے نئے خفیہ دہشت گرد گروپ بنا ڈالے۔ بعد میں، قاہرہ کے ایک تاجر کے بیٹے یاسر عرفات سے ملاقات کے بعد ان کا تعارف الفتح سے ہوا، جو فلسطینی قوم پرست تحریک کی بنیاد ہے۔

 1967 کی جنگ میں مصر کی تباہی نے اہک بڑی تعداد میں قوم پرست اور بائیں بازو کی فلسطینی جماعتوں کو متحد کیا، اس امید میں کہ وہ اب اپنی تقدیر کا باب خود لکھیں گے۔ اخوان، جس کی قیادت اب مہاجرین اور غزہ کے عالم شیخ احمد یاسین کر رہے ہیں، نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

اس معاملے کے ماہر احمد قاسم حسین لکھتے ہیں کہ اخوان نے اس کے بجائے "آزادی اور انقلاب کے جھوٹے دعویداروں اور ان دھوکے باز ہیروں کی مذمت کی جنہوں نے اپنے لوگوں کو گمراہ کیا، جنہوں نے اسلام کے مبلغین کو جلاوطن کیا، نیک مسلم نوجوانوں کو جیل میں ڈالا، اخلاص پر مبنی ہر اسلامی خطبے کا مقابلہ کیا، اور اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی بدعنوانی، دانشورانہ انحراف اور انگریزی طرز زندگی کی حوصلہ افزائی کی،"۔

 طوفان کی تیاری

 اگرچہ اخوان المسلمین نے 1970 کی دہائی کے طوفانوں سے خود کو الگ رکھا، لیکن جب الفتح نے مسلسل زبردست پرتشدد کارروائیوں کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی پہچان بنا لی، جسے مورخ ہیلینا کوبن نے بجا طور پر کہا کہ "یہ بیکار نہیں تھا"۔ اس تنظیم نے بڑی تیزی کے ساتھ متوسط طبقے کے درمیان اپنی گرفت مضبوط کی جو تاجروں اور پیشہ ور افراد پر مشتمل تھا۔ 1980 کی دہائی کے اوائل میں، صحافی اسماء الغول کی رپورٹ کے مطابق، الحریت سنیما کو مطالعہ قرآن کے دائرے میں تبدیل کرنے کی مہمات دیکھی گئیں۔ اسلام پسند کارکنوں نے آہستہ آہستہ ساحلوں کو بند کرنے اور حجاب کے نفاذ کی مہم شروع کی۔

 جب اسرائیلی انٹیلی جنس اور سیکورٹی سروسز الفتح اور دیگر قوم پرستوں کا خون بہا رہی تھیں، شیخ یاسین کی المعجم الاسلامی، یا اسلامک سرکل کو 1979 میں سرکاری طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ چار سال بعد، اس نے طلبہ یونین کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ اسرائیلی فوجی اہلکار، فیلیو لکھتے ہیں، حماس کے لوگ مقامی باشندوں پر حملہ کرتے تھے۔

 اگرچہ شیخ یاسین کو 1984 میں اسلحے کی ذخیرہ اندوزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اس کے اگلے ہی سال انہیں قیدیوں کے تبادلے میں رہائی مل گئی۔ مذہبی طبقے نے عارضی طور پر کسی بھی قسم کے تصادم سے پرہیز رکھا، لیکن ہنگامی حالات و واقعات نے جلد ہی ان پر غلبہ کر لیا۔

 1987 میں، غزہ کے پہلے انتفاضہ نے قوم پرستوں اور حماس دونوں کو حیران کر دیا۔ اگرچہ حماس کا پہلا ردعمل اس بحران سے دور رہنے کا تھا، لیکن شیخ یاسین نے بالآخر انتفاضہ میں شریک ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ اسی سال دسمبر میں، یاسین نے المجمع کو تحلیل کر دیا، اور اسے ایک جماعت کی شکل میں دوبارہ شروع کیا جسے اب ہم حماس، یا حرکت المقاوۃ الاسلامیۃ، حماس کے نام سے جانتے ہیں۔

 حماس کی پہلی فوجی کارروائی جو کہ 1989 میں دو اسرائیلی فوجیوں کے اغوا اور ان کے قتل کی صورت میں انجام دی گئی تھی - تباہ کن ثابت ہوئی، اور اس کے بعد سیکورٹی سروسز نے تیزی سے مجرموں کا پتہ لگایا اور اسلام پسند دھڑوں کو بے نقاب کیا۔

 لیکن حماس نے انتفاضہ کی لہر کا فائدہ اٹھایا اور نئی بھرتیاں کیں۔ یاسین نے 1989 میں بغاوت کے لیے جو نعرہ ایجاد کیا وہ کچھ یوں تھا: خیبر، خیبر یا یہود، جیش محمد سوف یعود ("خیبر، خیبر، اے یہودیوں، محمد کی فوج جلد لوٹ آئے گی") اور پوری دنیا میں چھا جائے گی۔

مفرور جہادی مسعود اظہر کی جیشِ محمد، جس نے دو بار ہندوستان اور پاکستان کو جنگ کے دہانے پر پہنچایا، اپنا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے نام پر رکھا۔ یاسین کا نعرہ بہاولپور میں اس کے ہیڈ کوارٹروں پر چند ترامیم کے ساتھ لکھا گیا: یہود کی جگہ ہنود، یا ہندو، اور خیبر کو دہلی سے بدل دیا گیا۔

 موت کا راستہ

 اسرائیل-فلسطینی مذاکرات کے بعد جو 1993 کے اوسلو معاہدے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جس پر یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن نے دستخط کیے تھے، دونوں فریق ایک ایسے معاہدے کے لیے پرعزم دکھائی دیے جس سے دو قومی ریاستوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ اگرچہ ان معاہدوں کو 1996 میں اقتدار میں آنے والے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے بعد ایہود براک نے سبوتاژ کیا۔ انہیں فلسطینی قوم پرستوں کو اسلام کے خلاف کھڑا کرنا اور اس سے فتح حاصل کرنا ممکن نظر آتا تھا۔

 ان کی یہ چال انہیں کے گلے کی ہڈی بن گئی۔ حسین نے یہ ظاہر کیا کہ اسرائیلی سیکورٹی سروسز کے متعدد حملوں کے باوجود، حماس اوسلو معاہدے کی ناکامیوں کے خلاف نوجوانوں کی ناراضگی پر اپنی پوزیشن بحال کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ پیش رفت کی کمی نے فلسطینی اتھارٹی کو اور بھی کمزور کر دیا، جو کہ معاہدے کے تحت قائم کی گئی ایک نیم حکومتی ڈھانچہ تھا، جس سے حالات اور بھی بد تر ہو گئے۔

 2000 کے دوسرے انتفاضہ کے بعد سے حماس نے اپنی فوجی قوت میں اضافہ کیا، اور خود کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی گرفت سے بچانے کے لیے بڑے پیمانے پر خود مختار سیلوں کا استعمال کیا۔ تنظیم نے مقامی سطح پر ہتھیار بنانے کی اپنی صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے ایرانی امداد کا بھی سہارا لیا۔ اسرائیلی ماہر یافتہ شاپر لکھتے ہیں کہ 2001 کے بعد سے حماس بڑی تعداد میں سستے راکٹ اور بم تیار کرنے میں کامیاب رہا ہے، جس سے اسرائیلی کو پسپائی کا منھ دیکھنا پڑا۔

 حماس نے اپنے قائدین کی ہلاکتوں اور ان کی گرفتاریوں کے خلاف جوابی کارروائی میں، اور اپنے مخالفین کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے خودکش بمباروں کا بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا۔

 2006 میں الفتح پر حماس کی انتخابی کامیابی نے صدر محمود عباس کی حکومت کو ایک بغیر نمائندگی کی آمریت میں بدل دیا۔ غزہ پر اسرائیل کے 2014 کے حملوں کا مقصد الفتح کو حماس کے ساتھ مصالحت کرنے سے روکنا بھی تھا۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل کو غزہ میں حماس کی موجودہ حکومت کا سامنا تھا، جس کی ضمانت قطر کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی میں دی گئی ہے۔

 1949 میں پہلی جھڑپ کے بعد سے اب تک اسرائیل غزہ میں 14 بار جنگ کر چکا ہے۔ 1957-1956 یا 2001 کی طرح طویل عرصے سے جاری قبضے اور 2010-2009 کی طرح استبدادی طاقت و قوت کے استعمال کے باوجود اسرائیل حماس کو زیر کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کو اپنے جنوب سے سیکورٹی خدشات کا ہمیشہ خطرہ بنا رہا۔

 اگرچہ یاسین اور اس کے جانشین عبد العزیز رنتیسی سمیت حماس کے سرکردہ رہنما مارے جا چکے ہیں، لیکن ان کی جگہ نئی ہستیاں لے چکی ہیں۔ گزشتہ ہفتے شروع ہونے والی جنگ کے کمانڈر محمد ضیف ابراہیم المصری کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ اس نے 1988 میں بطور ایک طالب علم کے حماس کے تھیٹر گروپ العییدون بنانے میں مدد کی تھی۔ ہزاروں لوگوں نے اس کی پیروی کی۔

 قتل و خون کا سلسلہ اب تک جاری ہے- غزہ میں 3,000 فلسطینیوں کی دوسری انتفاضہ میں، 2014 کی اسرائیلی مہم میں 1,500 سے زیادہ اور 1957-1956 میں 1,000 سے زیادہ کے افراد کے ہلاک ہونے کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔

 اب چونکہ اسرائیل اپنے لوگوں پر تشدد کا بدلہ لینے کے لیے نکلا ہے، اسے اس عفریت کو پسپا کرنے کے لیے سیاسی منصوبے بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے جسے اس نے خود پیدا کیا ہے۔

 -----

 (ترمیم از حمرا لئیق)

Source:   Hamas Isn’t Just A Blood Cult. More Than Tanks, Israel Needs Political Imagination To Crush It

English Article: Hamas Has Only Grown In Strength Since 1987 To Israel's Dismay

 URL:  https://newageislam.com/urdu-section/hamas-strength-israel-dismay/d/131018

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..