ودود ساجد
9فروری،2025
امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کے احمقانہ بیانات اور بے ہودہ دھمکیوں سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ جنگ بندی کارواں معاہدہ ٹوٹ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود آج(8فروری کو) حماس نے جنگ بندی کے تازہ مرحلہ کی پانچویں قسط کے تین یرغمالوں کو بھی رہا کردیا۔ رہائی کی تقریب کیلئے وسطی غزہ کے علاقہ دیر البلح کا انتخاب کیا گیا تھا۔وسطی غزہ میں اسرائیل نے اس لئے حملے نہیں کئے تھے کیونکہ اسے خوف تھا کہ یرغمالوں کو اسی علاقہ میں کہیں رکھا گیا ہے۔ الجزیرہ چینل کے مطابق حماس کے جانبازوں کی نہ صرف تعدادپہلے سے زیادہ تھی بلکہ ان کے پاس مزیدکچھ نئے قسم کے ہتھیار بھی دیکھنے کو ملے۔اسٹیج کو بھی نئے انداز سے اور بہت اہتمام کے ساتھ سجایا گیا تھا۔کئی شہید قائدین کی تصویریںبھی آویزاں کی گئی تھیں۔ عربی‘ عبرانی اور انگریزی زبان میں نئی عبارت لکھی گئی تھی: ہم طوفان ہیں‘ہم ہی اگلا دن ہیں‘۔عبرانی کو دوسرے اور انگریزی کو تیسرے مقام پر رکھا گیا تھا۔ بڑے بڑے اسپیکرلگائے گئے تھے جن پر حریت کے نغمے چل رہے تھے۔پہلے کی طرح چمکتی ہوئی نئی نئی گاڑیاں تھیں۔ حماس کے جانبازوں کے چہروں پر کسی خوف یا پژمردگی کے آثار نہیں تھے۔جن کو آج رہا کیا گیا لائوڈاسپیکر پر ان کا ردعمل بھی سنوایا گیا۔
اس سب کے باوجودفلسطین اور خاص طورپرغزہ کے مستقبل کے تعلق سےدو سوال فوری طورپر پوری دنیا کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں:کیا امریکی صدرڈونالڈٹرمپ کے پہلے کےمثبت بیانات قابل یقین ہیں؟اور یہ کہ کیا ان کے تازہ منفی بیانات قابل توجہ ہیں؟بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ ہر اعتبار سےناقابل اعتبار ہیں لیکن کم سے کم ان کی اس بات پر یقین کیا جانا چاہئے کہ دوسروں کی لڑائی امریکہ اب اپنی قیمت پر نہیں لڑے گا۔ٹرمپ نے صدارتی الیکشن کیلئے اپنی مہم ہی اس وعدہ پر چلائی تھی کہ امریکہ نہ تودوسروںکی لڑے گا اور نہ ہی کسی کی لڑائی میں حصہ لے گا‘بلکہ جولڑائیاں چل رہی ہیں انہیں روکنے کی کوشش کرے گا۔انہوں نے 20جنوری کواپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ صدر ہوتے تونہ روس اور یوکرین کی لڑائی شروع ہوتی اور نہ ہی مشرق وسطی(فلسطین اور اسرائیل)کے حالات خراب ہوئے ہوتے۔انہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعداور حلف لینے سے پہلےمشرق وسطی کیلئے اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا جس نے حماس کے ساتھ جنگ بندی کیلئے اسرائیل کے بد دماغ اور وحشی وزیر اعظم کو آمادہ کیا۔
دنیا کو یقین تھا کہ جنگ بندی کا یہ مرحلہ پر امن طورپر مکمل ہوگا اور دوسرے مرحلہ کیلئے گفتگو بھی اپنے طے شدہ وقت پر شروع ہوجائے گی۔ معاہدہ کے مطابق دوسرے مرحلہ کی گفتگو زیادہ سے زیادہ 3فروری سے شروع ہونی تھی۔لیکن اس دوران نتن یاہو کو وہائٹ ہائوس کی دعوت ملی اور انہوں نے مذاکرات کیلئے اپنے وفد کے سفر کوامریکہ سے واپس آنے تک موخر کردیا۔لیکن اس دوران ٹرمپ نے مختلف بیانات دے کر جنگ بندی کے موجودہ معاہدہ کے وجود کو ہی معرض خطر میں ڈال دیا۔ٹرمپ کا پہلابیان آیاکہ انہوں نے اردن اور مصر کے سربراہوں سے بات کرکے کہا ہے کہ وہ اہل غزہ کو اپنے یہاں بسالیں۔ اردن اور مصر نے اس احمقانہ تجویز کوسرے سے ہی مستردکردیا ۔ اس کے باوجودٹرمپ کا دوسرا بیان آیاکہ عربوں کیلئے ہم نے بہت کچھ کیاہے‘اب انہیں بھی ہمارے لئے کچھ کرنا چاہئے۔لیکن فوری طورپرعرب ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا اورانہوں نے ٹرمپ کے منصوبہ کو مسترد کردیا۔4فروری کوٹرمپ کا تیسرابیان آیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم غزہ کو’ ٹیک اوور کرلیں گے‘‘ اوراہل غزہ کو وہاں سے جانا پڑے گا۔اس پراقوام متحدہ کا بھی اجلاس منعقد ہوا اوربیک آوازٹرمپ کی تجویزکومسترد کردیا گیا۔فرانس کے سفیر کا بیان آیا کہ نہ غزہ کے لوگ اپنی سرزمین چھوڑنا چاہتے اور نہ اقوام متحدہ اس منصوبہ کے ساتھ ہے۔حماس کا بیان آیا کہ غزہ کے سلسلہ میں ٹرمپ کا بیان مضحکہ خیزاور لغو ہے۔اس کے بعد ٹرمپ کا بیان آیا کہ جنگ اور حماس کے خاتمہ کے بعد اسرائیل غزہ کو امریکہ کے حوالہ کردے گا۔
ٹرمپ کے منصوبہ کی مخالفت اسرائیل کے اندربھی ہوئی۔یہاں تک کہ اس امریکی -اسرائیلی شہری نے بھی اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا جس کے یرغمال بیٹے کی حماس کی قید کے دوران ہی اسرائیل کے حملہ سبب موت ہوگئی تھی۔اسرائیل کے بہت سے یہودی تجزیہ نگاروں نے بھی ٹرمپ کے اس منصوبہ کو خوفناک اور تباہ کن قرار دیا۔حالانکہ امریکہ کے وزیر خارجہ ’روبیو‘ نے کہا کہ ہم غزہ کی دوبارہ خوبصورت تعمیر کریں گے۔مشرق وسطی کیلئے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی’ وٹکاف‘ نے کہا کہ فلسطینیوں کی بہتر زندگی زمین کے کسی خاص ٹکڑے سے وابستہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود خود لٹے پٹے اہل غزہ نے اس منصوبہ کو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیااور کہہ دیا کہ کچھ بھی ہوجائے ہم اپنی سرزمین کو نہیں چھوڑیں گے۔مغربی کنارہ کے حکمراں محمود عباس نے بھی اس منصوبہ کی سختی کے ساتھ مخالفت کی ہے۔فلسطینی گروہوں کے درمیان اتحاد کی کوششیں پھر تیز ہوگئی ہیں۔اسی دوران نتن یاہو کا بیان آیا کہ سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدہ بہت جلد ہوجائے گالیکن سعودی عرب نے واضح کردیا کہ دو ریاستی حل کے بغیر وہ اسرائیل سے مراسم قائم نہیں کرے گا۔حماس نے کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہے لیکن غزہ سے نکلنے پر کوئی گفتگو نہیں ہوسکتی۔جس وقت ٹرمپ سےنتن یاہو کی ملاقات ہورہی تھی تو واشنگٹن میں وہائٹ ہائوس کے سامنے حقوق انسانی کے رضاکاراور عام امریکی زبردست مظاہرہ کر رہے تھے۔انہوں نے نعرے لگائے کہ ’فلسطین برائے فروخت نہیں ہے‘۔
الجزیرہ کے سینئر تجزیہ نگار ’مروان بشارہ‘کا خیال ہے کہ اب سعودی عرب کا کرداربہت اہم ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان نہ ٹرمپ کی اتباع کے پابند ہیں اور نہ نتن یاہوکی دوستانہ پیش کش کے۔بلکہ درست بات یہ ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کی کارکردگی سے بہت دلبرداشتہ ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اصل’ ٹرمپ کارڈ‘ محمد بن سلمان کے ہاتھ میں ہے۔یعنی سعودی اسرائیل تعلقات کا فیصلہ ریاض میں ہوگا واشنگٹن میں نہیں۔مبصرین کے اس قول میں بھی وزن ہے کہ ٹرمپ ہر اعتبار سے ناقابل اعتبار ہیں۔6 فروری کو وہائٹ ہائوس کی ترجمان کا بیان آیاکہ ٹرمپ نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا کہ غزہ کی سرزمین پر امریکی فوج اتاریں گے‘اس نے یہ بھی کہا کہ غزہ کی تعمیر نو پر آنے والا خرچ بھی امریکہ برداشت نہیں کرے گابلکہ عربوں کو کرنا پڑے گا۔اسی روزامریکی وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ ’غزہ کے مستقبل پرٹرمپ اس وقت گفتگو کریں گے جب اسرائیل حماس کو ختم کردے گا۔لہذا ایک نکتہ تو بہت واضح ہے کہ امریکہ اور اسرائیل دونوں پر امید ہیں کہ حماس کا جلد ہی خاتمہ ہونے والا ہے۔اس صورتحال میں 8فروری کوتین یرغمالوں کو رہا کرنے کی تقریب میں حماس کاطاقت وقوت کامظاہرہ کرنابہت اہم اور علامتی ہے۔حماس نے اشاروں اور علامتوںکی زبان میں سمجھانے کی کوشش ہے کہ 490دن کی مسلسل تباہی وبربادی کے باوجود اس کا کچھ نہیں بگڑا ہے اور وہ پوری قوت کے ساتھ اسرائیل کا مقابلہ کرنے کو تیار ہے۔سمجھنے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اپنے 60ہزار سے زیادہ پیاروں کو کھودینے کے باوجود اور لاکھوں کی تعداد میں اجڑجانے کے باوجود عام فلسطینی بھی اسرائیل اور امریکہ کی دھمکیوں کے آگے جھکنے کو تیار نہیں ہیں۔اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہ حماس سے بھی متنفر نہیں ہوئے ہیں۔
آج کی تقریب رہائی میں چھوٹے چھوٹے بچے قسام کی یونیفارم میں آئے۔ عورتوں نے قسام کے جانبازوں پر پھول برسائے۔چھوٹے چھوٹے بچے ٹرمپ سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا وہ وہائٹ ہائوس یا امریکہ چھوڑ سکتے ہیں؟یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ قسام نے پچھلے چار مرحلوںمیں غزہ کے مختلف تباہ شدہ علاقوں میں رہائی کی تقریبات منعقد کیں۔ لیکن آج ایسے علاقہ میں رہائی کا پروگرام رکھا گیا جہاں سب کچھ ٹھیک رہا۔یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ ’دیرالبلح‘ کے اس مقام سےجہاں رہائی کی گئی اسرائیلی ٹینک زیادہ دور نہیں ہیں بلکہ بہت ہی قریب ہیں‘اس کے باوجود قسام کے جانبازوں کو کوئی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے پیغام دے دیا کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں۔ اسرائیل امدادی ٹرکوں کوغزہ میں داخل ہونے سے روک رہا ہے اسی لئے یرغمالوں کی فہرست جاری کرنے میں دیر کی گئی اور اسی وقت فہرست جاری کی گئی جب اسرائیل نے امدادی ٹرکوں کوداخل ہونے کی اجازت دیدی۔ آج کی تقریب رہائی میں کچھ ایسے جانباز بھی دیکھے گئے جو بیساکھیاں لے کرنہ صرف یونیفارم میں آئے تھے بلکہ ان کے گلے میں ہتھیار بھی پڑے ہوئے تھے۔ان کے ساتھی بڑھ بڑھ کر ان کی جبینوں کو چوم رہے تھے‘شاید وہ اسرائیل سے مقابلہ کرتے ہوئے معذور ہوئے تھے۔
تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ یاہو اور ٹرمپ کا نشانہ ایک ہےلیکن دونوں کی فکر مختلف ہے۔ٹرمپ چاہتے ہیں کہ ایران نیوکلیر طاقت نہ بنے لیکن وہ ایران پر حملہ کرنے کے حق میں نہیں ہیں جبکہ نتن یاہو ایران پر حملہ کرنے کیلئے بے تاب ہے۔اس وقت ٹرمپ کے سامنے صرف اور صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے امریکہ کو پھر سے عظیم امریکہ بنانا۔اس کے لئے ضرورت پیسے کی بھی ہے‘ کاروبار کے مواقع بڑھانے کی بھی ہے‘ بیرونی سرمایہ کاری کی بھی ہے اور دنیا جہان کی ہر لڑائی سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کی بھی ہے۔اسی لئے غزہ پر قبضہ کرنے کے کھلے منصوبہ کے باوجود ٹرمپ نے کہا ہے کہ غزہ کے منصوبہ پر عمل کرنے کیلئے وہاں امریکی فوج کوبھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ امریکہ دنیا جہان پر اپنی داداگیری اور چودھراہٹ چھوڑ دے گا۔خود ٹرمپ کو بھی عالمی دادا بننے کا مراق ہے اور وہ اس عادت کو نہیں چھوڑیں گے۔انہوں نے غزہ کے تعلق سے اپنے منصوبہ پر جس طرح سے عربوں کو دھمکانے کی کوشش کی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔لیکن ابھی تک عرب ممالک بیک آواز ٹرمپ کے اس منصوبہ کومسترد ہی کر رہے ہیں۔ٹرمپ اپنی بددماغی کیلئے مشہور ہیں لہذا انہوں نے نتن یاہو کے خلاف وارنٹ جاری کرنے کی پاداش میں عالمی عدالت انصاف پر ہی پابندی عاید کردی ہے۔اس پر دنیا کے بیشتر بڑے ممالک نے عالمی عدالت کا ساتھ دیتے ہوئے ٹرمپ کے اس فیصلہ کی شدید تنقید کی ہے۔ لہذا محتاط انداز میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ کے اس دوسرے دور میں دنیا ان کی وہی باتیں قبول کرے گی جو کچھ معقول ہوں گی اور ان کی نامعقول باتوں کو یکسر مسترد کردے گی۔ٹرمپ کو اس کا احساس ہوگیا ہے اسی لئے غزہ پر قبضہ کے منصوبہ پر انہوں نے اپنا لہجہ کچھ نرم کرلیا ہے۔
9فروری،2025، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/hamas-resolve-future-palestine/d/134579
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism