New Age Islam
Mon May 12 2025, 05:27 PM

Urdu Section ( 12 Oct 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hamas Attack on Israel: Possible Causes and Expected Results اسرائیل پر حماس کاحملہ: ممکنہ وجوہات اورمتوقع نتائج

برنرڈہیکل

12اکتوبر،2023

حماس کی طرف سے اسرائیل پر 7/ اکتوبر کا حملہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں حالات کو معمول پر لانے اور قیام امن کی کوششوں کی بڑی ناکامی ہے۔ اسرائیل کی ناکامی ا س کی ناقص انٹیلی جنس او ر ناکافی عسکری تیاری ہے اورمزید اہم بات یہ ہے کہ اس حملے کے بعد اسرائیل کے عسکری اعتبار سے ناقابل تسخیر ہونے کے غبار ے کی ہوا نکل گئی ہے۔ اس کے بعد سے اسرائیل اب غزہ پر بڑے بڑے پیمانے پر حملے کا سہارا لے رہا ہے تاکہ وہ دنیا سے یہ منواسکے کہ وہ واقعی غیر معمولی عسکری قوت ہے۔ حالانکہ اگر وہ غزہ کو پوری طرح تباہ کردے اور اس پر دوبارہ قبضہ کرلے تب بھی اسے یہ حیثیت حاصل نہیں ہوسکتی۔

مزید برآں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگاکہ اسرائیلی شہریوں کی جانوں کے ضیاع اورحماس کے پاس اسرائیلی یرغمالیوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر وزیر اعظم نتین یاہو سیاسی دہی سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ بلاشبہ خود فلسطینیوں کو بھی ا س سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، وہ بھی خسارے میں ہیں کیونکہ یہ حملہ انہیں اپنی ریاست کے قیام کے قریب پہنچا نے یا اسرائیل کی کلی تباہی کا باعث نہیں بنے گا، جو کہ حماس کا مقصد ہے۔ اس کی بجائے یہ ہوگا کہ اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی میں فلسطینیوں پر مزید مصائب اور تشدد کا سلسلہ بڑ ھ جائے گا۔ اس طرح معصوم فلسطینیوں پراسرائیلی مظالم بلاروک ٹوک جاری رہیں گے اور مشرق وسطیٰ کی بے نتیجہ کشمکش چلتی رہے گی، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ حملہ اس وقت کیوں ہوا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟

میرے خیال میں اس کی دوفوری وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ حماس فلسطینی کاز کی قیادت کے مسئلے پر، فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مقابلہ آرا ہے اوراس حملے کی کامیابی اسے حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے، جب کہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینی عوام کی آفشیل حکومت ہے، جس نے اسرائیل کے ساتھ اوسلوامن معاہدے پر دستخط کیا ہوا ہے، مگر اس کے نتیجے میں آج تک موعودہ فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوسکی۔فلسطینی اتھارٹی پر بدعنوانی اورناقص طرز حکومت کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں اور چونکہ اس نے فلسطینی مزاحمت کو محض اسرائیلی قبضے تک محدود کردیا ہے، اس لیے اسے اسرائیل کے شریک کار کے طور پر دیکھا جاتاہے اور اس وجہ سے یہ اتھارٹی اپنی قانونی حیثیت تقریباً کھو چکی ہے۔غزہ میں حماس کے حملے کا انجام کچھ بھی ہو، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فلسطین او رفلسطینیوں کی آزادی وحق خود ارادیت کی رہنما ئی کرتی ہے۔ دوسرے وجہ یہ ہے کہ حماس اسرائیل اور خلیجی عرب ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے حق میں نہیں ہے، ممکن ہے اسی لیے یہ حملہ کیا ہواور اس مہم میں اسے ایران کی بھی کھلی حمایت حاصل ہے۔

حال ہی میں صدر جوبائیڈن کی سرپرستی میں سعودی عرب و اسرائیل امن معاہدے پر بات چیت کررہے تھے۔ اگر یہ بات چیت کامیاب ہوجاتی، تو اس سے خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان اسرائیل اور امریکی طاقت کے خلاف ایران کے ’نقطہ مزاحمت‘ کے خلاف ایک نیا اتحاد قائم ہوجاتا،مگر اب ان حملوں او رفلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی طرف تباہ کن جوابی کارروائی کے بعد جلد کسی امن معاہدے پر پہنچنے کا امکان نہیں رہے گا۔ سعودی حکومت کے لیے ایک ایسے ملک کے ساتھ امن قائم کرنا بہت مشکل ہوگا، جو فلسطین کی عرب آبادی پر ظلم کررہا ہے، جس کے بارے میں اہل عرب وسیع پیمانے پر یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے حقوق سے محروم ہے اور اسرائیل کے ظالمانہ قبضے میں رہنے پر مجبور ہے۔

بہر حال فی الوقت تو یہ کم از کم سعودیوں او راماراتیوں کے ’معادہ امن‘ کے مقابلے میں ایران اورحماس کے پرتشدد مزاحمت کے وژن کی فتح ہے۔مگر حقیقت میں یہ دونوں نظریے ناقص ہیں، کیونکہ دونوں میں ایک واضح حقیقت سے اندیکھی کی گئی ہے۔ ایران اور حماس کا اسرائیل کو تباہ کرنے کا مقصد حاصل ہوتا نظر نہیں آتا اوراس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل بہت مضبوط ہے او راسے تمام مغربی ممالک، بالخصوص امریکہ کی واضح حمایت حاصل ہے۔ حماس کے تازہ حملے کے جواب میں امریکہ نے اسرائیل کو جو غیر مشروط حمایت پیش کی ہے، اس سے آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف خلیجی عرب ممالک ایک پائیدار امن کے لئے ضروری شرط کے طور پر ایک خود مختار، برسرکار فلسطینی ریاست کے قیام پر مطلوبہ حدتک زور نہیں دیتے۔ جب تک فلسطینی زندہ ہیں، اسرائیل کا ان کی زمینوں پر قبضہ ہے او روہ اپنے حق خود ارادیت سے محروم ہیں، اس وقت تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

ایران اورحماس جیسے کردار بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں۔سعودی عرب نے شاہ عبداللہ کے دور میں اسرائیل کو 2002 ء میں تمام عرب ریاستوں کی طرف سے ایک پیشکش کی تھی، جسے ’عرب اقدام امن‘ کہاجاتا ہے۔ یہ پیش کش اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کی واحد بنیاد ہوسکتی ہے، اس پیشکش میں یہ کہا گیا تھا کہ 1967 ء کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے ذریعے غصب کردہ سرزمین واپس کی جائے اوراس پر فلسطینی ریاست قائم کی جائے، اس کے جواب میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا جائے گا، مگر اسرائیل،خصوصاً موجودہ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت اس پیشکش کو مسترد کرتی ہے اورا س عزم پر قائم ہے کہ تمام فلسطین نگل لے،جس کی وجہ سے مسئلہ اوربھی سنگین ہوتا جاتاہے او را س کے حل کی کوئی صورت نکلتی نظر نہیں آتی۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ میں حماس کے خلاف پرتشدد جوابی کارروائی سے مسئلے کو حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی، بلکہ صورت حال مزید خراب ہوجائے گی اورا س تنازعے کے تمام فریق اپنے طور پر اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ان اندوہناک عالمی مسئلے پر ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور طویل مدتی اقدام کی ضرورت ہے۔ یہ حملہ ایک ایسا موقع فراہم کرتاہے، جس سے بائیڈن انتظامیہ، سعو دی عرب اور اسرائیل کے سینٹر سٹ سیاست دان فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور یہ ’عرب اقدام امن‘ سے کیونکہ فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی اس تنازعے کو ختم کیا جا سکتا ہے، خطے میں امن بحال ہوسکتا ہے اورپرتشدد سرگرمیاں انجام دینے والوں کی کوششوں کو ناکام کیا جاسکتاہے۔ جب تک فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوتی، پرتشدد سا نحات کا سلسلہ تھمنے والا نہیں ہے۔

12 اکتوبر، 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-----------------

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/hamas-attack-israel-expected-results/d/130878

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..