مولانا ندیم الواجدی
18 جون 2021
معاہدے کی دفعات
۹۔
تمام مسلمان صلح کرنے میں یکساں حیثیت رکھتے ہیں، البتہ کسی مسلمان کو یہ حق حاصل
نہیں ہوگاکہ وہ مسلمان بھائی کو چھوڑ کر دشمن سے مصالحت کرے، تمام مسلمانوں کے
درمیان عدل و انصاف اور مساوات کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ تمام مسلمان کفار سے بدلہ لینے
میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور اسلام
کے بتلائے ہوئے طریقوں پر ثابت قدم رہیں گے۔
۱۰۔
یثرب کے کسی غیر مسلم کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ قریش کے کسی شخص کو پناہ دے یا اس کے
مالی مفاد کا تحفظ کرے یا مسلمان کے مقابلے میں اس کی حمایت اور مدد کرے۔
۱۱۔
ناحق کسی مومن کو قتل کرنے والا قصاص کا مستحق ہوگا، یعنی اس کو مقتول کے بدلے میں
قتل کردیا جائے گا، الا یہ کہ مقتول کے اولیاء خوں بہا لینے پر راضی ہوجائیں، تمام
مسلمان اس قاتل کی مخالفت میں کھڑے ہوں گے۔
۱۲۔
اس کتاب کے مندرجات کا اقرار کرنے والے صاحب ایمان کے لئے جائز نہ ہوگا کہ وہ کوئی
نئی بات نکال کر فتنہ انگیزی کرنے والے کی حمایت یا نصرت کرے، اگر کسی نے ایسے شخص
کو پناہ دی تو وہ قیامت کے دن اللہ کی لعنت اور اس کے غضب کا مستحق ہوگا، نہ اس کی
توبہ قبول کی جائے گی اور نہ عذاب کے بدلے کوئی عوض قبول کیا جائے گا۔
ٍ۱۳۔مسلمانوں کے تنازعات،
جھگڑے اور اختلافات اللہ اور اس کے رسولؐ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔
۱۴۔
یہود اور اہل ایمان جنگوں کے مصارف مل جل کر برداشت کریں گے۔
۱۵۔
یہود اپنے دین پر عمل کرنے اور اس پر کاربند رہنے کے مجاز ہوں گے، ہاں اگر انہوں نے
ظلم کیا یا عہد شکنی کی تو وہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو مصیبت میں ڈالنے
والے ہوں گے۔
۱۶۔
یہود بنی عوف اور ان کے حلیف اور ان کے موالی سب مل کر مسلمانوں کے ساتھ ایک جماعت
کی حیثیت اختیار اختیار کریں گے، یہی استحقاق بنی نجار، بنی حارث، بنی ساعدہ، بنی
جشم، بنی الاوس، بنی ثعلبہ، بنی جفنہ، بنی الشطبیہ کے یہود اور ان کے حلفاء
اورموالی کو حاصل ہوگا۔
۱۷۔
جو لوگ اس معاہدے کے پابند ہیں ان کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے خلاف یہودی اور
مسلمان متحد ہو کر لڑیں گے، ایک دوسرے کی مدد کرینگے اور ایک دوسرے کے ساتھ
خیرخواہی کا معاملہ کریں گے، ان کا شیوہ وفاداری ہوگا، وہ عہد شکنی کے گناہ سے
گریز کرینگے۔
۱۸۔
کسی پناہ گاہ میں وہاں کے رہنے والوں کی اجازت کے بغیر پناہ نہیں دی جائے گی، پناہ
یافتہ شخص پناہ دینے والے کی طرح مامون و محفوظ ہوگا، اس کو کوئی نقصان پہنچانے کی
کوشش نہ کرے اور نہ عہد توڑنے کے گناہ میں ملوث ہو۔
۱۹۔
یثرب کی حدود کے اندر کا حصہ معاہدہ میں
شریک تمام لوگوں کے لئے حرم کی حیثیت رکھتا ہے، اس شہر پر جو بھی حملہ کرے گا سب
مل کر اس کا مقابلہ کریں گے اور ایک دوسرے کی مدد کریں گے، تمام لوگ اپنے اپنے
علاقوں کی مدافعت کے ذمہ دار ہوں گے۔
۲۰۔
دین و مذہب کے خلاف جنگ کرنے والوں کو چھوڑ کر کسی جنگ کرنے والے سے مسلمانوں نے
صلح کرلی تو یہود کو بھی اس سے صلح کرنی ہوگی، اسی طرح اگر یہود نے کرلی تو مسلمان
بھی اس صلح کے پابند ہوں گے۔
۲۱۔
ہر شخص اپنے کئے کیلئے جوابدہ ہوگا، ظلم کرنے والا خود پر ظلم کرے گا، اللہ اس کے
ساتھ ہے جو اس تحریر کے مندرجات پر صدق دلی کے ساتھ عمل کرے گا، جو شخص اس تحریر
پر عمل کرے گا اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ خیرخواہی
کا معاملہ کریں گے۔
۲۲۔
اگر کوئی نئی صورت حال پیش آتی ہے یا کوئی نئی بات سامنے آتی ہے جس کا ذکر اس
کتاب میں نہیں ہے یا کوئی ایسا اختلاف اور نزاع رونما ہوتا ہے جس سے کسی فساد یا
ضرر کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرنا ہوگا، وہی
اس کا فیصلہ کریں گے۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے سیرت ابن ہشام، ۱؍۳۶۸، ۳۷۰، اس معاہدے کے مکمل متن اور
ترجمے کیلئے دیکھئے نقوش سیرت نمبر، لاہور۵؍۹۲،۹۳)
معاہدے کے کچھ اہم پہلو
پورا معاہدہ۵۳؍
دفعات پر مشتمل ہے، ہم نے یہاں ان تمام دفعات کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ معاہدے کی کسی
دفعہ سے بھی یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ کسی ایسے شخص کا لکھوایا ہوا ہے جو ابھی
ابھی مکہ مکرمہ سے وہاں کے لوگوں کے مظالم سے تنگ آکر یثرب میں آباد ہوا ہے۔
تحریر کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سے ہوتا ہے، گویا حاکمیت اعلا اللہ کی ہے، پھر شروع ہی میں یہ واضح کردیا گیا ہے
کہ اس تحریر کا لکھوانے والا کوئی عام انسان نہیں ہے بلکہ اللہ کے رسول محمد صلی
اللہ علیہ وسلم ہیں، پوری تحریر میںجہاں بھی اس کا موقع ہے اللہ اور اس کے رسول کی
حاکمیت کا اعلان کیا گیا ہے، کسی بھی تنازع کی صورت میں یہ نہیں کہا گیا کہ اپنے
جھگڑوں کے تم خود ذمہ دار ہو بلکہ صاف طور پر یہ تلقین کی گئی ہے کہ تمہیں ہر ایسے
معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی عدالت میں لے کر جانا ہوگا اور وہاں کا جو فیصلہ
ہوگا اسے قبول کرنا ہوگا۔
اس تحریر کی بنیادی روح
وہ ہے جو اسلام کی اصل روح ہے،یعنی دنیوی اعمال پر آخرت کے عذاب و ثواب کا
دارومدار ہے، جو جیسا کرے گا ویسا پائے گا، نیکوکاروں کو اجر عظیم سے نوازا جائے
گا اور ظلم و تعدی کرنے والے اللہ کی پکڑ سے خود کو بچا نہیں پائیں گے۔ اس تحریر
کے اصل مخاطب اہل ایمان ہیں، تبعاً (ضمنی
طور پر) غیر مسلموں (یہود وغیرہ)کو شامل کیا گیا ہے، البتہ پُرامن رہنے اور معاہدے
کی پابندی کرنے کی صورت میں ان کو حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے، ان کو مساوی حقوق
دئیے گئے ہیں، اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری چھوٹ دی گئی ہے، مگر بدلے میں ان پر
کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی گئی ہیں اور وہ یہ کہ وفاداری کے ساتھ رہیں، عہد شکنی نہ
کریں، اپنے علاقوں کی حفاظت کریں، جنگ کی صورت میں دشمن کا مقابلہ کریں، بہ قدر
حصہ جنگ کے مصارف بھی برداشت کریں۔
اس معاہدے کی اہم بات یہ
ہے کہ اس میں اگرچہ یہودیوں اور دوسرے غیرمسلموں کو بھی شریک رکھا گیا ہے، لیکن
مرکزی حیثیت مسلمانوں کو حاصل ہے، چنانچہ دفعہ۲ ؍میں
یہ واضح کردیا گیا ہے کہ یہ معاہدہ قریش اور یثرب کے مؤمنین کے مابین ہے اور ان
کے درمیان بھی ہے جو ان کے تابع ہیں اور ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہیں، گویا
غیرمسلموں کو بہ طور تبعیت (ضمناً) شامل کیا گیا ہے نہ کہ اصل حیثیت دے کر ان کی
شمولیت ہوئی ہے، پھر پورے معاہدہ میں ظلم، تعدی، اثم، معروف، منکر وغیرہ کی جو
اصطلاحات بار بار استعمال کی گئی ہیں ان سے بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس
معاہدے کے اصل مخاطب اہل ایمان ہیں۔ اس کے علاوہ نزاعات اور اختلافات میں اللہ اور
اس کے رسول کی طرف رجوع کرنے کی شق معنی خیز ہے، اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ معاہدے
میں حاکمیت اعلیٰ ان کے سپرد کی گئی ہے جو
اس کے اہل ہیں، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ یہود کے مختلف قبیلوں کے بااثر لوگوں کو بھی
کسی کمیٹی میں شامل کرکے حاکمیت اس کے سپرد کردی جاتی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا
کیوں کہ مستقبل میں مملکت اسلامیہ کا جو خاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن
میں تھا ایسا کرنا اس کے منافی ہوتا۔
بہرحال دنیائے انسانیت کا
یہ پہلا تحریری معاہدہ ہے جو اختصار کے باوجود اپنے اندر پوری جامعیت رکھتا ہے ۔
معاشرت، سیاست اور مدنیت کا کوئی پہلو، کوئی گوشہ ایسانہیں ہے جسے اس معاہدہ میں
نظر انداز کیا گیا ہو۔ آج سے چودہ سو سال پہلے اس معاہدے کو تحریری شکل دی گئی،
عیسوی سن کے لحاظ سے یہ معاہدہ ۶۲۲ء
میں لکھا گیا ، مگر یورپ کے بعض مؤرخین کا تعصب دیکھئے کہ وہ اس تاریخی حقیقت کو
نظر انداز کرتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ
میگنا کارٹا کا ہے، حالاں کہ یہ اس واقعے کے ٹھیک چھ سو سال بعد ۱۲۱۵ء میں انگلستان کے کنگ
جان اول کے زمانے میں ہوا۔ مشہور مورخ اور سیرت نگار ڈاکٹر حمید اللہؒ نے اس
دستاویز کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب میں جو عنوان قائم کیا ہے وہ یہ ہے ’’دنیا کا
سب سے پہلا تحریری دستور‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ دستاویز ایک معاہدے کی شکل نہیں
رکھتی بلکہ ایک فرض اور حکم کی صورت میں نافذ کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
دستاویز کی ابتداء میں ھذا کتاب من محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں، سب لوگ
جانتے ہیں کہ کتاب کے معنی فرض اور حکم کے ہیں، قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اس مفہوم
میں استعمال ہواہے۔ جرمن، فرانسیسی، انگریزی اور ہسپانوی زبانوںمیں بھی اس کے کم و
بیش یہی معنی ہیں۔ (عہد نبوی میں نظام حکمرانی، ص: ۸۳، ۸۴)
اس دستاویز کی اہمیت اس
لئے بھی ہے کہ یہ حشو و زائد سے پاک ہے اور اس کو غیرضروری الفاظ سے بوجھل نہیں
کیا گیا ہے اور نہ اس کو طویل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ امریکہ کو اپنے دستور اساسی
کے اختصار پر بڑا ناز ہے کہ اس میں صرف سات ہزار الفاظ شامل ہیں، وہ اسے دنیا کا
مختصر ترین دستور کہتے ہیں، حالاںکہ آج سے چودہ سو سال قبل اللہ کے آخری رسول
صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل معجزاتی طور پر جو جامع، مؤثر اور مکمل دستور
لکھوایا وہ صرف سات سو تیس الفاظ پر مشتمل ہے۔
یہ دستاویز یا معاہدہ کسی
بھی اسلامی ریاست کا دستور اساسی بن سکتا ہے اور آج سے چودہ سو سال قبل اس کو یہ
حیثیت دی گئی ہے، اس میں تمام باشندگان ریاست کے افراد کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا
گیا ہے، ان افرادمیں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ریاست کے سرکاری مذہب کی اتباع کرتے
ہیں اور وہ بھی شامل ہیں جو دوسرے مذاہب پر قائم
ہیں یعنی آج کی اصطلاح میںجن کو اقلیت کہا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس
دستور پر عمل کرکے دنیائے انسانیت آج بھی امن، فلاح، مساوات اور ترقی کا گہوارہ
بن سکتی ہے۔ (جاری)
18 جون 2021 ، بشکریہ: انقلاب،
نئی دہلی
--------
Related Article
Part:
7- Adjective of Worship مجھے صفت ِ عبدیت زیادہ پسند اور عبد کا لقب زیادہ محبوب ہے
Part: 22- Bani Awf, the Prophet Has Come اے بنی عوف وہ نبیؐ جن کا تمہیں انتظار تھا، تشریف لے آئے
Part:
23- Moon of the Fourteenth Night ہمارے اوپر ثنیات الوداع کی اوٹ سے چودہویں رات کا چاند طلوع
ہوا ہے
Part: 24- Madina: Last Prophet's Abode یثرب آخری نبیؐ کا مسکن ہوگا، اس کو تباہ کرنے کا خیال دل
سے نکال دیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism