New Age Islam
Mon May 19 2025, 11:23 PM

Urdu Section ( 8 Dec 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Hadith that ‘The community will split into seventy-three groups’ does not support Takfirism and Sectarian Supremacism افتراق امت والی حدیث تکفیریت اور فرقہ وارانہ بالادستی کی حمایت نہیں کرتی

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 14 اکتوبر 2023

 بنیاد پرست اسلام پسند اکثر موضوع احادیث کو تکفیریت اور فرقہ وارانہ بالادستی کے فروغ کے لئے استعمال کرتے ہیں تاکہ اسلام میں فرقہ واریت کو مضبوط کیا جا سکے اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا جواز نکالا جا سکے۔

 اہم نکات:

1.      ایک حدیث میں ہے کہ ’’امت مسلمہ تہتر دھڑوں میں بٹ جائے گی اور ان میں سے ایک کے علاوہ باقی سب جہنم میں ہوں گے‘‘ اور اسے بنیاد پرستوں نے تکفیریت اور فرقہ وارانہ بالادستی کو پروان چڑھانے کے لیے غلط طریقے سے پیش کیا ہے تاکہ وہ اپنے جعلی دین کا فروغ کر سکیں۔

2.      یہ حدیث بہت سے علماء کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔

3.      اس حدیث کا موضوعی مطالعہ بھی تکفیریت کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔

4.      اسلام ایک جامع مذہب ہے جو متعدد تشریحات کی گنجائش رکھتا ہے۔

 ---------

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک قول منقول ہے کہ ’’امت مسلمہ تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ان میں سے ایک کے سوا سب جہنم میں ہوں گے‘‘۔ اس حدیث رسول کو بنیاد پرست اسلام پسند فرقوں نے مسلم فرقوں کے خلاف اعلان جہاد کرنے اور انہیں بے رحمی سے قتل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، جیسا کہ داعش کی سرگرمیوں سے واضح ہے۔ اس کے علاوہ اس حدیث نے تکفیریت کی اشاعت میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس حدیث کا استعمال کر کے بنیاد پرست اسلامی فرقے دوسرے مسلمانوں کے خلاف تشدد کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ اس حدیث کی بنیاد پر انہیں مرتد قرار دیا جاتا ہے اور ایک مرتد کا قتل بھی جائز ہے۔ ہندوستان میں اس حدیث کو ہر فرقہ دوسروں کو بدنام کرنے اور حق پر اپنی اجارہ داری ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

 اگر اس حدیث کا درست انداز میں مطالعہ کیا جائے تو دبنیاد پرست مبلغین کے دلائل باطل ہو جائیں گے۔ اور ہر فرقے کا بالادستی کا دعوی کھوکھلا ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

 یہ حدیث صحیح نہیں ہے

 اس ارشادِ نبوی کے صحیح اور مستند ہونے پر کافی بحثیں کی گئی ہیں۔ ان دلائل کا خلاصہ اس انداز میں یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

 1. سب سے پہلے جو سمجھنے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم جیسی صحیح مجموعہ احادیث میں موجود ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیث کے قابل قبول ہونے کے لیے جو معیار مقرر کیے، اگرچہ اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے، لیکن یہ حدیث اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔ کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ کیا تمام صحیح احادیث بخاری و مسلم میں نہیں ہیں؟ جی ہاں! معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ لیکن اگرچہ یہ بہت اہمیت کی حامل علمی بحث ہے، وہ اس سے متعلق کم از کم ایک حدیث پیش کرنے میں کوتاہی محسوس نہیں کریں گے۔

 2. اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ 'سب جہنم میں ہوں گے ایک کے علاوہ' جو کہ بعض راویوں کی سند میں ملتا ہے۔ اس میں صرف ان گروہوں کی تعداد کا ذکر ہے جو ان سے الگ ہونے کے بعد پیدا ہوں گے۔ ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان، حاکم وغیرہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہودی اکہتر (یا 72) گروہوں میں بٹ گئے، عیسائی بھی اکہتر (یا بہتر) فرقوں میں بٹ گئے۔ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔" لیکن اس حدیث میں دیگر تمام فرقوں کے جہنمی ہونے کا کوئی ذکر نہیں۔

 اسے ترمذی نے اپنی جامع میں باب الایمان میں حدیث نمبر 4596 کے تحت نقل کیا ہے۔ اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ 'حسن' اور 'صحیح' ہے، اور ابن حبان اور حاکم اس کے صحیح ہونے کی تصدیق کرتے ہیں، لیکن اس حدیث کے راویوں میں محمد بن عمر ابن الخم ابن وقاص اللیسی ضعیف ہے۔ منقول ہے کہ جب تہذیب التہدیب (حدیث کے راویوں پر ایک اہم کتاب) میں ان کا تذکرہ شامل کیا گیا تو سب کو اس کی معتبریت پر شک ہوا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس راوی کا نام اس لیے ذکر کیا کہ دوسرے راوی اس سے ضعیف تھے۔ ابن حجر نے اپنی تقریب میں صرف اتنا ہی کہا: 'کچھ تہمت کے ساتھ سچا'۔

 یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے۔ ترمذی اور ابن حبان جیسے محدثین جب اس سوال پر آتے ہیں کہ آیا یہ حدیث ضعیف ہے یا نہیں تو کافی آزاد خیالی سے کام لیتے ہیں۔ حکیم کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی راویوں کو قبول کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔ اگرچہ اس حدیث کو عبداللہ بن عمرو، معاویہ، عوف بن مالک اور انس جیسے متعدد صحابہ نے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جب ایک حدیث متعدد طرق سے نقل کی جاتی ہے تو اس حدیث کو قبول کر لیا جاتا ہے اگر چہ اس کے راوی ضعیف ہوں۔ میری رائے مختلف ہے: یہ کوئی عمومی اصول نہیں ہے کہ اگر کوئی حدیث متعدد طرق سے روایت کی جائے تو اسے قبول کر لیا جائے۔ کتنی ہی ایسی حدیثیں ہیں جو متعدد طرق سے مروی ہیں لیکن اس کے باوجود علمائے حدیث نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے؟ کبھی کبھی نقص راویوں سند میں ہوتا ہے، اور کبھی متن حدیث میں۔ متن حدیث میں تضاد اور ابہام ہو سکتا ہے۔

یہ حدیث تکفیریت کی تائید نہیں کرتی

 آئیے اس حدیث کو سمجھتے ہیں۔ اس حدیث کے موضوعی مطالعہ سے بھی بنیاد پرستی اور بالادستی کی تردید ہوتی ہے۔

 1.   اس حدیث کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مقابلے مسلمانوں کے اندر زیادہ گروہ بندیاں ہیں۔ دوم یہ حدیث بتاتی ہے کہ ان میں سے ایک کے علاوہ سب جہنم میں ہوں گے۔ اس سے ہر فرقے کو یہ دعوی کرنے کا موقع ملتا ہے کہ ہم نجات پانے والے ہیں اور دوسرے فرقے ناکام و نامراد ہیں۔ اس سے اختلافات اور الزام تراشیوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ اس سے تمام اسلامی دھڑے کمزور ہوں گے اور دشمن مضبوط۔ چنانچہ ابن الوزیر (متوفی 840ھ) کہتے ہیں کہ یہ حدیث بالعموم اور اس میں جو حصہ شامل کیا گیا ہے وہ بالخصوص باہم معارض ہوں گے۔ اس کو بنیاد بنا کر مسلمان ایک دوسرے پر گمراہی اور کفر کا الزام لگائیں گے۔ ابن الوزیر نے اپنی کتاب العواصم میں امت مسلمہ کے فضائل کا ذکر کیا ہے۔ اس میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ کوئی فرقہ دوسرے فرقے کو کافر نہ بنائے۔ وہ لکھتے ہیں: 'سب کچھ تباہ ہو چکا ہے، جملہ "ایک کے علاوہ"سے دھوکے میں نہ پڑیں۔ اس کا بہت زیادہ حصہ تباہ کن ہے۔ اصولوں کے خلاف، یہ جعل سازوں کا خفیہ منصوبہ ہو سکتا ہے۔'

 وہ لکھتے ہیں کہ ابن حزم نے کہا: یہ حدیث جھوٹی ہے۔ حدیث موقوف ہے (یعنی راویوں کی سند صحابی تک ہی پہنچتی ہے) مرفوع نہیں (یعنی جس کے راویوں کی سند نبی تک پہنچتی ہے)۔ قدریہ، مرجیہ اور اشعریہ فرقوں (قرون وسطیٰ کی اسلامی تاریخ کے بڑے فرقے) کے بارے میں بھی بہت کچھ کہا گیا ہے۔ یہ سب جھوٹی احادیث ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہے۔ (العواصم و القواصم 1/186)

 2. بعد کے اور پہلے کے علماء میں سے بعض نے اس حدیث کو نہ صرف سند کی بنیاد پر بلکہ اس کے متن کی بنیاد پر بھی رد کیا۔ مسلمان ایک ایسی جماعت ہیں جسے حق کا گواہ بننے کی عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ انہیں قرآن نے بہترین امت قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ وہ تقسیم اور تفرقہ کے لحاظ سے یہودیوں اور عیسائیوں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے (دیکھیں المائدہ: 64:14) وہ اس حدیث کی متن کے بالکل موافق نہیں ہے۔ ان آیات میں ان کے درمیان شدید انتشار اور دشمنی کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن میں کہیں بھی امت مسلمہ کے حوالے سے ایسی بات نہیں کہی گئی ہے۔ یہ صرف ایک یاد دہانی ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہو جانا جو تم سے پہلے تھے۔

 ابو محمد ابن حزم (متوفی 456ھ) ایک عالم تھے جنہوں نے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کے ایک طبقے کے ارتداد کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب دو اقوال کو کافر فرقے نے بطور دلیل کے اختیار کیا ہے۔

 اول: 'قدریہ اور مرجیہ اس امت کے مجوسی ہیں۔'

 دوم: یہ امت ستر گروہوں میں بٹ جائے گی۔ ان میں سے ایک کے سوا سب جہنم میں ہوں گے۔ جنتی صرف وہی ایک گروہ ہے۔'

 اس کے بعد وہ لکھتے کہ یہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں (ابن حزم الفصل فی الملل و النحل 3/292)۔

متذکرہ بالا محدث ابن الوزیر نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب اس حدیث کے راویوں میں کافر بھی شامل ہو گیا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحت کے کسی بھی پیمانے پر کھڑی نہیں اترتی۔ اس لیے بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی جامع میں شامل نہیں کیا۔ 'سب جہنم میں ہوں گے؛ ابن حزم کو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ''سوائے ایک فرقے کے'' والی عبارت بالکل غلط ہے۔

 3. ابن حجر اور ابن تیمیہ نے کہا کہ اس حدیث (حسن) میں کوئی حرج نہیں ہے اور اسے قبول کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ متعدد طرق سے مروی ہے، لیکن اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امت مسلمہ قیامت تک اتنے فرقوں میں منقسم رہے۔ اگر تاریخ کے کسی دور میں مسلمانوں کے اتنے گروہ پائے جاتے تو اس میں جو کہا گیا وہ سچ ثابت ہو گیا۔ یہ سچ ہے کہ مسلمانوں میں چند گروہ ہوں گے۔ لیکن وہ گروہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہوں گے۔ صرف سچے لوگ ہی بچ سکیں گے۔ اور جو سچے نہیں ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ فنا ہو جائیں گے۔ وہ کبھی دوبارہ نہیں اٹھ سکیں گے۔ اسلام کی تاریخ ایسے گروہوں کی مثالوں سے بھری ہے کہ جو گمراہ ہوئے وہ معدوم ہو گئے۔

 اور اگر ہم اس حدیث کو باریک بینی سے دیکھیں تو اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ بٹے ہوئے تمام گروہ امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔ 'میری امت تقسیم ہو جائے گی' کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ وہ بدعتی ہو جائیں، امت مسلمہ سے باہر نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ 'سب جہنم میں ہیں، سوائے ایک کے'، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مجرموں اور زناکاروں کی طرح ایک مدت تک جہنم میں رہیں گے۔ اسے ان کی کج روی کی سزا سمجھنا کافی ہے کیونکہ وہ مومن تھے۔ امید ہے کہ ایسی غلطیوں کی بخشش طلب کرنے کے لیے انبیاء، فرشتے اور نیک و صالحین ہوں گے اور رب العالمین انہیں ان کے نیک اعمال کی وجہ سے سزا نہیں دے گا۔ نیک نیتی کے ساتھ حقیقت جاننے کی کوشش کی لیکن کھو گیا۔ اگر تقسیم کی یہی وجہ ہے تو شاید یہ توقع غلط نہ ہو۔

 نتیجہ

 معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث اسلام کے ابتدائی ادوار میں وضع کی گئی ہے جب سیاسی ہنگامہ آرائی عروج پر تھی۔ اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ فرقہ واریت کو اسلام کی حمایت حاصل ہے۔ بنیاد پرست اور فرقہ پرست اپنے مذموم نظریات کی تائید کے لیے اس حدیث کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ اسلام ایک تکثیری مذہب ہے جس میں دین کی مختلف تشریحات کی گنجائش موجود ہے۔ تکفیریت کے فروغ کے لیے اس حدیث کا استعمال کیا جانا انتہائی مہلک ہے۔

English Article: The Hadith that ‘The community will split into seventy-three groups’ does not support Takfirism and Sectarian Supremacism

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/hadith-community-takfirism-sectarian-supremacism/d/131274

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..