سہیل وحید
21مئی،2025
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورے میں سعودی عرب،قطر او رمتحدہ عرب امارات کے ساتھ جو معاہدہ کئے، ان پر کچھ کہنے سے پہلے یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ ڈونالڈ ٹرمپ پہلی بار امریکی صدر بننے کے بعد سب سے پہلے سعو دی عرب ہی پہنچے تھے۔ یہ ایک سوال ہے کہ 2017 میں سعودی عرب کے ساتھ جو معاہدہ کئے تھے، ان کا کیا ہوا۔ امریکی کانگریس نے بعد میں ان معاہدوں کی کئی شرائط کو ختم کردیا تھا۔ اس بارکے معاہدوں کا مستقبل بھی یقینی نہیں ہے، اس میں زیادہ تر وعدے اور امیدیں ہیں۔امریکی خارجہ پالیسی کے ایک اصول کے تحت امریکہ کے بے حد مہلک ہتھیار صرف اسرائیل ہی حاصل کرسکتاہے۔ اس زمرے میں ایف 35/جیسے جنگی طیارے آتے ہیں، جو امریکہ کسی کونہیں دے سکتا۔ اسی لئے ٹرمپ کی اس آؤ بھگت والے چار روزہ خلیجی ممالک کے دورے کے نتائج کے تعلق سے اسرائیل بہت زیادہ فکر مند نہیں ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ امریکہ نے اس بار پھر 600/ارب ڈالر کے معاہدے کئے ہیں، اس میں 142/ارب ڈالر کا اب تک کا سب سے بڑا دفاعی معاہدہ بھی شامل ہے، اس کا انجام امریکی ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ متحدہ عرب امارات اور قطر کے ساتھ بھی جومعاہدے ہوئے ہیں، ان میں مصنوعی ذہانت کی مشین لرننگ وغیرہ پر ہی فوکس زیادہ ہے۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو خلیجی ممالک اب اپنے آپس اختلافات کم کرکے اس علاقے کی معاشی ترقی کے لیے کوشاں نظرآئے ہیں۔ اس میں سعودی عرب کے محمد بن سلمان او رمتحدہ عرب امارات کے شہنشاہ شیخ محمد بن زاید کے افکار اور عزائم بے حد اہم ہیں۔
یہ عرب ممالک اپنی پرانی مذہبی پہچان کو طاق پر رکھ کر ایک نئی تہذیبی شناخت کو عالمی سطح پر قائم کرنے کے لیے ہر جتن کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے متحدہ عرب امارات میں پہنچنے پر خیر مقدم تقریب کے دوران سفید لباس میں بال کھولے لڑکیوں کا ’العالیہ‘ رقص اس کی مثال ہے۔ ’العالیہ‘ شمال مغربی عمان اور متحدہ عرب امارات میں پیش کی جانے والی عربی تہذیب کا ایک معروف کردار ہے۔نجی محفلوں والی اس پر فارمنس کو پہلی بار عوامی بنایا گیا۔ اس میں گنگنانے، عربی موسیقی کے ساز’دف‘ بجانے کے ساتھ ہی رقص بھی شامل ہے، جس میں جنگ کا منظر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی صدر مملکت کی شان میں پیش کیا جانے والا یہ پہلا ’العالیہ‘ تھا۔
امریکی صدر کے چار دن کے اس دورے میں سعودی عرب نے غیر متوقع طور پر کچھ زیادہ ہی آزاد خیالی کا مظاہرہ کیا اور دنیا کے دوسرے سب سے بڑے مذہب اسلام کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ کا ملک ہونے کے ناطے پوری دنیا کے مسلمان اس سے اسلامی قوانین کی پاسداری کی جیسی امید رکھتے ہیں، اس کی ذرا بھی پروا نہیں کی۔ اس بار صدرٹرمپ کے زبردست خیر مقدم کے لیے محمد بن سلمان نے سرخ کی جگہ جامنی قالین بچھوایا، اور جواب میں خیر سگالی کامظاہرہ کرتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ نے وہاں پہنچتے وقت جامنی رنگ کی ٹائی پہنی۔ٹرمپ کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے حد شاندار مہنگی کاروں، سفید گھوڑوں، اونچے اونٹوں کے قافلوں کے ساتھ ہی سفید روایتی پوشاک میں تلواریں لہراتے ہوئے فوج کے سپاہیوں کے مناظر مشرق وسطیٰ کی بڑھتی شا ن وشوکت اور اس کے ساتھ ہی مذہبی دائرے سے باہر نکلتی ہوئی ان کی ذہنیت کی عکاسی کررہے تھے۔متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور سعودی عرب اب ایک متنوع اور جامع معاشرے کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔سعودی عرب کی انسانی حقوق کمیشن کی صدر ڈاکٹر حالہ التویجری کے مطابق سعودی عرب میں اس وقت قریب 60/ سے زیادہ ممالک کے ڈیڑھ کروڑ لوگ رہ رہے ہیں جو وہاں کی کل آبادی کا 44/ فیصد سے زیادہ ہے۔ متحدہ عرب امارات سمیت ان ممالک کی نئی جدید بساوٹ مذہبی شناخت سے بالکل مختلف ہے۔
اس پورے واقعات منظر نامے میں ایران اکیلا پڑرہاہے، تو اس کا سارا زور روس پرہوگیا ہے جس کے ساتھ اس کا کاروبار کا حجم بڑھ کر 4/ارب 80/کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے پرایران میں کوئی خاص ہلچل نہیں دکھی ہے سوائے اس کے کہ ٹرمپ نے ایرانی مسائل کومہلک بتایا۔ لیکن ان کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ امریکہ اگر پابند یاں ہٹالے تو ایران بھی گفت وشنید کے لیے تیار ہے اور غیر ملکی، خاص طور پر امریکی کمپنیوں کی آمد کا راستہ صاف ہوسکتاہے۔
ایک زمانہ کے بعد شاید یہ پہلا موقع ہے جب مسلم دنیا میں مذہبی شدت پسندی پرجدیدیت حاوی ہوتی نظر آرہی ہے اور اس کی قیادت او رکوئی نہیں سعودی عرب اورمتحدہ امارات جیسے ممالک کررہے ہیں۔ تیونیشیا والے شمالی افریقہ میں دوسال پہلے اسلام کا سرکاری مذہب کا درجہ ختم کردیا گیا۔ شاہ سلمان نے سعودی عرب میں لبرل ازم یا حریت پسندی کا نیا دور شروع کیا ہے۔ خواتین کو آزادی دی ہے اور کئی اسلامی روایتی پابندیاں ختم کردی ہے۔ مدینہ میں مسجد حرم کے پاس گزشتہ دنوں ہندوستان کے اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجونے فوٹو لیا۔متحدہ عرب امارات تو اس وقت دنیا کے سب سے جدید ملک کے شکل میں اپنا لوہا منوا ہی چکاہے۔باقی عرب ممالک بھی اسی طرف گامزن ہیں۔ ان عرب ممالک کو جنگ سے الجھنے میں دلچسپی نہیں ہے، انہیں اپنی معاشی حالت مضبوط کرنے کی فکر ستارہی ہے۔خوشحالی کو مزید پائیداری بخشتے ہوئے اسے عیش وعشرت میں بدلنا ہی ان کا مقصد رہ گیا ہے۔ سعودی عرب متحدہ عرب امارات،قطرنے ٹرمپ کو بیش قیمتی تحفے دے کر دراصل اپنی پختہ مالی حیثیت دنیا کے سامنے رکھنے کی کامیاب سعی کی ہے تاکہ ان عرب ممالک میں اور زیادہ سرمایہ کاری کا راستہ صاف ہو۔ اس طرح ان ممالک نے پوری دنیا سے اپنے یہاں نجی سرمایہ کاری کے راستے کھولے ہیں۔ اور ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ چاہے جتنا بڑا طرّم خاں بنے، اس تاریخی حقیقت کوکوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ عربوں سے بڑا سوداگر او رکاروباری پوری دنیا میں کوئی نہیں ہوا ہے۔
امریکی صدر کے اس دورے میں شام کے قائم مقام صدر احمد الشرع عرف ابو محمد الجولانی سے ٹرمپ نے ہاتھ ملا یا اور تیس منٹ اکیلے میں گفتگو کی، شام پر سے انہوں نے پابندیاں بھی اٹھالیں۔میڈیا کا ایک حصہ اسے محمد بن سلمان کی حکمت عملی کا نتیجہ بتارہاہے۔ سچائی جو بھی ہو، طالبان سے شکست خوردہ امریکہ افغانستان سب کچھ چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوا تھا۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ وہ امریکہ جس نے اپنے زور معاش سے ہی طالبان کو پیدا کیا تھا، اب او رکوئی شدت پسندی جیسے ملک کا خطرہ لینا نہیں چاہتا۔
--------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/gulf-states-identity-american-interests/d/135624
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism