غلام نبی خیال
آخری قسط
8اگست،2021
”جنگ اور امن“ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس کی غیر معمولی طوالت
کے باوجود قارئین نے اسے ذوق و شوق سے پڑھا او رروس کے علاوہ جرمنی اور فرانس میں
بھی ا س کی مانگ روز بروز بڑھتی ہی گئی۔ جنگ اور امن کے کشمیری ترجمہ کا ر
مظفرعازم کے بقول: ”ٹالسٹائی کے فن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ تخیل کی پرواز سے زیادہ زندگی کی حقیقت کے مشاہے کہ اپنے مواد
کی شکل میں استعمال کرتاہے، وہ زندگی کی نقوش کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اس کی
اندرونی کیفیت کے خدو خال کو پرکھنے کا کام بھی بیک وقت کرتاہے۔ اس سے اسے اپنی
تخلیقات کے کرداروں کی نفسیاتی اور فکری سوچ کی آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ اسی آگاہی کا
مظاہرہ ٹالسٹائی ”جنگ اور امن“ میں اس طرح کرتاہے کہ جنگ کی تباہیوں کے باوجود ایک
عام گھرانہ اپنی روز مروکی زندگی میں کسی قسم کا خلل داخل ہونے نہیں دیتا او رجہاں
باہر سے آتش و آہن کا خونیں بازار گرم تھا یہ گھرانہ اپنی مصروفیانہ نظریے سے امن
ہی بالآخر جنگ پر فتح حاصل کرتاہے۔ جان گالزوردی کاکہنا بجا ہے کہ ”کسی بھی زمانے
میں لکھے گئے ناولوں میں جنگ اور امن سب سے اوپر براجمان ہے۔“
اقبال کا پیام مشرق
”پیام مشرق“ اردو کے سب سے متنوع اور ہمہ جہت شاعر علامہ
اقبال(1877ء تا 1938ء) کی ساری تصانیت میں اہم ترین اور عظیم ترین مجموعہ کلام ہے۔
جرمنی کے شہرہئ آفاق شاعر
گوئٹے جب عمر کے آخری ایام میں مغرب کی مادہ پرستی اور انسانی اقدار کے تنزل سے
بیزار ہوچکا تھا او روہ اپنے درماندہ وجود کو کسی مختلف ماحول میں منتقل کرکے
سکون،اطمینان اور آسودگی قلب کے دن گزارنے کا خواہاں تھا،اسی ذہنی اضطرار اور
جذباتی ہیجان کے عالم میں اس نے یہ قطعہ لکھا۔
North
and west and South breaking
Thrones
are bursting, kingdoms shaking:
Flee
then, to the essential East,
Where
on Patriach's are you'll feast
ان ہی دنوں یعنی 1812 ء
میں جو زف دان ہیمر پر گسٹل نے حافظ شیرازی کے فارسی دیوان کا جرن بان میں منظوم
ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کے مطالعے نے گوئٹے کے ذہن میں ایک انقلاب برپا کیا۔ اسے اس
مشرق دیوان میں خیال اور فلسفے کی نئی دنیا جلوہ گر دکھائی دی۔ حافظ کا گہرا اثر
قبول کرنے کے بعد اس نے کئی ایسی منظوم تخلیقات کو جنم دیا جن کے خالق کے بارے میں
گمان ہوتاتھا کہ وہ مشرق ہی میں پیدا ہوا ہے۔ گوئٹے نے اسی اثر کے تحت ”دیوان
مغربی“ لکھا جس میں کئی اسماء اور نظموں کے عنوان بھی عربی یا فارسی زبانوں میں ہی
درج ہیں۔ مثال کے طور پر ساقی، زلیخاء ہجرہ، پارسی نامہ، مغنی نامہ، عشق نامہ،
تیمور نامہ اور خلد نامہ موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے کہا جائے گا کہ یورپی ریاست
جرمنی سے گوئٹے کے اس مختلف رنگ او رآہنگ کے دیوان کا مشرقی ادبیات کو ایک بیش بہا
تحفہ اقبال کے سب سے اہم اور معتبر فارسی مجموعہ کلا پیام مشرق کی صورت میں حاصل
ہوا، جس کی تصنیف کے محرکات کا اقبال نے خود بیان کرتے ہوئے گوئٹے کی مشروق نوازی
کے پش منظر کو اس طرح واضح کیاہے، ”پیام مشرق کا مدعا جو مغربی دیوان کے سو سال
بعد لکھا گیا، یا دہ تران اخلاقی،مذہبی او رملی حقائق کو پیش نظر لانا ہے جس کا
تعلق افراد و اقوام کی باطنی تربیت سے ہے۔ اس سے سو سال بیشتر کی جرمنی اور مشرق
کی موجودہ حالت میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرور ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم کا
باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا اندازہ ہم محض اس لئے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب
سے متاثر ہیں جو ایک بہت بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق
نے صدیوں کی مسلسل نیند کے بعد آنکھ کھولی ہے مگر اقوام میں کسی قوم کا انقلاب
پیدا نہیں کرسکتی جب تک کہ پہلے اس کی اندرونی گہرائیوں میں انقلاب نہ ہو او رکوئی
نئی دنیا خارجی وجود اختیار نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کا وجود پہلے انسانوں کے ضمیر
میں منتقل نہ ہو۔ فطرت کا یہ اٹل قانون ہے جسے قرآن نے ان اللہ یغیر مابقوم حتی
یغیر و امابا مسھخ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی
حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود
اپنی حالت بدلنے کا
کے سادہ او ربلیغ الفاظ
میں بیان کیا ہے، زندگی کے فروی اور اجتماعی دونوں پہلوؤں پر حاوی ہے اور میں نے
اپنی فارسی تصانیف میں اسی صداقت کو مدنظر رکھنے کی کوشش ہے“
اقبال ”پیام مشرق“ کے
سرورق پر خود اسے ”درجواب شاعر المانوی گوئٹے“ کہتاہے۔ جہاں اسرائیل کا مشہور شاعر
ہائنے کہتا ہے کہ ”یہ مجموعہ عقیدت کا ایک گلدستہ ہے جس مغرب نے مشرق کو بھیجا ہے“
وہاں گوئٹے کے ایک سوانح نگار بیل سوشکی حافظ او رگوئٹے کا تقابلی مطالعہ کرتے
ہوئے لکھتا ہے کہ ”بلبل شیراز کے نغموں میں گوئٹے کو اپنی تصویر نظر آتی تھی۔ کبھی
کبھی اسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا اس کی روح نے حافظ کے پیکر میں رہتے ہوئے
مشرقی سرزمین میں زندگی گزاردی ہے۔ وہی زمینی مسرت، وہی آسمانی محبت، وہی سادگی
اور بردباری،وہی جوش او رحرارت،وہی مشرب کی عظمت اور شان، وہی کشادہ دلی اور وہی
پابندیوں اور رسوم و رواج سے آزادی۔ مختصری ہے۔ حافظ کی طرح گوئٹے بھی لسان الغیب
اور ترجمان اسرار ہے۔ دونوں نے اپنے دور کے امیر و غریب کو متاثر کیا۔ دونوں نے
وقت کے عظیم الشان فاتحوں کو بھی متاثر کیا اور دونوں عام تباہی اور بربادی کے
زمانے میں اپنی پرانی ترنم ریزی کو جاری رکھتے ہوئے طبیعت کے اطمینان اورسکون پر
غالب رہے“
ایک جگہ اقبال گوئٹے کو
اپنے محبوب شاعر غالب کا ہم پلہ دیکھ کر اس سے کہتا ہے:
آہ! تو اجڑی ہوئی ولی میں
آرامیدہ ہے
گلشن ویمرمیں تیرا ہم نوا
خوابیدہ ہے
گوئٹے کی تعریف و تحسین
میں اقبال کا ایک اور شعر:
صبابہ گلشن ویمر سلام
مابرسان
کہ چشم نکتہ دراں خاکِ آں
دیار فروخت
اسی طرح اقبال نے گوئٹے
کی عظمت کو مولانروی کی زبان سے بھی تسلیم کیا ہے، جب گوئٹے جنت میں مولانا رومی
کو حکیم فاؤسٹ کا قصہ سناتا ہے تو رومی اس سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
فکر تو درگنج دل خلوت
گزید
ایں جہاں گہنہ راباز
آفرید
سوز و ساز جاں بہ پیکر
دیدہ ئی
درصدف تعمیر گوہر دید ہ
ئی
8 اگست،2021 بشکریہ: روز نامہ چٹان، سری نگر
----------------
Related
Article:
Ten Great books
of the world of literature - Part 1 دنیائے
ادب کی دس عظیم کتابیں
Ten Great books
of the world of literature - Part 2 دنیائے
ادب کی دس عظیم کتابیں
Ten Great books
of the world of literature - Part 3 دنیائے
ادب کی دس عظیم کتابیں
Ten Great books
of the world of literature - Part 4 دنیائے
ادب کی دس عظیم کتابیں
Ten Great books
of the world of literature - Part 5 دنیائے
ادب کی دس عظیم کتابیں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism