نصرت ظہیر
برسوں پہلے کےوہ شب وروز آج
بھی میری یادوں میں محفوظ ہیں، جب رمضان کا آخری ہفتہ آتے آتے روزہ داروں کےچہروں
سےجھلکنے والی پر نور نقاہت میں افسردگی کی بھی ایک لکیر نمایاں ہونے لگتی تھی۔ یہ
احساس کہ بس اب چند روز میں سحر وافطار کا یہ سلسلہ منقطع ہوجائے گا، لوگوں کواکثر
اداس کردیا کرتا تھا ۔رمضان کی آخری سحری کی راتوں میں ہمارے پڑوسی ناظم علی خاں مرحوم
کی میلاد پارٹی ، جب سہارنپور کی سڑکوں پروداع نامہ گاتے ہوئے گزرتی تھی تو دل پر ایک
عجیب ہی اثر ہوتا تھا۔ گہری سیاہ رات .....آگے آگے کوئی بڑا سا پیٹرو میکس لیمپ کاندھے
پر اٹھائے چل رہا ہے ، اس کی روشنی میں ناظم خاں اور ان کے ایک خوش الحان دوست ،جن
کا نام اب یاد نہیں ،میلاد کے نعتیہ کلام کا بڑا سا رجسٹرار اٹھائے نعتیں پڑھتےہوئے
آہستہ قدمو ں سے آرہے ہیں اور ان کے پیچھے بیس تیس لوگوں کی ایک ٹولی لے میں لے ملا
کر نعتوں کے مصرعے اٹھاتی ہوئی سڑک سے گزررہی ہے....یا نبی سلام علیک –یا حبیب سلام
علیک – یارسول سلام علیک- صلوات اللہ علیک ....سحری میں آنکھ کھلنے پر رات کی خاموشی
میں دور سے آتی ہوئی ناظم خاں اور ان کے ساتھیوں کی سوز میں ڈوبی ہوئی آواز
.....
ہوئی آواز.....
الوداع اے ماہِ رمضان الوداع.....
سن کر دل جیسے غم سے بھر جاتا
تھا۔
اور پھر آخری افطار کا منظر
....بڑی سی سفید چادر پر افطاری سے سجا ہوا پرُ بہار دستر خوان....روزہ کھولنے کے وقت
کا اعلان کرنے والے گولے کے دغنے کا انتظار .....اور اس انتظار پر غالب آجانے والا
یہ احساس کہ کل سے یہ دستر خوان یوں سجے گا.....عید کے چاند کی خوشی بھی کچھ کم سی
ہوجاتی تھی......یہ باتیں تب کی ہیں، جب کوئی آتا تھا تو دل خوش ہوتے تھے اور جاتا
تھا تو آنسو ؤں سےرخصت کیا جاتا تھا۔ آج اس سب کی فرصت کہاں....اور ہو بھی تو خیال
کسے آتا ہے۔
ان دنوں کی بات ہی اور تھی۔
محمد رفیع کی آواز ....کرتا ہے اور راوی دل سوز یہ بیاں.....رمضان کے مہینے کی مشہور
داستاں ....ملک یمن میں لڑکا تھا اک آٹھ سال کا.....مذہبی کتابچوں اور مسجد کےمولوی
صاحب کی نصیحتوں سے کہیں زیادہ دل کو چھولینے والے اس گراموفون ریکارڈ نے چھ ساتھ سال
کی عمر میں روزہ رکھوادیا تھا....امی واقعی پریشان ہو اٹھی تھیں....روزہ نہیں ہے فرض
ابھی تجھ پہ میرے لال.....
لیکن بابوجی خوش تھے.....دوپہر
بعد تو پوری گلی میں خبر پھیل گئی......بابو عزیز کے لڑکے نے پہلا روزہ رکھ لیا ہے......ارے
اتنی گرمی اور اتنا دبلا پتلا سا تو ہے .....دلہن اسے گھر کے اندر ہی رکھو، باہر مت
نکلنے دینا۔ اچھا .....سورہا ہے، چلو سونے دو جگانا مت.....
مگر روزہ دار بچہ آنکھ میچے
نہ صرف جاگ رہا ہے، بلکہ اندر ہی اندر خود کو ڈانٹ بھی رہا ہے کہ بے وقوف ،کیا ضرورت
تھی شیخی بگھارنے کی ! اب بھگت .....گولا چھوٹنے میں پورے پانچ گھنٹے ہیں۔ پانی تو
خیر سحری میں خوب پیا تھا ۔ عام دنوں سے دگنا، کہ رفیع صاحب بار بار یا ددلارہے تھے.....پانی
بغیر پیاس سے خشک ہوگیا گلا.....کم سن تھا ناز نین تھا چکر ا کے گرپڑا.....
اس لئے پیاس تو اتنی نہیں
لگ رہی تھی، لیکن بھوک؟.....سحری کے پر اٹھے اور کھجلا پھینی ،بند آنکھوں میں گھومنے
لگتے تو خالی پیٹ جیسے درک کا آسمان بن جاتا تھا.....بھوک کا درد....دنیا کا سب سے
بڑا درد......یوں کہئے کہ تمام دردوں کا مغل اعظم ،جس کا علاج ہمدرد دواخانہ وقف کے
پاس بھی نہیں .....اور ایک گھنٹے بعد تو درد باقاعدہ آنسوؤں میں ڈھلنے لگا۔دائیں
ہاتھ کی آستین گیلی ہونے لگی، اس پدّی سے بچے کی مردانگی ملاحظہ فرمائیے ۔ جہاں کوئی
کمر ے داخل ہوا، جھٹ کروٹ بدل لی اور ایسے بن گئے جیسے کمبھ کرن کے بھی باپ ہوں.....
آخر....دوپہر ڈھل کے عصر
کا جب وقت آگیا......
ملنے والے آنے لگے، جیسے
دیکھئے ہاتھ میں افطار ی کاسامان لئے چلا آرہا ہے۔عورتیں اندر کمرے میں آآکر روزہ
دار بچے کی زیارت کرنے لگیں اور زیارت ہی نہیں ہاتھ سے چھوتی بھی جاتیں ،سرپر ہاتھ
پھیر تیں....ہئے ہئے دیکھو تو کیسا مزے سے سورہا ہے....ماشااللہ.....بڑا جی دار بچہ
ہے تمہارا آپا امینہ....اب نور جہاں خاتون کو یہ کون بتاتا کے جی دار بچہ دراصل مارے
شرم کے دبکا پڑا ہے، ورنہ اس کا بس چلے تو کیسا روزہ ، کیسے رمضان اور کہا ں کے محمد
رفیع .....سیدھا دوڑ کر باورچی خانے میں گھس جائے اور دوگھنٹے تک خود کو وہیں اندر
سے بند کئے رہے.....
اوہو، تواس والے نے روزہ رکھا
ہے۔ میں تو اسے یوں ہی باؤلا سمجھتی تھی۔ یہ تو بڑا اللہ والا نکلا .....وہ تو ٹھیک
ہے، مگر عصر کا وقت ہوچکا ، اب اسے نماز کے لئے اٹھادینا چاہئے.....تم بھی کیا بات
کرتی ہو رقیہ.....ابھی سات آٹھ سال کا ہی تو ہے.....ہاں بھئی ،بچوں پر نماز کہاں فرض
ہے۔ ان کی نماز پڑھنا تو فرشتوں کے ذمہ ہے.....مگر یہ تو دیکھو، گرمیوں کاروزہ ہے۔
بی بی میں تو کہتی ہوں بچے کو درود شریف پڑھ کر شربت پلو ادو ....بے چارا ننھی سی جان،
اب تک تو اس کاروزہ قبول بھی ہوچکا ہوگا....
ننھی سی جان کی جان میں جان
آئی....آنکھوں میں بند آسمان سے شربتِ روح افزا کی برسات ہونے لگی.....نہیں بھئی
،ایسا نہیں کرتے.....ہمت والا بچہ ہے ۔بس ڈیڑھ دوگھنٹے کی ہی تو بات ہے......ہاں بھئی
ہاں رقیہ باجی ٹھیک کہہ رہی ہیں.....کہیں روزہ تڑوانے کا عذاب نہ گلے پڑجائے.....
ہمت والے بچے کے جی میں آیا
کے ابھی چھت پر سے کوئی ڈنڈالاکر پوری طاقت سے خالہ رقیہ کی کمر پردے مارے .....مگر
جی مسو س کر رہ گیا۔
گھر میں آہستہ آہستہ اتنے
لوگ آچکے تھے کہ کسی سے چھپ کر کچھ کھالینے کا بھی موقع نہیں تھا۔ بابوجی سہارا دے
کر صحن میں لائے تو ہر طرف چارئیاں بچھی تھیں، جن پر سفید چادروں کے اوپر طرح طرح کی
پلیٹیں ، تھالیاں، سینیاں ،رکابیاں اور ڈونگے ڈھکے ہوئے رکھے تھے.....یہ سب دیکھ کر
اندر ہی اندر پتہ نہیں کہاں سے پانی کے سوتے جا گ اٹھے اور خشک گلا کچھ ایسا تر ہوا
کہ کھانسی کا پھندہ لگ گیا......
پھر ان تھالیوں او رڈونگوں
کا سامان ایک بڑے دسترخوان پر سجایا جانے لگا تو جیسے آسمان چاند ستاروں سمیت زمین
پر بچھ گیا۔ کیا ہے جو نہیں تھا....پھلکیاں ،کچوریاں ، پالک کے پکوڑے ، آلو کی پکوڑیاں
، شکر پارے، برفی، امرتی، جلیبیاں، نمک پارے، تلے ہوئے چنے ، بھنا ہوا قیمہ، آم، امرود،
خربوزہ ،زردہ، پلاؤ ،قورمہ، نان، کوفتے.....کہاں تک یاد کیجئے ،کچھ اپنے گھر کا ،باقی
سب دوسرے گھر وں کا .....روزے دار بچے نے اپنی ضد میں امی اور بابو جی کو پہلے سے کچھ
تیاری اوراوّل روزہ کشائی پر لوگوں کی باقاعدہ دعوت کرنے کا موقع ہی کہا ں دیا تھا......لیکن
لمبی سی گلی کے پڑوس نے اس ضرورت ہی ختم کردی.....وہ گلی جس کی ناک خود اس کی لمبائی
سے بھی اتنی زیادہ لمبی تھی کہ ہر گھر ک اندر کونے کھدرے میں چھپی خوشی یا غم کو بھی
دور سے سونگھ لیتی تھی.....
اس شام کب گولا چھوٹا، کیسے
روزہ کشائی ہوئی ، منھ او ر معدے میں ذائقوں کی کیسی آتش بازیاں چھوٹیں ......کچھ
یاد نہیں.....بس وہ گلی اور اس کا دستر خوان حافظے میں روشن ہے۔ روزہ دار بچہ آج دہلی
شہر کے ایک عالیشان علاقے میں دوسری منزل کے فلیٹ نمبر۔37میں رہتا ہے ،جہاں اسے یہ
نہیں معلوم کہ 36نمبر میں کون مقیم ہے اور 38نمبر میں کس کی رہائش ہے؟ ہر دروازے سے
روزانہ کچھ چہرے باہر نکلتے ہیں ، پھرپتہ نہیں کب ان ہی دروازوں کے پیچھے جاکر گم ہوجاتے
ہیں، خیر.....
اچھا تو میاں قبلہ محترم رمضان
شریف صاحب، بہت سمع خراشی ہوئی۔ اب آپ خیر سے جائیے ،آپ نے ہمیں خوش رکھا ،خدا آپ
کو خوش رکھے۔ زندگی رہی تو اگلے سال پھر ملاقات ہوگی۔ بس اتنی سی گزارش ہے کہ اس بار
تشریف لائیں تو اللہ میاں سے کسی ایسی منزل
یا فلیٹ کا پتہ ضرور پوچھ آئیں ،جہاں چہرے اجنبی ،دروازے ناآشنا او رکھڑکیاں گونگی
نہ ہوں.....جہاں 37،36اور 38سب ایک دوسرے کو جانتے ہوں .....سب کےپاس ایک دوسرے کو
جاننے کا وقت ہو......خدا حافظ .......الوداع!
nusratzaheer@gmail.com
URL: https://newageislam.com/urdu-section/goodbye,-o-month-ramadan,-goodbye/d/1772