New Age Islam
Sun Jul 13 2025, 05:20 PM

Urdu Section ( 12 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

God Is Omnipresent! !جہاں بھی دیکھو وہاں خدا ہے

یوگیندر یادو

11دسمبر،2024

دہلی میں میٹرو کی تعمیر کے دوران پورے شہر میں ہونے والے کھدائی پر یہ لطیفہ سنا تھا۔ آج پورے ملک کو اسی لطیفے کی مانند بنادیا گیا ہے۔ جدھر دیکھو کھدائی ہورہی ہے، ورنہ کھدائی کی تیاریاں ہورہی ہیں، یا کھدائی کا مطالبہ کیا جارہاہے۔گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں،تاریخ میں خند ق تلاش کی جارہی ہے، جہاں تلاش سے بات نہ بنیں وہاں نئی ایجاد کی جارہی ہے۔ پہلے معاملہ ایودھیا کی بابری مسجد تک محدود تھا۔ پھر بتایا گیا کہ ایودھیا تو صرف ایک جھانکی تھی او رکاشی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کا مسئلہ اٹھایا گیا۔ اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے پرنالاہی کھل گیا ہے۔۔۔ سنبھل کی جامع مسجد،دھار (ایم پی) کی کمال مولانا مسجد، چکمنگلور کی بابا بودان گری درگاہ، تھانے کی حاجی ملنگ درگاہ اور اب اجمیر کی درگاہ شریف۔ تقریباً ایک درجن مقامات کی زمین کے سروے کئے جارہے ہیں۔ دل ودماغ کے اندر بھی یہی باتیں گردش کررہی ہیں، کہیں کالج میں مسجد تلاش کرکے بند کرائی جارہی ہے، کہیں سڑک پر اجتماعی نماز کوروکا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ اب مرادآباد سے خبر آئی ہے کہ مسلم ڈاکٹر جوڑے کو ہاؤسنگ سوسائٹی کے قانونی طور پر خریدے گئے فلیٹ میں رہنے سے روک دیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اوپر سے شروع ہونے والا فرقہ وارانہ جنون اندر تک سرایت کر کے تشدد و فساد پر آمادہ ہوگیاہے۔

غور کریں کہ جہاں ایک طرف اقلیتی مسلمانوں کے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی مہم چل رہی ہے، تو وہیں دوسری طرف بنگلہ دیش کی اقلیتی ہندو برادری کی حالت زار پر آنسو بہائے جارہے ہیں۔ یہاں وہ اقلیتوں کی لنچنگ او ر بلڈوزنگ پر تالیاں بجارہے ہیں، وہاں ہندو اقلیتوں کے حقوق کے کھڑے ہونے والوں کو ہیرو قرار دے رہے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں کی صورتحال پر کوئی دوسرا ملک بولتاہے تو اسے خود مختاری کے خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے غیر ملکی سازش کا الزام لگاتے ہیں اور ہندوستانی حکومت بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی صورت حال پر بیا ن دیتی ہے، بی جے پی کے رہنما اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟

کیا ہمیں ایک بار رک کر سوچنا نہیں چاہئے؟ یہ راستہ ہمیں کہاں لے جائے گا؟ ہم کہاں کہاں او رکس کس کو کھودیں گے؟ سب کچھ کھودنے کے بعدجو کچھ ہمیں ملے گا اس کی پوری سچائی کا سامنا کیسے کریں گے؟ آج ہم جو چاہیں من مانی کرلیں، ہم اس کے طویل مدتی نتائج دیکھ سکتے ہیں؟

ایک بار ٹھنڈے دماغ سے سوچیں۔گزشتہ پانچ ہزار سال میں کن بادشاہوں نے اس ملک کے کون سے مذہبی مقامات کو تباہ کیا ہوگا؟ اگر ان سب کا حساب کتاب برابر کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو اس ملک میں کیا کچھ نہیں کھودنا پڑے گا۔ یقینا آج ہمیں مسلمان بادشاہوں کی طرف سے ہندو مندروں کے انہدام کی کہانی یاد رہتی ہے، کیونکہ ہمیں یہ یاددلائی جارہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے اوراس دوران بھی کتنے ہندو بادشاہو ں نے ہندو مندروں کو تور ا تھا، دوسرے بادشاہ کے خاندانی دیوتا کی مورتی توڑ کر اپنے خاندانی دیوتا کی ’پران پرتشٹھا‘ کی تھی، ایک برادری کے مندر کو تباہ کرکے اپنے مندر بنائے تھے۔ ہم ان سب کا احتساب کریں گے؟

مورخین کا کہنا ہے کہ شونگ نسل کے برہمن بادشاہ پشیہ متر شونگ لاتعداد بدھ اور جین مذہبی مقامات کو تباہ کیا تھا۔ قرون وسطیٰ میں بھی مراٹھا فوج نے سری رنگا پٹنم کے مندر کو تباہ کردیا تھا۔ تقسیم کے فسادات کے دوران اگر سرحد کی دوسری طرف مندروں اور گرودواروں کو مسمار کیا گیا تھا ا س طرف بہت سی مساجد بھی تباہ ہوئیں۔ مورخ ڈی این جھا کے مطابق بھوتیشور اور گوکڑ یشور مندر شاید کبھی بدھ وہار تھے۔ مورخین کو چھوڑ بھی دیں تو خود سوامی وویکانند نے لکھاہے کہ پوری کا جگن ناتھ مندر دراصل بدھ مت کا مندر تھا۔ آج بھلے ہی جین مذہب کے پیروکار اس دعویٰ نہ کریں، آج بد ھ مت کے لوگ ان مذہبی مقامات کی واپسی کا مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، لیکن  اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں ایسا نہیں ہوگا؟ اگر چہ آج طاقت کا توازن ایک طرف ہے، لیکن کون اندازہ لگا سکتاہے کہ آج سے سو سال بعد کیا ہوگا۔ اگر تاریخی نا انصافیوں کا بدلہ لینے اور اپنے اپنے مذہبی مقامات کو دوبارہ حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر کون بچا سکے گا؟ اس کھدائی کے جنون میں مندر، مساجد، گرودوارے،بدھ وہار نکلیں یا نہ نکلیں، ہندوستان کی جڑیں ضرور کھود دی جائے گی۔ نہ مذہب بچے گا نہ ملک۔

اس پاگل پن سے بچنے کاایک ہی راستہ ہے۔ تمام ہندوستانیوں کو اکٹھا ہوناچاہئے اور ایک لکیر کھینچ کرفیصلہ کرنا چاہئے کہ ایک مقررہ تاریخ سے پرانے ہر تنازعہ کو بند کردیا جائے گا۔ اور وہ تاریخ صرف ایک ہی ہو سکتی ہے 15 اگست 1947 ء میں جب ہم نے آزاد ہندوستان کا سفر شرو ع کیا تھا۔یہی کام ہندوستان کی پارلیمنٹ کے پاس کردہ عبادت گاہ ایکٹ 1991 نے کیا تھا۔ ا س وقت متنازعہ بابری مسجد رام جنم بھومی کو چھوڑ کر ملک کی دیگر عبادت گاہوں کے بارے میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ 15اگست 1947ء کو جو مذہبی مقام جس مذہب فرقے یا برادری کا تھا،اس کا ہی رہے گا۔ اس سے پرانے تنازعہ کو کسی کورٹ کچہری میں دوبارہ نہیں کھولاجاسکے گا۔ یہ قانون گزشتہ 33 سالوں سے نافذ ہے۔ سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس میں اپنے فیصلے میں اس قانون کی تصدیق کی لیکن پھر مجھے نہیں معلوم کہ یہ فیصلہ لکھنے والے چیف جسٹس چندر چوڑ نے خود گیان واپی کیس میں یہ راستہ کیوں نکلا کہ گرچہ پرانا کیس نہیں کھولا جاسکتا،لیکن سروے ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اس غلط نظام کی وجہ سے ملک میں آئے دن نئے سروے اور تنازعات کا سلسلہ شروع ہوگیاہے۔ چیف جسٹس کھنہ کی قیادت میں ایک ڈویژن بنچ 12دسمبر سے اس کیس کی سماعت کرے گی۔ ملک کا ہر وہ شہری جو اس کی بھلائی چاہتا ہے یہی امید کرے گا کہ سپریم کورٹ 1991 ء کے قانون کی توثیق کرتے ہوئے گڑے مردے اکھاڑنے پر روک لگائے گی۔

11 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

--------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/god-omnipresent/d/134002

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..