سمت پال،
نیو ایج اسلام
11 جولائی 2022
سیم ہیرس کی زبان میں ہم سب
ماڈرن کافر ہیں۔
-----
"اپنے فرضی خداؤں، قدیم
مذاہب، بے معنی کتابوں اور متعدد مشکوک پیغمبروں کی خاطر، انسانوں نے بڑے بڑے سمندروں
میں پڑے پانیوں سے زیادہ خون بہایا ہے،" بدھ کے مشہور اقتباس کی تشریح کی جائے
تو، "انسانوں نے سمندروں کے پانیوں سے زیادہ آنسو بہایا ہے۔"
صومالیہ کے سابق مسلم ایان ہرسی
علی جسے نیدرلینڈ کی حکومت نے خون کے پیاسے مسلمانوں سے بچایا ہے۔
"میرے پاس صرف تھوڑا سا
وقت بچا تھا اور میں اسے خدا پر ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔" فرانسیسی وجودیت پسند
البرٹ کاموس کا یہ مشہور اقتباس مذہب اور خدا پر مسلسل جھگڑے کے ان ہنگامہ خیز وقت
میں نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔
یہ واقعی بڑے افسوس، بلکہ شرم کی
بات ہے کہ انسان اپنا وقت اور توانائی صرف خدا اور مذہب پر ضائع کر رہے ہیں اور ایک
دوسرے کو قتل کئے جا رہے ہیں۔ کرسٹوفر ہچنز سے ایک بار ایک معروف امریکی روزنامے نے
پوچھا کہ کیا اپ معجزات پر یقین رکھتے ہیں؟ سدا بہار ہچنز نے کہا کہ میں معجزات پر
مکمل یقین رکھتا ہوں کیونکہ کیا یہ ایک بہت بڑا معجزہ نہیں تھا کہ انسان اپنے بھائیوں
کو مار رہے تھے اور ایک ایسے دیوتا کی تعظیم کر رہے تھے جسے انہوں نے کبھی نہیں دیکھا
اور نہ ہی کبھی دیکھیں گے؟
یہ انتہائی عجیب اور قابل رحم بات
ہے کہ یہ 21ویں صدی میں ہو رہا ہے جب دنیا کو غربت، ماحولیاتی عدم توازن، تفاوت، وبائی
امراض، عالمی سطح پر غذائی قلت وغیرہ جیسے بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
اس وقت، کچھ خیالی خداؤں کی عزت
ہمارے لیے ان انسانوں کی عزت سے زیادہ اہم ہے جو خدا اور مذہب کے نام پر مارے جا رہے
ہیں۔
لہٰذا، اب وقت آگیا ہے کہ ہر فرد
بیٹھ کر ان غیر یقینی صورتحال پر غور کرے جو ہماری زندگیوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور
ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرے، بجائے اس کے کہ خدا اور مذہب کو اتنی سنجیدگی سے لے۔
مہاتما بدھ نے اس کا خلاصہ بہت اچھے طریقے سے کیا، "تم آس پاس کے انسانوں کا خیال
رکھو۔ تمہارا خود کفیل خدا اپنا خیال خود رکھے گا۔"
مہاتما بدھ کے مشہور اقتباس کے
دوسرے حصے نے ہمیشہ مجھے متوجہ کیا ہے: "تمہارا خود کفیل خدا اپنا خیال خود رکھے
گا۔" بالکل سچ! اگر پوری بنی نوع انسان اس بیان کی اہمیت کو سمجھ لے کہ خدا اپنی
حفاظت کرسکتا ہے تو یہ تمام اختلافات اور خونریزیاں فوراً رک جائیں گی۔ ہماری سوچ غلط
ہے کہ خدا کی الوہیت کی حفاظت، حفاظت اور عزت کرنا انسانوں پر فرض ہے۔ بالکل نہیں۔
ایک بار کسی نے رومی سے پوچھا
کہ تم نے اس یہودی پر رد عمل کا اظہار یا لعنت کیوں نہیں کی جو مسلسل اللہ کو گالی
دیتا رہا؟ اس کے برعکس جب وہ یہودی اللہ تعالیٰ کو گالی دیتا تو رومی مسکراتے تھے۔
رومی پھر مسکرائے اور اس شخص کو بتایا کہ اگر میں نے رد عمل ظاہر کیا ہوتا تو میں نے
یہودی کو زیادہ شدت کے ساتھ اللہ کو گالی دینے پر اکسایا ہوتا اور اسے یہ تاثر بھی
دیا ہوتا کہ میرا (رومی کا) اللہ اس قدر بے بس ہے کہ اسے ایک بشر کی مدد کی ضرورت پڑی
کہ اس کی حفاظت کے لیے مداخلت کرے۔ یہ مضحکہ خیز ہوتا، نہیں بلکہ نادانی ہوتی۔ مذہب
کے معاملات میں رد عمل کا نہ ہونا ہی بہترین عمل ہے اور اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات
میں باوقار خاموشی ایک بہترین علاج ہے۔ اسی کو ہم روحانی حکمت کہتے ہیں۔
اب تمام انسانوں کے بنائے ہوئے
مذاہب کے پیروکاروں نے اس پر پرتشدد ردعمل کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسا لگتا
ہے کہ ہر پیروکار اپنے مذہب کا خود ساختہ محافظ بن گیا ہے۔ کسی بھی قسم کے مذہبی تصادم
سے بچنے کے لیے ہم سب کم از کم یہ کر سکتے ہیں ہم رومی کی تعلیم پر عمل کریں: کوئی
رد عمل نہیں۔ ہم جتنا زیادہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں، اتنا ہی ہم صورتحال کو بھڑکاتے ہیں۔
ہمیں مذہبی تفریق، اختلاف اور تفرقہ سے بچنے کے لیے اس انتہا پسندانہ رد عمل پر مبنی
رویہ سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔
ہمیں بہت زیادہ مذہبی بالیدگی کی
بھی ضرورت ہے۔ ایلڈوس ہکسلے نے انسانوں کو مذہبی و روحانی طور پر ناقص قرار دیا ہے۔
یہ ایک انتہائی موزوں تعریف ہے جو آج کے جنونی انسانوں پر اچھے طریقے سے ثابت آتی ہے۔
چونکہ ہم میں سے زیادہ تر روحانیت
کے طالب اور اخلاقی طور پر ناقص ہیں، اس لیے مذہب اور خدا کے لیے ہمارا نقطہ نظر بھی
انتہائی ناقص ہے۔ روحانی طور پر روشن خیال فرد کبھی بھی جذباتی نہیں ہوتا ہے۔ وہ، برطانوی
ویدانتک کرسٹوفر ایشر ووڈ کے الفاظ میں، مذہبی اور روحانی سکون کا ایک سمندر ہوتا ہے۔
آج کے متشدد انسانوں میں وہ مذہبی
و روحانی سکون اور طمانیت کہاں ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم اس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم خود کا جائزہ لیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ مذہب
ایک نجی مسئلہ ہے اور ہر فرد کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے معبود اور مذہب کی پیروی
پورے وقار کے ساتھ بغیر غنڈہ گردی کا سہارا لیے کریں۔ راحیل شکارپوری نے کہا ہے کہ
"تنہا چھوڑ دے خدا کو، مذہب کو سمجھ/ تشدّد کو عقیدہ نہیں کہتے، میرے دوست"
دوست)۔ ہم سب کو اس اردو مصرعے کی روح کو جذب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس دنیا کو رہنے
کے لیے مذہبی طور پر زیادہ موزوں اور قابل برداشت جگہ بنایا جا سکے۔
اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ:
کیا انسانی فکر اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے وہ ان تمام مذہبی شرارتوں سے آزاد ہو سکیں؟
کچھ دن پہلے، میں جنوبی انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں بشریات کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر
سے بات کر رہا تھا۔ ان کا موضوع (religio-anthropology) مذہبی بشریات ہے۔ میں
نے ان سے پوچھا کہ تمام مذاہب کے پیروکار قدیم، بلکہ ماقبل تاریخ، طرز عمل کیوں اختیار
کر رہے ہیں؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ اسے علم بشریات میں Pagan
Eruption/Repetition (PPE/R) کا رجحان کہا جاتا ہے۔ 'جدید' منظم مذاہب کی آمد سے قبل کافر اور
فرقے کے پرستار / پیروکار ہمیشہ اپنے کافر دیوتاؤں اور فرقوں کے رہنماؤں کی حفاظت کے
بارے میں فکر مند رہتے تھے۔ ان کے لیے اپنے دیوتاؤں اور لیڈروں کے تقدس کو برقرار رکھنا
قبائلی/ گروہی فخر کی بات تھی۔ چونکہ متعدد قبائل تھے اور سب کے اپنے اپنے کافرانہ
عقائد اور مقدس علامات تھیں، اس لیے قبائل اور گروہوں کے پیروکاروں کے لیے یہ ضروری
تھا کہ وہ اپنی مقدس شخصیات (جو بعد میں تمام انسانوں کے بنائے ہوئے مذاہب میں 'محترم'
شخصیت بن گئے) کو حریف قبائل (جدید زبان میں،
اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں) کی بے حرمتی سے 'بچائیں'۔ وہی کافرانہ
عدم تحفظات نسلا بعد نسل ارتقاء انسانی سے سفر کرتا ہوا آج ہمارے سامنے (Religious
Behavioural Patterns) مذہبی طرز عمل کے نمونوں کی شکل میں موجود ہے۔ انسانی ترقی یا جدیدیت
دراصل ایک غلط نام ہے۔ انسان ایک ترقی یافتہ خطرے کا نام ہے۔ ہمارا مذہبی رویہ ہمارے
ہمارے ماقبل تاریخ ماضی کی طرف الٹے قدم ہونے کا آئنہ دار ہے۔ اطالوی امبرٹو ایکو کی سیمیوٹکس (علم علامات و نشانات)
کے مطابق ہمارے تمام دیوتا، صحیفے، فرقے، مذاہب اور اس سے وابستہ چیزیں ان اعصابی نقوش
یا دماغی تبدیلیوں کی نشانیاں ہیں جو ہزاروں سال سے ایک نامعلوم ہستی کے خوف کی وجہ
سے پیدا ہوئی ہیں۔ بنی نوع انسان کو اس قبائلی بت پرستی یا جدید مذہبیت سے نجات حاصل
کرنے میں تقریباً 50 ہزار سال لگیں گے۔ تب تک مٹھی بھر 'ترقی یافتہ' انسانوں کو مذہبی
طور پر 'پسماندہ' مخلوق کی اکثریت کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ مجھے واقعی حیرت ہوتی ہے اور
ترس آتا ہے، جب میں دیکھتا ہوں کہ بہت سارے 'اہل علم' اپنے صحیفوں کے بے معنی تجزیے
کرتے ہیں جو کہ انتہائی قدیم مباحث پر مشتمل ہوتے ہیں اور اب جن کی کوئی افادیت نہیں
بچی۔ ہم صرف ان چیزوں پر اپنا وقت اور توانائی ضائع کر رہے ہیں جن کا کوئی وجود، کوئی
بنیاد اور کوئی قدر نہیں۔ موت ایک حتمی حقیقت ہے اور اس دنیا سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔
زیادہ تر انسان ابھی تک اس سادہ سچائی کو نہیں سمجھ پائے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت
ہے کہ انسان (مرد ہو یا عورت) اب بھی لغو اور غیر معقول باتوں میں الجھے ہوئے ہیں اور
وہ دوسروں کو قتل کرے رہیں گے اور اپنے کافر دیوتاؤں، قبائلی علامات اور ماقبل تاریخ
مذہبی شخصیات کی توہین پر شرمندگی محسوس کرتے رہیں گے۔ سیم ہیرس کی زبان میں ہم سب
ماڈرن کافر ہیں۔
English Article: God Can Protect Himself
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism