غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
16 جولائی، 2015
آج اس دور میں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا دور فرمایا تھا، جب مسلمان دنیا بھر میں ایک ہنگامہ خیز صورت حال میں مبتلاء ہیں، ہمیں عید کے اس موقع پر عید کے ظاہری نام و نمود کے بجائے اس کے باطنی اور روحانی جوہر کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ خود ساختہ اسلامی خلیفہ، ابو بکر البغدادی عید کے روحانی پہلو کو اسلام سے جدا کرنے کے تمام حربے استعمال کر رہا ہے، اس تہوار کی اہمیت و افادیت کو جاننا واقعی اہم ہے۔ البغدادی نے عید سے بیزاری کا رویہ صرف اس لیے اختیار کیا ہے کیوں کہ یہ تہوار عالم اسلام کو اسلام کے آفاقی اقدار کی تعلیم دیتا ہے؛ نفرت کی جگہ محبت، غصے کی جگہ صبر، جنگ کی جگہ برداشت، علیحدگی پسندی اور عدم رواداری کی جگہ بقائے باہمی اور تفوق پسندی کی جگہ تکثریت پسندی کی تعلیم دیتا ہے۔ ہر سال یہ ہمیں یہ یاد دلانے کے لئے آتا ہے کہ اگر مسلمان واقعی اس جدید دنیا میں زندہ رہنا چاہاہتے ہیں تو انہیں عید کے بنیادی پیغام کا احیا کرنا ہی ہو گا۔
در اصل عید ہمیں خود احتسابی کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ہم مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کا اختتام اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے ایک اہم وقت ہے کہ ہم نے اس سال گزشتہ ماہ کے دوران کس طرح اپنی زندگی کو گزارا ہے۔ ہمیں اس بات کا تعین کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنے دنوں تک بھوکے پیاسے رہنے کے بعد اب ہمارا حال کیا ہے۔ ہمیں خود سے یہ پوچھنا چاہئے کہ ہم رمضان المبارک کے آغاز کے وقت کہاں تھے اور اب روزہ اور دیگر عبادات میں تیس دنوں کی ایک طویل مدت گزارنے کے بعد ہمارا کیا حال ہے۔ اپنے اپنے ممالک کے اندر خون میں لت پت ان ہزارو مسلمانوں کے ساتھ عید منانے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے۔ اس خود احتسابی سے ہمارے اندر ان مظالم اور غلط کاموں کے لیے واقعی افسوس اور احساس ندامت پیدا ہونا چاہیے جو ہمارے مسلمان بھائیوں نے دوسرے مسلمانوں اور دیگر مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ کیا ہے۔ اگر ہم اب بھی رمضان المبارک کے اختتام تک خود کو نہیں بدل سکے تو ہمیں "عید مبارک" کہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہمارا ایک سب سے خراب رویہ جس کی اصلاح ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی وہ اپنے پڑوسیوں اور خاص طور پر غیر مسلم پڑوسیوں کے حقوق کے تئیں ہماری غفلت ہے۔ ہم نے روزہ کرھ کے، اپنے دوست و احباب کے ساتھ افطار کر کے، غریب مسلمانوں کو عطیات، صدقات اور زکوٰۃ سے نواز کر اور اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں کھجور، پھل اور کھانے کی اشیاء تقسیم کر کے رمضان المبارک کے مقدس دنوں کا لطف اٹھایا۔ لیکن ہم ان تمام اچھے اور نیک کاموں کو انجام دیتے وقت دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے اپنے پڑوسیوں کو بھی شاذ و نادر ہی اس میں شامل کرتے ہیں۔ کیا ہم غیر مسلموں کے تئیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وعدے کو بھول گئے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر مسلمانوں نے انہیں ان کے حقوق نہیں دیے تو میں قیامت کے دن اس کےلیے لڑوں گا؟ کیا ہمیں عملی طور پر اسلام میں روزے کی خوبصورت معنویت سے اپنے غیر مسلم ہمسایوں کو واقف نہیں کرنا چاہئے؟ یہ سچ ہے کہ وہ مسلمانوں کی طرح طلوع آفتاب سے لیکر غروب آفتاب تک مکمل طور پر کھانے پینے اور مباشرت سے رک کر روزے نہیں رکھتے، لیکن وہ اس کی بہت تعریف کرتے ہیں اور کبھی کبھی صحت، عاجزی اور پرہیزگاری کو برقرار رکھنے کے لئے وہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔
محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کی ثقافتی علامات و امتیازات کو برقرار رکھتے ہوئے تمام انسانوں کے درمیان عالمی اخوت و بھائی چارے پر زور دیا تھا۔ لہذا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمی بھائی چارے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے عربی لفظ "امت" کا استعمال کیا ہے۔ جس میں تمام مذہبی فرقوں، نسلوں، قبیلوں اور سماجوں، زبانوں ، ثقافتوں اور قوموں کے لوگ شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ان تمام کے ساتھ بھائیوں جیسا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، اور آپ نے ان کے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے جیسا وہ خود کے ساتھ چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالمگیر انسانی اخوت کو فروغ دینے کے مقصد سے عید الفطر کے تہوار کے ذریعے عظیم انسانی اقدار کی بنیاد ڈالی ہے۔
عید ایک عربی لفظ ہے جس کا مطلب ہر سال لوٹنے والی کوئی چیز ہے ، اور فطر کا مطلب کسی مالدار کی جانب سے غریبوں کو صدقہ و خیرات ہے۔ لہٰذا اس سے ظاہر ہوا کہ اسلامی تہوار عید الفطر کا پورا نام اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کا اصل مقصد ‘غریبوں کے لیے صدقہ و خیرات ہے’۔ لہٰذا، عید الفطر ایک ایسا موقع ہے جو ہر سال سماج کے کمزور طبقوں کے تئیں ہماری انسانی ذمہ داری کو یاد دلانے کے لئے آتا ہے۔ عید ہر سال جذبہ صدقہ و خیرات کو زندہ کرنے اور غریب اور نادار لوگوں کو صدقہ، خیرات اور سخاوت سے نوازنے کے لیے لوٹتا ہے۔ در اصل اس اسلامی تہوار کا واحد مقصد غریبوں کو کھانا کھلانا اور ان کی مدد کرنا ہے، محض خود لذیذ غذا کھانا اور شاندار کپڑے پہننا نہیں۔ لیکن کیا ہم نے واقعی یہ سوچنا بند کر دیا ہے کہ کتنے بھوکے، غیریب و نادار اور مفلس لوگوں ہماری زکوة و صدقات اور فطرہ سے آسودہ خاطر ہیں؟
رمضان المبارک کے دن اور رات اللہ کے حضور مکمل اخلاص اور تمام مخلوقات کے لئے بے لوث جذبہ خیر سگالی میں گزارنے کے بعد اس ماہ کے آخر میں عید الفطر غریبوں کے لئے خوشی، مسرت اور صدقہ و خیرات کا موسم لیکر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دن مسلمانوں پر غریبوں میں فطرہ (ایک مقررہ رقم کا صدقہ جو ہر مسلمان پر واجب ہے) اور صدقہ و خیرات کو تقسیم کرنا فرض قرار دیا ہے۔ مسلمانوں کو اس دن لذیذ کھانے تیار کرنے اور اپنے دسترخوان پر تمام مذہبی برادریوں کو مدعو کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ عید الفطر کے موقع پر اس طرح کے عظیم کاموں سے مسلمانوں اور دیگر مذہبی برادریوں کے درمیان محبت، باہمی ہم آہنگی، انسانی بھائی چارے، اور سماجی میل ملاپ کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔
عید الفطر سماجی سماجی ہم آہنگی، ثقافتی جشن اور قومی اتحاد اور یکجہتی کو فروغ دینے کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے کی علامت بھی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ پہنچے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ایک ایسی دعوت کی سخت ضرورت محسوس کی جو امن، اتحاد، صدقہ، اخوت، مساوات اور گہرے انسانی جذبات پیدا کر سکے۔ لہٰذا، اس پر نزول وحی کے بعد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ: "اللہ تعالی نے ہمیں دو بابرکت عیدیں کی ہیں: عید الفطر اور عید الاضحیٰ ۔۔۔" (ابو داؤد)
عید الفطر کا بنیادی مقصد مذہب اور رنگ و نسل سے قطع نظر تمام لوگوں کے درمیان امن، رحمت، رحم دلی، ہمدردی، اخوت اور مساوات کی روح پیدا کرنا ہے۔ یہ عظیم انسانی اقدار خوبصورتی کے ساتھ عید کے دن پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات (سنت) میں نمایاں ہیں، جو کہ حسب ذیل مندرج ہیں: بار بار لوگوں کو سلام کرنا، ملتے اور جدا ہوتے وقت گلے ملنا، بیماروں سے ملنا اور ان کی عیادت کرنا، سوگواروں کو تعزیت پیش کرنا، معاشرے کے دیگر ارکان کے ساتھ تحفے تحائف کا لین دین کرنا اور جتنے زیادہ لوگوں کو ممکن ہو خوشیوں میں شریک کرنا۔ بھائی چارے، اخوت اور صدقہ و خیرات کو تقویت فراہم کرنے والے اس طرح کے تمام اقدامات اسلام میں انتہائی قابل قدر ہیں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ عید الفطر کے دن خاص طور پر مسلمانوں کو ان کا حکم دیا گیا ہے۔ اب یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ کیوں ایک انتہا پسند فرقے داعش کے خود ساختہ خلیفہ نے عید الفطر کی جشن کی سختی کے ساتھ مخالفت کی ہے۔
متعلقہ مضمون: عید کے سلسلے میں البغدادی کا اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام سے متصادم ہے
غلام رسول دہلوی ایک کلاسیکی اسلامی سکالر ہے۔ وہ امام جمعیت UL اسلامیہ، فیض آباد، سے، بھارت کی ایک معروف اسلامی مدرسے سے فارغ التحصیل قرآنی علوم میں ڈپلومہ حاصل کر لیا ہے اور سرٹیفکیٹ اسلامک اسٹڈیز کے الازہر انسٹی ٹیوٹ سے العلوم UL حدیث میں۔ انہوں نے عربی (آنرز) میں گریجویشن کیا ہے اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے تقابل ادیان میں ایم اے کیا ہے۔
URL for English article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-significance-spirituality-eid-/d/103962