غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
6 جون 2014
جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ خدا کا قرب نفلی عبادات، انسانیت نوازی کے کام اور فلاحی و رفاہی کوششوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ فرض وواجب عبادات سے آگے بڑھتے ہوئے نفلی عبادات میں مشغول ہوکر، جو کہ صرف عبادت کے رسمی معمولات تک ہی محدود نہیں بلکہ انسانیت پسندانہ سماجی فلاح و بہبود کے کاموں کو بھی شامل ہے، انسان خدا کا خاص تقرب حاصل کر لیتا ہے۔ اسی کا ذکر بڑی خوبصورتی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس روایت میں ہے جسے حدیث قدسی کے طور پر جانا جاتا ہے:
"اللہ رب العزت نےفرمایا کہ: "نفلی عبادت کے ذریعہ میرا بندا اس قدر میری قربت حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اور میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے؛ اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور عطا کروں گا اور وہ میری پناہ تلاش کرے تو ضرور میں اس کی حفاظت کروں گا۔ (صحیح بخاری)
خدا کا یہ خصوصی تقرب اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان فنا فی اللہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ تاہم، یہ خدا اور انسان کے درمیان ایک عام تعلق سے مختلف ہے خواہ وہ مومن ہو یا غیر مومن۔ اللہ کے وہ مؤمن بندے یہ خاص تقرب الہی حاصل کرتے ہیں انہیں قرآن مجید میں "اولیاء اللہ" (خدا کے دوست) کہا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے: "خبردار! بیشک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے"(سورہ یونس، آیت: 62)۔
مزید برآں یہ تقرب فراست ایمانی کا تقاضہ کرتا ہے۔محض جسمانی نظر کی معمولی حساسیت اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ فراست ایک بصری وجدان، بصیرت اور دقت نظر کو کہتے ہیں۔ فراست وہ ایمانی بصیرت ہے جو ایک روشن ضمیر صوفی کے دل میں جا گزیں ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک ما فوق الفطری شعور پیدا کر دیتی ہے، جیسا کہ اس کا ذکر ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے: ‘‘اتقوا فراسۃ المؤمن فإنہ ینظر بنور اللہ’’
(مومن کی فراست سے بچو اس لیے کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے)۔
وحدت الوجود کی تائید میں جن دیگر احادیث کا حوالہ پیش کیا جا سکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
حدیث قدسی کے الفاظ ہیں کہ ‘‘قیامت کے دن ایک بندے کو رب العالمین اپنی بارگاہ میں طلب کرے گا اور اس سے کہے گا :” اے ابن آدم !میں بیمار تھا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ کہے گا :اے میرے رب !میں تیری عیادت کیسے کرسکتا ہوں جب کہ تو رب العالمین ہے ؟ تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گا : تجھے معلوم تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن تو نے اس کی عیادت نہیں کی ، اگر تو نے اس کی عیادت کی ہوتی تو اس کے پاس تو مجھے ضرور پاتا ۔ اے ابن آدم !میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا ؟بندہ کہے گا : میں تجھے کیسے کھلاسکتا ہوں جب کہ تو دونوں جہانوں کا پالنہار ہے ؟ تو اﷲ تعالیٰ فرما ئے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ، لیکن تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا ، اگر تونے اسے کھلایا ہوتا تو اس کا ثواب آج ضرور میرے پاس پاتا ۔ اے ابن آدم !میں نے تجھ سے پانی مانگا تھالیکن تو نے پانی نہیں پلایا ؟بندہ کہے گا : میرے پرور دگار ! میں تجھے کیسے پلاسکتا ہوں جب کہ تو رب العا لمین ہے ؟ تو اﷲ فرمائے گا : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے نہیں پلایا ، اگر تو نے اسکو پلایا ہوتا تو اسکا ثواب ضرور میرے پاس پاتا ’’۔ (صحیح مسلم، حدیث بر)
اللہ فرماتا ہے: میرا بندہ ایسی کسی چیز کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرتا جو ان مذہبی فرائض سے زیادہ مجھے محبوب ہے جو میں نے ان پر نافذ کیا ہے اور میرا بندا نفلی عبادات کے ذریعہ میرا تقرب خاص حاصل کرتا رہتا ہے تاکہ میں اس سے راضی ہو جاؤں۔ اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کی بصارت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔ "(صحیح بخاری، حدیث رقاق)۔
صوفیہ یہ مانتے ہیں کہ وحدت الوجود کے تصور کی بنیاد توحید (خدا کی وحدانیت پر یقین) کا اسلامی نظریہ ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ زبردست منسلک دونوں نظریات لوگوں کو توحید کے مطابق اپنی زندگی کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کو منظم اور منضبط کرنے کی ترغیب دیتے ہیں جس کی وجہ سے بالآخر اسے وصال الٰہی کا مطلوبہ تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ بالکل یہی مطلب صوفیوں کے وصال الہی کے تصور کا ہے۔
وحدت الوجود کے اصول میں مستغرق ہو کر صوفیہ توحید کی تین قسموں سے واقف ہوتے ہیں:
پہلا وحدت ذات، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد جو بھی موجود ہے وہ اصل کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔ اور وہ سب کچھ جو ہم سمجھ سکتے ہیں، محسوس کر سکتے ہیں یا معلوم کر سکتے ہیں کہ خدا کے وجود کا ہی ایک حصہ ہے۔ لہٰذا مثال کے طور پر جب ہم کسی مخلوق کو نقصان پہنچاتے ہیں خواہی وہ جاندار ہو یا غیر جاندار ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اگرچہ بالواسطہ طور پر ہی سہی، لیکن ہم تقرب الی اللہ کی راہ میں روکاوٹیں حائل کر رہے ہیں۔
دوسرا، وحدت صفات (صفات میں اتحاد) اور وہ یہ ہے کہ تمام عظیم اخلاقی خصوصیتیں، اچھے محرکات، علم کی شاخیں اور تمام دانشورانہ صلاحیتیں صرف اللہ رب العزت کے لیے ہیں۔
تیسرا، وحدت افعال (اعمال میں اتحاد) اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت جن بھی افعال کا صدور ہو رہا ہے اس کا تعلق براہ راست خدا سے ہی ہے۔ وحدت اعمال کی تائید اس قرآنی آیت سے ہوتی ہے: "بادشاہی اﷲ ہی کے لئے ہے، اللہ نے تمہیں اور تمہارے اعمال کو پیدا کیا ہے"۔
توحید کے اس قدر ہمہ گیر اور ہمہ جہت تصور کا حصول جیسا کہ اس کی وضاحت اوپر کی گئی ہےزبر دست مراقبہ، مجاہدہ اور محاسبہ نفس سے حاصل ہوتا ہے۔ جب ہم وحدت الوجود بارے میں بات کرتے ہیں تو اس معاملے میں دل سب سے اہم موضوع بحث ہے۔ کوئی بھی شخص اس وقت تک اس کا تجربہ یا احساس بھی نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کا دل اور اس کی روح مکمل طور پر وصال الٰہی کے فراق میں فنا نہ ہو جائے۔ لہذا یہی وجہ ہے کہ بہت سارے صوفیہ اور علماء اسلام کا یہ ماننا ہے کہ وحدت الوجود کوئی ایسا موضوع نہیں ہے کہ جس پر عقلی بحث و مباحثہ اور گفتگو کیا جا سکے۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودات اور واقعات و محدثات کا تعلق جب تک خدا سے نہ جوڑا جائے تب تک مکمل طور پر ان کی وضاحت کرنا غیر ممکن ہے۔ تاہم، وحدت الوجود کا مجموعی نظریہ اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ اسلام کی عقلی تفہیم اور ان لوگوں کے درمیان ایک گہری مماثلت ہے جو صوفی اصول و معتقدات پر عمل کرتے ہیں۔
نتیجہ:
مختصراً وحدت الوجود کا متصوفانہ اسلامی نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیا میں صرف ایک ہی ذات موجود ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ ہے۔ اس کے سوا کسی کا بھی وجود حقیقی نہیں ہے۔ جو کچھ بھی انسان دیکھتا، لمس کرتا، جانتا اور گمان کرتا ہے وہ صرف ایک انسانی ذہن کا فریب اور وہم و گمان ہے۔ اس طرح، صوفیہ نے توحید (خدا کی وحدانیت) کی ایک اعلی ترین شکل پیش کی ہے۔ اس لیے کہ وہ اس بات کا برملا اقرار کرتے ہیں کہ "لا موجود الا اللہ" (خدا کے سوا کچھ بھی موجود نہیں ہے) جو کہ در حقیقت اسلامی کلمہ توحید (لا الٰہ الا اللہ ‘‘نہیں ہے کوئی معبود سواے اللہ کے’’) کا اعلیٰ ترین مفہوم ہے۔
خدا کا یہ اعلی روحانی تصور جو کہ توحید کے اسلامی نظریے کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے وحدت الوجود کے صوفی نظریے کا بنیادی جوہر ہے۔ لیکن ہر زمانے کے قدامت پسند اور لفظ پرست علماء نے صوفیہ کے خلاف شرک اور ارتداد کے فتوے یہ کہتے ہوئے جاری کیے ہیں کہ چونکہ وحدت الوجود پر ایمان رکھنے والے خدا کے علاوہ کسی وجود کے قائل نہیں ہیں اسی لیے وہ ہر چیز کو خدا مانتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ اس دنیا میں اگر خدا کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے تو جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب خدا ہے۔ لیکن یہ ایک زبردست غلط فہمی ہے اس لیے کہ شرک کا وقوع صرف اسی وقت ہوگا کہ جب خدا کے ہم پلہ کسی چیز کا وجود مانا جائے۔
صوفیہ کے مطابق اگر کائنات میں خدا کے سوا کسی بھی چیز کا وجود نہیں ہے تو کوئی انسان خدا کے ساتھ کسی کو شریک کرنے کا گمان بھی کس طرح کر سکتا ہے؟ صوفیہ کس طرح خدا کی ذات یا صفات میں کسی کو شریک کر سکتے ہیں جبکہ وہ خدا کے علاوہ کسی بھی ذات کا وجود مانتے ہی نہیں؟ وہ خدا کی نظر میں شرک جیسے سنگین گناہ میں کیسے ملوث ہو سکتے ہیں جبکہ ان کا ماننا ہے کہ پوری کائنات آسمانوں، ستاروں، زمینوں، کہکشاؤں، پودوں اور پتھر سے لیکر جاندار اور غیر جاندار تمام چیزیں صرف انسانی دماغ کا وہم اور فریب ہے جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں؟ وحدت الوجود کے ماننے والے کیوں کر مشرک ہو سکتے ہیں جبکہ وہ پوری دنیا کو ایک مجازی دنیا اور برائے نام مانتے ہیں؟
وہ لوگ جو صوفیہ کو وحدت الوجود کے ان کے عقیدے کی بنیاد پر مشرک یا مرتد قرار دیتے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ خدا کے اتنے مقرب بندے ہیں کہ وہ صرف خدا کو ہی دیکھتے، محسوس کرتے، خیال کرتے اور جانتے ہیں۔ لہٰذا خدا کے ساتھ شریک کرنے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ شرک کا صدور صرف انہیں لوگوں سے ہوتا ہے جو خدا ہی کے ساتھ اس کے ہم پلہ ایک ساتھ بہت ساری چیزوں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس فنا فی اللہ کی ایک عملی مثال ہمیں ایک عظیم خاتون صوفی بزرگ حضرت رابعہ بصری (رضی اللہ عنہا) کی زندگی میں ملتی ہے۔ ایک مرتبہ کسی نے ان سے پوچھا کہ چونکہ آپ کا دل خدا کی محبت سے اس قدر معمور ہے کیا آپ شیطان سے نفرتی ہیں؟ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ "میرا دل اپنے رب کی محبت میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ اس میں شیطان سے نفرت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے!"
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام رسول دہلوی تصوف سے وابستہ ایک عالم اور فاضل (اسلامی سکالر ) ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف صوفی اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے فراغت حاصل کی، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں، یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں۔
URL of Part One:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-islamic-doctrine-wahdat-ul-part-1/d/87332URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/the-islamic-doctrine-wahdat-ul-part-two/d/87385
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-islamic-doctrine-wahdat-ul-part-two/d/97759