غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
اسلام نے مسلمانوں کو تمام مذاہب اور پیغمبران خدا کے احترام واکرام کی خاص تاکید کی ہے۔ اسلامی روایت کے مطابق اللہ کی جانب سے مبعوث ہونے والے پیغمبروں اور رسولوں کی تعداد کم وبیش ایک لاکھ چوبیسں ہزار ہے۔ اسلام میں پیغمبر کی دو قسمیں ہیں: نبی اور رسول۔ اسلامی اصطلاح میں نبی کے معنی ہیں: وہ شخص جسے اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث کیا گیا ہو، مگر بغیر کسی کتاب یا آسمانی صحیفہ کے، جبکہ رسول کے معنی ہیں: وہ شخص جسے اللہ تعالی نے کسی کتاب یا آسمانی صحیفہ کے ساتھ مبعوث کیا ہو۔ تاہم الہام یا وحی الہی (یعنی اللہ کی طرف سے مختلف حالات میں پیغمبر کو بھیجی جانی والی خدائی رہنمائی) ہر نبی اور رسول کے لئے نازل ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر رسول نبی ہوتا ہے مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔
اسلام میں حضرت عیسی علیہ السلام کا مقام کس قدر بلند اور عظیم ہے، اس امر کا اندازہ محض اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو صرف نبی ہی نہیں بلکہ رسول بنا کر بھیجا تھا۔ اس لئے آج کرسمں ڈے کے موقع پر ہمارے غیر مسلم بالخصوص عیسائی دوستوں کے لئے یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ اسلام میں حضرت عیسی علیہ السلام کا کیا مقام وکردار ہے، تاکہ مسلمانوں اور عیسائی برادران میں باہمی مفاہمت اور بھائی چارہ کی خوشگوار فضا قائم ہو سکے۔
اسلام کی بنیادی مذہبی کتاب یعنی قرآن کریم جوکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی، اس میں حیرت انگیز طور پر حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر 25 بار آیا ہے، جبکہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اتنی بار واضح طور پر نہیں آیا۔ قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کو مختلف عظیم القاب، اسماء اور مقدس ناموں سے یاد کرتا ہے مثلا: مسیح (مردوں کو زندہ کرنے والا)، آیۃ اللہ (اللہ پاک کی نشانی)، روح اللہ (اللہ کی روح)، کلمۃ اللہ (اللہ کی بات)، عبداللہ (اللہ کا بندہ)، ابن مریم (حضرت مریم علیھا السلام کا بیٹا) رسول اللہ (اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا پیغمبر) اور قوم بنی اسرائیل کی طرف خدا کا آخری پیغمبر۔
اسلامی نقطہء نظر کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش مبارک اللہ تعالی کی طرف سے ایک معجزہ تھا، کیوں کہ آپ کی ولادت بغیر کسی والد کے قرار پائی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم مندرجہ ذیل آیت میں آپ کو ‘‘عظمت خداوندی کی نشانی’’ قرار دیتا ہے:
‘‘اور کتاب (قرآن) میں مریم کا بھی ذکر کرو، جب وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر مشرق کی طرف چلی گئیں۔ تو انہوں نے ان کی طرف سے پردہ کرلیا۔ (اس وقت) ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ تو ان کے سامنے ٹھیک آدمی (کی شکل) بن گیا۔ مریم بولیں کہ اگر تم پرہیزگار ہو تو میں تم سے خدا کی پناہ مانگتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں تو تمہارے پروردگار کا بھیجا ہوا (یعنی فرشتہ) ہوں (اور اس لئے آیا ہوں) کہ تمہیں پاکیزہ لڑکا بخشوں۔ مریم نے کہا کہ میرے ہاں لڑکا کیونکر ہوگا مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار بھی نہیں ہوں۔ (فرشتے نے) کہا کہ یونہی (ہوگا) تمہارے پروردگار نے فرمایا کہ یہ مجھے آسان ہے۔ اور (میں اسے اسی طرح پیدا کروں گا) تاکہ اس کو لوگوں کے لئے ‘‘اپنی طرف سے نشانی’’ اور ذریعہٴ رحمت و مہربانی بناؤں اور یہ کام مقرر ہوچکا ہے۔ تو وہ اس (بچّے) کے ساتھ حاملہ ہوگئیں اور اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئیں’’ (سورۂ مریم: آیت 16 تا 22)
حضرت عیسی علیہ السلام کے پیغامات
اسلامی عقیدے کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کو اللہ سبحانہ وتعالی نے اسی پیغام کی تبلیغ کے لئے دنیا میں بھیجا جس کے لئے ان سے پیشتر خاصی تعداد میں دیگر پیغمبران خدا مبعوث کئے گئے۔ اور وہ پیغام یہ ہے کہ: اللہ ان کا اور سارے جہان کا رب ہے اور اسی کی ذات عبادت کے لائق ہے، جیسا کہ مذکورہ آیت میں بیان کیا گیا ہے:
‘‘ اور جب عیسیٰ نشانیاں لے کر آئے تو کہنے لگے کہ میں تمہارے پاس دانائی (کی کتاب) لے کر آیا ہوں۔ نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو تم کو سمجھا دوں۔ تو خدا سے ڈرو اور میرا کہا مانو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا رستہ ہے’’ (سورہ الزخرف۔ آیت 63 و 64)
حضرت عیسی علیہ السلام کا مشن کیا تھا؟ اس سوال کا جواب قرآن کریم نے مذکورہ آیات میں مختلف طریقوں سے ذکر کیا ہے:
1۔ ان آسمانی صحیفوں اور کتابوں کی تصدیق کرنا جو ان سے پیشتر دوسرے رسولوں پر نازل ہوئی تھیں (قرآن مجید، 61:6)
2۔ اس پیغمبر علیہ السلام کی آمد کی بشارت دینا جنہیں اللہ ان کے بعد نازل کرنے والا تھا، اور جس کا نام ‘احمد’ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا نام) تجویز کیا گیا تھا (قرآن مجید: 16:6)
3۔ قوم بنی اسرائیل کو حکمت ودانائی کی وہ باتیں سکھانا جو ان پر نازل کی گئی تھیں (قرآن مجید 43:63)
4۔ ان امور ومعاملات کا فیصلہ کرنا جن میں قوم بنی اسرائیل کہ لوگ تنازع کر رہے تھے (قرآن مجید 43:63)
5۔ ان اشیاء کا جواز پیش کرنا جو ان سے پہلے قوم بنی اسرائیل کے لئے حرام قرار دے دی گئی تھیں۔ (قرآن مجید 3:50)
حضرت عیسی علیہ السلام کے حقیقی پیروکار
قرآن کریم نہ صرف پیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام بلکہ ان کے سچے پیروکاروں کا بھی ذکر خیر کرتا ہوا نظر آتا ہے اور فرماتا ہے:
‘‘مومنو! خدا کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ بھلا کون ہیں جو خدا کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم خدا کے مددگار ہیں۔ تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا۔ آخر کار ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی اور وہ غالب ہوگئے’’ (قرآن مجید 61:14)
مذکورہ آیات میں قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کے کمالات، عظیم صفات اور معجزات کا ذکر بحسن وخوبی کر رہا ہے:
‘‘جب خدا (عیسیٰ سے) فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرے ان احسانوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے جب میں نے روح القدس (یعنی جبرئیل) کے ذریعہ تمہاری مدد کی اور تم گود میں اور جوان ہو کر (ایک ہی طرح) لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے تم کو کتاب اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا جانور بنا کر اس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا تھا اور مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے چنگا کر دیتے تھے اور مردے کو میرے حکم سے (زندہ کرکے قبر سے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل (کے ہاتھوں) کو تم سے روک دیا جب تم ان کے پاس کھلے نشان لے کر آئے تو جو ان میں سے کافر تھے کہنے لگے کہ یہ صریح جادو ہے’’ (قرآن مجید 5:110)۔
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور عیسیٰ مسیح علیہ السلام
چونکہ اسلام میں حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو انتہائی عظیم پیغمبرانہ رتبہ حاصل ہے لہٰذا اس کے پیش نظر فطرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا نے نزول وحی کا سلسلہ پیغمبر اسلام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر کیوں بند کیا اور عیسیٰ علیہ السلام پر کیوں نہیں ؟ اسلامی نقطۂ نظر سے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر چہ عیسیٰ علیہ السلام خدا کی حقانیت کے علمبردار تھے اور اپنی قوم ‘‘بنی اسرائیل ’’ (قرآن 43:63) تک وہ سچائی پہنچانے کے اہل بھی تھے لیکن ان کی قوم کے اندر یہ استطاعت اور صلاحیت نہیں تھی کہ وہ خدا کے اس مقدس پیغام کو حاصل کر سکے اور اس کی حفاظت و صیانت کر سکے، لہٰذا جب ان کی صورت حال یہ تھی تو ایسا کیوں کر ممکن ہو سکتا تھا کہ وہ اللہ کے اس مقدس پیغام کو اطراف و اکناف عالم میں پھیلا سکیں ؟ ان کی سنگ دلی اور درشتی کا عالم تو یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل انہوں نے بے شمار انبیاء کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا۔ ان کے ظلم و ستم کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ہوئی تو وہ بھی ان کی اسی فطرت خبیثہ کا شکار ہوئے اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ظلم و ستم کی انتہاء کرتے ہوئے بنی اسرائیل نے انہیں سولی پر لٹکانے کی کوشش کی ۔ یہی وجہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد احمد یا محمد کی آمد کی بشارت دی اور انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ ان کے اور ان سے پیشرو انبیائے کرام کے پیغامات کی تکمیل کریں گے۔
اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ تقریباً سابقہ تمام کتب وحی اور نبیوں کے پیغامات ان کے ماننے والوں کے معمولی دنیاوی مفادات اور بیکار کے اختلافات کی وجہ ہے تحریف اور تبدیلی کا شکار ہو گئے ۔ لہٰذا اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ اللہ کے پیغامات کی تجدید اور ان کا احیاء کیا جائے جن کی تکمیل آگے چل کر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مذہب اسلام پیش کر کے فرمائی ۔ اس طرح اللہ رب العزت نے عیسیٰ مسیح اور ان کے پیشرو انبیاء پر نازل کئے گئے پیغامات کی تکمیل پیغمبر اسلام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مبعوث فرما کر کی ہے ۔
مثلاً عیسیٰ علیہ السلام نے انصاف میں محبت اور تحمل کو ملانے کا بنیادی پیغام ہمیں دیا ۔ انہوں نے اس ‘‘ شاندار حکم ’’ کو ہمارے سامنے پیش کیا کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں اور خود سے محبت کرنی چاہئے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ سوال تشنہ جواب تھا کہ کس طرح ہمیں اپنے پڑوسیوں سے محبت کرنی چاہئے اور اپنے پڑوسیوں سے محبت ہم سے کس بات کا تقاضہ کرتی ہے ۔ اس اخلاقی تعلیم کی تکمیل کی ذمہ داری اللہ نے دوسرے نبی کے کندھے پر ڈال دی ۔ اس کے بعد اللہ نے پیغمبر آخر الزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور ان اخلاقی قوانین کو ایک منضبط نظام کی شکل میں پیش کیا ۔ لہٰذا مذہب اسلام ایک خاص قوانین کی شکل میں عیسیٰ علیہ السلام کے خوبصورت احساسات و جذبات اور موسیٰ علیہ السلام کے مکمل انصاف کا ایک حسین سنگم ہے ۔
بےشمار قرآنی آیات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کا پیغام مکمل ، کامل و اکمل اور ہر قسم کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ و مامون ہے اور آفاقی طور پر تمام جہانوں کے لئے قابل نفاذ ہے ۔ اس قسم کے پیغامات کو ایک مکمل نظام حیات کہا جاتا ہے جس کا اعلان اسلام نے کیا ہے ۔ تاہم ان میں سابقہ تمام انبیائے کرام کی روحانی تعلیمات اور اخلاقی ہدایات کو فراموش نہیں کیا گیا ہے جیسا کہ آج کچھ مسلمان اس بات کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور اسلام اور عیسائیت کے درمیان بین المذاہب ہم آہنگی اور بین المذاہب مکالمہ کی راہیں مسدود کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ پیغامات اس وقت تک قابل نفاذ رہیں گے جب تک کہ ان کے ماننے والوں کے باطنی محرکات کے پیش نظر ان میں تبدیلی اور تحریف نہ کر دی جائے ۔
URL for English Article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/jesus-christ-islamic-perspective/d/9802
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/jesus-christ-islamic-perspective-/d/35001