New Age Islam
Fri Jan 17 2025, 06:41 AM

Urdu Section ( 22 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islamic Preachers Need to Strengthen the Foundational Islamic Principle of Moderation !مسلم مبلغین اعتدال پسندی کے بنیادی اسلامی اصول کو نہ بھولیں

  

غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام

19 فروری 2014

 اعتدال پسند علماء کا ایک خوش آئند قدم

گذشتہ دنوں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ (mainstream media) میں پاکستان سے خبر کہ ایک پاکستانی سنی مسلم سیاسی وسماجی تنظیم "پاکستان علماء کونسل"  (PUC) عصر حاضر میں پیدا ہونے والے مسائل کا حل تلاش کرنے اور علماء اور ائمہ کرام کے طرز خطابت میں اصلاحات پیدا کرنے  جیسے مشکل ترین کاموں میں سرگرم عمل ہے۔ یہ واقعی ایک فرحت بخش اور امید افزا خبر ہے۔ اس تعلق سے  پاکستان علماء کونسل (PUC) نے ایک جامع اور مبسوط کتاب کا اجرا کیا ہے جو اسلامی اسکالرس، علماء، مبلغین اور ائمۂ کرام کے لئے کار آمد ہدایات اور مفید مشوروں پر مشتمل ہے۔ بلاشبہ ایک پاکستانی سنی مسلم سیاسی وسماجی تنظیم کی یہ کوشش اصلاح مفاسد کی جانب بروقت پیش رفت اور دعوت وتبلیغ کے فرسودہ طریقوں اور غیر ضروری جذباتی وشعلہ بار انداز خطابت  کی عام روش کو ختم کرنے کی جانب ایک خوش آئند قدم ہے۔ اس لیے کہ آج کے اس عقلیت پسند عہد (Rationalist Age)  میں بھی ہمارے اکثر علمائے کرام، ائمۂ مساجد اور خطبائے عظام یہاں تک کہ ہندوپاک سے نکل کر یوروپ وامریکہ اور افریقہ کے علم دوست حلقوں میں بھی کام کرنے والے ہمارے بہت سے داعیان اسلام عام طور پر اسی غیرمانوس اور متروک و مہجور طریقۂ تبلیغ کے عادی ہیں۔

اس کتاب کے مشمولات حجۃ الوداع کے تاریخی نبوی خطبہ کی عصری معنویت وافادیت سے لے کر ماحولیاتی مسائل  کے حل اور فقہی احکامات کی مدد سے نوجوان نسل کی موجودہ اخلاقی گراوٹ سے نمٹنے کے طریقۂ کار تک ان متعدد مسائل جدیدہ کو شامل ہیں جنہیں آج مذہبی اسکالرس کو face  کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر بین المذاہب مکالمہ اور قومی ہم آہنگی، حقوق نسواں، تعلیم نسواں، جہاد اور دہشت گردی کے درمیان تفریق اور اس قسم کے دیگر عصر حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل جو امت مسلمہ کو اقوام عالم کی طرف سے چیلنجز کے طور پر درپیش ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان علماء کونسل نے اس کتاب میں فکر وآگہی سے مملو مشمولات پیش کرکے یہ کوشش کی ہے کہ نوجوان علماء اہل سنت عصر حاضر کے چیلنجز کے تئیں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کریں تاکہ جدید بین الاقوامی مسلم مسائل کو قرآن اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں پوری دانشمندی کے ساتھ حل کیا جا سکے۔

کتاب کے آغاز میں ہی پاکستان علماء کونسل (PUC) کے چیئرمین اور معروف پاکستانی سنی عالم دین مولانا محمد طاہر محمود اشرفی نے اظہار خیال کیا ہے کہ: ‘‘جب عوام کی رہمنائی کی بات آتی ہے تو ہمارے مساجد اور مدارس کا اس میں ایک اہم ترین کردار نمایاں ہوتا ہے۔ اسی لیے پاکستان علماء کونسل (PUC) کا مقصد یہ ہے کہ مساجد او ر مدارس سے منسلک ہمارے علماء اور مبلغین دور جدید میں پیدا ہونے والے نت نئے مسائل پر اپنی گہری نظر رکھیں’’۔ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘‘اس طرح امید ہے کہ معاشرے میں ایک مثبت تبدلی دیکھنے کو ملے گی’’۔

مسلم مبلغین اور ان کی افسوس ناک صورتحال

مبلغین اسلام اور ائمۂ مساجد کی تربیت کے لیے پاکستان علماء کونسل کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ہندوپاک کے بیش ترمسلم مبلغین علمی کم مائیگی، عصری آگہی سے دوری، جدید مسائل میں بےاعتدالی اور عقائد و نظریات میں انتہاء پسندی کا شکار ہیں۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ  اور عقائد اہل سنت کی اشاعت عصری معنویت کے ساتھ نہیں جا رہی ہے، جس کی وجہ سے اسلام کی وہ  پراعتدال روحانی روایات سمٹی ہوئی جا رہی ہیں جو درحقیقت دنیوی وابدی نجات کا ضامن ہیں۔ آج عالمی سطح پر خود بہت سے مسلم مبلغین کی وجہ سے اسلام کو ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انہوں نے اسلام کو ایک غیر معتدل، انتہا پسند، فاشسٹ، علیحدگی پسند اور ایک سیاسی نظریہ کے طور پر پیش کیا جس کا مقصد لوگوں کے دلوں پر فتح و نصرت کے جھنڈے نصب کرنا نہیں بلکہ مملکتوں اور سلطنتوں کو زیر کرنا ہے۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ عالمگیر انسانی اقدار اور روحانی روایات  کا حامل دین اسلام آخر کیوں کر چند محدود اصول و معتقدات اور رسوم و رواج کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا گیا، جس میں نہ تو کوئی روحانیت بچی ہے اور نہ ہی عصری آگہی اور عقلی معنویت کا احساس ہوتا ہے۔ مذہب اسلام کے ظاہر و باطن کے درمیان پیدا کردہ یہی خلاء آج ان تمام فتنوں اور خطرات کی جڑ ہے جو کہ اسلام کے نام سر ابھار رہے ہیں۔ اس خلاء کو پر کرنے کا ایک واحد طریق کار ہمارے علماء کے پاس یہ ہے کہ وہ اعتدال پسندی کی اس روحانی بنیاد کو مضبوط کریں جس پر دین اسلام کی بنیاد قائم ہے۔

اسلام میں اعتدال پسندی (وسطیت) کا نظریہ

اسلام میں اعتدال پسندی کے معنیٰ یہ ہیں کہ مسلمان زندگی کے کسی بھی پہلو میں غلو یعنی انتہاء پسندی کا راستہ اختیار نہ کرے۔ غلو ((Extremism یا انتہاء پسندی  ایک ایسی حد ہے جہاں پہنچ کر انسان اللہ تعالی کے قائم کردہ حدود سے تجاوز کر جاتا ہے، جب کہ وسطیت ((Moderation یا اعتدال پسندی ہم سے صراط مستقیم پر مکمل طور پر گامزن ہونے کا مطالبہ کرتی ہے جو کہ قرآن کی سب سے پہلے سورہ (فاتحہ) کا مغز ہے۔ اسلام میں اعتدال پسندی کا یہ بنیادی اصول زندگی کے ہر گوشہ کی طرح مذہب میں بھی ہر قسم کی شدت پسندی (تطرف)، تشدد (تنتطع) اور مبالغہ آرائی (غلو) سے ابا کرتا ہے۔ تاہم اس اسلامی اصول کے بہانے سے کسی بھی قسم کی غلط فہمی یا بدنیتی کا شکار ہوکر دین کے دیگر محکم اصولوں سے سمجھوتہ کرنا بھی غیر اسلامی رویہ ہے۔

آج اعتدال کے موضوع پر گفتگو کی ضرورت اس لئے بڑھ گئی ہے کیوں کہ بعض تنگ نظر اور ایک ہی مسلک کے ماننے والے افراد فریق مخالف کے نقطہ نظر کو نہ صرف یہ ناپسند اور مردود قرار دیتے ہیں، بلکہ فتویٰ کی زبان میں اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے ہر مخالف شخص کو کافرو مشرک اور منافق جیسے سخت کلمات کہنے سے بھی باز نہیں آتے۔ اسی بے اعتدالی کی وجہ سے بعض اوقات وہ اپنی فکر میں اس حد تک متشدد اور غلو پسند ہوجاتے ہیں کہ خود کو ہی صحیح اور جنتی خیال کرتے ہیں اور فریق مخالف کو بد مذہب، بد عقیدہ، جہنمی، جاہل اور قابل گردن زدنی تصور کرتے ہیں۔ بالآخر یہی سوچ انتہا پسندانہ نظریات کو جنم دیتی ہے، جو آج دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک کی وجہ بن چکی ہے۔ اگر آج علمائے کرام ان غلط نظریات وتصورات کی تردید نہیں کریں گے تو کل خود ان کی ہی مجالس و محافل قتل گاہ اور میدان جنگ کا منظر پیش کریں گی۔ مگر رب قدیر کا فضل ہے ہر دور میں ایسے معتدل علماء و صلحاء پیدا ہوئے جن کی مخلصانہ اصلاحی کوششوں سے انتہا پسندی کے زور کو کم کیا گیا۔

اعتدال اور انتہا پسندی، ان دونوں نقطہ ہائے نظر میں سے کون مسلمانوں کے لئے مفید ہے، یہ جاننے کے لئے بہت غور وخوض کی چنداں ضرورت نہیں۔ دنیا کے تمام الہامی مذاہب اعتدال پسندی کی تعلیم دیتے ہیں۔ قرآن مجید کو بغیر کسی تفسیر کے شروع سے آخر تک پڑھتے چلے جائیے، ہمیں اعتدال پسندی ہی کی تلقین ملے گی۔ اگر ہم کسی شخص کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں، تو ہمیں صرف اور صرف یہی حق حاصل ہے کہ ہم شائستگی کے ساتھ واضح دلائل کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر واضح کر کے اس شخص کو قائل کرنے کی کوشش کریں۔ قرآن کریم ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اپنے نظریات کو دوسروں پر زبردستی مسلط کر دیں۔ یہ قرآن کا واضح پیغام ہے:

لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنْ الغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدْ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔

دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت، گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت (یعنی شیطانی قوتوں) کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لائے گا تو وہ مضبوط ترین سہارے کو تھام لے گا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں ہے۔ اللہ (ہر بات کو) سننے اور جاننے والا ہے۔

امت مسلمہ کی وسطیت اور اعتدال سے متعلق اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا [البقرة: 143]

اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا ہے۔ تا کہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ رہیں۔

اور فرمایا:

 يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ [النساء: 171]

“اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں غلو نہ کرو اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو۔”

خدائے تعالی سے دعاء کرنے کے لیے مسلمانوں کو سب سے بہترین راستہ دکھاتے ہوئے قرآن کریم مسلمانوں کو صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے: ‘‘اے اللہ ہمیں سیدھے راستے (صراط مستقیم) پر چلا’’۔ (سورہ الفاتحہ آیت: 6)۔ صحیح معنوں میں پورا قرآن اس آیت کی توضیح و تشریح ہے، کیوں کہ اس کتاب الہی کا بنیادی مقصد ہی ہدایت اور اعتدال کا راستہ دکھانا ہے۔ اس آیت کا مطالعہ کر نے کے بعد ایک سچے مسلمان کو ہمیشہ ‘‘صراط مستقیم’’ کی طرف اللہ کی ہدایت کا متلاشی ہونا چاہیئے جسے بجا طور پر اعتدال پسندی، یسر وآسانی، توازن، وسعت ظرفی اور فکری کشادگی کا راستہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایک سچے مسلمان کو ہمیشہ راہ اعتدال پر چلنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے پیش کیا ہے اور غلو (extremism)  اور انتہاء پسندی سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف دین وشریعت کے اہم مسائل میں بلکہ انسانی زندگی کے معمولی امور ومعاملات میں بھی غلو (انتہاءپسندی) کی زبردست مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“إن الدین یسر، ولن یشاد الدین أحد إلا غلبہ، فسددوا، وقاربوا، وابشروا، واستعینوا بالغدوۃ والروحۃ، وشئی من الدلجۃ” (بخاری)

“ دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بےجا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے۔ یعنی ایسا انسان مغلوب ہو جاتا ہے اور دین پر عمل ترک کر دیتا ہے۔ پس تم سیدھے راستے پر رہو اور رات کے کچھ حصہ کی عبادت سے مدد حاصل کرو۔”

علاوہ ازیں، بے شمار آیات واحادیث سے یہ ثابت ہے کہ اسلام افراط وتفریط سے پاک اعتدال وتوازن اور وسطیت کا دین ہے۔ ایسی وسطیت جس میں کوئی شدت پسندی یا انحراف وکجی نہیں ۔ اسلام میانہ روی اور طرفین کے بیچ معتدل موقف سے عبارت ہے، جس میں افراط وتفریط نہ ہو، غلو وزیادتی، اور کمی و کوتاہی نہ ہو۔ یہ روحانیت ومادیت، واقعیت ومثالیت اور انفرادیت واجتماعیت کے درمیان ایک درست پیمانہ ہے۔ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

 “الوسط فضیلۃ بین رذیلتین”

“دو کمتریوں کے بیچ ایک فضیلت وبرتری اعتدال اور میانہ روی کہلاتا ہے۔”

اور مسلم وغیرہ میں ہے:

“ھلک المتنطعون” “ غلو کرنے والے ہلاک ہوئے۔”

اور یہ بھی:

“إن ھذا الذین یسر، فأوغلوا فیہ برفق ولن یشاد الدین أحد إلا غلبہ”

“یہ دین آسان ہے اس لیے اس میں نرمی وآسانی سے داخل ہوؤ۔ اور جو دین میں بےجا سختی کرےگا تو دین اس پر غالب آجائےگا۔”

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عقبہ کی شب، جب آپ اپنی سواری پر تھے فرمایا: میرے لیے کنکریاں چن کر لاؤ، تو میں نے آپ کے لیے سات کنکریاں چنیں، وہ کنکریاں ایسی تھیں جو دونوں انگلیوں کے بیچ آجائیں۔ آپ انہیں اپنی ہتھیلی میں ہلاتے تھے اور فرماتے تھے:انہی جیسی کنکریاں مارو۔ پھر آپ نے فرمایا:لوگو! تم دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو دین کے غلو نے ہی ہلاک وبر باد کردیا۔

ابن جریر طبری فرماتے ہیں: میرے خیال سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان مومنوں کو، دین میں درمیانہ طریقہ اپنانے کی وجہ سے امت وسط سے متصف کیا۔ چنانچہ وہ دین کے بارے میں غلو کرنے والے نہیں۔ ان عیسائیوں کے غلو کی طرح، جنہوں نے ترہیب میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سلسلے میں غلو کیا اور وہ حد سے آگے بڑھ گئے اور انہیں الوہیت کا درجہ دے دیا۔ اور نہ ہی وہ تقصیروکوتاہی والے ہیں، ان یہودیوں کی کوتاہی کی طرح، جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل ڈالا۔ اپنے انبیاء کو قتل کردیا۔ اپنے رب کا انکار کیا ۔ لیکن وہ دین میں توسط، واعتدال والے ہیں۔

امام شاطبی نے فرمایا کہ: جب آپ شرعی کلیہ پر غور کریں گے تو اسے توسط کا ہی حامل دیکھیں گے۔ اگر کسی پہلو کی طرف دین کا رجحان ومیلان دیکھتے ہیں تو دوسری طرف کے کسی واقع یا متوقع امر کے بالمقابل ہی وہ میلان ہو سکتا ہے۔ چنانچہ سختی کا پہلو عموماً تخویف وتہدید اور زجر وتوبیخ کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ اس کا استعمال اس آدمی کے مقابلے میں ہوتا جس کے اوپر دینی انحلال وپستی غالب آگئی ہو، اور تخفیف کا پہلو، جو عموما ترجی اور ترغیب وترخیص کے سلسلے میں رہتا ہے، اس آدمی کے مقابلے میں استعمال کیا جاتا ہے، جس پر سختی کے سبب حرج اور تنگی غالب آگئی ہو۔ لیکن جب ان دونوں میں سے کوئی پہلو نہ ہو تو آپ توسط اور میانہ روی کو نمایاں اور طریقہ اعتدال کو واضح دیکھیں گے۔ یہی وہ قاعدہ وضابطہ ہے جو قابل عمل ہے۔

میانہ روی اور اعتدال پسندی اسلام کے تمام شعبوں میں نمایاں ہے، مثلا شعبۂ اعتقاد میں اسلام اقوام وملل کے درمیان معتدل ترین مذہب بن کرآیا۔ چنانچہ اسلام میں نہ الحاد ہے اور نہ وثنیت، بلکہ ربوبیت والوہیت اللہ کے لیے خاص ہے۔ اسی طرح اسماء وصفات میں تشبیہ وتمثیل اور تحریف وتعطیل کے قائلین کے بیچ درمیانی مذہب ہے۔ اور قضاء وقدر کے سلسلے میں اسلام کا موقف، قدریہ اور جبریہ کے دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک معتدل موقف ہے۔ اسی طرح  مسئلہ ایمان کے سلسلے میں اہل سنت والجماعت کا موقف افراط وتفریط سے پاک ہے۔ وہ عمل کو ایمان کا ایک جزء قرار دیتے ہیں اور معصیت کے مرتکب کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتے۔ اسی طرح گنہگار کو کامل الایمان نہیں سمجھتے، بلکہ اپنے ایمان کے سبب مومن ہوگا،مگر گناہ کبیرہ کے سبب فاسق ہوگا۔

نبوت وولایت اور صحابیت کے سلسلے میں بھی توسط ہے، ان لوگوں کی طرح غلو نہیں جنہوں نے نبیوں اور ولیوں کو رب بنا لیا۔ اور نہ ان یہودیوں کی طرح جنہوں نے نبیوں او رسولوں کی تکذیب کی اور انہیں قتل کیا۔ امت محمدیہ درمیانی راہ اپناتے ہوئے اللہ کے تمام رسولوں اور پیغمبروں پر ایمان رکھتی ہے اور اس کی کتابوں پر بھی۔ اس کے ولیوں سے بھی محبت کرتی اور آپ کے تمام صحابہ سے پیار کرتی ہے۔

عبادت میں بھی اسلام نے انسانی فطری تقاضوں کی پاسداری کی ہے۔ اسلامی عبادت روحانی تجرد ،اور مادی ارتکازمیں غلو کیے بغیر روح اور بدن کے بیچ نادر رشتے کی بقاء ہے۔ یہ نہ تو رہبانیت ہے اور نہ ہی صرف مادیت، بلکہ فرمان حق تعالیٰ کی روشنی میں ایک ربط وسلیقگی اور اعتدال ومیانہ روی ہے:

وَابْتَغِ فِيمَا آَتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآَخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا [القصص: 77]

“اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول۔”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون کے تبتل کی تردید کی اور اس آدمی کی نکیر کی ، جس نے دنیا کی پاکیزہ چیزوں کو اپنے لیے حرام کرلیا، فرمایا:

“أما إنی أخشاکم للہ وأتقاکم لہ، لکنی أصوم وأفطر وأصلی وأرقد وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی” (بخاری ومسلم)

“ میں تو تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے لیے تقویٰ شعار ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور کبھی نہیں بھی رکھتا ہوں۔ نماز بھی پڑھتا ہوں اور رات میں سوتا بھی ہوں۔ ساتھ ہی بیویوں سے ہمبستری بھی کرتا ہوں۔”

دین میں غلو کے آثار ونتائج بہت بھیانک ثابت ہوتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“ھلک المتنطعون، ھلک المتنطعون”

“غلو کرنے والے ہلاک ہوئے ، ہلا ک ہو ئے۔”

آج اسلام کے نام پر ارہاب (دہشت گردی) اور پر تشدد تکفیر (Violent Takfirism) یعنی بےسوچے سمجھے کسی کو کافر قرار دینا بھی دین میں غلو ہی کا نتیجہ ہے۔ دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کی بگڑی ہوئی شبیہ بھی اسی کا خمیازہ ہے۔ عالم اسلام میں خانہ جنگی، باہمی قتل وغارت گری اور جدید خوارج کی شرانگیزی بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔

مذہب کی تبلیغ کرنے اور لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے تعلق سے قرآن نے مبلغین کے لیے ایک واضح اور وجوبی حکم صادر کیا ہے: ‘‘اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو، بیشک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہے’’۔ (16:125)

خاص طور پر اس مقام پر اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ نے اسلامی مبلغین کے لیے لوگوں کو حکمت کے ساتھ راہ خدا کی طرف بلانے کا ایک عام حکم صادر فرمایا ہے۔ اس آیت میں مذکور مختلف الفاظ و اصطلاحات کے معانی کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں سب سے پہلا لفظ (أدعوا) ہے جس کا مادہ عربی کا لفظ (دعا) ہے اور اس کے معانی دعوت دینا، حکم دینا،بلانا، باز طلبی کرنا، مطلب، مراد، منشا، التجا کرنا، مائل کَرنا اور مُخاطِب کَرنا وغیرہ وغیرہ ہیں۔ ان تمام معانی میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جس سے غیر معقولیت، سختی، تشدد اور جبر کی طرف ایک ہلکا سا بھی اشارہ ملتا ہو جیسا کہ ان کی ضرورت ‘‘جبراً مذہب تبدیل کرنے’’ کے مذموم عمل میں پیش آتی ہے، جس میں علیحدگی پسند اور انتہاءپسند مبلغین لوگوں کو دوسروں کے مذہب، معتقدات یا رائے کو اپنے مذہب، معتقدات یا رائے سے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مرضی کے خلاف دوسروں کی ذہنیت بدلنے اور ان کا مذہب یا طرز زندگی بدلنے کی بات تو چھوڑ ہی دیں اسلام تو تمام انسانیت کے لیے فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی لوگوں کو آمادہ کرتے وقت تشدد آمیز یا جارحانہ اقدامات کی اجازت نہیں دیتا۔ دراصل قرآن نے واضح طور پر بارہا یہ توضیح پیش کی ہے کہ اسلام کی دعوت و ابلاغ کا طریقہ کار منصفانہ، متوازن، معتدل، پرامن اور غیر متشدد ہونا چاہیے۔ عصر حاضر میں ہونے والی جبراً تبدیلیٔ مذہب کی روش کی قرآن کی کسی بھی سورۃ یا آیت میں قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ در حقیقت قرآن میں جہاں کہیں بھی اسلام کی دعوت و تبلیغ کا ذکر ہے وہاں وہاں لفظ ‘‘دعوت’’ اور ‘‘بلاغ’’ کا استعمال کیا گیا ہے۔ لفظ  بلاغ کا معنی ‘‘پیغام پہنچانا’’ ہوتا ہے نہ کہ جبرا مذہب تبدیل کروانا، جیسا کہ سورہ یٰسین کی آیت 17 میں مذکور ہے۔ اور ‘‘دعوت’’ کا مطلب لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف حکمت اور خوبصورت موعظت کے ساتھ بلانا ہے۔

قرآن میں اسی قسم کے چند اور ایسے ہی احکامات بیان کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے مبلغین پر یہ امر ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اسلام کو ایک انتہاء پسند، سخت اور فاشسٹ نظریہ کے بجائے ایک معتدل روحانی مذہبی روایت کے طور پر پیش کریں۔ قرآن میں اللہ نے مختلف مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے ہر زمانے کے علماء اور مبلغین سے اس طرح خطاب کیا ہے:

‘‘سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے’’ (20: 44

‘‘حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (راہِ ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں اسے راہِ ہدایت پر آپ خود نہیں لاتے بلکہ جسے اللہ چاہتا ہے (آپ کے ذریعے) راہِ ہدایت پر چلا دیتا ہے، اور وہ راہِ ہدایت پانے والوں سے خوب واقف ہے’’ (28:56

‘‘ان کو ہدایت دینا آپ کے ذمہ نہیں بلکہ اﷲ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے’’ (2:272)۔

مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ ان تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے کہ کون جنت کا حقدار ہے اور کس کے مقدر میں جہنم لکھا جا چکا ہے۔ یہ تمام باتیں اس کے پاس لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں اور اسی پر سارے معاملات ختم۔ لہٰذا مسلم مبلغین کا کام یہ ہے کہ وہ صرف لوگوں کو اللہ کے راستے کی طرف بلائیں اور اس کے لیے وہ کسی بھی قسم کے جبر و اکراہ اور تشدد کا سہارا نہ لیں اس لیے کہ انہیں ہدایت دینا ان کا کام نہیں ہے۔ ان کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے، مذہب بدلنا نہیں۔ کیوں کہ صرف خدا ہی انہیں ہدایت کے راستے پر چلا سکتا ہے۔

‘‘اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ان میں سے ظلم کیا’’ (29:46

اس آیت میں اللہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ امت دعوت سے خوش کلامی کے ساتھ بات کریں، جیسا کہ اللہ نے اس وقت بھی موسی اور ھارون کو ایسا ہی کرنے کا حاکم دیا تھا جب انہیں فرعون کے دربار میں بھیجا تھا۔

اسلام مبلغین کو صرف پیغام پہنچانے کا حکم دیتا ہے، لوگوں کے مذہب کو بدلنے کا نہیں

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ کہ جس میں اللہ ہمیں اسلام کی تبلیغ یا نیکی کی دعوت کے لیے حسن مواعظت کا حکم دیتا ہے دیگر مذکورہ آیات میں اللہ نے اس بات کو بھی بڑے واضح انداز میں بیان کر دیا ہے کہ اللہ کو ان تمام باتوں کا بخوبی علم ہے کہ کون راستے سے بھٹکا ہوا ہے اور کس نے ہدایت حاصل کر لی ہے۔ لہٰذا کسی بھی عالم یا مبلغ کو کوئی حق نہیں پہنچتاکہ وہ کسی کو بھی گمراہ قرار دے اور اسے بجبر و اکراہ اپنا مذہب یا عقیدہ قبول کرنے پر مجبور کرے اور تکبر کے ساتھ اپنے بارے میں یہ گمان رکھے کہ صرف وہی ہدایت اور تقویٰ کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ مبلغین کے اندر ایک غیر مناسب رجحان ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کے لیے انتہاء پسندی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جو مذہب پوری انسانیت کےلیے آسانی اور رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا وہ آج مشکل ترین نظام حیات کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ آج تمام مسلم ممالک میں تیزی کے ساتھ پھیلتے ہوئے اس خطرے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگاہ کر دیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ: ‘‘مذہب اسلام بہت آسان ہے اور جوکوئی مذہب کے معاملے میں سختی اختیار کرے گا وہ اس پر عمل نہیں کر سکتا۔لہٰذا انتہاء پسند نہ بنو اور اس میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرو اور تمہارے لیے بشارت ہے کہ تمہیں اس کا اجر دیا جائیے گا۔’’ (بخاری)

مندرجہ بالا حدیث میں مذہب سے مراد اسلام کا ایک وسیع ترین تصور مراد ہے یعنی ایک ایسا دین (نظام حیات) جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ بنیادی طور پر دین کی تقسیم تین خانوں میں کی گئی ہے پہلا: ایمان (معتقدات)، دوسرا: اسلام (معمولات) تیسرا: احسان (مذہبی اعتماد و وثوق سے پیدا ہونے والی سماجی ذمہ داری کا احساس)۔ اسلام کا پیغام یہ ہے کہ مذہبی معمولات و معتقدات کے معاملے میں مکمل اعتدال پسندی، آسانی اور پوری آزادی ہونی چاہیے۔ بنیادی طور پر اس آفاقی اصول کی بنیادیں قرآن میں ہیں: ‘‘اور اس (اللہ) نے تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی’’۔(22:78)

اور اسی قرآنی آیت کی توضیح و تشریح مختلف طریقوں سے مختلف قرآنی آیات میں کی گئی ہے مثلاً: ‘‘اﷲ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا’’ (2:286)۔ ‘‘اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا’’ (2:185

خلاصہ یہ کہ آج مبلغین اور داعیان اسلام کو تمام شعبہائے زندگی میں اعتدال پسندی اور میانہ روی مطلوب ہے۔ خواہ ان کا تعلق دین وشریعت سے ہو،  تحلیل وتحریم سے ہو، یا پھر منہج فکر ونظر اور طریق استدلال سے ہو۔ آج دعوت دین کے شعبہ میں انہیں یہ امر بطریق احسن یاد رکھنا ہوگا کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں شریعت اسلامیہ نے افراط وتفریط کے بیچ میانہ روی اختیار کی۔

نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار، غلام رسول دہلوی ایک عالم اور فاضل (اسلامی اسکالر ) ہیں ۔ انہوں نے ہندوستان کے معروف اسلامی ادارہ جامعہ امجدیہ رضویہ (مئو، یوپی، ہندوستان ) سے فراغت حاصل کی ہے، الجامعۃ اسلامیہ، فیض آباد، یوپی سے قرآنی عربی میں ڈپلوما کیا ہے ، اور الازہر انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز بدایوں، یوپی سے علوم الحدیث میں سرٹیفیکیٹ حاصل کیا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے عربی (آنرس) میں گریجویشن کیا ہے، اور اب وہیں سے تقابل ادیان ومذاہب میں ایم اے کر رہے ہیں۔

URL for English article:

https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/islamic-preachers-need-strengthen-foundational/d/35821

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/islamic-preachers-need-strengthen-foundational/d/100130

 

Loading..

Loading..