New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 02:34 AM

Urdu Section ( 31 May 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Profound Ideological Crisis In The Indian Muslim Community فرقہ واریت : ہندوستانی مسلم معاشرے کا ایک زبردست نظریاتی بحران

غلام رسول دہلوی ، نیو ایج اسلام

25 جنوری 2017

نیو ایج اسلام کے فاؤنڈنگ ایڈیٹر جناب سلطان شاہین نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں بجا طور پر یہ سول اٹھایا ہے کہ : " فرقہ وارانہ اتحاد یقینا ایک قابل قدر نصب العین ہے۔ تاہم، اس کا مقصد بھی انتہائی اہم ہے۔ ایک دوسرے کو کافر کہنے والے وہابی دیوبندی اور صوفی - بریلوی فرقے اب کچھ ماہ سے متحد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس کا مقصد کیا ہے؟ "

10 مئی 2016 کو انڈین ایکسپریس نے ملک میں دو اکثریتی مسلم گروہ یعنی دیوبندی اور بریلوی کے درمیان اتحاد کی شروعات کی خبر شائع کی ہے جو کہ شروع سے ہی ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں ۔ ایک سرکردہ بریلوی عالم مولانا توقیر رضا خان نے حیرت انگیز طور پر ہندوستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے معروف ادارہ دار العلوم دیوبند کا دورہ کیا۔ انہوں نے دار العلوم دیوبند کے موجودہ ناظم اعلیٰ مفتی ابو القاسم نعمانی سمیت بااثر دیوبندی علماء سے ملاقات بھی کی اور "اپنے مشترکہ دشمن" سے مقابلہ کرنے کے لئے ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

کئی دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق معروف دیوبندی اور بریلوی علماء نے متعدد کانفرنسوں اور اجلاسوں کا انعقاد کیا - سب سے پہلے دیوبند میں اور اس کے بعد اجمیر میں – جس میں انہوں نے ہندوستان میں اتحاد امت کے لئے ایک تجویز پیش کی ہے۔ ہندوستانی مسلم معاشرے کے اندر دیوبندی اور بریلوی دونوں فرقوں کی اکثریت ایک زمانے سے ایک دوسرے کو خارج از اسلام قرار دینے میں لگے ہوئی ہے۔ لہذا ، ان دونوں فرقوں کے درمیان اتحاد کی کوشش کی خبروں نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ لیکن یہ دونوں فرقے 'امت مسلمہ کے اتحاد' کی جو وجہ بیان کر رہے ہیں وہ یکساں طور پر حیرت انگیز ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ملک کی حکمران جماعت 'جان بوجھ کر' 'ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے لئے' فرقہ وارانہ تقسیم کے اپنے منصوبے میں پیش قدمی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لہٰذا ، واضح طور پر اس کے پیچھے محرک مسلم کمیونٹی کے سیاسی رہنماؤں کے اوپر لٹکتی ہوئی سیاسی خوف کی تلوار ہے۔

اس حیرت انگیز پیش رفت کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے معاملات کے بہت سے تبصرہ نگاروں نے یہ دعوی کیا کہ ان دو حریف مسلم فرقوں کے درمیان اتحاد ‘مسلم مخالف’ حکومت کی "پھوٹ ڈالو پالیسی" کے جواب میں قائم کیا جا رہا ہے۔ ثبوت کے طور پر انہوں نے حال ہی میں دہلی کے اندر منعقد ہونے والے ایک عظیم الشان صوفی کانفرنس ، ورلڈ صوفی فورم کا حوالہ دیا ہے جس میں وزیراعظم مودی مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔ مثال کے طور پر آن لائن مسلم میڈیا مسلم مرر (Muslim Mirror)کے ایڈیٹر سید زبیر احمد نےکہا کہ : "مسلم کمیونٹی کے اندر یہ خوف اور رجحان بڑھ رہا ہے کہ اسے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اسے تقسیم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ حالیہ منعقد ہونے والی صوفی کانفرنس کو مسلم معاشرے میں درار پیدا کرنے کی ایک کوشش مانا گیا تھا۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ [ بریلوی – دیوبندی اتحاد] اہم ہے کیونکہ اس سے یہ پیغام لوگوں تک پہنچ رہا ہے کہ اب مسلم معاشرے کے اندر دراریں پیدا کرنا مشکل ہو گا"۔

در اصل بریلوی اور دیوبندی فرقوں کے درمیان فقہی مجادلہ اور مناظرہ کی ایک طویل تاریخ رہی ہے جو کہ اکثر ان دونوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب رہی ہے۔ اس کے پیش نظر فرقہ وارانہ دوریوں کو ختم کرنا یقینی طور پر ایک خوش آئند اقدام ہے۔ یہ اقدام بہت پہلے ہی اٹھا لیا جانا چاہئے تھا۔ لیکن اپنی داخلی دشواریوں اور پریشانیوں کا الزام حکومت پر عائد کرنا اور مذہبی انتہاپرستی کا مقابلہ کرنے میں صوفیائے کرام کی کوششوں کو بدنام کرنا عجیب بات ہے۔ کیا محاسبہ کے بجائے جو کہ مسلم معاشرے کے لئے ضروری ہے ، غفلت اور مظلومیت کی ذہنیت اختیار کرنا ایک آسان کام نہیں ہے؟

بریلوی - دیوبندی اتحاد کا عوامی مظاہرہ کرنے کے بجائے ، یہ دونوں فرقوں کے علما کے لئے انتہا پسند نظریات سے بھری ہوئی موجودہ فرقہ وارانہ ذہنیت پر سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کا وقت تھا۔ ایک تحقیقی مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف دیوبندی بلکہ موجودہ دور کے بریلوی علماء کے ایک طبقہ نے بھی ملک کے سادہ لوح مسلمانوں کے اندر مذہبی انتہا پسندی کی آگ کو ہوا دی ہے۔

بریلوی تحریک غیر منقسم ہندوستان کے اندر 1880 میں قیسی صوفی جماعت کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی۔ اس کا مقصد وہابی دیوبندی نظریہ سازوں کے انتہا پسندانہ افکار و نظریات کا رد کرنا تھا۔ مین اسٹریم سنی صوفی مکتبہ فکر سے الگ ہو کر مولوی اسماعیل دہلوی اور سید احمد "شہید" جیسے اکابر علماء نے وہابی مکتبہ فکر میں شمولیت اختیار کر لی۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ دیوبندی مسلمانوں کی آنے والی نسلوں نے اسلام کی انتہائی قدامت پرست اور علیحدگی پسند روایت کو قبول کر کیا۔ لہذا، اسلام کے دیوبندی پیروکاروں کو اسلام پسند عسکریت پسندی کے راستے پر آسانی کے ساتھ لگا دیا گیا۔ کئی محققین نے دیوبند اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی فقہی نظریات کے درمیان مماثلت کا بھی انکشاف کیا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق شمالی مشرقی پاکستان میں طالبانی عسکریت پسند مقامی دیوبندی مدارس کے فارغ التحصیل ہیں۔ لال مسجد جیسے انتہا پسند اسلامی مدرسے کا بھی نظریاتی تعلق دیوبندی مکتبہ فکر کے ساتھ سامنے آیا تھا۔

تاہم ، بریلوی علماء کی قیادت میں مرکزی دھارے کے صوفی سنی مسلمان نسبتاً روادار اور روایت پسند اسلام پر عمل پیرا رہے ہیں۔ وہ بڑے پیمانے پر اسلامی تصوف کے اصول و معتقدات اور روایات و معمولات پر عمل پیرار ہے ہیں۔

لیکن حالیہ پیش رفت نے مسلم معاشرے کے تجزیہ نگاروں اور ترقی پسند مسلم مفکرین کو تشویش میں مبتلاء کردیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی بریلوی جماعت جسے اپنی روادار صوفی سنی روایت پر فخر تھا ، وہ بھی اب بدنام زمانہ وہابی انتہا پسندی کی ہی طرح مذہبی تشدد اور انتہاپسندی کے راستے پر چلنے لگے ہیں۔

'اصلاحِ تصوف' کے نام پر آج بہت سارے انتہاپسند بریلوی علماء لبرل اور روادار نظریات کے خلاف نفرت انگیزی کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو کہ ہندوستانی صوفی بزرگوں کی روایت رہی ہے۔ وہ لبرل مذہبی نقطہ نظر کے حامل غیر مقلد صوفی مسلمانوں کی لعنت و ملامت کرتے ہیں اور انہیں زندیق ، بد مذہب اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر- پاکستانی نژاد کینڈا کے صوفی عالم اور مشہور دانشور ڈاکٹر طاہرالقادری کو بریلوی مفتیوں کے ایک بڑے طبقے نے ‘گمراہ’ قرار دیا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں بریلوی علماء نے غیر مسلموں کی تقریبات میں شرکت کرنے ، صوفی رقص اور موسیقی اور مساجد میں دیگر مذہبی رہنماؤں کا استقبال کرنے جیسے بین المذاہب سرگرمیوں کی بنیاد پر ڈاکٹر قادری کے خلاف فتوے صادر کئے ہیں۔ بریلوی علماء کے حلقے میں اس قسم کے قدامت پرست اور شدت پسند فتووں میں اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ ملک میں ایسے خوفناک فتاوے کی فیکٹریاں چلانے میں دیوبندی علما سے مختلف نہیں ہیں۔

انتہا پسند بریلوی فتاوے کے اثرات ممبئی کی رضا اکیڈمی کے احتجاجی مظاہروں میں دیکھے جا سکتے ہیں جو کہ ایک مذہبی و سیاسی بریلوی جماعت ہے۔ مارچ 2012 ء میں ایک بریلوی فتویٰ جاری کئے جانے کے بعد کہ جس میں طاہر القادری کی تقریر کو شرک فی الرسالۃ کے برابر قرار دیا گیا تھا ، رضا اکیڈمی نے بین المذاہب ہم آہنگی پر طاہر القادری کی تقاریر پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن ممبئی ہائی کورٹ نے شہر میں عوامی اجتماعی کرنے کے لئے ڈاکٹر قادری کو مشروط اجازت دیدی اور اسی طرح رضا اکیڈمی ان کے خلاف اپنی پٹیشن میں ناکام ہوئی۔

بہرحال ، رضا اکیڈمی وہ پہلی مسلم تنظیم ہے جس نے فلم ساز ماجد ماجدی کی فلم Muhammad: The Messenger of God کے خلاف مہم چلائی تھی۔ پیغمبر محمد ﷺ کی ابتدائی زندگی پر مبنی اس فلم کے اجراء سے قبل اس کے مواد کا جائزہ لئے بغیر ہی اس کے خلاف بریلوی علماء نے دھمکی آمیز فتوے جارے کر دئے تھے۔ اور ان فتووں میں سنیما کے ذریعے نبی ﷺ کی زندگی کو پیش کرنے کی ان کی (گنہگار) کوشش کے لئے ماجد ماجدی کی زبر دست تنقید کی گئی تھی ، کیوں کہ ایسا کرنا مستند بریلوی علماء کے مطابق اسلامی شریعت میں 'حرام' ہے۔ لہذا ، انہوں نے اس اسلامی فلم میں موسیقی دینے والے ایک ہندوستانی مسلم موسیقی کار اے آر رحمن سمیت پورے فلم ساز عملے پر توہین اور ارتداد جیسے سخت الزامات لگائے۔ اس کے بعد رضا اکیڈمی نے ماجد ماجدی کی فلم سے جڑے ہر فرد سے دوبارہ کلمہ پڑھنے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا مطالبہ کیا۔ یہ فتویٰ ایک مشہور و معروف بریلوی عالم دین مفتی محمود اختر نے جاری کیا تھا جو کہ حاجی علی درگاہ کی مسجد میں امام ہیں اور شہر میں اپنا ایک دار الافتاء بھی چلاتے ہیں۔ حاجی علی درگاہ پر عورتوں کی حاضری کے خلاف انتہائی متنازع فیہ فتویٰ کے پیچھے بھی انہیں کا ہاتھ تھا۔

تاہم ، قابل ذکر بات یہ ہے کہ اجمیر شریف اور حضرت نظام الدین اولیا درگاہ جیسے بڑے صوفی درگاہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پر مبنی فلم اور موسیقی پر اپنا موقف بریلوی فتویٰ کے خلاف اختیار کیا۔ اس کے بجائے انہوں نے اے آر رحمان کی شاندار کارکردگی کے لئے ان کی تعریف کی اور انہیں 'ایک حقیقی مومن' قرار دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اے آر رحمان نے ایک تحریری بیان جاری کیا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ: "میں کوئی اسلام کا عالم نہیں ہوں۔ میں میانہ روی اختیار کرتا ہوں اور میں جزوی طور پر روایت پسند اور جزوی طور پر عقلیت پسند ہوں"......." فلم پر کام کرنے کے میرے روحانی تجربات انتہائی نجی ہیں اور میں انہیں شیئر کرنا پسند نہیں کروں گا..... اس فلم کے لئے موسیقی تیار کرنے کا میرا فیصلہ نیک نیتی پر مبنی تھا ، اور اس میں کسی کو تکلیف پہنچانے کا کوئی ارادہ شامل نہیں تھا۔"

تکلیف کی بات یہ ہے کہ نہ صرف فلم کے موسیقی کار اے آر رحمان نے بلکہ فلم ساز ماجد ماجدی نے بھی اس فلم کے پیچھے نیک ارادے کا اظہار کیا۔ ایک ایرانی میگزین حزب اللہ لائن کو دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ماجد ماجدی نے کہا ہے کہ: "میں نے مغرب میں اسلامفوبیا کی نئی لہر سے لڑنے کے لئے اس فلم کو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔۔۔" انہوں نے مزید کہا کہ "اسلام کی مغربی تعبیر تشدد اور دہشت گردی سے بھری ہوئی ہے۔"

لیکن اس اسلامی فلم کے پیچھے نیک عزائم کے اظہار اور شیعہ اکثریتی ملک ایران میں اس کے خیرمقدم کئے جانے کے باوجود بریلوی علماء نے ماجد ماجدی اور اے آر رحمن کے خلاف ایک فتوی جاری کیا اور حکومت سے ملک میں اس فلم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔

اسلامی فلموں کے علاوہ انتہاپسند بریلوی علماء نے صوفی موسیقی اور مزارات پر خواتین کی حاضری سمیت ایسے بہت سارے ثقافتی معمولات پر پابندی عائد کی ہیں جن سے سماجی تعلق اور مذہبی ہم آہنگی کو تقویت ملتی ہے۔

اس طرح ، بریلوی اور دیوبندی دونوں طبقے کے علماء کی جانب سے ایسے قدامت پرست فتووں کا خطرہ ہندوستان میں بڑھ رہا ہے جس سے مسلم معاشرے کا بڑا طبقہ خوف زدہ ہے۔ اس امر کے پیش نظر کہ مسلم علماء  مسلم معاشرے کے اس زبردست نظریاتی بحران پر گہری نظر نہیں رکھتے بریلوی - دیوبندی اتحاد بے معنیٰ ہے۔ اس خود احتسابی کے بغیر مسلم معاشرے کا اتحاد ، اس کی سالمیت اور ہم آہنگی صرف ایک سراب ہے۔

URL for English article: http://www.newageislam.com/islam-and-sectarianism/ghulam-rasool-dehlvi,-new-age-islam/sectarianism--a-profound-ideological-crisis-in-theindian-muslim-community/d/109848

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/a-profound-ideological-crisis-indian/d/115401

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..