غلام رسول دہلوی ، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ :نیو ایج اسلام)
ہندوازم کی بنیادی مذہبی کتابوں کو، بنیادی طور پر دو اہم قسموں میں منقسم کیا گیا ہے، 'شروتی "اور" اسمرتی " دو ایسے مستند ذرائع جنہوں نے کلاسیکی ہندوازم کی بنیادی قائم کئے۔ شروتی کا لفظی معنیٰ ‘‘جو کچھ سنا گیا ہے’’ اور اسمریتی کا معنیٰ‘‘ جو یاد کیا گیا ہے ’’۔
شروتی سے مطلب وہ الہی متون ہیں، جنہیں (رشیوں ) نے خدا سے براہ راست سنی ، جبکہ اسمرتی کا مطلب وہ نصوص ہیں، کہ جنہیں زبانی طور پربیان کیا گیا، یاد کیا گیا اور لکھا گیا ہے۔ چونکہ اول الذکر کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ، انہیں خدا سے براہ راست، ویدی رشیوں اور سنتوں کے روحانی مشاہدات کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے، لہٰذا ، انہیں اسمرتی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے ۔ ایسا مانا جاتا ہے، کہ شروتی کا کوئی مصنف نہیں ہے، بلکہ یہ "حقائق کی آفاقی آواز" کی الٰہی تحریر ہے ، جسے سنتوں اور اصحاب کشف (جنہیں رشی کہا جا تا ہے) کے ذریعہ سنا اورمحفوظ کیا گیا ہے ۔ شروتی چاروں ویدوں یعنی رگ وید (خدا کی حمد اور مناجات کا علم)، ساما وید (دھنوں اور ترانوں کا علم) اور یجر وید (قربانی کے اصول و ضوابط کا علم) اور اتھروا وید (جادو اورسحر کے ضوابط کا علم) پر مشتمل ہے۔ ہر ویدچار حصوں یعنی سمہتا (جو کہ حمد و مناجات پر مشتمل ہے)، برہمنا (حمد و مناجات کی اہمیت)، آرناکیہ (تشریحات)، اور ویدانتا (ویدوں کے اختتام، جسے اپنیشد کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، جس میں الٰہیات کی باتیں ہیں) پر مشتمل ہے۔ ویدانت ہندو فلسفہ کی، اس بات کی تائید کرتے ہوئے ، بنیاد قائم کرتا ہے کہ برہماکا آفاقی روح اور تمام موجودات کا مصدر ہونا ، بلکل حقیقت ہے ۔
اسمریتی ان تمام علوم پر مشتمل ہے، جن کا نزول اورجن کی نصیحت شروتی کے بعد کی گئی ہے ، جن کا انکشاف ، رشیوں (عظیم اصحاب کشف) پر پہلے ہی کیا جا چکا تھا ۔ انہوں نے رزمیہ (مہا بھارت اور رامائن) کو ، اخلاقی کہانیوں (پوران) اور خدا کی رسمی عبادت کے کچھ اصول و قوانین (اگاما) پر مرتب کیا ہے۔
شروتی اور اسمریتی کے درمیان فرق:
اگرچہ شروتی اور اسمرتی دونوں ایسے نصوص پرمشتمل ہیں، جو ہندو فلسفہ کا خلاصہ پیش کرتے ہیں، وہ دونوں اصل ، معتبریت اور سند کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ شروتی خالصتاً الہی خیال کئے جانے کی کی بناء پر زیادہ مستند، ہندوازم کا ابدی اور بنیادی ماخذ ہے، جبکہ اسمرتی کو سند کے اعتبار سے شروتی کے مقابلے میں ثانوی ماناجاتا ہے ۔ شروتی کی عبارتوں کو، نتیا (آغاز و انتہاء کے بغیر) اور اپاؤ رسیہ شبد ( فوق البشری مصدر کے ذریعہ ایجاد اور نازل کردہ؛ جسے خدا کہا جاتاہے ) تصور کیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، شروتی وحی ہے، جبکہ اسمرتی روایت ہے۔
شروتی ایک ایسا براہ راست روحانی مشاہدہ ہے، جو ایسے عظیم رشیوں کے ذریعہ موصول ہوا، جنہوں نے الہی حقائق کو سنا اور انہیں بنی نوع انسانی کے فائدے کے لئے محفوظ رکھا ۔ اسمرتی انہیں ابدی انکسشافات کی باز خوانی ہے۔ لہذا، شروتی ابدی ہے اور خدا کے ذریعہ بنائی گئی ہے ، جبکہ اسمرتی مصنوعی ہے۔
شروتی میں، اس کی الہی صفات کے تحفظ اور تلاوت پر زیادہ توجہ مرکوز ہے، جبکہ اسمرتی کو ایک ایسی زبانی روایت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو مختلف تشریحات اور نتائج کا حامل ہے ۔ شروتی ہندوازم کی مذہبی، مستقل اور حتمی، سند ہے۔ شروتی کی کسی آیت یا مناجات کو تبدیل نہیں کیا جانا چاہئے، اور ان دونوں کے درمیان کسی بھی طرح کے تنازعہ یا اختلاف کی صورت میں، شروتی ہمیشہ اسمرتی کو منسوخ کر دے گا۔ یہاں تک کہ خود اسمرتی متن کی بعض آیات میں، شروتی کی الٰہی اصلیت پر زور دیا گیا ہے، اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر اسمرتی میں ایسا کچھ ملے جو شروتی کے خلاف ہو، تو اسمرتی کو مسترد کر دیا جائے گا۔
وحی اور شروتی
عربی لفظ وحی، کا مادہ لفظ وحیٰ (پیغام کو پہنچانا) اور اس کا استعمال خدا کے نبیوں اور رسولوں پر نازل کردہ، الہی پیغام کی وضاحت کے لئے کیا جاتا ہے۔ معروف اسلامی سکالر امام القسطلانی ( 1448-1517) نے وحی کی وضاحت اس طرح کی ہے: وحی اللہ کے ذریعہ انبیاء کو، کتاب کی شکل میں، فرشتوں یا خواب کے ذریعے دی گئی معلومات ہے ۔ وہ کھلے عام یا پوشیدہ یا خفیہ انداز میں، ایسی حکمت اور علم عطا کرتے ہوئے، پہنچایا جا سکتا ہے، جو انسان کی مادی اور جسمانی صلاحیت سے باہر ہے ۔ قرآن کریم مختلف سیاق و سباق میں وحی کی وضاحت بیان کرتا ہے:
"اور ہم نے موسٰی کی ماں کی طرف وحی بھیجی "(28:7)
"جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں" (8:12)
"اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں ۔ یہ (قرآن) تو حکم خدا ہے جو (ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے "۔ (4-53:3)
"(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) یہ باتیں اخبار غیب میں سے ہیں جو ہم تمہارے پاس بھیجتے ہیں"۔ (3:44)
قرآن کے مطابق، خدا نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہر دور میں اور ہر قوم کی طرف وحی نازل کی ہے: ‘‘ہر ایک مدت کے لئے ایک کتاب (نازل شدہ ) ہے ’’ (13:38)۔ لیکن قران میں صرف چار نازل شدہ صحیفوں کے نام کا ذکر ہے: تورات، زبور ، انجیل اور آخری وحی، قرآن ۔ لفظ قرآن عربی فعل قرا سے مشتق ہے، جس کا مطلب ہے پڑھنا یا تلاوت کرنا ۔ قرآن ایک اسم مصدر ہے ، جس کا مطلب "پڑھنا" یا "تلاوت کرنا" ہے۔ جیسا کہ خود قرآن میں استعمال کیا گیا ہے، یہ لفظ وسیع معنوں میں اللہ کی طرف سے وحی کا معنیٰ بیان کرتا ہے، اور ہمیشہ تحریری طور پر ایک کتاب کی شکل میں محدود نہیں ہے، جیسا کہ آج ہمارے سامنے یہ موجود ہے۔
ہندوازم میں شروتی کا تصور، اسلام میں وحی (وحی الٰہی) کے تصور سے گہری مشابہت رکھتا ہے ۔ وحی یا قرآنی آیات، نا زل شدہ کتاب کے مفہوم میں، شروتی ہیں، جبکہ حدیث کی سند ثانوی ہے، جیسا کہ ہندوازم میں اسمرتی ہے۔ جیسا کہ شروتی کے متون، ہندو عقیدے کے مطابق، خدا کے الفاظ ہیں، کیونکہ انہیں قدیم سنتوں کے ذریعہ خدا سے "سنا" گیا تھا، اسی طرح قرآن پاک لفظ بہ لفظ اللہ کا کلام ہے،جسے فرشتہ جبرائیل کے ذریعے اس کے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا ہے۔ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ وہ پہلے کے سنت ہو سکتا ہے کہ جنہوں نے شروتی یا ویدوں کے متون کو سنا یا جنہیں سکھایا گیا ،انبیاء ہوں جن پر ، در اصل خدا نے انہیں نازل کیا ہو ۔ قرآن خاتم النبین ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، پر نازل کیا گیا تھا، اور اسے پہلے انبیاء پر نازل شدہ صحیفوں کی توثیق اور تکمیل کے طور پر نازل کیا گیا تھا۔ قرآن نازل کرنے کے اہم مقاصد میں سے ایک پہلے صحیفوں میں موجود حقائق کی تصدیق کرنا ،اور ان غلطیوں، اور حذف و اضافے کو درست کرنا ہے، جو کہ نسل در نسل ان کی ابلاغ و ترسیل کے دوران شاید اس میں شامل ہو گئے ہوں گے ۔ خود قرآن بھی پہلے کے صحیفوں میں مذکور ہوتا تھا ، اس لئے کہ قرآن خود اپنے بارے میں بتاتا ہے: "اور اس کی خبر پہلے پیغمبروں کی کتابوں میں (لکھی ہوئی) ہے ۔"(26:196)۔
چونکہ قرآن خدا کی آخری اور حتمی وحی تھا، اسی لئےوہ نہ صرف مسلمانوں یا عربوں کے لئے نازل کیا گیا تھا، بلکہ یہ تمام لوگوں کے لئے نازل کیا گیا تھا: "الٓرٰ۔ (یہ) ایک (پُرنور) کتاب (ہے) اس کو ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے کہ لوگوں کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاؤ (یعنی) ان کے پروردگار کے حکم سے غالب اور قابل تعریف (خدا) کے رستے کی طرف "۔ (14:1)
"یہ قرآن لوگوں کے نام (خدا کا پیغام) ہے تاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے اور تاکہ وہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اور تاکہ اہل عقل نصیحت پکڑیں" (14:52)
‘‘روزوں کا مہینہ) رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں(صحیح اور غلط کے درمیان) ’’ (2:185) ۔
"ہم نے تم پر کتاب لوگوں (کی ہدایت) کے لئے سچائی کے ساتھ نازل کی ہے"۔ (39:41)
اسلام ایک عالمگیر مذہب ہونے کی حیثیت سے، یہ خود کو کسی خاص نبی یا کسی خاص زمانے تک محدود نہیں کرتا۔ نبی، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی دعوی نہیں کیا کہ وہ اسلام کے بانی ہیں، یا یہ کہ ان کا دین ایک نیا دین ہے، بلکہ انہوں نے ، انہیں سابق انبیاء کے مذہب اور ایمان کی تبلیغ، جدید تبدیلیوں اور ضروریات کی مطابقت میں ، ضابطہ کے ایک نئے نظام (شریعت ) کے ساتھ کی ۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/wahi-shruti-close-resemblance/d/10977URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/wahi-shruti-close-resemblance-/d/11581