غلام رسول دہلوی ، نیو ایج اسلام
(انگریزی سے ترجمہ ۔ مصباح الہدیٰ ، نیوایج اسلام )
بدیع الزماں سعید نورسی ایک کردش سنی مسلم مذہبی عالم تھے انہوں نے رسالہ نور کا مجموعہ تصنیف کیا جو کہ چھ ہزار صفحات سے زیادہ پر مشتمل قران کی ایک تفصیلی تفسیر ہے ۔ ان کے نظریات نے ایک ایسے اسلامی روحانی معاشرے کو متاثر کیا ہے جو عصر حاضر کے ترکی میں انتہائی اہم مذہبی اور سماجی تحریکوں میں سے ایک ہے، اور پوری دنیا میں کئی ملین جن کے پیروکار ہیں ۔اگرچہ انہوں نے عثمانیوں کے علاقے مشرقی اناطولیہ کے روایتی مدارس میں اپنی مذہبی تعلیم حاصل کی ،لیکن انہیں اس بات کا یقین تھا کہ جدید سائنس اور منطق سے ہی مستقبل کی راہ ہو گی ، اور اس لئے انہوں نے سیکولر اسکولوں میں مذہبی سائنس اور مذہبی اسکولوں میں جدید سائنسی تعلیم کی وکالت کی ۔
نورسی نے اپنی زندگی اسلامی تاریخ (1878-1960) کے سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور میں گزاری ،جب اسلامی نظریات اور عقائد داؤ پر لگے ہو ئے تھے ۔ انہوں نے پہلی اور دوسری دونوں عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کا مشاہدہ کیا ہے ، اور انہوں نے بلقان اور مشرق وسطی میں عثمانیوں کو اپنی ساری زمین کھوتے ہوئے ، اسلامی ریاستوں کو تنزلی اور تباہی کا شکار ہوتے ہوئے ، اور آخر کار انہیں تاریخ کے نقشے سے پورے طور پر مٹتے ہوئے دیکھا ہے ۔
چونکہ نورسی کو نہ صرف یہ کہ تعلیمی مزاج عطا کیا گیا تھا بلکہ ایک اندرونی روحانی چنگاری عطا کی گئی تھی، ان مسلسل خوفناک واقعات نے ان کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا، اور ان کے اندر امت مسلمہ کو بحران کے چنگل سے بچانے کی خواہش کا ثابت قدم شعلہ بھر دیا ۔اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے، انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اسلام اور قرآن کے آفاقی اقدار کے احیاء نو کا سہارا لیا ۔انہواں نے اپنے مضبوط ایمان اور جرات، وسیع تجربے اور حکمت، سائنسی مزاج اور قرآنی حقائق اور دنیاوی امور پر گہری بصیرت کے ساتھ، عالمی سطح پر مسلم کمیونٹی کو دور جدید میں در پیش تمام مسائل کا حل فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
بدیع الزمان نے قرآن کے عالمی پیغام کی مشعل کو ، امت مسلمہ کی رہنمائی اور ان تمام اخلاقی ، مادی ، روحانی اور دانشورانہ سطح پر صحیح راستے پر لانے کے لئے بلند کیا ، جہاں تدریجاً ان کی تنزلی اور تباہی عیاں تھی ۔ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان عالمی مساوات کے اقدار کو پروان چڑھایا ،اور اس طرح انہوں نے ان کے کھو ئے ہوئے اخلاقیات کو دوبارہ قائم کرنے کوشش کی جو کسی زمانے میں پوری دنیا میں ان کی انفرادیت اور امتیاز کی حیثیت سے نمایاں تھے ۔
نورسی نے ترکی کی تاریخ کے تین عہد کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے ؛ عثمانیوں کے مطلق اور آئینی سیکولر نظام اور ترکی کا سیکولر جدید جمہوریہ ۔ تاہم، ان کی زندگی دو دور میں تقسیم کی گئی ہے: قدیم سعید اور جدید سعید ۔ جدید سعید کے دور میں ترکی کی حکومت کے ذریعہ ان کی با ریکی کے ساتھ تفتیش ہوئی ہے، اور وہ رسالہ نور لکھنے کے لئے درد برداشت کرتے ہیں ۔ اجتہاد اور از سر نو غور و فکرنے کے متعلق " الفاظ کے کتاب" میں ان کے خیالات واقعی بلند و بالا ہیں جو کہ جدید دور کے مطابق اسلامی اصلاحات اور مذہبی مسائل میں آزاد فقہ پر اور ان کے مقام کو واضح کرتی ہے۔
نورسی کا نظریہ یہ ہے کہ مادی اور روحانی دونوں مسائل سے متعلق جدیدیت کا حل، مذہب کا فلسفہ نہیں تھا، بلکہ مذہب کا دل تھا ۔ ان کی قرآنی تفسیر رسالہ ٔ نور کے مطابق فلسفہ، اور دلیل پوری انسانیت کو گلے لگانے کے لئے کافی نہیں ہے، اس لئے کہ ان کا انحصار مادی ضروریات پر ہے ۔ لیکن مذہب عالمی اصولوں کی مطابقت میں ، تمام انسانی ضروریات اور جدید ضروریات کو پورا کر سکتا ہے ۔ اس طرح، نورسی نے اس نقطہ نظر کی توثیق کی کہ مذہب کی لوگوں کو ضرورت ان کی مادی ضروریات سے زیادہ عظیم ہے ۔
نورسی ان عملی کمزوریوں اور کوتا ہیوں کو دیکھ کر انتہائی حیران تھے جو پوری اسلامی دنیا میں پھیلے ہوئی تھیں ،تاہم، انہوں نے اس معاملے میں اسلامی دنیا کی کوتاہیوں ، اور خود اسلام کے درمیان فرق کیا ۔ اس موضوع پر اپنے نقطہ نظر کو واضح کرتے ہوئے ، ان کا کہنا ہے کہ: "میں نے دیکھا کہ اسلام، جو سچی تہذیب پر مشتمل ہے، آج کی تہذیب کے مقابلے میں مادی طور پر پسماندہ تھا ، جیسے اسلام ہمارے برے اخلاق سے بیزار تھا اور ماضی کی طرف محو سفر ." ( 1)
انہوں نے عالم اسلام کو "نائبین اور کونسل کے اجلاسوں کی ایک ایسی بے ضابطہ محفل سے تشبیہ دی جس کے نظم و ضبط کو پامال کردیا گیا ہے،" (2) اوراس بے ظابطگی کا ذمے دار، اخلاقیا ت کے زوال اور اسلامی دنیا کے اشرافیہ میں خطرناک اور غلط افکار کو ٹھہرایا۔ اس کے بعد، انہوں نے اس بیماری کا جو دنیا بھر میں مسلمانوں کی پسماندگی کی وجہ تھی علاج تجویز کیا. اپنی مقبول کتاب "خطبہ دمشق" میں انہوں نے اس خلاقی زوال کو چھ خانوں میں درجہ بند کیا ہے:
اول: سماجی زندگی میں بڑھتی ہوئی مایوسی اور ناامیدی. دوم: سماجی اور سیاسی زندگی میں سچائی کی موت. سوم: دشمنی سے محبت. چہارم: ان روشن رشتوں سے لا علمی جو ایک مومن کو دوسرے سے مربوط کرتے ہیں ۔ پانچواں: مطلق العنانیت ، جو متعدی امراض. کی طرح وسیع پیمانے پر پھیلتی ہے، ششم ، اعمال اور کوششوں کو ذاتی مفادات تک محدود رکھنا "(3).
تاہم، انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بد اعمالیوں اور اسلام کی خوبیوں کے درمیان ایک حد فاصل کھینچتے ہیں. لہذا، ایک طرف، انہوں نے اسلام کے ابتدائی عرصے میں،جو دور رحمت کہلاتا ہے ، مساوات، انصاف، آزادی، خواتین کو بااختیار بنانے، اور مفادات میں مساوات پر اسلام کی تا کید کو نمایاں کرتے ہیں، تو دوسری طرف وہ مسلمانوں میں پھیلی ہوئی بے راہ روی قرآن مجید میں پیش کردہ اقدار سے انحراف کی بھی تنقید کرتے ہیں۔ شدید تنقید ظاہر ہوتا ہے. ان کا نظریہ ، یہ ہے کہ آج کے مسلمانوں کی سماجی پسماندگی اور اخلاقی زوال کے چار اسباب ہیں:
1.بے مثال قرآنی شریعت کےاحکام پر عمل کرنے میں ناکامی.
2. بعض چاپلوسوں کی غیر منطقی اور غلط تشریحات.
3 کم صواب دید علماء کرام یا عالم نما جہلاء کے غیر موزوں تعصبات ،.
4. بدقسمتی اور انتخاب میں چوک کی وجہ سے ، یورپ کی اچھی باتوں کو جنہیں حاصل کرنا دشوار کام ہے، ترک کردینا ، اور تہذیب کی ان برائیوں کو توتے یا بچوں کی طرح رٹنا ،یا انکی نقالی کرنا، جو انسان کی سفلی خواہشات کے عین موافق ہوں. (4)
نورسی نے مسلمانوں کو مغرب کے متحرک جذبے، دانشورانہ روایت اور ٹیکنالوجی کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کی، مگر اس کے یورپی استعماریت، سرمایہ دارانہ نظام کے اقتصادی استحصال، مارکسزم کے الحاد اور سیکولرزم کے اخلاتی دیوالیہ پن کی مذمت کی۔. ان کا یقین ہے کہ اسلام مسلم معاشروں کے لئے مذہبی سیاسی متبادل فراہم کرتا ہے، اور اسی لئے انہوں نے ماضی کی طرف مراجعت کی تاکہ جدید مسلم معاشروں کے لئے ایک اسلامی ماڈل کی تشکیل نو کے لئے، لازمی انسانی اصول اور آفاقی اقدار کی بازیافت کر سکیں۔
1. Iki Mekteb میں Musibetin Sehadetnamesi veya دیوان میں ہارب میں Örfî، استنبول، Sözler، 1978 Yayinevi، 68.
2. Nursî، Bediüzzaman نے کہا، Münâzarat، استنبول، Envar Nesriyat 1993، 78.
3. امام اسلام و Usul اللہ تعالی Hukm، 1966 بیروت.
4. دیوان I-ہارب میں Örfî، 65-6.
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-ideology/turkish-theologian-reformist-bediuzzaman-saeed/d/10182
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/nursi’s-islamic-model-modern-muslims/d/10809