غلام نبی مدنی ، نیو ایج اسلام
2 جولائی، 2014
’’ہم جب سے مسلمانوں کے خلیفہ بنے ہیں ہم نے مسلمانوں کا کوئی دینار کھایا ہے،نہ کوئی درہم۔البتہ ان کا جھوٹاموٹا (بچا کھچا)کھانا ضرور کھایا ہے اور ایسے ہی ان کے موٹے اور کھردرے کپڑے ضرور پہنے ہیں۔اس وقت ہمارے پاس مسلمانوں کے مال غنیمت میں سے اور تو کچھ نہیں البتہ یہ تین چیزیں ہیں۔ایک حبشی غلام،دوسرا پانی والا اونٹ اور تیسری یہ پرانی اونی چادر۔جب میں مرجاؤں تو یہ تینوں چیزیں حضرت عمرؓ کے پاس بھیج دینا اور ان کی ذمہ داری سے مجھے فارغ کردینا‘‘۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنی وفات کے وقت ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو یہ وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔چنانچہ حضرت عائشہؓ نے اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد یہ تینوں چیزیں ایک قاصد کو دے کر حضرت عمرؓ کے پاس بھیج دیں۔حضرت عمرؓ کے پاس جب یہ چیزیں لائیں گئیں تو آپ رونے لگے اور اتنے روئے کہ آپ کے آنسو زمین پر گرنے لگے۔آپؓ نے فرمایاکہ’’ اللہ ابوبکرؓ پر رحم فرمائے۔انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیاہے‘‘(دنیا میں اجتماعی اموال سے کچھ نہ لینے کا ایسا اونچا معیار قائم کیا ہے کہ بعد والوں کے لیے اسے اختیار کرنا بہت مشکل ہے)۔پھرآپؓ نے اپنے غلام سے فرمایاکہ’’ ان چیزوں کواٹھاکر رکھ لو‘‘۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مسلمانوں کے اجتماعی مال سے اس قدر احتیاط برتنے کا صرف یہی ایک واقعہ نہیں بلکہ اس جیسے کئی واقعات ہیں اور پھر اس طرح کے واقعات صرف حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ تمام صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں اس جیسے واقعات ملتے ہیں۔حضرت ابوبکرؓ کے ان واقعات میں سے ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ جب آپ کو خلافت کی ذمہ داری سونپی گئی تو آپؓ حسب عادت بازار میں تجارت کے لیے تشریف لے جارہے تھے توحضرت عمرؓ نے یہ کہہ کر منع فرمادیا کہ اب آپ پر خلافت کی ذمہ داری ہے اس لیے آپ زیادہ سے زیادہ وقت اس ذمہ داری کے نبھانے میں صرف کریں۔حضرت ابوبکرؓ نے فرمایاکہ کیااس ذمہ داری کے لیے اتنا وقت دینا پڑے گا کہ گھروالوں کے لیے کمانے کا وقت بھی نہ بچے (اگر ساراوقت اسی میں صرف کیا جائے گاتو گھر والوں کوکھلاؤں گا کہاں سے؟۔اس پرحضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لیے اور آپ کے اہل وعیال کے لیے بیت المال سے مناسب مقدار میں وظیفہ مقرکر دیتے ہیں۔چنانچہ صحابہ کرامؓ کے مشورے سے آپؓ کے لیے وظیفہ مقررکردیاگیا۔آپؓ نے دوسال سے زائد عرصہ زمانہ خلافت میں آٹھ ہزار درہم لیے تھے۔لیکن جب موت کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے فرمایاکہ’’ میں نے اس وقت بھی حضرت عمرؓ سے کہا تھا کہ میرے لیے اس مال میں سے لینے کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس وقت عمرؓ مجھ پرغالب آگئے تھے۔لہذاجب میں مرجاؤں تو میرے مال میں سے آٹھ ہزار درہم بیت المال میں جمع کرادینا‘‘۔
یہ دوواقعات عام واقعات کی طرح محض واقعات ہی نہیں بلکہ ان میں تمام مسلمانوں بالخصوص حکمرانوں اور وزیروں مشیروں کے لیے بہت سے رموز ،اسرار اور دروس پنہاں ہیں۔مسلمانوں کا حکمران چاہے وہ امیر ہویاصدر ،وزیراعظم ہویاوزیر خزانہ یا کوئی اور وزیر، وہ مسلمانوں کے اجتماعی اموال کا نہ صرف نگہبان ہوتا ہے بلکہ اس کا امین بھی ہوتاہے۔اس کی ذمہ داریوں میں جہاں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ مسلمانوں سے زکوٰۃ، صدقات اورٹیکس وغیرہ کے ذریعے مال جمع کرے ،وہیں اس کی یہ ذمہ داری بھی ہوتی ہے کہ وہ اس مال کو ضائع ہونے سے بچائے،جہاں جو ضرورت ہو اس کی بقدر خرچ کرے اور فضول خرچی،عیاشی،کرپشن ،بددیانتی اور اقرباپروری جیسی مدوں کی نظر ہونے سے محفوظ رکھے۔ بدقسمتی سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیگر اسلامی اصولوں کی خلاف وزیوں کے علاوہ مسلمانوں کے اجتماعی اموال میں بددیانتی،لاپرواہی اور فضول خرچی کرکے اسلامی احکامات کی دھجیاں اڑائیں جارہی ہیں۔یہ سب کچھ صرف 2014میں نہیں ہورہا بلکہ گزشتہ پینسٹھ سالوں سے ہر دور میں ہوتا رہاہے۔گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کا روزانہ کا خرچہ چالیس لاکھ ہے۔وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ وزیراعظم ہاؤس کا روزانہ کا خرچہ 40لاکھ نہیں ہے بلکہ 10لاکھ ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر قوم کے خزانے سے دس لاکھ خرچ کرناکیا کوئی معمولی بات ہے۔ایک ایسے ملک میں جہاں ایک مزدور کواوسطاً روزانہ دو ڈالر سے بھی کم ملتے ہوں،جہاں غریب آدمی کو دووقت کے لیے روٹی بھی بمشکل ملتی ہو،جس ملک کی 60فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہو،جس ملک میں تھرپارکر اور چولستان کے علاقوں میں انسانیت بھوک کی وجہ سے مررہی ہو،جہاں 6لاکھ آئی ڈی پیزدربدر پھر رہے ہوں،خود ہی فیصلہ کیجیے !کہ اس ملک کا حکمران اگردس لاکھ روزانہ مہمانوں کی ضیافت کی نذرکردے تو یہ اٹھارہ کروڑ عوام کے ساتھ ظلم اور فراڈ نہیں تو اور کیا ہے۔شاہوں کی شاہ خرچیوں کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ گزشتہ ایک سال کے دوران وزیراعظم میاں نوازشریف نے 9غیر ملکی دوروں پر19کروڑدس لاکھ سے زائدروپیے قوم کے خزانے سے خرچ کیے۔یہ شاہ خرچیاں صرف وزیراعظم نے ہی نہیں کیں بلکہ قومی اسمبلی کے تقریباً ہر ممبرنے قوم کے خزانے کی اس’’ بہتی گنگا ‘‘میں دل کھول کر ہاتھ دھوئے ہیں۔یقین نہ آئے تو حالیہ بجٹ اجلاس کی صرف کھانے کی رپورٹ دیکھ لی جائے۔اس رپورٹ کے مطابق بجٹ اجلاس کے دوران قوم کی نمائندگی کرنے والے اراکین قومی اسمبلی نے پندرہ دنوں میں قوم کے خون پسینے کی کمائی سے ایک کروڑ کا کھا نا کھایا۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان پندرہ دنوں میں قومی اسمبلی کے 342رکنی ارکان کی تعدداکسی دن بھی 200تک نہ پہنچ سکی ،پھر بھی روزانہ600افراد کے کھانے پر سات لاکھ بیس ہزار روپیے خرچ کیے گئے۔
حکومتی ایوانوں میں قوم کے جیبوں سے پیسے نکال کر کس طرح عیاشیاں کی جاتی ہیں ان کی مکمل تفصیلات تو سربستہ راز ہیں۔مذکورہ اعداد وشمار تو وہ ہیں جو کسی طرح میڈیا کے ذریعے سامنے آگئے۔ان دوتین رپورٹوں سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام کے نمائندے کس طرح لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔آج اگر ملک میں بے روزگاری ،غربت،مہنگائی،کرپشن،بددیانتی،خودکشی اور رشوت خوری جیسے مسائل عروج پر ہیں تو اس کی اصل وجہ انہی حکمرانوں کی عیاشیاں ہیں۔اٹھارہ کروڑ مسلمانوں پر حکومت کرنے والے ان حکمرانوں کو خلفاء راشدین بالخصوص حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فارقؓ کے دورحکومت سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح انہوں نے عوام کے خزانے کی دیکھ بھال کی اور کیسے عوام سے جمع کی ہوئی رقوم کو عوام کی ضروریات میں استعمال کیا۔ان عظیم خلفاء کے عہدِزریں میاں نواز شریف ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے حکمرانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔یقیناانہی کی راہ پر چل کر امت مسلمہ غلامیت اور مغلوبیت سے نکل کرغالب اور ترقی کی راہ پرگامزن ہوسکتی ہے۔بصورتِ دیگر اگر ان شاہوں کی شاہ خرچیاں اسی طرح جاری رہیں تو بہت جلد یہ شاہ نشان عبرت بن جائیں گے،کیوں کہ ظلم کی عمر زیادہ لمبی نہیں ہوتی۔ا س لیے آنکھوں والوں کونشان عبرت بننے سے پہلے عبرت حاصل کرلینی چاہیے۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/lavish-lifestyle-kings-/d/97850