New Age Islam
Tue Sep 10 2024, 10:15 AM

Urdu Section ( 14 March 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Two Faces of Jamiat Ulama-i Hind in Holy Ajmer اجمیر مقدس میں جمعیۃ علماء ہندکے دو چہرے


غلام مصطفی رضوی ، نیو ایج اسلام

[نوری مشن مالیگاؤں]

    علماے دیوبند نے ’’تقویۃ الایمانی عقائد‘‘ کی دعوت و تبلیغ کے لیے انتھک کوششیں کیں۔ بانیانِ فرقۂ دیوبند مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی قاسم نانوتوی نے صاحبِ تقویۃ الایمان؛ مولوی اسماعیل دہلوی کے -وہابی نظریات- کی اشاعت میں سرفروشانہ حصہ لیا۔ جس پر ’’فتاویٰ رشیدیہ‘‘، ’’ملفوظاتِ حکیم الامت‘‘، ’’تذکرۃ الرشید‘‘ جیسی کتابیں شاہد ہیں۔ مولوی علی میاں ندوی نے اسی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ’’تقویۃ الایمان‘‘ پر حاشیہ بھی لکھا اور اپنی وہابیت پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔ انھیں کے عقائد و نظریات کی دعوت و تبلیغ میں دو جماعتیں پیش پیش رہیں:

(١) تبلیغی جماعت

(٢) جمعیۃ علماء ہند

    اول الذکر جماعت دیوبندیت کا -اصلاح و نماز- کے نام پر تعارف کرانے میں پیش پیش ہے۔ تبلیغی نصاب/فضائل اعمال کے نفاذ کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ ان کا نظام بدعتوں کا مجموعہ ہے۔ ان میں دو گروہ ہوئے: ’’شورائی‘‘ اور ’’سعدیانی‘‘۔ یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر ان کے مناقشے کی روشنی میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔

دوچہرے والی جماعت:

    آخرالذکر جماعت’’جمعیۃ علماء‘‘ دیوبندی فرقہ کی تبلیغ کے لیے سیاسی، سماجی و فلاحی رُخ سے مدت سے سرگرمِ عمل ہے۔ یہی وہ جماعت ہے جو مساجدِ اہلِ سُنّت پر دیوبندی قبضہ کے لیے جدوجہد کرتی آئی ہے۔ سُنّی مساجد کے ٹرسٹ میں تخریبی طرز پر ہم خیال افراد کو داخل کرنے میں زور لگاتی ہے۔ کاغذی ذرائع سے مساجد پر قبضہ کے لیے زمین ہم وار کرتی ہے۔ کیسز لڑتی ہے۔ اہلِ سُنّت کے خلاف کورٹ کچہری کے معاملات سنبھالتی ہے۔ نئے علاقوں میں قائم ہونے والی مساجد اہلِ سُنّت کی راہ میں کانٹے بچھاتی ہے۔

    جمعیۃ علماء کا دوسرا چہرہ یہ ہے کہ عوام میں اتحاد کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ باہمی میل جول کی باتیں کی جاتی ہیں۔ سماجی خدمات کے نام پر سُنّی بستیوں میں قدم جمانے کی تگ و دو کی جاتی ہے۔ سُنّی صاحبانِ جاہ ومال سے تعلقات استوار کیے جاتے ہیں۔ فلاحی و سماجی خدمات کی آڑ میں بھولے بھالے مسلمانوں سے خوب چندہ بٹورہ جاتا ہے۔ فرقہ پرستوں کی طرف سے مقدمات میں پھنسائے گئے وہابی  نوجوانوں کی رہائی کے لیے کیسز لڑنے کے لیے مال و منال جمع کیے جاتے ہیں۔اس طرح خود کو نیوٹرل، غیر جانب دار بتایاجاتا ہے۔بلکہ مساجد کے محافظ ہونے کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ قحط زدہ، سیلاب زدہ علاقوں کی اُجڑی مساجد کی تعمیرِ نو کی آڑ میں سُنّی مساجد میں وہابی امام متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اولیاء اللہ کے ناموں سے گریز کیا جاتا ہے۔(فی الحال اس رُخ سے ابھی حالات تبدیل ہوئے ہیں، اور سُنّی علاقوں میں اولیاے کرام کے نام استعمال کیے جا رہے ہیں۔) اپنے مولویوں کے نام سے علاقے، کالونی، ادارے، زون بناتے ہیں۔

وہابیت اور دہشت گردی:

    اس وقت چوں کہ ساری دُنیا میں وہابی دہشت گردی سے بیزاری پائی جا رہی ہے۔ یہ بات دُنیا جان گئی ہے کہ صوفیاے کرام/اولیاے اسلام کے دامن سے وابستہ طبقہ -اہلِ سُنّت و جماعت- نے ہمیشہ امن و اخوت کا پیغام دیا۔ اصل اسلام پر عمل کا درس دیا۔ اسی لیے ایک نومسلم برطانوی پروفیسر ڈاکٹر محمد ہارون نے کہا تھا کہ: ’’Sunni Islam is a true Islam.‘‘  سُنّی اسلام ہی سچا اسلام ہے… جن طبقوں نے تشدد کی آبیاری کی۔ دُنیا میں نفرتوں کو بڑھاوا دیا۔ مسلمانوں سے قتال کیا۔ جہاد کی غلط تعبیر کی اور وہابیت کی اشاعت کے لیے متشدد فکر کو پروان چڑھایا؛ ان کے ذریعے اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو بڑھاوا ملا۔اس ضمن میں راقم نے اپنے ایک مقالے میں لکھا تھا:

    ’’جہاد اسلام کا ایک مقدس فریضہ ہے۔ آج افسوس کا مقام ہے کہ وہابیت اپنے مسلک کی اشاعت کے لیے جہاد کی آڑ لے رہی ہے۔ یہ اسلام کو بد نام کرنے اور یہود و انگریز کے عزائم کو کام یاب بنانے کے لیے ’’تشدد‘‘ کو ’’جہاد‘‘ اور ’’وہابیت‘‘ کو ’’اسلام‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔ تاریخی تناظر میں امین الحسنات شاہ لکھتے ہیں: ’’ایک انتہائی قابلِ غور نقطہ یہ ہے کہ انگریزوں سے ساز باز کر کے وادیِ حجازِ مقدس سے ترکوں کی حکومت کے خاتمے اور مخصوص فکر(وہابیت) کی حامل حکومت کے قیام میں جس ’’جہاد‘‘ نے بنیادی کردار ادا کیا اسی جہادی پالیسی کو بالا کوٹ کے مضافات میں آزمایا گیا، اور آج وہی ’’جہاد‘‘ مالا کنڈ ڈویژن … میں جاری ہے۔‘‘ (ضیاے حرم لاہور جون۲۰۰۹ء، ص۸)

    وہابیت کی نظریاتی پرچارک شدت پسند تنظیمیں طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، سپاہ صحابہ، حرکت الانصار، حزب المجاہدین وغیرہ کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے امین الحسنات شاہ لکھتے ہیں: ’’نوجوانوں کو مختلف حیلوں سے تربیتی کیمپوں میں لایا جاتا، اور سب سے پہلے انھیں ’’وہابی نظریات‘‘ ازبر کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، جو نوجوان ان کے عقائد و نظریات قبول کر لیتا وہ کمانڈو بن جاتا اور جو پس و پیش کرتا اسے خود گولی مار کر اس کے سر پر شہادت کا تاج سجایا جاتا اور اس کی لاش کو مزید مادی وسائل اور چندہ سمیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا۔‘‘ (حوالہ سابق ص۹) اس طرح گویا لاشوں پر تجارت کی جاتی ۔‘‘

    تنویر قیصر شاہد نے روزنامہ ایکسپریس کراچی کے شمارہ ۱۹؍جولائی ۲۰۱۰ء میں جیش محمد ایسی تنظیموں کو مولانامحمود مدنی (جمعیۃ علماء)کا ہم مسلک لکھا تھا۔(دہشت گردی کے پیچھے چھپا فتنہ،ص۵۵)

اجمیر مقدس میں حاضری- اسلامی عمل یا شرک؟

    اجمیر مقدس جمعیۃ علماء کی حاضری کے پس منظر میں پہلے  وہابی فکر کا تجزیہ کرتے ہیں.... تقویۃ الایمان (از اسماعیل دہلوی، طبع مکتبہ خلیل غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور،حاشیہ از ابوالحسن علی ندوی)کے ص۲۵؍ پراسماعیل دہلوی نے جن ناموں پر اعتراض کیا ہے ان میں ایک اہم نام ’’غلام معین الدین‘‘ بھی ہے۔ جس پر علی میاں ندوی نے حاشیہ میں توضیح کی: ’’معین سے مراد خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہیں……‘‘(ایضاً، حاشیہ:ص۲۶)آگے اس طرح کے ناموں کی نسبت لکھتے ہیں:’’اوپر جن ناموں کا ذکر ہوا سب ازروئے شرع غلط ہیں، جن سے بزرگوں میں قدرت و تصرف کی بو آتی ہے۔‘‘(ایضاً)

    جمعیۃ علماء کے مولوی صاحبان کے -اجمیر مقدس چادر چڑھانے- کے عمل کو انھیں کے بزرگ علی میاں ندوی کی فکر کی رو سے دیکھتے ہیں؛ علی میاں ندوی کسی بزرگ کی بارگاہ میں چادر چڑھانے سے متعلق ’’بدعت‘‘ کا حکم اور اس کے عامل کو’’اہل غلو‘‘ ان لفظوں میں قرار دیتے ہیں: ’’مردوں اور قبروں کی تعظیم کے سلسلہ میں اہل غلو بزرگوں کی قبروں اور مزارات پر کپڑے اور چادر چڑھانے کے عادی ہو گئے ہیں اور ان کے ساتھ وہ معاملہ کرتے ہیں جو زندہ بزرگوں اور مشائخ کے ساتھ کیا جاتا ہے، یہ بدعت ہے۔‘‘(ایضاً،ص۳۴)

    بہر کیف! اس زمانے میں جہان بھر میں وہابیت کا شدت پسندانہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ اس لیے وہابیت اپنے تحفظات کے تئیں سنجیدہ ہے۔ اسی کے لیے اجمیر مقدس بھاگ دوڑ کی جا رہی ہے۔ جب کہ ان کی یہ دوڑ دھوپ انھیں کے عقیدے کی رو سے بدعت و شرک سے کم نہیں۔ساری زندگی حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضری پر تنقید کرنے والے آج اجمیر شریف جا رہے ہیں۔ اجمیر شریف حاضری کے خلاف- تبلیغی جماعت- میں نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے والے اجمیر شریف جا رہے ہیں۔ اجمیر مقدس کو صرف ’’اجمیر‘‘ کہنے کی کوشش کرنے والے اجمیر شریف جا رہے ہیں۔ اجمیر شریف کی شرافت کے- منکر- اجمیر شریف جا رہے ہیں۔ یہ محنت، یہ تگ و دَو، یہ جدوجہد کیوں کی جا رہی ہے؟ فلاحی کیمپ کیوں لگائے جا رہے ہیں؟ اخبارات میں دیوبندی فرقے کی نمائندہ تنظیم جمعیۃ علماء کیوں اجمیر شریف کے نام سے اپنی رپورٹس چھپوا رہی ہے؟ مقصد یہ ہے کہ اب صوفیاے کرام کے دامن میں پناہ لے کر دُنیا بھر میں ’’وہابی دہشت گردی‘‘کے ٹائٹل کو دور کیا جائے۔ پوری دیوبندی لابی کو سُنّی باور کروایا جائے۔ اور یہ ذہن دیا جائے کہ تشدد کی وارداتیں کوئی اور انجام دیتا ہے! ہم تو امن پسند لوگ ہیں۔ حالاں کہ ان کی یہ تمام کوششیں ناکام رہیں گی۔ اس لیے کہ مدتوں سے جس بیج کو ان کے عقائد کے حاملین نے بویا ہے؛ اب اُس کے نتیجے میں کیکر، ببول، تھوہڑ، دَھتورے ہی اُگ رہے ہیں۔ انھیں کی کاشت ہو رہی ہے۔ صوفیاے کرام کی بارگاہوں میں مفاد کی یہ حاضری پوشیدہ نہیں رہی! اسی لیے اخبارات میں چیخ و پُکار کی جا رہی ہے کہ؛ ہم نے فلاں سال بھی حاضری دی، بعض علماے دیوبند کی حاضری کے ریکارڈ بھی تلاش کیے جا رہے ہیں! کڑیاں ملائی جا رہی ہیں۔

آج لے اُن کی پناہ:

    فلاحی کام ضرور کرنا چاہیے۔ اہلِ سُنّت ساری دُنیا میں پیغامِ خواجۂ اجمیر کی ترسیل کے لیے سماجی و فلاحی کام انجام دیتے چلے آئے ہیں۔ اور دیتے رہیں گے۔ امسال حالیہ عرسِ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ پر جمعیۃ علماء نے اخباری بیان میں جو خواجہ صاحب کے مسلکِ خدمت خلق پر عمل کا دعویٰ کیا ہے، اس پردو قدم آگے بڑھ کر ہم جمعیۃ علماء ہند سے گزارش کریں گے کہ وہ مسلکِ خواجہ غریب نواز اور مسلکِ اولیاے کرام پر بھی عمل کے لیے پیش قدمی کرے! لگے ہاتھوں ان جراثیم کے خاتمے کی بھی جدوجہد کرے؛ جو مسلکِ خواجہ غریب نواز سے انحراف کی بنا پر ان کے اکابرنے اپنی کتابوں میں تحریر کیے۔ خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے رسول پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عظمتوں کے نقوش دلوں میں بٹھائے؛ اب جمعیۃ علماء بھی مسلکِ خواجہ کو اپنا کر ان سے سچی عقیدت کا اظہار کرے۔ ورنہ جن کے آگے پتھر ہے وہ تو صدیوں سے اجمیر جا رہے ہیں، خواجہ سے بغیر عقیدے کی عقیدت وہ بھی رکھتے ہیں؛ خواجہ کے نام پر وہ بھی سماجی خدمت کا اظہار کرتے ہیں،بلکہ ان کی سماجی خدمات کے آگے جمعیۃ کے چند سالوں کی کوئی حیثیت نہیں! لیکن نرے مشرک ہی ہیں، تو جو گستاخیِ رسالت کے مجرم ہیں،وہ اگر سماجی خدمات کے نام پر خواجہ کی نگری پہنچنے لگیں؛ تو ان کا داغِ توہینِ رسالت نہیں دُھلنے والا،… ان سے عرض ہے کہ اب بھی وقت ہے، تعلیماتِ خواجہ غریب نواز کو قبول کر لیں، ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں بے ادبی/گستاخی/توہین سے توبہ کر لیں، ’’حسام الحرمین‘‘ میں علماے حرمین نے جمعیۃ علماء کے اکابر کی جن توہین آمیز و کفریہ عبارتوں پر فتویٰ کفر صادر فرمایا؛ ان عبارتوں سے براء ت ظاہر کر یں… تا کہ دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہو اوردل کی دُنیا میں احترام/تعظیم/ادب کی چاندنی پھیل جائے:

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے

پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

١٣ مارچ ٢٠١٩ء

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/two-faces-jamiat-ulama-i/d/118018


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..