غلام غوث
14 مارچ، 2015
مذہبی حضرات یہ کہتے نہیں تھکتے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں، مگر سچائی یہ ہے کہ وہ 1958 کی جنگ آزادی سے پہلے ضرور اسلام کے قلعے تھے مگر آج نہیں ہیں ۔ 1958 سے پہلے ہندوستان میں موجودہ طرز کے نہ اسکول تھے اورنہ ہی کالج، صرف مدرسے تھے جہاں دینی اور عصری دونوں علوم پڑھائے جاتے تھے ۔ ظہور اسلام سے لے کر 1958 تک ہر اسلامی ملک میں خصوصاً ہندوستان میں تعلیم کو الگ الگ دو شعبوں میں نہیں رکھا گیا تھا ، یہ بدلاؤ صرف انگریز وں کے دور حکومت میں آیا، اس سے پہلے مدرسوں ہی سے حافظ قرآن، عالم، مفتی ، انجینئر ، ڈاکٹر ، ملٹری جنرل، سیاسی ماہرین اور بزنس مین سب نکلتے تھے اور اپنی اپنی فیلڈ میں کام کرتےتھے ، انگریزوں کو اپنی حکومت چلانے کے لئے شدت سے ایسے لوگوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو انہیں کی زبان انگریزی میں یہ کام کرسکتے تھے۔ اگر وہ چاہتے تو اس وقت کے نظام تعلیم ہی دونوں علوم کو رائج کرسکتے تھے، مگر عام مسلمان ان سے نفرت کرتا تھا اور انہیں مکار اور قابض قوم سمجھتا تھا اور اس کوشش میں لگا تھا کہ کسی نہ کسی طرح ان کی غلامی سے آزاد ہوجائے۔ مسلمانوں کو اس بات کا غرور بھی تھا کہ انہوں نے700 سال تک ہندوستان پر حکومت کی اور اپنی زبان اردو فارسی کو فروغ دیا تھا۔
انگریزوں سے دشمنی انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ ان کے عصری علوم کو اپنے مدرسوں میں سکھائیں ۔ یہ ایک قدرتی رد عمل تھا جسے ہم موجودہ دور کے آئینہ میں دیکھ کر رائے قائم نہیں کرسکتے ۔ اُدھر انگریزوں نے ہندوستان کو عیسائی بنانے کی مہم شروع کردیے تھے جس سے مسلمانوں نےبہت بڑا خطرہ محسوس کیا اور اسی کی بنیاد پر پہلی مرتبہ تعلیم کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ۔ ایک دینی تعلیم اور دوسری عصری تعلیم ۔ دینی تعلیم صرف قرآن اور حدیث تک محدود ہوگئی، اسلام کی یہ خوبی ہے کہ بچہ پیدا ہونے سے لے کر بڑا ہونے تک اسے گھر میں یا مسجد کی مکتب میں دین کی ابتدائی تعلیم ضرور دی جاتی ہے اور اسکول میں عصری تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ مذہبی علم سے وابسطہ رہتا ہے۔ ہندوستان میں دو تحریکوں کا آغاز ہوا۔ عصری تعلیم کی تحریک سر سید احمد خان نے کی جب کہ مذہبی تعلیم کی تحریک مولانا نوتوی نے کی ۔ ایک نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی قائم کی تو دوسرے نے دارالعلوم دیوبند قائم کیا ۔ یہ دونوں حضرات دہلی کالج کے استاد مولانا مملوک علی کے شاگرد تھے اور تحریک ولی اللہ کے علمبردار تھے ۔ آج ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں مدارس کی تعداد 86 ہزار ہے جہاں بچوں کو دینی، اخلاقی اور روحانی تعلیم دی جاتی ہے، اس کے علاوہ بے شمار مکاتب بھی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ تعلیم کے اسی ایک ذریعہ سے مسلمانوں کی ہمہ جہتی ترقی ممکن نہیں ہے۔ عصری تعلیم بھی یکطرفہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اس عدم توازن کو دور کرنا او رمکمل تعلیم کا نظام قائم کرنا آج کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اب ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ اس آزاد ہندوستان میں کیا ہم دوبارہ پہلے والے تعلیمی نظام کو قائم کر سکتے ہیں جہاں دین بھی ہو اور دنیا بھی ہو ۔ بچہ 12 سال تک ہلکی پرائمری تعلیم کے ساتھ حافظ قرآن ضرور بن جائے گا اور پھر میٹرک تک عصری اور دینی علوم عمومی (General) حد تک حاصل کرلے گا۔ اس کے بعد ایک طرف وہ عالم و فاضل کے جنرل سبجکٹ کے ساتھ سائنس ، کامرس یا آرٹس کے سبجکٹ کی بنیادی معلومات حاصل کرکے گریجویٹ بن سکتا ہے ۔ گریجویٹ بننے کےبعد وہ ماہر بننے (Specialisation) کی طرف توجہ دے سکتا ہے۔ پھر وہ عالم یا مفتی کا کورس لے کر ماہر بن سکتا ہے یا تاریخ ، معاشیات، انجینیرنگ ، میڈیکل اور دیگر کورس لے سکتاہے ۔ یہ راستے وہ بارہویں جماعت میں پڑھتے ہوئے بھی چن سکتا ہے ۔ اس طرح ہر مسلمان دین او ردنیا دونوں علوم سے آراستہ ہوسکتا ہے۔ یہ طریقہ ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اور الامین کالجوں اور دیگر مسلمانوں کے کالجوں میں بھی رائج کرسکتے ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند ، بریلی شریف اور سبیل الرشاد اور دیگر مدرسوں میں بھی رائج کرنے کے متعلق سوچ سکتے ہیں ۔ آج گلی گلی میں دارالعلوم کےناموں سے مدرسے کھل رہے ہیں جہاں کوئی منظّم تعلیمی نظام نہیں ہےاور جہاں سےکوئی بھی عالم و فاضل نکل نہیں سکتا ۔ دراصل یہ Self employment schemes میں جہاں مدرسوں سےنکلے ہوئے بے روزگار نوجوان اس دھندے میں ملوث ہوجاتےہیں ۔ آج ہمیں ایسے بڑے بڑے مدرسے چاہیے جہاں باقائدہ تعلیمی نظام ہو اور جہاں سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کی ملازمت مل سکے۔ اور وہ ایک باوقار زندگی گزار سکیں ۔
اس لئے ہر ایسے بڑے مدرسے میں ITIs قائم کرنا چاہئے او ردینی تعلیم کو بھی روزی روٹی اور ملازمت سے جوڑ ناچاہئے ۔ امریکہ کےشہر آسٹن میں میری ملاقات ایک مسجد کے ایسے امام سےہوئی جن کانام اسلامی مالسی ہے (islamimalsi@gmail.com) آپ کیمکل انجینئر نگ میں ماسٹر ہیں۔ آپ نے مسجد کی امامت کو چنا تاکہ وہ قوم کی خدمت کرسکیں ۔ خود شہر بنگلور میں مولانا محمد اسحاق صاحب کے فرزند عالم بھی ہیں اور انجینئر بھی ہیں۔ میری ملاقات ایسے بےشمار مذہبی لوگوں سے ہوئی ہے اور میں محسوس کیا ہے کہ یہی لوگ ملت مسلمہ کی صحیح رہنمائی کرسکتے ہیں ۔ اگر ہمارے مدارس ایسے نوجوانوں کو پیدا کر سکتےہیں تو واقعی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور ہمیں ان پر بجا طور پر فخر ہونا چاہئے ۔ اس کے بر عکس میں اکثر مساجد میں ایسے اماموں کو دیکھتا ہوں جو انگریزی تو انگریزی اردو اخبار بھی نہیں پڑھتے اور حالات حاضرہ سے با لکل لا علم رہتےہیں او راپنے خطبات میں وہی گھسی پٹی باتیں کر تے ہیں ۔ اس لئے اکثر مسلمان جمعہ کی نماز میں آخری وقت میں آتے ہیں اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ مسجد کی کمیٹیوں سےمیری گزارش ہے کہ وہ ہر امام اور موذن کے گھر ایک اردو اخبار ڈلوائے اور اماموں کو باشعور بنائے۔ مذہبی حضرات سےگزارش ہے کہ وہ یوروپ اور امریکہ اور ہندوستان میں اسلام پر لکھی ہوئی نئی انگریزی کتابوں کامطالعہ کریں اور اپنے آپ کونئی نئی تحقیقات اور حالات حاضرہ سے آراستہ کریں اور ان معلومات کو عوام تک اپنے جمعہ کے خطبوں کے ذریعہ پہنچائیں ۔ اس سےعام مسلمانوں میں شعور پیدا ہوگا اور وہ موجودہ مسائل کو جان کر صحیح راستہ اختیار کرسکیں گے۔
14 مارچ، 2015 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/religious-seminaries-certainly-become-islam/d/101962