شریعت ،طریقت اور حقیقت کا باہمی ربط وتعلق
غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی مشہور حدیث جبریل میں دین حنیف کو تین بنیادی ارکان میں تقسیم کیا گیا ہے، جو اس طرح ہیں: (۱) رکن اسلام ، (۲) رکن ایمان اور (۳)رکن احسان۔اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ ارشاد فرماناہے (فانہجبریل أتاكم يعلمکم دينکم)، ترجمہ: ’’یہ جبریل ہیں جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لئے آئے ‘‘۔ (دیکھئے: صحیح مسلم، کتاب الایمان، مسند امام احمد، باب الایمان و الاسلام وا لاحسان، ج ۱ ص۶۴)
(1) رکن اسلام
یہ دین کا عملی پہلو ہے جس کا تعلق جسم کے ظاہری اعضاء سے ہے اور جس میں عبادات ، معاملات اور دیگر دینی امورشامل ہیں جن کی تعمیل کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ۔اہل علم دین کی اصطلاح میں اس کو شریعت کہتے ہیں۔اس پہلو کی تحقیق و تشریح میں فقہائے کرام کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔
(2)رکن ایمان
یہ دین کا وہ اعتقادی پہلو ہے جس کا تعلق قلب سے ہوتا ہے جس میں اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں ، یوم آخرت اور قضاء و قدر پر ایمان لانا شامل ہے۔ اس پہلو کی تحقیق کاسہرا علم کلام کے ماہرین کے سر ہے۔
(3) رکن احسان
یہ دین کا خالص ، روحانی اور قلبی پہلو ہے۔ جیساکہ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو ، اگر تم یہ مقام حاصل نہ کر پاؤ تو تم اللہ کی عبادت اس طرح کرکہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ اس تیسرے پہلو میں وہ تمام عرفانی احوال و مقامات ، وجدانی ذوق اور علوم لدنیہ شامل ہیں۔ جو مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق عبادت کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں۔ علماء کی اصطلاح میں اسے حقیقت کہتے ہیں۔اس پہلو کی توضیح و تشریح کا حق صوفیائے کرام نے ادا کیا ہے۔
شریعت اور حقیقت کے باہمی ربط و تعلق کا اندازہ اس مثال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ مثلا اگر نماز کو اس کے ظاہری اعمال و حرکات اور فقہائے کرام کے بیان کردہ ارکان و شرائط کے مطابق ادا کیا جائے تو اسے شریعت کا نام دیا جا سکتا ہے۔اور اگر نماز میں حضور قلب اور خشوع و خضوع حاصل ہو جائے تو اسے حقیقت کہتے ہیں ۔اور یہی روح نماز ہے۔
اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ نماز کے ظاہری اعمال اس کے جسم کے مانند ہیں اور اس میں خشوع و خضوع اس کی روح ہے ۔روح کے بغیر جسم کا کوئی فائدہ نہیں۔ تو جس طرح روح اپنے قیام کے لئے ایک جسم کی محتاج ہے اسی طرح جسم کو ایک روح کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جیساکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اقیمو الصلوۃ واٰتو الزکوۃ (سورۃ البقرہ:110)
ترجمہ : ’’نماز کو (صحیح سے) قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو‘‘۔
نماز قائم کرنے کا مفہوم یہ کہ اس کو جسم اور روح کے ساتھ ادا کیا جائے۔ یہی وجہ کہ اللہ عزوجل نے یہ نہیں فرمایا کہ نماز پڑھو۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت اور حقیقت کے درمیان اسی طرح گہرا تعلق ہے جس طرح جسم اور روح کے درمیان ۔ کامل مومن وہی ہے جو شریعت اور حقیقت کا جامع ہو۔یہی وہ تعلیم ہے جس کی طرف صوفیائے کرام اور اولیائے عظام راہنمائی فرماتے ہیں۔وہ قرآن وسنت کے مطابق عمل کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر گامزن رہتے ہیں۔
کامل مومن ہونے اور اس کے اعلی مقام کو حاصل کرنے کے لئے راہ طریقت کو اختیار کرنا ضروری ہے۔ یعنی کسی مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر مجاہدۂ نفس کرنا اور ناقص صفات کو صفات کاملہ کے ساتھ تبدیل کرتے ہوئے معرفت الہی کی منزل تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ گویا طریقت وہ پل ہے جو سالک کو شریعت سے حقیقت تک پہنچا دیتا ہے۔
یہاں مزید وضاحت کرنا ضروری ہے کہ دینِ اسلام میں اصل شریعت ہے اور اِس کی فرع طریقت ہے۔ شریعت سرچشمہ و منبع ہے اور طریقت اِس سے نکلا ہوا دریا ہے۔ طریقت کو شریعت سے جدا تصور کرنا غلط ہے۔ شریعت پر طریقت کا دار و مدار ہے۔ شریعت ہی معیار ہے۔ طریقت میں جو فیض ہے اور جو کچھ منکشف و مکشوف ہوتا ہے وہ شریعت ہی کے اِتباع کا صدقہ ہے۔ پس جو شخص طریقت، معرفت، حقیقت، سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شریعت مطہرہ کو جھٹلائے، مخالفت کرے اور رد کرے وہ بے دین ہے۔ اس کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جس طریقت میں شریعت کا پاس و لحاظ نہ ہو وہ بے دینی ہے اور جس شریعت کے ساتھ طریقت و معرفت نہ ہو وہ بھی ناقص اور ادھوری ہے۔ ظاہری اعمال کے ساتھ باطنی پاکیزگی کا حسین امتزاج ہی ہمارا نکتۂ امتیاز ہے۔
علی بن محمد سید شریف جرجانی (740 تا 816ھ،1339 تا1413 ء) اپنی کتاب ’’تعریفات‘‘ میں فرماتے ہیں: (الطريقة هي السيرة المختصة بالسالكين إِلى الله تعالى، من قطع المنازل والترقي في المقامات)
ترجمہ: ’’طریقت سے مراد وہ مخصوص طرز عمل ہے جس کو سالکین معرفت الٰہی کی منازل طے کرنے اور اعلی مقامات کے حصول کے لئے اختیار کرتے ہیں‘‘۔ (دیکھئے: تعریفات سید جرجانی، ص 94)
اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ شریعت اساس و بنیاد ہے اور طریقت اس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ اور حقیقت ان پر مرتب ہونے والا ثمرہ ہے۔ ان تینوں چیزوں کا آپس میں بہت گہرا ربط و تعلق ہے ۔ جس نے شریعت کو مضبوطی سے تھام لیا وہ راہ طریقت پر چلتا ہوا حقیقت تک پہنچ جائے گا ۔ ان میں نہ تو کوئی تعارض ہے اور نہ ہی کوئی تناقض ۔
اسی وجہ سے صوفیائے کرام فرماتے ہیں: ’’کل حقیقۃ خالفت الشریعۃ فھی زندقۃ‘‘ یعنی ’’ہر حقیقت جو شریعت کے مخالف ہو وہ زندیقی ہے‘‘۔
تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حقیقت ، شریعت کے مخالف ہو کیونکہ شریعت پر عمل کرکے ہی تو سالک کو حقیقت تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔
مشہور صوفی فقیہ امام احمد زروق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (لا تصوف إِلا بفقه، إِذ لا تعرف أحكام الله الظاهرة إِلا منه. ولا فقه إِلا بتصوف، إِذ لا عمل إِلا بصدق وتوجه لله تعالى. ولا هما [التصوف والفقه] إِلا بإِيمان، إِذ لا يصح واحد منهما دونه. فلزم الجميع لتلازمها في الحكم، كتلازم الأجسام للأرواح، ولا وجود لها إِلا فيها، كما لا حياة لها إِلا بها، فافهم)
ترجمہ: ’’فقہ کے بغیر تصوف کا کوئی تصور نہیں ۔ کیونکہ فقہ ظاہری احکام کو جاننے کا ذریعہ ہے ۔ اور اسی طرح فقہ تصوف کے بغیر نامکمل ہے۔ کیونکہ کوئی ظاہری عمل صدق نیت اور رضائے الٰہی کے بغیر مقبول نہیں۔ اور اسی طرح تصوف اور فقہ کی بنیاد ایمان پر ہے۔ کیونکہ بغیر ایمان کے نہ فقہ مقبول ہے اور نہ ہی تصوف‘‘ ۔ (دیکھئے: قواعد التصوف للشیخ احمد زروق، قاعدۃ 3، ص3)
اس سے معلوم ہوا کہ ان تینوں ارکان پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ جس طرح جسم اور روح آپس میں لازم و ملزوم ہیں کہ روح کا وجود جسم کے بغیر ممکن نہیں۔ اور ایسے ہی جسم کی زندگی روح کے بغیر ممکن نہیں۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(من تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق۔ومن تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق ومن جمع بینھما فقد تحقق)
ترجمہ : ’’جس نے تصوف کو اپنایا اور فقہ سے بے خبر رہا ، وہ زندیق ہوا۔ اور جس نے علم فقہ کو سیکھا اور تصوف پر عمل پیرا نہ ہوا ، وہ فاسق ہوا۔ اور جس نے ان دونوں کو جمع کر لیا ، اس نے حقیقت کو پا لیا‘‘۔ (دیکھئے: شرح عين العلم وزين الحلم" للإِمام مُلا علي القاري ج1. ص33)
پہلا شخص زندیق اس لئے ہوا کیونکہ اس نے حقیقت کو شریعت سے جدا تصور کیا ۔ اس لئے و ہ جبریہ کے عقائد کی طرف مائل ہو گیا اور کہنے لگا کہ انسان کو کسی بھی معاملہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں۔
دوسرا شخص اس لئے فاسق ہو گیا ، کیونکہ اس کے دل میں تقوی کا نور اور اخلاص داخل نہ ہوا۔ نہ ہی اس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا تاکہ اس کو معصیت سے روکتا اور شریعت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لیتا۔
تیسرے شخص نے حقیقت تک رسائی اس لئے حاصل کی ، کیونکہ اس نے دین کے تمام ارکان یعنی ایمان ، اسلام اور احسان کو جمع کیا ، جس کا ذکر حدیث جبریل میں آیا ہے۔
جس طرح علمائے ظاہر حدود شریعت کی حفاظت کرتے ہیں، اسی طرح صوفیائے کرام تصوف کے آداب اور اس کی روح کی حفاظت کرتے ہیں۔
جس طرح علمائے ظاہر کے لئے جائز ہے کہ وہ ادلہ شریعت کی حفاظت کرتے ہیں ، اسی طرح صوفیائے کرام تصوف کے آداب اور اس کی روح کی حفاظت کرتے ہیں۔
جس طرح علمائے ظاہر کے لئے جائز ہے کہ و ہ ادلہ شریعت کے استنباط اور حدود و فروع کے تعین کے لئے اجتہاد کریں ، اور ان چیزوں پر حلت و حرمت لگائیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں واضح طور پر نہیں بیان کیا گیا ۔ اسی طرح عارفین اور صوفیائے کرام کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ مریدین اور سالکین کی اصلاح و تربیت کے لئے آداب اور طریقے مستنبط کریں ۔
سلف صالحین ،عارفین ،صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے حقیقی اسلام کی معرفت حاصل کر لی تھی۔ کیونکہ وہ شریعت ، طریقت اور حقیقت پر بیک وقت عمل پیرا رہے۔ کیونکہ وہ خود ان سنہری اصولوں پر عمل پیرا تھے۔ اس لئے انہوں نے دوسرے لوگوں کی بھی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کی۔
حاصل کلام یہ کہ اگر حقیقت کو دین سے الگ کر دیا جائے تو اس کی جڑخشک ہو جائے ، اور ٹہنیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں۔اور اس طرح اس کا ثمرہ فاسد ہو جائے ۔ اللہ والوں کے دستِ حق پر بیعت کرنا مسنون و مستحب ہے لیکن اسی پر اکتفا کر لینا اور اوامر و نواہی کی پابندی نہ کرنا قطعاً درست نہیں۔ باطن کی اصلاح کے لئے بیعت کرنا مسنون ہے لیکن فرائض و واجبات اور سنن پر عمل دین کی بنیادی ضرورت ہے۔ بیعت محض کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کا نام نہیں بلکہ بیعت کا اصل مقصد دین پر استقلال کے ساتھ کاربند رہنے کا عہد ہے۔ کامل شیخ اور پیر طریقت کی مدد اور راہنمائی سے شیطان و نفس کے حملوں کا دفاع اور عبادت و ریاضت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت و محبت کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ کسی اجتماعی شکل میں آکر اگر یہ مقاصد حاصل ہو جائیں تو باطن کی اصلاح کا یہ طریقہ بھی اختیار کرنا درست ہے۔ اس سے مقصود نفس کی اصلاح اور تزکیہ باطن ہے جس کا حصول خواہ استاد سے حاصل ہویا باپ سے، شیخ سے یا کسی اجتماعی نظم سے، جملہ ذرائع درست ہیں، لیکن بیعت کو رسم و رواج یا عادت بنا لینا مقصود طریقت نہیں۔ کوئی بھی سلسلۂ طریقت جس سے مندرجہ بالا مقاصد حاصل ہوں اسے اختیار کیا جا سکتا ہے ، ورنہ تصوف و طریقت کے نام پرآج کل بہت سارے کاروباری قسم کے لوگ اپنی اپنی دکانیں کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ بے عملی، بے ادبی اور حرص جاہ و مال سے بچ کر ہی اصلاح نفس ممکن ہے۔
مصادر و مراجع
1۔ القران الکریم
2۔صحیح مسلم، کتاب الایمان
3۔ مسند امام احمد، باب الایمان و الاسلام وا لاحسان، ج ۱ ص64
4۔تعریفات سیدشریف جرجانی، ص 94
5۔قواعد التصوف للشیخ احمد زروق
6۔شرح عين العلم وزين الحلم للإِمام ملا علي القاری
7۔ حقائق عن التصوف ،شیخ عبد القادر عیسی الشاذلی ، اردو ترجمہ تصوف کے روشن حقائق، الاستاذ اکرم الازھری
غلام غوث صدیقی دہلوی عالم و فاضل ، ایم اے (عربک) انگریزی،عربی ،اردو زبانوں کے مترجم اور نیو ایج اسلام کے ریگولر کالم نگار ہیں۔ ای میل:ghlmghaus@gmail.com
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-interrelationship-between-shariat-tariqat/d/110552
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism