غلام غوث، نیو ایج اسلام
حصہ 2
12 اکتوبر 2019
پہلے حصے میں آیت 9:5 میں وارد ہونے والے ’’لفظ‘‘
مشرکین کا لغوی تجزیہ پیش کیا گیا جسے اکیسویں صدی میں دہشت گردی کے جواز میں داعش
اکثر پیش کرتا ہے۔ اس میں یہ بات واضح
کی گئی کہ ظاہر اور صیغہ جمع ہونے کے باوجود لفظ ’مشرکین‘ میں مزید تخصیص یا تشریح
کا امکان موجود ہے۔
دوسرے حصے کا مقصد یہ تحقیق پیش کرنا ہے کہ آیت قرآنی 9:5 میں کیا ہم آج کے
’مشرکین‘ کو شامل کرسکتے ہیں یا نہیں۔ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لئے اس تحقیق
میں جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس میں ان مشرکین مکہ کے تین اہم پہلوؤں پر غور و
فکر کرنا شامل ہے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ پہلے دو پہلو مشرکین مکہ کےعقائد اور
اعمال ہیں جبکہ تیسرا پہلو یہ جاننے میں ہماری رہنمائی کرے گا کہ کیا حالت جنگ میں
انہیں مارنے کی اجازت محض ان کے ’مشرکین' ہونے کی وجہ سے دی گئی تھی یا اس وجہ سے
کہ وہ ’امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے' یا 'مذہبی استحصال کرنے والے' تھے۔ ان
تینوں پہلوؤں کو گہرائی کے ساتھ سمجھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ داعش کے خلاف کوئی
ٹھوس دلیل قائم کی جا سکے۔
آیت قرآنی 9:5 میں مذکور مشرکین مکہ کے عقائد
"ان کے عقائد کے بارے میں مختصر یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے تشبیہ کا
عقیدہ گڑھ لیا تھا اور اپنے عقیدے میں تحریف کا شکار ہو چکے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ
فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تبارک و تعالی اپنے مقرب بندوں
کی سفارش قبول کر لیتا ہے ، خواہ وہ اسے پسند نہ ہو، جیساکہ بادشاہ کبھی کبھی اپنے
بڑے امرا و حکام کی سفارش قبول کر لیتے ہیں۔ جب وہ علم اور قوتِ سماعت و بصارت
جیسی اللہ کی اصل صفات نہیں سمجھ سکے تو انہوں نے ان صفات الٰہیہ کا فیصلہ اپنے
علم اور سماعت و بصارت کی صلاحیت کے تناظر میں کرنا شروع کردیا۔ اس طرح وہ اللہ کے
لئے جسم و مکان کا عقیدہ رکھنے کی گمراہی میں مبتلا ہو گئے ۔ شاہ ولی اللہ کے
الفاظ میں تحریف کی روداد یہ ہے کہ "حضرت اسماعیل کی اولاد طویل عرصے تک
ابراہیمی دین (ملت ابراہیمی) پر قائم رہی یہاں تک کہ عمرو بن لحی نامی ایک ملعون
شخص پیدا ہوا اس نے بت تراشی کی اور ان کی عبادت کو لازم قرار دیا۔ اس نے ان بتوں
کے لیے بحیرہ و سائبہ اور حا م جانوروں کے آزاد چھوڑنے اور تیروں کے ذریعہ قسمت
آزمائی جیسے کاموں کا سلسلہ شروع کیا ۔ یہ واقعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی
بعثت سے تین سو سال پہلے وقوع پذیر ہوا۔ اپنی بت پرستی و بد مذہبی کے سلسلے میں
مشرکین اپنے آبا و اجداد کی روش اور روایت سے استدلال کرتے ہوئے اسے اپنے لیے ایک
دلیل قطعی سمجھنے لگے تھے۔ اگر چہ گزشتہ
انبیاء علیہم السلام نے بھی قیامت اور حشر و نشر کا عقیدہ لوگوں کو دیا تھا لیکن
انہوں اسے اتنی وضاحت اور تفصیل سے بیان نہیں کیا تھا جس طرح قرآن نے بیان کیا ہے
۔ چونکہ مشرکین عرب کو موت کے بعد کی زندگی کے مفصل احوال نہیں دیے گیے تھے اسی
لئے وہ قیامت کے واقعات کو ناممکن اور بعید از حقیقت تصور کرتے تھے۔ اگرچہ مشرکین
عرب ابراہیم ، اسماعیل اور حضرت موسی علیہم السلام کی نبوت کو مانتے تھے لیکن وہ
ان انبیاء میں انسانی صفات کے وجود کے بارے میں مغالطہ میں پڑ گئے، جو کہ ان کی
نبوت کے جمال کا ایک حجاب اور پردہ ہوتا تھا اور اس طرح ان کے بارے میں شک و شبہ
کا شکار ہو گئے... انسانی شکل میں انبیاء کے وجود کو انہوں نے ناممکن اور ناقابل
یقین امر سمجھا "(شاہ ولی اللہ ، الفوز الکبیر)۔
مشرکینِ مکہ اور دور حاضر کے مشرکین کے درمیان ایک دوسرا فرق یہ بھی ہے
کہ" مشرکین عرب خود کو "احناف" (حق کے متلاش) قرار دیتے تھے اور یہ
دعوی کرتے تھے کہ وہ ملت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہیں۔ در حقیقت حنیف وہ ہے جو حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی ملت پر قائم رہے اور آپ کے ہی بیان کردہ معمولات بجا لاتا
ہو۔ ملت ابراہیمی کے شعائر و شرائع میں بعض یہ ہیں: میں حج بیت اللہ کرنا، دوران
نماز استقبال قبلہ کرنا ، غسل جنابت کرنا اور تمام فطری عادات مثلا ختنہ کرنا، بغل
کے بال کٹوانا ، ذبح و نحر دونوں طرح کی قربانی کرنا ، زیر ناف بال کٹوانا وغیرہ
بھی شامل ہیں...... مشرکین عرب نے ملت ابراہیمی کو ترک کردیا تھا اور وہ
"ناجائز قتل، چوری، زنا، سود خوری اور ظلم و جبر و تشدد جیسے برے کاموں میں
ملوث ہو چکے تھے۔ " حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے اعتقادی مسائل میں ان
مشرکین نے "عمومی طور پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے تھے اور انہیں بعید از
قیاس مانتے تھے اور انہیں سمجھنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ شرک، تشبیہ کا
عقیدہ ، صحیفہ ابراہیمی میں ترمیم، آخرت سے انکار اور ہمارے نبی ﷺ کے رسالتی مشن
کو ناقابل یقین قرار دینا وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن کو اپنا کر جمہور مشرکین نے ملت
ابراہیمی سے منحرف ہونے کا ثبوت دیا ۔ اس کے علاوہ وہ ظلم و ناانصافی اور فتنہ و
فساد جیسے شرمناک کاموں میں ملوث ہو چکے تھے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی ہر
علامت کو مٹا کر رکھ دیا تھا ۔ [شاہ ولی اللہ، الفوز الکبیر۔ ص 3-4]
“قرآن مجید کی متعدد آیات کے مطابق شرک ایک ناقابل معافی گناہ ہے اور اس
گناہ کے مرتکب کو قیامت کے دن عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، قرآنی آیتیں
مومنین کو اس اکیسویں صدی میں امن و ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزارنے سے نہیں روکتیں
جہاں انسانوں نے امن اور ہم آہنگی کے قانون کے تحت زندگی گزارنے کا عہد لیا ہے۔
جہاں تک آیت 9:5 کی بات ہے، حالانکہ اس میں لفظ ’مشرکین‘ کا ذکر ہے لیکن اس کا
مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے شرک یا عقیدے کی بنیاد پر جنگیں کی گئی تھیں۔ بلکہ ان سے
جنگیں اس لئے کی گئی تھیں کیونکہ وہ مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کیا کرتے تھے۔ بہ
الفاظ دیگر، ان کی پر تشدد کاروائیوں کی وجہ سے ان سے جنگیں کی گئیں۔
آیت قرآنیہ 9:5 میں مذکور مشرکین کے اعمال
"جہاں تک قرآن میں مذکور مشرکین کے اعمال کی بات ہے تو مشرکین نے مکہ
میں 14 یا 15سالوں تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کو ظلم و تشدد
کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے اللہ کے پسندیدہ دین اسلام قبول کرنے والوں پر ہر
قسم کی ذلت و رسوائی مسلط کی تھی۔ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ آیات پر بے بنیاد
اعتراضات لگائے، شریعت کے احکامات کی تضحیک کی اور تیرہ سالوں تک اپنے مظالم کا
سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ مسلمانوں کو دو بہ دوانتقامی کاروائیاں کرنے کی اجازت
مل گئی۔
نبوت کے تیرہویں سال ہجرت کی اجازت ملی۔ حضور ﷺ اور صحابہ کرام مکہ سے
ڈھائی تین سو میل دور یثرب نامی ایک بستی میں جمع ہو گئے۔ لیکن کفار مکہ کی آتش
غضب اب بھی سرد نہ ہوئی۔ یہاں بھی مسلمانوں کو چین کا سانس نہ لینے دیا۔ دس دس بیس
بیس کافروں کے جتھے آتے۔ مکہ کی چراگاہوں میں اگر کسی مسلمان کے مویشی چر رہے ہوتے
تو انہیں لے اڑتے۔ اکا دکا مسلمان مل جاتا تو اسے بھی قتل کرنے سے باز نہ آتے۔
چودہ پندرہ سال تک صبر و ضبط سے مظالم برداشت کرنے والوں کو آج اجازت دی جا
رہی ہے کہ تم اپنی مدافعت کے لئے ہتھیار اٹھا سکتے ہو۔ کفر کے ظل کی انتہا ہو گئی
ہے۔ باطل کی جفاکشیاں حد سے بڑھ گئی ہیں۔ اب اٹھو ان سرکشوں اور مئے پندار سے
مدہوش کافروں کو بتا دو کہ اسلام کا چراغ اس لئے روشن نہیں ہوا کہ تم پھونک مار کر
اسے بجھا دو۔ حق کا پرچم اس لئے بلند نہیں ہوا کہ تم بڑھ کر اسے گرا دو۔ یہ چراغ
اس وقت تک فروزاں رہے گا جب تک چرخ نیلوفری پر مہر و ماہ چمک رہے ہیں۔ (ضیاء
القرآن ،جلد 3؛ ص ۔218)
ابتدا میں مسلمانوں کو دفاع میں بھی لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد ازاں دفاع
میں لڑنے کی اجازت دی گئی اور ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی کہ آیت "مشرکین کو
جہاں کہیں بھی [جنگ کی حالت میں] پاؤ قتل کرو" نازل ہوئی۔
"'مشرکین'' سے امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر جنگ ہوئی اس لئے نہیں
کہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا تھا
شان نزول سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہیں ان مشرکین مکہ کے خلاف لڑنے کی
اجازت دی گئی تھی جو مذہبی بنیاد پر ظلم و ستم کرتے تھے اور امن معاہدے پر دستخط
کرنے کے بعد انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی تھی۔ آیت 9:5 سے یہ قیاس کرنا صحیح نہیں
ہوگا کہ شرک کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے ان سے جنگ کی گئی۔ کلاسیکی علماء کی مندرجہ
ذیل تشریحات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
امام بیضاوی (متوفی 685 ھ) اپنی کتاب "انوار التنزیل و اسرار
التاویل کی جلد 3، صفحہ 71، 9:5- عربی)" جو کہ کلاسیکی تفسیر کی کتاب ہے اور
برصغیر ہند کے مدرسوں میں شامل نصاب بھی ہے، اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
"فاقتلوا المشرکین (ای) الناکثین" جس کا مطلب یہ ہے کہ آیت 9:5 میں بیان
کردہ مشرکین سے مراد ناکثین ہیں۔ ناکثین ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو مسلمانوں پر
حملہ کرکے امن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔
علامہ آلوسی (متوفی 1270ھ) اپنی کتاب "روح المعانی" (جلد 10،
صفحہ 50، - 9:5، عربی) میں مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
على هذا فالمراد بالمشركين في قوله سبحانه: (فاقتلوا المشركين) الناكثون
ترجمہ: لہٰذا ، اللہ عز و جل کے قول "مشرکوں کو مارو" میں مشرکین
سے مراد ناکثین یعنی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کر کے امن
معاہدوں کی خلاف ورزی کی۔
ماہر دینیات علامہ ابو بکر الجصاص (المتوفی 370 ھ) لکھتے ہیں،
"صار قوله تعالى: {فَاقْتُلُوا المُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ}
خاصّاً في مشركي العرب دون غيرهم"
ترجمہ: "آیت (مشرکوں کو قتل کرو جہاں کہیں انہیں پاؤ) میں خاص طور پر
عرب کے مشرکین مراد ہیں اور اس کا اطلاق کسی اور پر نہیں ہوتا" (احکام القرآن
للجصاص، جلد 5، صفحہ، 270)
امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:
"قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت 9:5 پر اپنی تفسیر میں امام ابن حاتم
نے حضرت ابن عباس (رضي اللہ تعالی عنہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا
زاد بھائی تھے) سے یہ روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ‘‘اس آیت میں مذکور مشرکین
سے مراد قریش کے وہ مشرکین ہیں جن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے [صلح]
کا معاہدہ کیا تھا (در منثور،جلد۔3، صفحہ 666)
وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ "امام ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو شیخ
(رضی اللہ تعالی عنہم) نے حضرت محمد بن عباد بن جعفر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے
فرمایا "یہ مشرکین بنو خزیمہ بن عامر کے ہیں جو بنی بکر بن کنعانہ سے تعلق
رکھتے ہیں،"(در منثور ، جلد 3۔ صفحہ 666)
دیگر علماء اسلام کے مطابق ایسی تفسیروں کی تصدیق قرآن کے اس فرمان سے ہوتی
ہے جو اسی سورہ کی آیت 13 میں موجود ہے،
‘‘کیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کے نکالنے
کا ارادہ کیا حالانکہ انہیں کی طرف سے پہلی ہوتی ہے، کیا ان سے ڈرتے ہو تو اللہ کا
زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو’’(9:13) ۔
اور سورہ توبہ کی آیت نمبر 36 بھی اس کی تائید کرتی ہے
‘‘اور مشرکوں سے ہر وقت لڑو جیسا وہ تم سے ہر وقت لڑتے ہیں، اور جان لو کہ
اللہ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے’’۔ (9:36)
ان دو آیتوں (9:13) اور (9:36) اور مندرجہ بالا کلاسیکی فقہاء کے تبصروں کا
حاصل یہ ہے کہ آیت 9:5 میں بیان کردہ مشرکین سے تمام مشرکین مراد نہیں ہیں بلکہ وہ مشرکین مراد ہیں جنہوں نے
اوائل مسلمان کے خلاف اعلان جنگ کر کے امن معاہدوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ لہذا، یہ
کہنا غلط ہوگا کہ مشرکین مکہ سے جنگ شرک کی وجہ سے کی گئی تھی۔
ہمیں یہاں دو باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اول: اگر شرک کا عمل ہی جنگ
کا سبب ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اور مشرکین مکہ کے مابین امن معاہدہ نہ ہوا ہوتا۔
ثانیاً: اگر یہ مشرکین مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم نہ کرتے یا امن معاہدے کی خلاف
ورزی نہ کرتے تو جنگیں بھی نہ ہوئی ہوتیں۔ یہ بات ان احادیث سے بھی سمجھی جاسکتی
ہے (جو آئندہ حصوں میں پیش کئے جائیں گے) جن مین مشرکین میں سے عورتوں، بچوں،
معذوروں یا بوڑھوں کو مارنے سے ممانعت وارد ہوئی ہے۔
-----------
Related Article:
Refutation of ISIS: Who Are The Mushrikin Mentioned
In The Quranic Verse 9:5? - Part 2
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism