غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام
موجودہ دور کی دہشت پسند تنظیموں کا ماننا ہے کہ وطن صرف ایک مشت خاک کا نام ہے اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ان کا ماننا ہے کہ حب الوطنی کا جذبہ ایک احمقانہ انسانی جذبہ ہے جسے ختم کرنا ٹھیک اسی طرح لازم ہے جس طرح گناہوں کی جانب میلان قلب کو ختم کرنا ضروری ہے۔اس فکر کو فروغ دینے والوں میں سید قطب کا نام سر فہرست ہے ، جن کا نظریہ ہے کہ حب الوطنی جاہلی فکر اور مردود ہے، کیوں کہ یہ خلافت اور امت کے نظریہ کے خلاف ہے اور چونکہ وطن استعماری قوتوں کے بنائے ہوئے حدود کا نام ہے اس یے ہمیں اس سے کوئی محبت نہیں رکھنی چاہیے ۔سید قطب نے اپنی تفسیر کی کتاب ‘‘فی ظلال القرآن’’ میں اس نظریے کا متعدد مقامات پر اظہار کیا ہے ۔ایک مقام پر انہوں نے لکھا ہے کہ وطن اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان رہتا ہے اور اللہ تعالی نے اس کی مذمت کی ہے ۔(دیکھئے فی ظلال القرآن ج۳، ص ۱۴۴۱)
وطن کی جانب قلب کے میلان کو گناہوں سے تشبیہ دینا طیب و خبیث کو باہم خلط ملط کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ وطن کی محبت ہر قلب سلیم میں موجود ہوتی جب کہ گناہوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔
وطنیت کوئی ایسی فکر نہیں جو خلافت وامت کے نظریے کے بالمقابل ہو بلکہ دین سے پورا تعلق برقرار رکھتے ہوئے کسی جغرافیائی علاقے سے نسبت کو اسلام نے مذموم نہیں قرار دیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن مکہ مکرمہ کی جانب اپنے اشتیاق کا اظہار فرمایا کرتے تھے۔
وطن کو انگریزوں کے بنائے ہوئے جغرافیائی حدود سے تعبیر کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ہزاروں سال سے چلے آنے والے جغرافیائی حدود کا نام ہے ، وطن کی تعبیر انسان کی پسندیدہ جائے سکونت سے کرنا اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالی نے اس کی مذمت کی ہے یہ درست نہیں ہے ۔
دہشت پسند تنظیموں پر وطن کا مفہوم اس لیے واضح نہ ہو سکا کیوں کہ فہم قرآن کے صحیح ذرائع ووسائل کا انہوں نے استعمال نہیں کیا ، حب الوطنی کے اشارات قرآن کریم اور مفسرین کے کلام میں موجود ہیں۔ امام رازی، ملا علی قاری اور دوسرے بے شمار علما ومفسرین کے یہاں اس کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔یوں ہی احادیث نبویہ اور شارحین کے کلام میں اس کا ذکر ملتا ہے ۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے لوٹتے تو مدینہ کے در ودیوار کو بغور دیکھتے ، اس حدیث کی شرح میں امام عسقلانی ، عینی وغیرہم نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے حب الوطنی کی مشروعیت کا پتہ چلتا ہے ۔ان کے علاوہ دوسرے محدثین وشارحین نے ایسی روایات اور مفاہیم ذکر کئے ہیں جن سے حب الوطنی کا درست ہونا معلوم ہوتا ہے ۔
ان کے علاوہ فقہا ، اولیا ، حکما ، شعرا ، ادبا ، سب کے یہاں حب الوطنی کے جذبات کا اظہار ملتا ہے ۔یوں ہی حب الوطنی کے موضوع پر بہت سے علما نے کتابیں بھی لکھیں ہیں۔جاحظ نے حب الوطن نامی کتاب لکھی، یوں ہی امام ابو حاتم سجستانی ، سمعانی ، ابو حیان التوحیدی وغیرہم کی بالترتیب ‘‘الشوق الی الاوطان’’ ، ‘‘النزوع الی الاوطان’’ اور ‘‘الحنین الی الاوطان’’ نامی کتابیں ہیں۔
لیکن اس کے برعکس حب الوطنی کے تعلق سے سید قطب کے انتہا پسندانہ نظریات کو پڑھ کر بہت حیرت ہوتی ہے ۔انسان کیا جانور بھی جس سرزمین پر پیدا ہوتا ہے ، اس سے محبت کرنے کی فطرت اس کے اندر پیدا ہو جاتی ہے ۔
قرآن مقدس نے کسی جگہ بھی حب الوطنی کی نفی نہیں کی ہے ۔احادیث طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے وطن سے بہت محبت تھی۔امام سہیلی نے الروض الأنف میں ‘‘ حُبُّ الرَّسُوْلِ صلی الله عليه وآله وسلم وَطْنَهُ’’ یعنی (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت) کے نام سے ایک عنوان باندھا ہے ۔ اس میں امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی فرمائی۔ ثانیاً جب اس نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فورا فرمایا: أَوَ مُخْرِجِيَّ؟ یعنی کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟۔ اتنا بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں: فَفيْ هٰذَا دَلِيْلٌ عَلٰی حُبِّ الْوَطَنِ وَشِدَّةِ مُفَارَقَتِهِ عَلَی النَّفْسِ یعنی اِس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔ (الروض الأنف للسهيلی، طرح التثريب فی شرح التقريب للعراقی)
قرآن عظیم کی سب سے مشہور اور مسنتد لغت المفرادت کے مصنف امام راغب اصفہانی نے اپنی کتاب ‘‘محاضرات الأدباء’’ (2:652) میں حب الوطنی کے موضوع پربہت کچھ لکھا ہے۔ ایک مقام پر وہ لکھتے : لَولَا حُبُّ الْوَطَنِ لَخَرَبَتْ بِلَادُ السُّوْء. وَقِيْلَ: بِحُبِّ الْأَوْطَانِ عِمَارَةُ الْبُلْدَانِ
یعنی : اگر وطن کی محبت نہ ہوتی تو پسماندہ ممالک تباہ و برباد ہوجاتے (کہ لوگ انہیں چھوڑ کر دیگر اچھے ممالک میں جابستے، اور نتیجتاً وہ ممالک ویرانیوں کی تصویر بن جاتے)۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اپنے وطنوں کی محبت سے ہی ملک و قوم کی تعمیر و ترقی ہوتی ہے۔
حب الوطنی ہرگز منافی اسلام نہیں اور نہ ہی یہ ملت واحدہ کے تصور کے خلاف ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے وطن عزیز ہندوستان سے خوب محبت کرتے رہیں اور اس کی تعمیر وترقی میں خوب خوب حصہ لیں۔وطن سے محبت صرف نعروں یا قومی ترانوں تک محدود نہیں رکھنی چاہیے بلکہ ہمارے اعمال وکردار میں بھی حب الوطنی کی جھلک نظر آنی چاہیے اور ہر طرح کی انتہا پسندانہ فکر جو حب الوطنی کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں، ایسی فکر کی شناخت کرکے ان کی سرکوبی کے اقدامات اٹھانے چاہییں۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/refutation-extremist-islamist-ideology-inimical/d/118341
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism