غلام غوث صدیقی
09 اپريل 2018
عہد حاضر کی انتہا پسند تنظیمیں مسلسل قرآن مجید کی چند آیات کا غلط استعمال کر رہی ہی ہیں اور ان آیات کو شان نزول اور تاریخی سیاق و سباق سے کاٹ کر دہشت گردانہ تشریح و تعبیر کا جامہ پہنا رہی ہیں ۔ان آیتوں میں سورہ انفال کی آیت ۷۲ بھی ہے۔ ایسی تنظیموں سے منسلک افراد اس آیت کریمہ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے اپنے نظریاتی اصحاب اور پیروکاروں کو اپنے اپنے وطن سے ہجرت کرنے اور انہیں اپنی دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ راقم الحروف سے کئی لوگوں نے اس آیت کریمہ کے متعلق بارہا سوال کیا کہ کیا اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہجرت کرکے ان تنظیموں میں شامل ہونا کسی طرح درست ہے ؟ اگر درست نہیں تو بعض لوگوں پر اس کا اثر کیوں پڑ رہا ہے ؟ وہ کیوں ان تنظیموں میں شامل ہو جاتے ہیں ؟ راقم الحروف نے اللہ رب العزت کی توفیق سے اس مختصر تحریر میں اس طرح کے تمام سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے ۔وماتوفیقی الا باللہ
جیسا کہ ایک سوال میں یہ آیا کہ عہد حاضر میں انتہا پسند تنظیمیں سورہ انفال کی آیت ۷۲ کا حوالہ پیش کرکے اپنے معتقدین کو ہجرت کرنے کی دعوت دے رہے ہیں ۔مگر حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے ۔خود سورہ انفال ۷۲ کی مستند تفاسیر کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا یقین پیدا ہوتا ہے کہ عہد حاضر کی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے ہجرت کی دعوت سورہ انفال کی آیت ۷۲ کے منشا و مفہوم کے سخت مخالف ہے ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے،
"بیشک جو ایمان لائے اور اللہ کے لیے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں سے لڑے اور وہ جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہ ایک دوسرے کے وارث ہیں اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت نہ کی انہیں ان کا ترکہ کچھ نہیں پہنچتا جب تک ہجرت نہ کریں اور اگر وہ دین میں تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد دینا واجب ہے مگر ایسی قوم پر کہ تم میں ان میں معاہدہ ہے، اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ "(8:72)
مستندو مقبول کتب تفاسیر کے مطابق اس آیت کریمہ ۸:۷۲ کا تعلق بنیادی طور پر مہاجرین و انصار اور ان کے درمیان قائم ہونے والی دینی و سماجی اخوت اورایک دوسرے کے تئیں حقوق و فرائض سے ہے ۔ عصر جدید کے ایک اسلامک مفسر رشید رضا نے تفسیر المنار میں اس آیت کو اسلام کی عادلانہ خارجہ پالیسی کا ستون قرار دیا ہے ۔اصل عبارت یوں ہے : وہذا الحکم من ارکان سیاسۃ الاسلام الخارجیۃ العادلۃ (المنار)۔ پیر کرم شاہ ازہری نے بھی اس کا تذکرہ اپنی کتاب ضیاء القرآن میں کیا ہے ۔
علمائے کرام نے اس آیت کریمہ سے یہ اخذ کیا ہے کہ مہاجرین و انصارآپس میں ایک دوسرے کے وارث تھے اگر چہ ان کے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں تھا اور یہ کہ حکم عارضی تھا اور پھر سورہ انفال کی آیت ۸۵ ‘‘اور رشتہ والے ایک دوسرے سے زیادہ نزدیک ہیں’’ نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ اس مسئلہ کی تفصیلی بحث کے لئے قارئین درج ذیل کتب تفاسیر کا مطالعہ کر سکتے ہیں ؛ امام جلال الدین سیوطی شافعی کی در منثور ، امام قرطبی مالکی کی تفسیر قرطبی، شیخ اسماعیل حقی کی تفسیر روح البیان ، مفتی احمد یار خان نعیمی کی تفسیر نعیمی ، مصنفہ مفتی احمد یار خان نعیمی وغیرہ ۔رحمۃ اللہ علیہم اجمعین
قرآن کریم کی آیت ۸:۷۲ کی بنیاد پر دہشت گرد تنظیمیں ہجرت کرنے کی اپنی دعوت کا جواز پیش نہیں کر سکتے
یہ بات مشہور ہے کہ عصر حاضر کی انتہا پسند تنظیموں کا تعلق وہابی نظریات سے ہے ، لہٰذا یہ لوگ اپنے وہابی اصحاب اور پیروکاروں کو اسلام کے ابتدائی دور کے ان مہاجرین کی طرح ہجرت کرنے کی دعوت دیتے ہیں جن کا ذکر قرآن کی آیت ۸:۷۲ میں ہے اور انہیں ان لوگوں سے ‘جہاد’ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں جنہیں وہ ‘کفار’ اور غیر وہابی مسلمان سمجھتے ہیں۔اس تناظر میں اس آیت کے حوالے سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں ، کہ کیا آج کے جن مسلمانوں کو وہ ہجرت کرنے کی دعوت دے رہے ہیں وہ ابتدائی دور اسلام کے مہاجرین کی طرح ہیں؟ کیا ان لوگوں کی ہجرت ایسے ممالک سے درست ہے جو انہیں تمام تر جانی و مالی تحفظات اور دینی و مذہبی آزادی فراہم کرتا ہے؟
قرآن کریم کی آیت ۸:۷۲ میں بیان کردہ ابتدائی مہاجرین کے احوال کو آج کے حالات سے جوڑ کر لوگوں کو ہجرت کی دعوت دینا اور پھر انہیں دہشت گردانہ اعمال کے لیے تیار کرنا شریعت اسلامیہ پر شدید افترا ، ظلم اورکلام الہی کی خلاف ورزی ہے۔ اس نقطہ نظر کو واضح طور پر سمجھنے کے لئے آئیے ہم بالاختصار مہاجرین کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ کریں اور انصاف و دیانتداری کے ساتھ غور و فکر کریں۔
آیت مذکورہ میں جن مہاجرین کا تذکرہ ہوا ہے یہ وہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہیں ان کے اپنے وطن مکہ کسی طرح کی کوئی دینی کوئی آزادی حاصل نہ تھی۔ یہ وہ مہاجرین تھے جو تقریبا تیرہ برس تک مسلسل ظلم وتشدداور ذہنی و جسمانی اذیتیں اور صعوبتیں برداشت کرتے رہے تھے۔ یہ وہ مسلمان تھے جنہیں مکہ کے اندر اپنی جان و مال کے لیے دفاعی جنگ کی بھی اجازت نہ تھی بلکہ انہیں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کا حکم تھا۔اسلام کو دنیا کے لیے صبر و استقامت کی مثال قائم کرنا تھا ، تاکہ کوئی یہ نہ کہ سکے اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ۔ ہرروز ابتدائی دور کے یہ مسلمان ایسی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتے کہ کسی کے سر پھوٹے ہوئے ہوتے تو کسی کے ہاتھ پاؤں ٹوٹے ہوئے ہوتے اور کبھی لہو لہان ہوتے ۔ یہ وہ مسلمان تھے جن کے ساتھیوں کو مکہ میں بےدردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا تھا۔ حضرت بلال کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا گیا تھا۔ حضرت یاسر اور حضرت سمیہ کو برچھیوں سے زخمی کر دیا گیا تھا۔ غربا اور کمزوروں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اور متمول خاندان کے لوگ بھی ان کے ظلم و ستم سے محفوظ نہیں تھے۔ حضرت عثمان کے چچا آپ کو جانوروں کی جلد میں لپیٹ کر آپ پر انگارے برساتے ہوئے سورج کی تپش میں چھوڑ دیا کرتے تھے۔ جان پگھلا دینے والی سورج کی تپش اور کھال کی بدبو سے ان کا دم گھٹنے لگتا اور وہ سخت تکلیف اور اذیت کی کیفیت مین مبتلاہو جاتے۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت ابو بکر پر بھی اسی طرح ظلم کی داستان دہرائی گئی تھی جس کی وجہ سے آپ کافی دیر تک بے ہوش پڑے رہے۔ تقریبا ۱۴ یا ۱۵ برسوں تک مسلسل ان مسلمانوں پر ظالموں نے مذہبی بنیاد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، انہیں ذلیل و رسوا کیا اور انہیں شدید زخم پہنچائے۔ مسلمانوں نے ان تمام رسوائیوں کو بڑے صبر و ضبط کے ساتھ برداشت کیا۔ان تمام پس منظر کو نگاہوں کو سامنے لائیے اور پھر یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگے گی تاریخ کے اوراق میں اس طرح کےصبر و آزمائش کی مثال نہیں ملتی کہ ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دفاع میں جنگ لڑنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ لیکن جب صبر و آزمائش کی مثال قائم ہو چکی اور کفار عرب کے مظالم کی آخری انتہاء ہو گئی تب اللہ رب العزت نے ان مسلمانوں کو ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ ان مسلمانوں نے اللہ کے اس حکم کی تعمیل بڑے احترام کے ساتھ کی اور وہ مکہ سے تقریباً ۳۰۰ میل دور ہجرت کر کے مدینہ شریف چلے گئے۔
محترم قارئین ! اس منظر کو ذہن میں رکھیئے اور انصاف کی نگاہ سے ملاحظہ کیجیے کہ مسلمانوں کے مدینہ شریف ہجرت کرنے کے باوجود اسلام کے ان دیرینہ دشمنوں کی عداوت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ انہوں نے مسلمانوں پر نئے سرے سے حملے شروع کر دئے۔ اور مسلمانوں کا چین و سکون اور امن و امان سب ختم کر دیا ۔ کفار عرب کا جتھہ مسلمانوں کی چراہ گاہوں پر حملہ کرتا اور ان کے مویشیوں کو ہڑپ لے جاتا۔ اگر ان کا سامنا کسی اکیلے مسلمان سے ہو جاتا تو وہ بے رحمی کے ساتھ اسے قتل کردیتے ۔ جب مسلمانوں کے اوپر ایسی صورت حال پیدا ہوئی تب انہیں اللہ رب العزت نے اپنے دفاع میں لڑنے کی اجازت دیا اور انہیں امن و سلامتی قائم کرنے ، ظلم کا خاتمہ کرنے ،دینی و مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کو یقینی بنانے کا موقع ملا۔
آج صورت حال مختلف ہے ۔آج جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں وہاں قانونی اعتبار سے ہمیں ہر قسم کا تحفظ اوردینی و مذہبی آزادی سمیت دیگر کافی حقوق حاصل ہیں۔ ہم جس حال میں ہیں وہ ابتدائے اسلام کے مہاجرین کے حال سے میل نہیں کھاتا ۔ یہاں صورت حال کا مختلف ہونا ایک ایسی بڑی وجہ ہے کہ جس کی بنا پر ہمیں یہاں سے ہجرت کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
مزید یہ کہ ابتدائے اسلام کے مہاجرین کا ایمان اور ان کا تقویٰ رہتی دنیا کے لیے مثال بنا کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت طیبہ سے فیضیاب ہوچکے تھے اور کیونکہ انہیں ان کی مذہبی آزادی اور حقوق کے تحفظات کی بناء پر ہجرت کرنے کا حکم اللہ نے دیا تھا۔ مگر اس کے برعکس آج کے دہشت گرد کے عقائد و نظریات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیروکار نہیں ہیں۔ یہ اپنے وہابی نظریہ سازوں کی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اہانت آمیز زبان کا استعمال کرتے ہیں اور چونکہ دہشت گردانہ اعمال کا ارتکاب کر رہے ہیں جس کو اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔
مکہ سے ہجرت کرنے والے ابتدائے اسلام کے مہاجروں کو نہ تو مذہبی آزادی کی ضمانت تھی اور نہ ہی مذہبی زندگی کا تحفظ حاصل تھا۔ لیکن آج کے دہشت گرد ایسے ممالک کے لوگوں کو ہجرت کی دعوت دینا چاہتے ہیں جنہیں مذہب کی آزادی اور زندگی کا تحفظ دونوں کی ضمانت حاصل ہے۔
فقہائے کرام نے جہاد کے مختلف اقسام بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ایک جہاد بالقتال ہے ۔لیکن اس کا تعلق ظلم و ستم کے خاتمہ سے ہے۔اس کا نفاذ بادشاہ اسلام کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔آج کی زبان میں سمجھیں تو اس کا تعلق ملکی یا ریاستی سطح پر ممکن ہے ۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی شخص نام نہاد ‘‘اسلامک اسٹیٹ یا ریاست’’ بنانے کا دعوی کرے اور اپنے آپ کو بادشاہ تصور کر لے تو اس کے حکم کی تعمیل کی جائے گی ۔ہرگز ہرگز ایسا شخص بادشاہ اسلام نہیں مانا جائے گا۔اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور رہے کہ بادشاہ اسلام کے لیے ایمان و عقیدہ کی صحت و سلامتی کے ساتھ اس کے اس امر پر غور کرنا بھی بے حد ضروری ہے کہ کیا وہ جہاد کی دعوت دے رہا ہے یا فساد کی ۔اگر وہ جہاد کی دعوت کی آڑ میں عام بے گناہوں کا قتل کرنا چاہتا ہے تو یہ ہر گز جہاد نہیں، بلکہ یہ فساد ہے ۔شریعت اسلامیہ نے جہاد کے جو شرائط و استطاعات بیان کئے ہیں آج ہمارے زمانہ میں ان کا وجود نہیں۔مثال کے طور پر اس کی فرضیت کی ایک شرط تو عاقل و بالغ ہونے کی ہے لیکن ان لوگوں کا کیا کہئے جو نفس کی غلامی و پیروی میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ وہ گویا بے عقل و مجنوں ہو گئے ہیں اور جہاد و فساد میں امتیاز کرنے کے قابل نہیں ۔ایسے مریضوں کو چاہیے کہ پہلے جہاد بالنفس کریں اور اس کی آزادی ہر ملک دیتا ہے ۔ جب نفس کی غلامی سے آزاد ہو جائیں تو دوسرے مسلمانوں کو بھی نفس کی غلامی سے آزاد ہونے اور اسلام کے فرائض و واجبات کی شریعت وحقیقت اور معرفت سے آگاہ کریں ۔اور وہ لوگ جو جہاد کے نام پر فساد برپا کر رہے ہیں اور لوگوں کو اپنی تنظیموں میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے ہیں ایسے لوگوں سے امت مسلمہ کو دور رہنے کی تلقین کی جائے اور ایسے لوگوں کا ہمیشہ رد کیا جائے ۔
جو ملک دینی و مذہبی آزادی اور جان کا تحفظ دیتا ہو اس ملک سے ہجرت کو واجب قرار دینا کسی صورت درست نہیں ۔داعش تنظیم میں شامل ہونے والے افراد کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جن ممالک سے وہ گئے ہیں وہاں انہیں دینی و مذہبی آزادی حاصل تھیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اس کو فرض جانا جو شریعت پر افترا ہو ا،اور پھر دین اسلام کے نام پر فساد برپا کیا اور اسے اسلام کا جواز دیا ،یہ مزید شدید افترا ہوا ۔ان کے کذب و افترا اور شہریوں پر ظلم و ستم کے کارناموں کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں عالمی سطح پر موسٹ وانٹیڈ (most wanted) مجرمین کی فہرست میں شامل کر لیا گیا۔ یہ انتہائی حیران کن بات ہے کہ اب بھی وہ ہوش کے ناخن نہیں لیتے اورقرآن مجید کی چند آیات کی غلط تشریح کرکے دوسرے لوگوں کو بھی اپنی طرح مجرم بننے کی دعوت دے رہے ہیں۔اور اس دعوت کو سورہ انفال کی آیت ۷۲ سے جوڑتے ہیں ۔والعیاذ باللہ
سورہ انفال کی آیت ۷۲ کے مطالعہ سے معاہدہ اور اگرمینٹ (agreement) کو برقرار رکھنے کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بہر صورت مسلمانوں کو معاہدے کی پاسداری کرنا ضروری ہے۔ اس کی مثال ہندوستانی تناظر میں اس طرح سمجھی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد آئین ہند تمام ہندوستانی باشندوں کے تعاون سے باہمی طور پر تیار کیا گیا تھا ، اور یہ کہ وہ آئین کے مطابق قوانین کے پابند رہیں گے۔ اس لیے تمام ہندوستانی مسلمانوں پر آئین ہند کے ساتھ جو اتفاق ہوا اس کی پاسداری ضروری ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اسے نہ صرف ہندوستانی قانون کی نگاہ میں مجرم سمجھا جائے گا بلکہ شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں وہ شخص مجرم مانا جائے گا ۔اس سلسلے میں سینکڑوں دلائل پیش کی جا سکتی ہیں لیکن میں صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔ ارشاد باری تعالی ہے (ترجمہ از کنزالایمان) "اور عہد پورا کرو بیشک عہد سے سوال ہونا ہے"(17:34)۔
آیت مذکورہ کا آخری جملہ ہےکہ"اللہ تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے"۔ یہاں انتہا پسند تنظیموں کے لئے ایک مقدس پیغام ہے کہ وہ عام لوگوں بالخصوص اپنے پیروکاروں اور اپنے نظریات کے حاملین کو تو بیوقوف بنا سکتے ہیں اور مکر و فریب کے ذریعے ان کی منفی ذہن سازی تو کر سکتے ہیں لیکن وہ اپنے کام کو اللہ سے چھپا نہیں سکتے کیونکہ اللہ رب العزت ان کے اعمال کو ہر وقت دیکھ رہا ہے ۔ان اعمال کا اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جلد حساب دینا ہے ۔
(یہ مضمون اصل میں انگریزی میں لکھا گیا تھا جسے حسب ضرورت ایڈینگ کے ساتھ اردو میں پیش کیا گیا ہے)
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/jihadist-terrorists-can’t-justify-their/d/114869
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism