غلام غوث ، نیو ایج اسلام
24 جنوری 2013
نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر جنم لینے والے انسانیت پسندوں میں ایک عظیم ترین انسانیت پسند تھے ۔ دراصل انہیں انسانیت کا نجات دہندہ کہا جانا ضروری ہے۔ جارج برنارڈ شا کا یہ کہنا ہے کہ " اگر جدید دنیا کی آمریت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرح کسی انسان کے پاس ہوتی تو وہ اس کے تمام مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتے اور اس میں وہ امن اور خوشی پیدا کر دیتے جس کی اشد ضرورت ہے ۔" [ ‘‘The Genuine Islam’’ (حقیقی اسلام)] اسی طرح، ایک عظیم مؤرخ ، لیمرٹائن نے کہا کہ "ان تمام معیارات کے تعلق سے جس سے کسی بھی انسانی عظمت کو ناپا جا سکتا ہے، ہم اچھی طرح سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیا ان سے عظیم المرتبت انسان کوئی ہے ؟" [Histoire de la Turquie] ۔ مشیل ایچ ہارٹ کے مطابق، وہ تاریخ کی انتہائی مؤثر شخصیات میں سر فہرست ہیں۔
(The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History)
لہٰذا نہ صرف یہ کہ مسلم بلکہ غیر مسلم بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام ایک مسلسل مصدر تحریک کے طور پرکرتے ہیں ۔ ان کی شخصیت کا سب سے بہترین حصہ یہ ہے کہ آغاز حیات سے ہی ایک مشکل ترین زندگی بسر کرنے کے باوجود وہ ہمیشہ مسکراتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ 'تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ' ۔
شاید اس دنیا میں کسی کی بھی زندگی پر اتنی زیادہ تحقیق و تفتیش نہیں کی گئی جتنی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سوانح عمری پر کی گئی ہے۔ لیکن ان کے کردار کا ایک بھی نقص آج تک ذکر نہیں کیا جا سکا ۔ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو " الصادق " ( سچے ) اور " الامین " (وفادار) کہتے تھے۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک انتہائی سخی ، خیر خواہ اور ملنسار انسان تھے ، اور انہوں نے ان کے پیروکاروں میں انہیں عظیم صفات کو پیدا کرنے کی ہر ممکن کوششیں کیں ۔ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، "اسلام میں کون سا عمل بہتر ہے ؟" انہوں نے جواب دیا:
" (غریب اور ضرورت مند) کو کھانا کھلانا اور ان لوگوں کو سلام کرنا جنہیں تم جانتے ہو اور انہیں بھی جنہیں تم نہیں جانتے ۔ " [صحیح البخاری] اسی طرح انہونے حسد اور باہمی کدورت جیسی بد اعمالیوں اور بری عادتوں سے منع فرمایا ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے نفرت مت کرو اور ایک دوسرے سے حسد مت کرو، اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعلقات کو منقطع مت کرو، اور اے خدا کی عبادت کرنے والوں ! آپس میں اخوت کو فروغ دو ۔ بیشک! مسلمانوں کے لیے تین دن سے زیادہ تک اپنے(مسلمان) بھائیوں سے سلام کلام منقطع رکھنا جائز نہیں ہے۔ "[ صحیح البخاری ]
یہا ں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کس ثابت قدمی اور مؤثر انداز میں اپنے صحابہ کرام کی تربیت کرنے اور ان کے اخلاق کو آراستہ کرنے کی کوشش کی ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس انسانی فطرت کو سب سے زیادہ ناپسند فرمایا وہ غصہ ہے۔ غصے کے خطرات سے اپنے اصحاب کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ مضبوط وہ شخص نہیں ہے جواپنی طاقت کے ذریعے لوگوں کو زیر کرے ، بلکہ طاقتور وہ شخص ہے جو غصے کی حالت میں خود کو قابو میں رکھے ۔ " [ صحیح البخاری ]
مزید برآں، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ فرمایا ، "ایک سچا مومن وہ ہے جس کے ساتھ دوسرے لوگ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں ۔ ایک سچا مومن وہ ہے جو نفرت کا بدلہ بھی محبت سے دیتا ہو ۔ " پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح طور پر یہ فرما دیا ہے کہ جو شخص صرف محبت کا بدلہ محبت سے دے وہ اخلاقی کے نچلے پائدان پر ہے۔
ایک مرتبہ جب پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفین نے انہیں سخت اذیتیں دیں تو ان کے صحابہ نے ان پر لعنت کرنے کے لئے ان سے کہا ۔ اس وقت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نےفرمایا "میں انسانوں پر لعنت بھیجنے کے لئے نہیں بلکہ ان کے لئے ایک رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔" ان کے مخالفین نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب کے ساتھ ایسا ہی سلوک جاری رکھا لیکن انہوں نے ہمیشہ ان کے لیے دعا فرمائی ۔ انہوں نے اپنی پوری حیات مقدسہ اس طرح بسر کی کہ وہ کسی کے لئے کبھی بھی مصیبت یا تکلیف کی وجہ نہیں بنے ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے ذریعہ سکھائے گئے اہم اسباق میں سے ایک یہ ہے کہ ہمیں دوسروں کے درمیان پھولوں کی طرح رہنا چاہیئے کانٹوں کی طرح نہیں۔ یہودی اور مسلمان مدینہ میں ایک ساتھ پر امن طریقے سے رہتے تھے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے آزادانہ طور پر انہیں ان کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دے رکھی تھی ۔ اس کے علاوہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیروکاروں کو خبردار کر رکھا تھا کہ اگر کسی نے کسی بھی طرح کسی غیر مسلم کو قتل کیا یا ان کے ساتھ برا سلوک کیا تو وہ جنت کی خوشبو سونگھنے کے قابل بھی نہیں ہو گا اور میں خود آخرت میں اس غیر مسلم کے حق میں بولوں گا ۔ [10] انہوں نے ہمیشہ عیسائیوں، یہودیوں اور مشرکوں کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کیا ، اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تلوار کو نیام سے باہر اسی وقت کیا جب وہ اسلام کا دفاع کرنے اور جارحیت کو پسپا کرنے کے لئے ایسا کرنے پر مجبور ہوئے ۔
پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا میں امن اور اتحاد قائم کرنے کے لئے تشریف لائے تھے ۔ اپنے آخری خطبہ میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آفاقی اخوت کو قائم کرتے ہوئے عدم مساوات کی تمام شکلوں كو مٹا دیا ۔ انہوں نے فرمایا کہ کسی عرب کو کسی غیر عرب پر کو ئی فضیلت نہیں حاصل ہے ، اور نہ ہی کسی غیر عرب کو کسی عرب پر کوئی فضیلت حاصل ہے ، اور نہ ہی کسی گورے کو کسی کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کوکسی گورے پر کوئی برتری حاصل ہے ، افضلیت کا معیار صرف تقویٰ ہے ، بلا شبہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے ۔ "
ان کے عظیم کردار میں صبر اور اعتدال پسندی ہے وہ اپنے پیچھے پوری انسانیت کے لئے کامل انسانی رویہ اور ایک دائمی مثال چھوڑ گئے ، نہ تو انہوں نے تارک الدنیا کی زندگی بسر کی اور نہ ہی انہوں نے مادی دنیا کی عیش پرستی کی طرف اپنا میلان ظاہرکیا ۔ بلکہ انہوں نے اپنی پوری طرز حیات میں ایک حیرت انگیز توازن کو برقرار رکھا ۔
اگر آپ تاریخ کے مختلف تاریخی شخصیات پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو آپ انہیں ان کی زندگی کے کسی مخصوص شعبے میں ممتاز پائیں گے ۔ تاہم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی سماجی، اخلاقی ، ثقافتی، تعلیمی، سیاسی، انتظامی اور دیگر پہلؤں سمیت انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ان کی زندگی کا ہر گوشہ انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ متوازن ہے اور مجموعی طور پر کمال کا ایک نمونہ ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ،نیو ایج اسلام)
[1] جارج برنارڈ شا، حقیقی اسلام ۔ سنگاپور، جلد۔1 ، نمبر 8، 1936 ۔
[2] Lamartine, Histoire de la Turquie ، پیرس، 1854 ، جلد ۔ دوم ، حصہ276 -277 ۔
[3] مشیل ایچ ہارٹ ، The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History
نیو یارک: ہارٹ پبلشنگ کمپنی انک ، 1978 ، حصہ۔33 ۔
[4] قرآن 68:4
[5] صحیح البخاری (ترجمہ :ڈاکٹر محمد محسن خان) جلد ۔8 ۔ حصہ۔143 حدیث نمبر . 6236 ۔
[6] صحیح البخاری ۔ صفحہ۔60 ۔ حدیث نمبر ۔ 6065 ۔
[7] صحیح البخاری ۔ صفحہ۔83 ۔ حدیث نمبر ۔ 6114 ۔
[8] قرآن 21:107
[9] صحیح البخاری ۔ جلد۔4 ۔ صفحہ ۔475 ۔ حدیث نمبر ۔ 3584
[10] سنن ابو داود جلد۔3 ۔ صفحہ ۔170 حدیث نمبر۔3052 ۔ اس کے علاوہ بخاری ۔ جلد۔3 ۔ حدیث
نمبر 2995 میں بھی ۔
[11] ائے جے ٹائن بی ، Civilisation On Trial ، نیو یارک، 1948 صفحہ۔205 ۔
[12] جلد 8 حدیث نمبر 628 ۔
[13] قرآن 21:107
[14] صحیح البخاری جلد ۔ 9: حدیث نمبر 7439 ۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-personalities/the-prophet-muhammad-(saw),-great/d/10135
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-prophet-muhammad-(saw),-great/d/13470