New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 12:02 PM

Urdu Section ( 22 Feb 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Ghazwat-e-Hind and the Hypocrites of Doom غزوات ہند اور منافقین

 گریس مبشر، نیو ایج اسلام

 20 فروری 2023

 الہند کا لفظ تین خطوں کے حوالے سے احادیث میں ملتا ہے۔ ان میں راجح قول جو اہل علم نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ احادیث میں ہند سے مراد عراق کا خطہ بصرہ ہے۔ تاہم، اس کا آزادی کے بعد کے جدید ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

 ---------

 جنوبی ہندوستان میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کی منصوبہ بندی جاری ہے۔ دو ابراہیمی مذاہب - عیسائیت اور اسلام - کے درمیان پرانی دشمنی اکثر دنیا کے دیگر حصوں میں خونی تنازعات کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ لیکن ہندوستان میں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان تعلقات کا تعین ان کے درمیان اختلافات کی بنیاد پر کم اور ان کے مشترکہ تجربے کے مشترکہ ورثے کی بنیاد پر زیادہ ہوتا ہے۔ یہ مشترکہ وراثت کیرالہ میں دم توڑنے لگی ہے۔

 کرسچن ایسوسی ایشن اینڈ الائنس فار سوشل ایکشن (کاسا)، شمالی کیرالہ کی ایک جماعت جس کی پہچان مسلمانوں کی توہین ہے، ان مذموم کوششوں کی قیادت جیمز پیناویل جیسے کچھ عیسائی رہنما کر رہے ہیں۔ یہ لوگ امن کی فضا کو خراب کرنے کے لیے مسلمانوں پر ’’نارکوٹک جہاد‘‘ اور ’’مارک جہاد‘‘ جیسے بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں۔ Sebastian Punnakkal کا حالیہ تبصرہ مکاری و عیاری پر مشتمل تھا کیونکہ اس نے الزام لگایا کہ مسلمان ہندوستان کو تباہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں، اور اس کی تائید میں انہوں نے ایک حدیث کو غلط طریقے سے نقل کیا۔ یہ مضمون ہندوستان میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس الزام کی وضاحت بھی ہے۔

 غزوات ہند کی شورشیں جو حالیہ ہفتوں کے دوران کیرالہ میں دیکھنے کو ملی ہیں، خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے، اس بات کی واضح مثال ہے کہ یہ شورشیں کتنی جان لیوا ہو سکتی ہے اور اس طرح کی اشتعال انگیزیاں معاشرے کو کس طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ فرقہ وارانہ طبقے اسلام اور اس کے اصولوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں، اور غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔ ان سماجی فسادات کا مقصد عوام میں خلفشار پیدا کرنا ہے۔ امن سے محبت کرنے والوں کی امید یہ ہے کہ ایک ایسے سماجی ماحول میں جہاں مسلم کمیونٹی چھپی ہوئی ہے اور بہت سے لوگ اس کا فائدہ اٹھانے کے منتظر ہیں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی اکثریت اس معاملے کو معروضی طور پر دیکھتی ہے اور لوگوں میں اعتماد کی کمی کو کم کرتی ہے۔

 غزوات ہند

 کچھ لوگ جو عیسائی مذہب کی حفاظت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ یہ بات پھیلا رہے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان پر حملہ کرنے والوں کے لیے بڑے بڑے انعام کا وعدہ کیا ہے لہٰذا ہر مسلمان ہندوستان کا دشمن اور غدار ہے اور ہندوستان کے خلاف جانا مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ جب قوم پرستی کی تجارت کرنے والوں نے اس کی جم کر حمایت کی تو بہت سے لوگوں نے اس معاملے کو بڑھ چڑھ کر اٹھایا۔ اس کی شروعات سیباسٹین پنناکل نامی ایک فرقہ پرست نے کی تھی، جو ایک غیر ملکی زمین پر چھپا ہوا تھا اور اس نے فرقہ وارانہ رنجش کو اپنا اصل مشغلہ بنا لیا تھا۔ دوسرے کلب ہاؤس ایپ اور دیگر جگہوں پر پائے گئے۔ ملک کو آلودہ کرنے کے لیے مزید اور کیا چاہیے؟ آئیے ہم ان احادیث نبوی کا جائزہ لیتے ہیں جنہیں وہ بد نیتی سے عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جن کا تعلق غزوات ہند ہے۔

 ایک:

 عن ثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم: (عصابتان من أمتي أحرزهما الله من النار، عصابة تغزوا الهند، وعصابة تكون مع عيسى ابنم عليهما السلام) العصابة: الجماعة.أحرزهما: وقاهما.

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری امت کے دو گروہ کو خدا نے جہنم سے آزاد کر دیا ہے، ایک گروہ جو ہندوستان پر حملہ کرے گا، اور ایک گروہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا۔"

 دوسرا:

 عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: (وعدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة الهند، فإن استشهدت كنت من خير الشهداء، وإن رجعت فأنا أبو هريرة المحرر)۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزہ ہند کا وعدہ کیا تھا۔

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوؤں کے ساتھ جنگ کا وعدہ کیا تھا، اگر میں اس میں شہید ہو جاؤں تو میرا مرتبہ عظیم ہو، یا پھر غازی بن کر زندہ رہوں۔ (جہنم کی آگ سے آزاد)

 ابوہریرہ۔

 دوسری حدیث کو چار طریقوں سے نقل کیا گیا ہے، لیکن اصول حدیث کے اعتبار سے یہ سب ضعیف ہیں (ملاحظہ ہو التہذیب 2/59، 1/427 11/17)۔ خلاصہ یہ کہ یہ لفظ ناقابل قبول ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو۔

 علمائے کرام نے کہا ہے کہ یہ صحیح (قبول شدہ) ہے اس کے بارے میں کہ سب سے پہلے لفظ جو ثوبان نے روایت کیا ہے اسے امام نسائی (رح- 3175) احمد (رح- مسند 37/81) اور طبرانی (رح) نے نقل کیا ہے۔ تو آئیے اس لفظ پر بحث کرتے ہیں۔

 ہند، ہندوستان؟

 حدیث میں ہے کہ ایک گروہ ہند سے جنگ کرے گا۔ حدیث کا مفہوم سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ جانچنا ضروری ہے کہ اس میں ہند سے کون سا ملک مراد ہے۔ بہرحال، یہ بات طے ہے کہ 1947 میں آزادی کے بعد قوم کے قائدین نے جو جدید ہندوستان تشکیل دیا تھا، وہ 1450 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود نہیں تھا۔ یہاں اور دوسری جگہوں پر بہت سے مقامی بادشاہوں کی حکومت تھی۔ یہ مغلوں اور پھر انگریزوں کے دور میں تھا کہ ہمارا ملک کم و بیش متحد ہوا، حالانکہ اس وقت بھی 500 سے زیادہ شاہی سلطنتیں تھیں، جن میں سے زیادہ تر خود اپنی اپنی حکومت چلا رہے تھے۔ لہذا، اگر حدیث میں موجودہ ہندوستان مراد نہیں تو کون سا ہندوستان مراد ہے؟ اس کے جواب میں تین امکانات پر غور کیا جا سکتا ہے۔

 ایک: وسطی ایشیائی خطہ جس میں ازبکستان، کرغزستان اور قازقستان جیسے ممالک شامل ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانچ نہریں اتاری ہیں، ہندوؤں کے دریا کو زیہون کہتے ہیں، بلخوں کے دریا کو جیحون، عراقیوں کے لیے فرات اور دجلہ کو اور مصریوں کے لیے دریائے نیل۔ اس حدیث کو طبرانی اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے۔ اگرچہ یہ اتنا مضبوط حوالہ نہیں ہے کہ اس بنیاد پر کوئی قانون بنایا جائے، لیکن تاریخی طور پر اس میں ہند کی اصطلاح موجود ہے۔ یہ اس کے قدیم وجود کی گواہی ہے۔ سیہون (ازبک میں سرداریو)، وسطی ایشیا کا سب سے بڑا دریا (2700 کلومیٹر) جو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند تک ہے۔

 دوم: ایک وسیع علاقہ جس میں موجودہ پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، ہندوستان، اور چین اور افغانستان کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ہند وہ خطہ ہے جس کا ذکر حضرت آدم علیہ السلام کے اقوال میں ملتا ہے جو ہند میں آسمان سے اترے اور ہند کی عظیم سرزمین سے پیدل کئی بار حج کرنے گئے۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام آج کے سری لنکا میں اترے تھا، لیکن اگر اسی جگہ پر لفظ ہند کا اطلاق کیا جائے تو اسے اس طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی اس بات سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش 1947 کی تقسیم سے پہلے ہندوستان کا حصہ تھے۔

 تین: بصرہ کا علاقہ جو موجودہ عراق میں واقع ہے۔ الہند کے بہت سے الفاظ اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔ خالد (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں: "عمر (رضی اللہ عنہ) نے مجھے ہند جانے کے لیے لکھا، اس وقت ہند سے ہماری مراد بصرہ تھی۔ (طبرانی؛ معجم 8/227، الہیثمی؛ مجمع الزوائد 7/310، طبرانی 4/116، احمد؛ مسند 16860)۔

 پیغمبر اسلام کے زمانے میں بصرہ کو ارالہند (انڈین انسائیکلوپیڈیا) کہا جاتا تھا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تقریباً 30 مورخوں نے لکھا ہے۔

 الہند کا لفظ تین خطوں کے حوالے سے احادیث میں ملتا ہے۔ ان میں راجح قول جو اہل علم نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ احادیث میں ہند سے مراد عراق کا خطہ بصرہ ہے۔ تاہم، اس کا آزادی کے بعد کے جدید ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور کس اصول کی بنیاد پر Sebastian Punnakkal جیسے فسادی اس حدیث کا ذکر کر رہے ہیں جس میں اس آزاد ہندوستان سے جنگ کی بات کی گئی ہے جس میں ہم رہتے ہیں؟ کیا یہ عیسائی اس کا کوئی تاریخی یا دستاویزی ثبوت پیش کر سکتے ہیں؟

 غزوات ہند سے اشتعال انگیزی کا امکان

 یہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ امام نسائی (رح) نے غزوات ہند سے متعلق روایات میں ثوبان رضی اللہ عنہ سے صحیح قرار دیا ہے۔

 زیر بحث لفظ عصابتان ہے جو عصابة کی تثنیہ ہے۔ بنیادی طور پر اس کا معنی تقریباً چالیس افراد مشتمل ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ وہ اپنے زور بازو سے کسی ملک کو فتح نہیں کر سکتے۔ مذہب کسی ایسے گروہ کو جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دیتا جس کی فتح کی کوئی امید نہ ہو۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مفاد کوئی لسانیاتی تصور نہیں ہے جیسا کہ نسائی کے بعض شارحین نے کہا ہے بلکہ ایک بڑا گروہ ہے۔ البتہ جہنم سے نجات کا ثواب دونوں گروہوں میں محصور ہے۔ ایک وہ ہیں جو ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ دوسرا وہ جو یسوع کے ساتھ ہوگا۔ ان دونوں کے علاوہ، کوئی تیسرا فریق اس میں شریک نہیں ہے۔ یعنی جب ایک گروہ ایسا کرتا ہے تو وہ حدیث میں مذکور ثواب کا حق دار ہو جاتا ہے جبکہ اگر دوسرا گروہ یہی کام کر کے بھی اس ثواب سے محروم رہ جاتا ہے۔ آئیے اس تمہید کے ساتھ ہی حدیث نبوی کی تکمیل کے بارے میں کچھ فیصلہ کرتے ہیں۔

 کیا یہ مقدس جنگ جس کی پیشن گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی، لڑی گئی؟ جمہور علماء بھی یہی کہتے ہیں۔ اگرچہ اس کے سیاق و سباق اور اس کے مرکزی کردار کے حوالے سے اختلاف رائے پائی جاتی ہے، لیکن پیشن گوئی اس وقت پوری ہوگی جب یہ واقع ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ کہ ایسی چیز اب مسلمانوں کے عقیدے کا حصہ نہیں رہی، جیسا کہ سیبسٹین بیان کرتا ہے۔ اور ایسا ہونا نہیں ہے۔ اس مروجہ رائے میں زیر بحث حدیث کو نمایاں کرکے ہندوؤں اور عیسائیوں میں خوف پیدا کرنا اور مسلمانوں کو کنارے لگانا صریح دھوکہ ہے۔ راجح رائے (جس کے متعدد ماخذ ہیں) یہ ہے کہ غزوہ ہند سے مراد خلیفہ ثانی کے دور میں بصرہ (الہند) کی فتح ہے۔ لیکن یہ کہہ کر تفرقہ پیدا کرنا بڑا ظلم ہے کہ مسلمان جنگ پر آمادہ ہیں۔

 ایک اور قول یہ ہے کہ آخری دور میں الہند میں جنگ ہوگی۔ قارئین کو یہ حقیقت نہیں بھولنا پل چاہیے کہ یہاں بھی ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کون سا ہند ہے۔ اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائی اور ہندو فلسفہ بھی ہمیں یہی بتاتا ہے کہ قرب قیامت پوری دنیا میں بھیانک افراتفری مچ جائے گی۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ یسوع مسیح دجال کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ زمین پر اتارے جائیں گے اور وہ صلیب پر ظاہر ہوں گے تاکہ پوری دنیا پھیلی ہوئی برائی کو ختم کر سکیں۔ اسلام بھی یہی عقیدہ پیش کرتا ہے۔ اگر نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پوری دنیا میں جنگ اور تصادم ہو اور اگر ان تمام مقامات پر نیک لوگ منظم ہو کر دجال کے خلاف لڑیں تو بھی ہم ہندوستان میں دھرم کی مضبوط پیشرفت کی توقع کر سکتے ہیں جو کہ اس وقت تاریکی سے بھرا ہوگا۔ ایک حدیث (اگرچہ ضعیف ہے) میں ہے کہ جہنم سے آزاد ہونے والوں کا گروہ جنہوں نے ہند کے خلاف جنگ جیتی تھی شام میں عیسیٰ سے ملاقات کرے گا، جس سے مذکورہ بالا توضیح کی تائید ہوتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں، اس لفظ سے موجودہ ہندوستان مراد نہیں لیا جا سکتا اور اسے خوف اور اسلامو فوبیا پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کی آزادی میں قوم مسلم نے بھی اپنے ہزاروں افراد کی قربانیاں دی ہیں۔ وہ عیسائی جو اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر بغاوت کا خواب دیکھتے ہیں ان کے خواب بائبل کی ایک آیت سے چکنا چور ہو سکتے ہی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آیا یہ ان کے لیے قابل قبول ہوگا یا نہیں۔ یہوواہ کہتا ہے: جھوٹی خبریں نہ پھیلاؤ۔ جھوٹی گواہی نہ دو اور نہ ہی مجرموں کی مدد کرو۔ اکثریت کے ساتھ برائی نہ کرو۔ عدالت میں اکثریت کے ساتھ انصاف کے خلاف گواہی نہ دو۔ جھوٹے الزامات سے پرہیز کرو… (خروج 23/1، 2، 7)۔

 ---

 حوالہ کے لیے میں نے کچھ رپورٹوں سے استفادہ کیا ہے جن کے لنکس یہاں دیے جا رہے ہیں:

 

 https://theprint.in/india/how-kerala-churchs-love-jihad-narcotics-jihad-taunts-are-hurting-muslim-businesses-society/739701/

 ---

 https://thewire.in/religion/kerala-syrian-christians-caste-anti-muslim-rhetoric

English Article: The Ghazwat-e-Hind and the Hypocrites of Doom

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/ghazwat-hind-hypocrites-doom/d/129169

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..