غضنفر علی خان
9 جولائی ، 2015
اسلام کے نام پر مختلف ممالک میں ایسی تنظیمیں کام کررہی ہیں جن کا مذہب اسلام سےدور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایسے گروہ ہیں جنہیں اسلامی کہلانے کا حق نہیں او رجو حکومتیں یا میڈیا ان کو اسلامی انتہا پسند تنظیمیں کہتا ہے وہ بھی یکلخت غلط ہے ۔ اسلام اور انتہا پسند ی میں کوئی تعلق نہیں جو انتہا پسند ہوتا ہے وہ مسلمان ہی نہیں ہوتا اور جو مسلمان ہوتاہے وہ اس رجحان کو کبھی پروان نہیں چڑھاتا بلکہ ان کی بیخ کنی کرتا ہے ۔ جس دین مبین نے عبادتوں میں ایک اعتدال برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے وہ کیسے شدت پسندی کو جائز قرار دے سکتا ہے ۔ ان دنوں مختلف ممالک میں ایسے شدت پسند گروہ یا تنظیمیں سرگرم ہیں ، ان کی پر تشدد حرکتوں سے آج اقطائے عالم میں اسلام رسوا سربازار ہورہا ہے ۔ ان میں طالبان، داعش، بوکوحرام اور پاکستان کے بعض گروہ جیسے لشکر طیبہ لشکر جھانگوی ، سپاہ صحابہ بھی شامل ہیں ۔ان کی موجودگی باعث رسوا ئی اسلام اور روئے زمین پر انسانی اخوت او ربھاری چارہ کےلئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس جماعتوں اور گروہوں کی سرکوبی کےلئے بشمول امریکہ، برطانیہ ، فرانس اور کئی یوروپی ممالک کمر بستہ ہے۔ یہ کوشش از خود دہشت پسندی کو فروغ دےرہی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں ان خون ریزی نے کویت ، تیونس ، شام، عراق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
ان تنظیموں کے نام ہی پر فریب ہیں ۔ شام و عراق میں داعش ہی کی مثال لیجئے ۔مذہب اسلام کی ابتدائی تعلیمات سے واقف کوئی بھی شخص داعش کی خون ریزی کی تائید نہیں کرسکتا ۔ خواتین کا اغوا ، انہیں اپنی حراست میں رکھنا ،ان کی آبروریزی کرنا،بے گناہوں کوبم دھماکوں سے اڑادینا، اللہ کے گھروں یعنی مساجد میں نماز ادا کرنے والوں کو محض اس لئے ہلاک کردینا کہ وہ شیعہ تھے ، یا جیسا کہ پاکستان میں اکثر ہوتاہے جو اباً سنی عقیدہ کی مساجد میں دھماکہ کرنا، یا صحن مسجد میں کچھ جانمازوں کو ، نمازیوں کو ہلاک کردینا، کسی اسلامی تعلیمات میں شامل ہے؟ ایسا کرنے والے خود کو اسلام کیوں کر کہتےہیں جہاں اسلام کا تعلق ہے اس کی بنیادی تعلیمات میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک شخص واحد کا قتل ساری کائنات کے قتل کے مماثل ہے اور ایک انسان کی جان بچانا ساری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ بھلا مساجد میں سجدہ ریزانسانیوں کاقتل عبث کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے ۔
کویت میں ہی نہیں او رکئی مقامات پر مساجد میں نمازیوں کو شہید کردیا گیا ۔ یہ سلسلہ ہے کہ رک ہی نہیں رہاہے۔ پاکستان کے شہر پشاور میں بچوں کے ایک اسکول پر پاکستانی طالبان نے مسلح حملہ کرکے 132 معصوم طلبہ کو بیک وقت موت کی نیند سلادیا اور بڑے فخر کے ساتھ ان پاکستانی طالبان نے یہ اعلان کیا کہ وادی سوات میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہونےوالی کارروائیوں میں ان کے مزد و زن ہی نہیں بلکہ بچے بھی مارے جارہے ہیں یہ اسی کا بدلہ ہے ۔ کس کا انتقام کس سے لیا جارہا ہے ۔کون کس کا قتل کررہا ہے ۔داعش گروپ جس کو کسی قیمت پر موافق اسلام نہیں کہا جاسکتا ہزاروں بے قصور لوگوں کو ہلاک کیا ہے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ابھی ایک تازہ واقعہ میں شام میں دوخواتین کا سرقلم کردیا گیا جن پر شبہ تھا کہ وہ جادو اور سحر سے لوگوں کو پریشان کیا کرتی تھی۔ نہ کوئی مقدمہ ، نہ کوئی گواہ ، صرف داعش کے عناصر نے کسی قانونی کارروائی کے بغیر دونوں کے سر قلم کردیئے ۔ داعش ہوکہ کوئی اور تنظیم ہو اسلام کو اس طرح نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ ساری دنیا کو اس بات پر متحد ہونا چاہئے کہ کوئی مذہب اللہ کی زمین پر ایسےفتنے پیدا نہیں کرسکتا ۔ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ ساری دنیا کے ممالک کو سرجوڑ کر سوچنا چاہئے کہ اس قسم کی تنظیموں کا خاتمہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ ہر مذہب کے ماننے والوں کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مذہب کےنام پر کسی بھی قسم کی ناانصافی نہیں ہوسکتی او راگر کہیں ہورہی ہے تواس کا سدباب کیا جانا چاہئے چونکہ فی الحال مسئلہ کا تعلق اسلام سے ہے اس لئے عالم اسلام کو اس سلسلہ میں غور کرنا اور عملی اقدامات کرناچاہئے کہ کسی کو مذہب اسلام کو بدنام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ ہاں یہ بات بھی صحیح ہے کہ دنیا میں اسلام دشمنوں کی کمی نہیں ہے ۔ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی مخفی گروہ ان نام نہاد مسلم تنظیموں کو ایسا خون خرابہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے ۔ داعش کے ہمدرد مختلف عرب اور مغربی ممالک میں بھی ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں ۔
داعش کا دائرہ کار جتنا بڑھے گا اتنا ہی نقصان ہوگا ۔ طالبان نے صرف اس وقت مثبت رول ادا کیا تھا جب کہ 1979 میں افغانستان پر سابق سوویت یونین نے حملہ کیا تھا ۔ اس وقت اپنے ملک افغانستان کی مدافعت کےلئے طالبان نے بڑی بہادری سے روس کامقابلہ کیا تھا ۔ اس کے بعد سے آج تک طالبان نےاپنی شکل بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ جیسےجیسے وقت گذرتا گیا طالبان نے اپنے منفی امیج کو ابھارا اب یہ نوبت آگئی ہےکہ طالبان ہی کو تشدد پسندی کی واحد علامت سمجھا جارہاہے ۔ افغانستان سےیہ انتہاپسندی شروع ہوئی اور پاکستان کو متاثر کیا ۔ اب پاکستان میں طالبان موجود ہیں جو پاکستان کے نام نہاد مسلم معاشرہ میں بھی خون ریزی کررہے ہیں ۔ عراق، شام ،تیونس ، کویت ، غرض کون سی جگہ ہے جہاں تشدد پسندی پروان نہیں چڑھ رہی ہے ۔ ان کو کسی او رنام سے یاد نہیں کیا جاتا سوائے دہشت پسند تنظیموں کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں ۔ ان کا وجود کسی ایک ملک کےلئے خطرناک نہیں بلکہ سارے عالم اسلام کےلئے نت نئے خدشات کا سبب بنتا جارہا ہے حالانکہ اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ تو دین مبین کو رسوا کرنے کا موجب بن گئے ہیں ۔
9 جولائی، 2015 بشکریہ : روز نامہ آ بشار ، کولکاتہ
URL: https://newageislam.com/urdu-section/extremist-organizations-blot-islam-/d/103836