New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 01:54 AM

Urdu Section ( 30 Oct 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Islamic and Un-Islamic Years کون سا سال اسلامی ہے اور کون سا غیر اسلامی؟

غوث سیوانی

30 اکتوبر، 2014

کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نئے ‘‘اسلامی  سال’’ کی مبارکباد کا پیغام بھیجا تھا؟ کیا اس کی فضیلت میں قرآن کریم  کی کوئی آیت یا کوئی حدیث  ہے؟ کیا آپ نے مسلمانوں کو اس  کا حکم دیا تھا کہ نئے  اسلامی سال کی مبارکباد یاں بھیجا کرو؟ کیا آپ نے اسلامی اورغیر اسلامی  سالوں کا فرق بتایا تھا؟ کیا قرآن  کریم یا احادیث میں کہیں  بتایا گیا ہے کہ قمری سال اسلامی سال ہے یا ہجری سال اسلامی سال ہے اور باقی سال غیر اسلامی ہیں؟ اگر قمری سال اسلامی سال ہے تو شمسی  سال کیا غیر اسلامی سال ہے؟ اور بھارت میں صدیوں سے رائج  فصلی، بکرمی، پنجابی ، بنگالی سال کیا ہیں، کیا یہ بھی غیر  اسلامی سال ہیں؟ میرے ذہن میں اس قسم کے سوالات  اس لئے اٹھ  رہےہیں کہ بھارت میں گزشتہ برسوں سے یہ سلسلہ  زور پکڑ تا جارہا ہے کہ محرم مہینے کی شروعات کے ساتھ ہی  مبارکبادیوں  کا سلسلہ  چل پڑتا ہے اور مسلمانوں  کا ایک طبقہ لوگوں کو موبائل  ، انٹر نیٹ ، نیٹ ورکنگ سائٹس اورمختلف ذرائع سےمبارکباد ی کے پیغامات بھیجنا شروع کردیتا ہے ۔ اس بار تو اردو کے ایک کثیر الاشاعت اخبار نے پورے صفحہ اوّل کو اسی  مبارکبادی کے لئے وقف کردیا۔  مبارکبادی کا یہ سلسلہ ایک دوسرے کی دیکھا  دیکھی چلتا ہے اور کوئی یہ سو چنے کی زحمت نہیں کرتا کہ یہ کام اسلامی ہے  یا غیر اسلامی؟ میں نے اب تک علماء سے بھی  اس سلسلے میں کبھی کوئی بیان نہیں سنا ۔ ان علماء سے بھی نہیں  جو ہر جمعہ کو خطبہ میں یہ کہنا نہیں بھولتے کہ ‘‘ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے’’ ۔ علماء کرام  قوم کو بتائیں گے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص سال کو اسلامی  سال کانام دیا اور قرآن کریم میں کسی  خاص  سال کو اسلامی سال  کہاگیا ہے؟  اگر سال کے معاملے میں اسلامی اور غیر اسلامی کی تفریق  نہیں کی گئی ہے تو کسی کو کیا حق  پہنچتا ہے کہ وہ فرق  کرے؟ اور جب قرآن  و احادیث  میں نئے سال کی مبارکباد کا کوئی تصور نہیں  ہے تو اسے شروع  کرنا بدعت و گمراہی  ہے یا نہیں؟

ہجری سال اسلامی سال ہے؟

عرب میں پرانے زمانے سے قمری  یعنی  چاند کا سال رائج تھا۔ سیرت نبوی اور تاریخ اسلام پر کتابیں لکھنے والے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا سال قمری مہینے کے لحاظ سے تحریر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ماہ ربیع الاول میں 1؁ عام الفیل کو آ پ کی  پیدائش ہوئی ۔ بعد کے واقعات بعثت نبوت تک کا ذکر بھی وہ عام الفیل کے حوالے سے کرتے ہیں ۔ یوں ہی  اس کے بعد کے برسوں کو نبوی سال کہتےہیں یہاں  تک کہ آپ نے ہجرت فرمائی اور پھر ہجری  سال کی شروعات  ہوتی ہے جو آج تک جاری ہے۔ تاریخ  اسلام میں اکثر واقعات  کا ذکر  اسی ہجری سال کے لحاظ  سےکیا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہجری سال کا آغاز ہجرت کے واقعہ سے ہوا مگر ہجرت نبوی  محرم نہیں ربیع الاول کے مہینے میں پیش آئی ۔ تاریخی  روایات  کے مطابق ربیع الاول کی پہلی  تاریخ کو رات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے اور آٹھ دن کے سفر کے بعد 8 ربیع الاول کو دو پہر کے وقت مدینہ منورہ کی قریبی بستی  ‘ قبا’ میں وارد ہوئے جو کہ مدینہ کا ایک محلّہ سمجھا جاتا تھا ۔ ویسے مدینہ منورہ کے اندرونی  حصے میں آپ ربیع الاول  کی بارہویں  تاریخ کو وارد ہوئے ۔ اس لحاظ سے  ہجری کی شروعات اور مدینہ منورہ میں داخلہ سب کچھ ربیع الاول کے مہینے میں ہوا ۔ گویا یہ قمری  سال جو کہ محرم سے شروع ہوتاہے وہ پہلے ہی  شروع ہوچکا تھا ۔ مولانا  اکبر شاہ  نجیب آبادی کی کتاب تاریخ اسلام ، جلد اول کے صفحہ 136 کی ایک عبارت  ملاحظہ ہو:

‘‘ سنین ہجری : اس وقت تک زمانہ  کا اندازہ کرانے کے لیے سنہ نبوی استعمال کئے گئے ہیں، جن سے مدعا یہ ہے کہ آپ  کو نبوت ملے  ہوئے اتنے سال ہوئے، لیکن  یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قمری  سال  کے مہینوں کی ترتیب اور نام وہی ہیں جو پہلے عرب میں رائج تھے، اس لئے سنہ نبوی کا پہلا سال صرف چند ہی مہینے کے بعد میں ختم ہوگیا تھا ۔  یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا داخلہ  مدینہ کے اندر ماہ ربیع الاول 14 نبوی میں بیان کیا گیا  لیکن آپ کی بعثت  اور نبوت  کو صرف ساڑھے بارہ سال ہوئے تھے ۔ اسی طرح آپ کے مدینہ میں ہجرت فرما کر تشریف لانے سے سنہ  ہجری شروع ہوتا ہے۔ چونکہ آپ بارہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ  میں تشریف لائے اس لئے پہلا ہجری  سال صرف ساڑھے نو مہینے  کے بعد ختم ہوگیا اور یکم  محرم سے دوسرا سال شروع ہوگیا’’۔

اوپر کی عبارت کو آپ دوبارہ پڑھیں ۔ اس میں کہیں  بھی نہیں کہا گیا ہے کہ یہ سال اسلامی سال ہے بلکہ  ان تاریخوں کو صرف اس لئے  بتایا جاتا ہے کہ واقعات کو بیان کرنے میں آسانی ہو۔ ہمیں اپنی  علم کی  مائیگی  کا اعتراف ہے او رعلماء سے جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اسلامی سال کا کوئی تصور قرآن  و احادیث میں ہے؟

اسلامی اور غیر اسلامی کی تفریق  کیوں؟

عرب میں قمری تاریخوں کا رواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت  کے قبل سے تھا ۔ یہا ں شمسی سال کا رواج نہیں تھا لہٰذا  اسلامی تیوہار وغیرہ کو قمری مہینوں کے مطابق بیان کیا گیا ہے ۔ مثلاً رمضان کا مہینہ اور شب قدر کی تعیین ، عبدالفطر اور عید الاضحیٰ کے تیوہار ، یوم عاشورہ کا تعین وغیرہ۔ آج تک مسلمان قمری مہینوں کے مطابق ہی ان ایام کی تعیین کرتے ہیں مگر باقی کاموں کے لئے شمسی تاریخوں کا استعمال کرتےہیں ۔ اگر وہ اپنے دیگر کاموں کے لئے بھی قمری تاریخوں کا استعمال کرنے لگیں  تو اسی طرح کنفیوزن ہوجائے جس طرح عید اور رمضان کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ یعنی تین تین عیدیں اور الگ الگ تاریخوں میں رمضان کا آغاز  ۔ بھارت جیسے ملک میں صدیوں سے فصلی تاریخیں  رائج ہیں  کیونکہ یہاں  قدیم ایام سے لوگ فصلوں اور موسموں کے لحاظ سے دنوں اور تاریخوں کا تعین کرتے رہے ہیں ۔ یہاں کی مختلف ریاستوں میں موسموں اور فصلوں میں فرق ہوتا ہے لہٰذا الگ الگ  ریاستوں میں لوگوں نے الگ الگ سنہ اپنی سہولت  کےمطابق بنا رکھے ہیں ۔ مثلاً مغربی بنگال میں بنگلہ سال کا رواج ہے تو پنجاب میں الگ سال اور تاریخ ہے۔ گجراتی سال الگ  ہے تو جنوبی ہند کا سال الگ چلتا ہے۔ ایسا صرف بھارت میں ہی نہیں ہے بلکہ ایران  سے چین تک ہر جگہ لوگوں نے اپنی سہولت کے مطابق سنہ اور تاریخیں طے کررکھی ہیں ۔ اب ان سنوں اور تاریخوں کو اگر ہم اسلامی اور غیر اسلامی کے خانوں میں بانٹنا شروع کردیں گے تو مصیبت  ہوجائے گی۔ ویسے بھی جب اللہ اور رسول نے  اس کی تقسیم نہیں کی ہے تو دوسرے  کیوں کریں؟ اس بارے میں  جامعہ ملیہ  اسلامیہ  میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر مفتی محمد مشتاق تجاوری ( قاسمی) سے ہم نے بات  کی تو انہوں نے بتایا کہ اسلامی سال نہیں قرار دیا گیا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق  رضی اللہ عنہ کے زمانے سے ہجری سال کی ابتدا ہوئی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہجری سال کو اسلامی سال کہنا شرعی احکام کا حصہ  نہیں بلکہ یہ مسلم کلچر کا حصہ ہے۔ یونہی  نئے سال کی مبارکباد کا رواج بھی  دور حاضر کی پیداوار ہے۔

عرب ملکوں میں رہنے والے بیشتر لو گ مسلمان ہیں جو سنّی  اور شیعہ  میں منقسم ہیں ۔ اندازہ ہے کہ ان ممالک میں چالیس فیصد کے آس پاس شیعوں کی آبادی ہوگی۔سنٹرل ایشیا،  افغانستان ، پاکستان او ربھارت میں بھی شیعوں  کی خاصی آبادی ہے۔ عام طور پر شیعہ  حضرات محرم کے مہینے کو غم کے مہینے  کے طور پر مناتےہیں اور سنیو ں کا ایک طبقہ بھی ان کے جذبات کا احترام کرتا ہے ۔ اہل بیت اطہار  کے احترام کے سلسلے میں شیعہ اور سنی کا کوئی فرق نہیں  ہے۔ یونہی  اگر  بعض معاملات  میں اختلافات  ہیں بھی تو دونوں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے  ان کا ذکر ایک دوسرے کے سامنے کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ اسی کے ساتھ  یہ بھی سچ ہے کہ دونوں فرقوں میں ایک شدت پسند طبقہ  بھی ہے ، جو ایک دوسرے پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا ۔ ایسا لگتا ہے کہ محرم  میں مبارکبادیوں کا سلسلہ سنیوں  کے شدت پسند طبقے کی شروعات ہے۔ یہ درست  ہے کہ اس مہینے میں کچھ اچھے واقعات بھی ہوئے ہیں  مگر محرم کی دسویں  تاریخ  کو نواسۂ رسول        اور ان کے رفقاء کی شہادت  کا افسوسناک واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کی یاد آج تک دلوں سے محو نہیں ہوئی ہے۔  بر صغیر ہندو  پاک میں پرانے زمانے سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے کہ محرم کے مہینے میں عموماً تقریبات  نہیں ہوتی ہیں، حالانکہ اہل سنت کے علماء نے ایسی کوئی ممانعت نہیں کی ہے مگر غم حسین کا اثر ہوتا ہے یا شیعہ بھائیوں  کے جذبات کااحترام کے لوگ  احتراز کرتےہیں ۔ اب جو اس مہینے میں مبارکباد یوں کا سلسلہ شروع  کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ اچھے مقاصد نہیں ہیں ۔ ویسے  بھی اسلام میں اس کا کوئی تصور بھی نہیں ہے اور اسلام نے کسی بھی سال کو غیر اسلامی سال نہیں  کہا ہے۔

30 اکتوبر، 2014  بشکریہ : روز نامہ صحافت، لکھنؤ

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-islamic-un-islamic-years/d/99778

Loading..

Loading..