New Age Islam
Sun Jun 15 2025, 09:17 PM

Urdu Section ( 20 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Will the Genocide of Palestinians Continue? فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہے گی؟

ڈاکٹر یامین انصاری

18 مئی،2025

جس وقت امریکی ڈونالڈ ٹرمپ خلیجی ممالک کے دورہ کررہے تھے، اس دوران بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کاسلسلہ جاری رہا۔یوں تو یہ سلسلہ گزشتہ تقریباً 20 ماہ سے جاری ہے اور غزہ کا علاقہ اپنی آخری سانسیں لے رہاہے۔ یہاں پرباقی ماندہ لاکھوں افراد زندگی او رموت کی کشمکش کے درمیان ادھر سے ادھر بھٹک رہے ہیں۔ 7/ اکتوبر 2023 ء سے پہلے فلسطینیوں کو اندھیرے میں رکھ کر ڈیل کی جارہی تھی۔آج تقریباً بیس ماہ بعد بھی ان کی شمولیت کے بغیر نئی نئی تجاویز او رمنصوبے پیش کئے جارہی ہیں۔ کوئی امن کے نام پر مسلح جدوجہد کو قطعی خاموش کردینا چاہتا ہے۔کوئی اہل غزہ کو دربدر کرنے پر آمادہ ہے۔کوئی ان کے مکمل انخلا کی بات کررہاہے۔کوئی دوسرے ممالک میں دھکیل دینے کی بات کررہاہے۔ اس میں ایک طرف صہیونی بربریت اورطاقتیں وسازشیں شامل ہیں، تو وہیں دنیا کے چودھری امریکہ کی سرپرستی او رمعاونت بھی ہے۔ ادھر خطہ کی مسلم مملکتوں کی لاچاری و بے بسی اور دنیاوی مفادات بھی ہیں۔ فلسطینیوں کے مستقبل کا یہ سوداباقی سبھی فریق اپنے اپنے مفادات کو ملحوظ نظررکھ رہے ہیں، اصل فریق اس میں کہیں نظر نہیں آتا۔ لہٰذا ایسی کسی بھی کوشش پر سوالیہ نشان لگنا یقینی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں تین خلیجی ممالک کا دورہ کیا۔ اس میں بھی اپنے پہلے دورہ کی طرح اس دورے میں سب سے پہلے انہوں نے سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ 2017 ء میں بھی وہ سب سے پہلے سعودی پہنچے تھے۔ ٹرمپ کے اس دورے پر پوری دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی تھیں۔ اگر چہ انہوں نے اپنے اس دورے میں صہیونی ریاست کاانتخاب نہیں کیا، لیکن پھر بھی امید تھی کہ ان کے ا س دورے سے مسئلہ فلسطین پرضرور کچھ پیش رفت ہوسکتی ہے۔ کیونکہ سعودی عرب، قطر او رکچھ حد تک متحدہ عرب امارات مسئلہ فلسطین کے تعلق سے سرگرم رہے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے اس دورے کا واحد مقصد تجارت، اقتصادیات اور ہتھیاروں کی زیادہ سے زیادہ فروخت تھا۔ مسئلہ فلسطین کے حل یاغزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں نہ تو ٹرمپ کی کوئی دلچسپی نظر آئی او رنہ ہی خطہ کی  نام نہاد مسلم مملکتوں نے کوئی کوشش کی۔ جس امریکہ کی مدد ومعاونت کے سہارہے اسرائیل فلسطین میں خون کی ندیاں بہارہا ہے، کیا اسی امریکہ پردباؤ ڈال کر بیس ماہ سے جاری نسل کشی کو نہیں رکوا یا جاسکتاتھا۔ٹرمپ نے مسئلہ فلسطین سے زیادہ دلچسپی تو ہندوستان او رپاکستان کے درمیان جاری کشیدگی میں دکھائی۔ یہاں تک کہ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کردیا کہ تجارت کو دھونس دکھا کر انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ رکوادی۔ خلیجی ممالک کے دورے کے دوران ایک بار نہیں، کئی بار انہوں نے اس بات کو دوہرایا۔ تو کیا سعودی عرب،قطر یا یواے ای ٹرمپ کو اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتے تھے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود ہر روز سیکڑوں بے گناہ اور معصوم فلسطینیوں کی جان لینے والے اپنے پروردہ اسرائیل کو روکیں۔ ویسے توامید کم ہی ہے کہ امریکہ فلسطینیوں کے حق میں کوئی اقدام کرے گا، بلکہ اس کی کوشش تو اسرائیل کا ہر ممکن تحفظ اور فلسطینیوں کی دربدری ہے۔ اسی لئے ابھی تک ٹرمپ کے آنے کے بعد امریکہ نے جتنے منصوبے پیش کئے ہیں وہ سب فلسطینیوں کے خلاف ہی ہیں۔ اگر چہ ٹرمپ خود کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچھ لوگ انہیں نوبل امن انعام کا دعویدار بھی ماننے لگے ہیں۔ دراصل ٹرمپ نے ہندوستان او رپاکستان کے درمیان جنگ کو رکوانے کا دعویٰ کیا،شام پر عائد پابندیاں ہٹائیں اور سعودی عرب میں شام کے موجودہ صدر احمد الشرع سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ دنیا کو تصویریں دکھائیں۔ یہ وہی احمد الشرع ہیں جن پر امریکہ نے شام میں جاری جدوجہد کے دوران دس بلین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔اس کے علاوہ اپنے دیرینہ مخالف ایران کے ساتھ بھی ٹرمپ نے مذاکرات کئے اور پابندیاں ہٹانے کی امید بندھائی ہے۔ امریکی صدر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نیوکلیائی اُمور میں ایران سے گفتگوکریں گے۔یہی نہیں، روس اور یوکرین میں جاری جنگ رکوانے کی بھی ناکام کوشش کی۔ روس سے جنگ رکوانے کے لیے یوکرینی صدر زیلنسکی کو امریکہ بلایا۔ حالانکہ اس دوران دونوں کے درمیان نوک جھونک کی تصویر یں بھی دنیا نے دیکھیں۔حد تو یہ کہ اسرائیل کو اعتماد میں لئے بغیر انہوں نے یمن کے حوثیوں سے ڈیل کرلی۔ اس سے علاوہ ٹرمپ نے حماس کو در پردہ راضی کیا اور ایک امریکی اسرائیلی یرغمال (عیدان الیگزینڈر) کو رہا کروالیا۔ اس رہائی کے لیے حماس سے جو بات چیت ہوئی اور تل ابیب کے بغیر ہوئی۔ دراصل ٹرمپ نے دوسری بار صدر بننے کے بعد’جنگ‘ کی جگہ ’کاروبار‘ کو ترجیح دینے کی کوشش کی ہے۔ لہٰذا انہیں امن کے نوبل انعام کا دعویدار بتایا جانے لگا ہے۔حالانکہ امریکہ کی تو تاریخ رہی ہے کہ وہ دنیا بھر میں کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں جنگ میں ملوث رہا ہے۔ کہیں براہ راست خود جنگ کی تو کہیں اس کے ہتھیار وں کا استعمال ہوا۔ اسی امریکہ کا صدر حیرت انگیز طور پر امن کے گیت گا رہا ہے۔لیکن دنیا کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک اسرائیل اورفلسطینیوں کی چشمک ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کی حمایت تو نہیں چھوڑی ہے، لیکن ٹرمپ بظاہر غزہ میں امن کی بات ضرور کررہے ہیں۔حالانکہ ان کے منصوبے او رحکمت عملی ایسی ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ناقابل قبول ہوگی۔ پھر بھی اگر ٹرمپ فلسطین میں بے گناہوں کے قتل وغارت گری اور خون ریزی رکوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ضرورانہیں نوبل امن انعام کامضبوط امیدوار مانا جاسکتاہے۔

صہیونی ریاست کے قیام سے لے کر اب تک شاید یہ پہلی بار ہوگا کہ کسی امریکی صدرنے ا س طرح سے نظر انداز کیا ہو۔ ٹرمپ نے اپنے چار روزہ مشرق وسطیٰ کے دورے میں سعودی عرب، قطر اور یواے ای کی میزبانی قبول کیا، مگر اسرائیل جانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ان کی یہ بات یقینا نتن یاہو کو ناگوار گزری ہوگی۔ لیکن خلیجی ممالک نے ان حالات کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ دراصل امریکہ کی طرح ان کے نزدیک بھی اپنے اپنے مفادات زیادہ مقدم تھے۔ اگر چہ سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی حامی نہیں بھری،لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے سعودی عرب سے غیر فوجی(شہری) نیوکلیائی معاہدہ کرلیا۔ مجموعی طور پر اس دورے میں 600بلین ڈالر کے معاہدے کئے گئے، جن میں 142بلین ڈالر صرف اسلحہ کی فروخت سے متعلق ہیں۔ قطر نے امریکہ سے 200 بوئینگ طیارے خریدنے کامعاہدہ بھی کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قطر کے شاہی خاندان کی جانب سے محل نما 40کروڑ ڈالر کا ایک جمبوجیٹ طیارہ امریکی صدر کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا گیا۔ وہیں اس کے برعکس اسرائیل سب سے زیادہ امریکی امدار پانے والا ملک ہے۔ 1951ء تا 2022 ء واشنگٹن نے اسے 217.9 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔ اب یہ ٹرمپ کو طے کرناہے کہ کیا وہ اسی کو ترجیح دیں گے۔اگر وہ خلیجی ممالک سے لینے کا اور اسرائیل کو دینے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو یہ ان خلیجی ممالک کو بھی سوچنا ہوگا جو کہیں نہ کہیں اسرائیل کے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورے میں جس طرح اسرائیل کو نظر انداز کیا ہے او ر اپنے ہاتھ کھینچے ہیں، اس سے یہی لگتاہے کہ وہ اسرائیل سے فاصلہ بڑھا رہے ہیں۔ اسے نتین یاہو کی ناکامی سے تعبیرکیا جاسکتا ہے۔خلیجی ممالک کی کامیابی یہ ہوگی کہ وہ اپنے تجارتی او رذاتی مفادات کے ساتھ ٹرمپ کو فی الحال غزہ او رمجموعی طور پر مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے آمادہ کرلیں اور غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کو کسی بھی قیمت پر رکوائیں۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/genocide-palestinians-continue/d/135595

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..