نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
10 اکتوبر 2025
اسرائیل پر حماس کے 7 اکتوبر 2023ء کے حملوں اور پھر غزہ میں اسرائیلی جنگی مہم کے آغاز کے ٹھیک دو سال کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا اور 9 اکتوبر سے نافذ بھی ہوگیا۔ اس جنگ بندی کے لئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ذاتی طور پر کوشش کی تھی اور اس بار انہوں نے ترکی ، مصر اور قطر کے مذاکرات کاروں کو بھی شریک کیا تھا۔ یہ مذاکرات اس بار قطر کی راجدھانی دوحہ میں نہیں بلکہ مصر کے شرم الشیخ میں منعقد ہوئے۔
29 ستمبر 2023ء کو ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے ایک 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا تھا جس میں دونوں طرف سے قیدیوں اور یرغمالیوں کی رہائی ، غزہ کی غیر مسلح کاری ، غزہ میں بین الاقوامی غیر استحکامی فورس کا قیام ، فلسطینیوں کے ذریعے ایک عبوری حکومت کا قیام ، غزہ میں وسیع پیمانے پر باز تعمیراتی عمل کا آغاز اور حتمی طور پر ایک فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ ٹرمپ نے حماس کو اس منصوبے پر راضی ہونے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا تھا اور اس پر راضی نہ ہونے پر جہنم کے دروازے کھول دینے کی دھمکی دی تھی۔ حماس حسب سابق معاہدے پر مذاکرات کے لئے تیار ہوگیا اور منصوبے کی کچھ شقوں کو چھوڑ کر بقیہ پر اپنی رضامنی دے دی اور اس طرح 8 اکتوبر کو ٹرمپ نے اپنے سوشل۔میڈیا اکاؤنٹ پر یہ اعلان کیا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی پر معاہدہ ہوگیا ہے اور یہ جنگ بندی 9 اکتوبر 2025ء سے نافذ ہوجائے گی ۔ فریقین 72 گھنٹوں کے بعد قیدیوں اور یرغمالیوں کو رہاکردینگے۔۔ حماس کے قبضے میں 48 اسرائیلی باقی بچے ہیں جن میں سے صرف 20 زندہ ہیں جبکہ اسرائیل 2000 فلسطینیوں کو رہا کرے گا جن میں تقریباً 250 عمر قید کے سزاوار ہیں۔اس معاہدے کے مطابق دونوں فریق ایک دوسرے پر حملے نہیں کرینگے اور اسرائیلی فوج ایک خاص حد تک پیچھے ہٹ جائے گی۔ حماس نے غزہ کا انتظام فلسطینی اہلکاروں کے سپرد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن پوری طرح سے ہتھیار چھوڑنے سے انکار کیا ہے۔ اس معاہدے میں ترکی ، قطر ، مصر اور امریکا کے ننائندے موجود تھے اور خصوصی طور پر امریکا کے سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ایڈمیرل براڈ کوپر بھی موجود رہے معاہدے کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کی نگرانی کے لئے 200 امریکی فوجی براڈ کوپر کی سربراہی میں غزہ میں موجود رہینگے۔ ان میں قطر ، ترکی اور مصر کے فوجی افسران بھی شامل ہونگے۔
اس سب کے باوجود اسرائیل اور حماس کے درمیان یہ جنگ بندی معاہدہ ابھی تک غیر واضح ہے اور اس میں کئی باتیں ٹرمپ کی نیت پر شک و شبہ پیدا کرتی ہیں۔ 9 اکتوبر سے نافذ ہونے والی جنگ بندی اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے تحت حماس تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لئے راضی ہوگیا ہے۔ اس کے عوض حماس نے یہ دعوی کیا ہے کہ ٹرمپ نے انہیں مستقل جنگ بندی کی ضمانت دی ہے۔ حماس جنگ کے آغاز سے ہی یہ کہتا رہا ہے کہ وہ مستقل جنگ بندی چاہتا ہے۔ لہذا ، وہ اس بار تمام 48 یرغمالیوں کو اسی شرط پر رہا کرنے پر راضی ہوا کہ اسے ٹرمپ نے مستقل جنگ بندی کی ضمانت دی ہے۔ لیکن دوسری طرف بنجامن نتن یاہو نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ تمام مقاصد کے حصول تک جدوجہد جاری رکھینگے اور ان میں سے ایک۔مقصد حماس کا مکمل خاتمہ ہے۔ لہذا ، ایک طرف حماس ہتھیار چھوڑنے کو راضی نہیں ہے تو دوسری طرف نتن یاہو حماس کی غیر مسلح کاری پر مصر ہیں۔ ایسے میں نتن یاہو کے لئے کسی بھی وقت جنگ بندی کی خلاف ورزی کے لئے دروازہ کھلا رہے گا۔ اب جبکہ حماس کے پاس یرغمالیوں کی رہائی کے بعد سفارتی دباؤ کا راستہ بھی نہیں رہے گا نتن یاہو کسی بھی وقت جنگ بندی کی خلاف ورزی کرکے دوبارہ غزہ میں حملے شروع کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ کی ضمانت ان کی بلا سے۔ انہوں نے ٹرمپ اور بائیڈن کا مشورہ پہلے بھی کب مانا ہے جو آگے مان لینگے۔
ایک اور نکتہ جو شک وشبہ پیدا کرتا ہے وہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے نکات میں غزہ کی باز تعمیر کا غیر واضح منصوبہ اور غزہ میں عبوری حکومت کے خدوخال کی عدم موجودگی ہے۔ ٹرمپ نے غزہ کی باز تعمیر کو اپنے بیس نکاتی پیس پلان میں شامل کیا ہے لیکن اس کے لئے کسی فنڈ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی قطر ، ترکی اور مصر نے غزہ کی باز تعمیر کے لئے کوئی فنڈ مختص کرنے کی بات کی ہے۔ ٹرمپ نے غزہ کے لئے ایک بورڈ بنانے کی بات کی ہے جس میں ان کےعلاوہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلئیر بھی شامل ہونگے۔ اس سے قبل ٹرمپ غزہ میں فرنچ ریویئرا کی طرز پر تفریح گاییں ، تجارتی مراکز اور دیگر سڑکیں تعمیر کرانے کے منصوبے کا ذکر کرچکے ہیں۔ لہذا ، یہ بات نعید از قیاس نہیں کہ ایک بار جب تمام اسرائیلی یرغمای رہا ہوجائینگے اور نتن یاہو پر عوامی دباؤ ختم ہوجائے گا تو پھر ٹرمپ اور نتن یاہو ملکر غزہ کو خلیج کا دوسرا دبئی بنانے کے خفیہ منصوبے پر کام شروع کردینگے تاکہ خلیج میں دبئی کی تجارتی اور اقتصادی مرکزیت کو ختم کرکے ایک نیا تجارتی مرکز خلیج میں بناسکیں۔ جس کی باگ ڈور اسرائیل اور امریکا کے ہاتھ میں ہوگی۔ ٹرمپ کے پلان کےمطابق غزہ میں فلسطینیوں کی برائے نام حکومت تو ہوگی لیکن اسے اپنی فوج رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی بلکہ اس کی جگہ ایک بین الاقوامی استحکامی فورس قائم کی جائے گی جس کی کمان امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں میں ہوگی۔یہ فوج جب چاہے فلسطینیوں کے گھروں میں گھس کر بچوں اور جوانوں کو اٹھالے گی اور انہیں طویل عرصے کے لئے قید کردے گی۔ اس فورس میں نام کو قطری ، ترک اورمصری فوجی ہونگے جن کا کوئی رول فیصلہ سازی میں نہیں ہوگا اور اس کا کنٹرول سینٹ کوم کے ہاتھوں میں ہوگا۔محمود عباس کو غزہ اور ویسٹ بینک کی کٹھ پتلی حکومت کا سربراہ بنا یاجاسکتا ہے ۔ مجموعی طور پر غزہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کا امن منصوبہ کئی سوالات اور شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے اور غزہ کے عوام کے مستقبل کے تئیں نئے اندیشے اور خدشات پیدا کرتا ہے۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/gaza-ceasefire-agreement/d/137179
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism