گریس مبشر، نیو ایج اسلام
3 اپریل 2024
ہندوستان کے مسلمان قوم
پرستی، جمہوریت اور سیکولرازم جیسے نظریات سے، مذہب کی لبرل تعبیرات و تشریحات سے
جڑے ہوئے ہیں، ان کی بنیادی تعبیرات و تشریحات سے نہیں۔
اہم نکات:
1 لبرل طبقے نے اسلام کو
اپ ڈیٹ کرنے، اور اس کے سخت معتقدات میں نرمی پیدا کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔
2 لبرل خیالات رکھنے
والے لوگ عام طور پر کہتے ہیں، کہ اسلامی معتقدات لچکدار ہیں اور ان کے کوئی سخت
نظریاتی تقاضے نہیں ہیں۔ وہ صرف نظریات سے بڑھ کر، سماجی زندگی اور اس کے طریق کار
کو بھی اہمیت دیتے ہیں ۔
3 مولانا ابوالکلام
آزاد نے قرآن کا مطالعہ، مولانا مودودی جیسے لوگوں کی بنیاد پرست تشریحات سے ذرا
مختلف انداز میں پیش کیا، کیونکہ وہ جمہوریت یا مذہبی غیر جانبداری پر یقین نہیں
رکھتے تھے۔
-------
لبرل اسلام کوئی بالکل
نیا لفظ یا کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔ یہ سینکڑوں سالوں سے موجود رہا ہے۔ درحقیقت،
لبرل ازم وہ نقطہ نظر ہے، کہ اسلام کی پوری تاریخ میں زیادہ تر مسلمان اس کے حامل
رہے ہیں۔
اسلام کے نام پر، اس کی
لبرل تعبیر و تشریح کا بھی شعبہ پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، سماجی مصلحین نے بھی،
مذہب کے انتہائی بنیادی عناصر کو بھی، اپنے مطالعات کے ذریعہ، اور انہیں نئے سماجی
حالات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر کے، اپ ڈیٹ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ کچھ طریقوں
سے، یہ ایک مبہم نظریہ ہے۔ یہ طرز فکر اپنے طور پر پروان چڑھا، اور اب مرکزی دھارے
کا حصہ ہے۔
اس رجحان نے اس خیال کو
جنم دیا ہے، کہ مذہب کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اسے اپ ڈیٹ کرنے کے طریقہ کے
بارے میں، مختلف لوگوں کے مختلف خیالات ہوسکتے ہیں۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ زمانے،
معاشرے اور مذہبی عقائد کی بنیاد پر بدلتا رہے گا۔ انہوں نے مسلم جماعتوں اور عوام
دونوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش
کی ہے، اور امت مسلمہ کو معاشرتی فوائد اور آسائشوں تک رسائی فراہم کی ہے۔
جو لوگ لبرل خیالات رکھتے
ہیں وہ عام طور پر کسی خاص نظریے پر قائم نہیں رہتے، بلکہ وہ صرف نظریات سے بڑھ
کر، سماجی زندگی اور اس کے طریق کار پر بھی زور ڈالتے ہیں ۔ لبرل طبقہ دنیا کے
تقریباً ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ لبرل سوچ کے پیچھے بنیادی طور پر، زندگی کے
متعلق جدید نظریات، ترقی پسندی، عقلیت پسندی اور سائنسی شعور جیسے افکار و نظریات
ہیں۔ مذہبی تنظیموں میں لبرل خیالات کے در آنے کی وجہ سے ہی مذہب کا تنگ باطن، ہر
ایک کے لیے کھلتا جا رہا ہے، اور مذہبی نظریات کم سخت اور عملی ہوتے جا رہے ہیں۔
جب اسلام کی بات آتی ہے، تو لبرل طبقے نے اسے زیادہ جدت پسند بنانے، اور اس کے
معتقدات کی سختی کو کم کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔
مذہبی معتقدات اور اصول و
قوانین کے بارے میں بات کرنے والی زیادہ تر تحریریں، ایک ایسے وقت میں معرض وجود
میں آئیں، جب لوگ اس بات سے کافی حد تک واقف ہو چکے تھے، کہ معاشرہ کیسے کام کرتا
ہے۔ اس قسم کی تحریریں مسلمانوں کی مذہبی زندگی پر کافی اثر رکھتی ہیں۔ ان کو
مسترد کر کے آپ مسلم ثقافت میں جدت پسندی نہیں لا سکتے، اور نہ ہی ان کی اجتماعی
زندگی کے طریقے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ معاشرے سے نکلنے والے تمام مسلم مصلحین اور
مفکرین نے اسے ہی سچ مانا ہے۔ مذہب کے اندر لبرل نظریہ سازوں نے ہمیشہ پرانے
نظریات اور اصول و قوانین کی اس انداز میں تشریح کی ہے، جو آج کی دنیا میں معنی
خیز ہے، اور جن سے جدید اقدار اور جدید طرز فکر کی حمایت ہوتی۔
جمہوریت اور مساوات جیسے
نظریات، اسلام کے اس دنیا میں آنے کے بعد معرض وجود میں نہیں آئے۔ یہ نظریات بالکل
ہی ان پالیسیوں اور عقائد کی طرح نہیں ہیں، جنہیں مذہب عام کرتا ہے۔
اب بھی، ان نظریات کو
انتہا پسند مذہبی گروہ زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بنیاد
پرست مذہبی نظریات، اب بھی جمہوریت اور سیکولرازم کو مکمل طور پر قبول نہیں کر
سکتے۔ جو لوگ لبرل ازم پر یقین نہیں رکھتے تھے،ان کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا نے پہلے
سے ہی وہ تمام قواعد و ضوابط بنا کر لوگوں کو عطا کر دیے ہیں، جن کی لوگوں کو
زندگی گزارنے کے لیے ضرورت ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ صرف انہیں اصول و قوانین پر عمل
کرنا ہی، زندگی گزارنے کے لیے کافی ہے۔ ان مفکرین نے اپنے دعوں کے ثبوت میں صحیفے
کا ایک لفظ پرستانہ مطالعہ پیش کیا ۔ یہ نظریہ جمہوریت کے تصور سے متصادم ہے۔
جمہوریت میں ایمان، مذہب اور خدا کی کوئی اہمیت نہیں۔
یہاں تک کہ جمہوریت کے
انتہائی بنیادی نظریات یہ بتاتے ہیں کہ، اصول و قواعد، قوانین اور سماجی معاملات
میں، لوگوں کی بدلتی ہوئی سماجی بیداری کے مطابق تبدیل لانا ضروری ہے۔ اس سے کوئی
فرق نہیں پڑتا کہ خدا کیا کہتا ہے، یا جمہوریت کے بارے میں اہل مذہب کیا موقف
رکھتے ہیں۔ آج، مذہبی لوگ بھی جمہوریتوں کو مانتے ہیں، جہاں لوگ اکٹھے ہوتے ہیں
اور اپنی سماجی بیداری کی بنیاد پر اپنی مرضی کے مطابق اصول، نظریات اور عقائد وضع
کرتے ہیں۔ وہ خود کو ڈیموکریٹس کہتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔ مذہبی
ہونے کے باوجود، انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں تھا، کیونکہ وہ اپنے زمانے کے مسائل
کو ایک لبرل نقطہ نظر سے دیکھ رہے تھے۔
زیادہ تر مذاہب کے بنیادی
نظریات، بشمول اسلام کے، غیر مذہبی نظریات سے متصادم ہیں۔ جب لوگ بنیاد پرست ہو
جاتے ہیں، تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذہب اور ان کے عقائد باقی سب سے بہتر
ہیں۔
اس تبدیلی کو، جمہوری
معاشروں میں، مذہبی گروہ کی سرگرمیوں کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جمہوریت سے باہر
رہنے والی مذہبی جماعتیں ، اب بھی جمہوریت کا نظریہ قبول نہیں کرتیں۔ ان کے نزدیک
لوگ جس طرح سے اچھے اور برے کو تلاش کرنے کے لیے اکٹھے ہو جاتے ہیں، وہ مذہب پر
حملہ ہے۔ ہم اس فرق کو تب سمجھ سکیں گے، جب ہم سعودی عرب، کویت یا اس سے ملتی جلتی
کسی جگہ کے مذہبی ماہر سے پوچھیں، کہ مذہب کس طرح جمہوریت کے تصور کے ساتھ موزوں
ہو سکتا ہے، جہاں لوگ اپنے قوانین اور نظام حکومت خود بناتے ہیں اور صرف ان ہی کی
پیروی کرتے ہیں۔ آپ کو صرف ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ سب"الحاد اور
گمراہی" ہے۔
اگر آپ یہی سوال کسی
جمہوریت میں، کسی مسلم جماعت یا کسی پروفیسر سے پوچھیں گے، تو وہ شائستگی سے یہ
جواب دینگے، کہ مذہب جمہوریت کا سرچشمہ ہے، اور آپ بیک وقت جمہوریت پسند اور مذہبی
انسان دونوں ہوسکتے ہیں۔ ایک ہی موضوع پر اس سوال کے دو مختلف جوابات ہوں گے،
حالانکہ وہ دونوں ایک ہی مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
جدیدیت نے مذہبی لوگوں کا ذہن کشادہ کر دیا ہے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مغرب
کا سیکولرازم اور ہندوستان کا سیکولرازم ایک جیسا نہیں ہے، بلکہ ان کے بنیادی
نظریات میں فرق ہے۔ سیکولرازم اس نظریہ کا نام ہے، کہ لوگوں کی ذاتی یا عوامی زندگیوں
میں، مذہب کا کوئی بڑا کردار نہیں ہونا چاہیے۔ سیکولرازم اس نظریہ پر مبنی ہے، کہ
کوئی بھی عقیدہ یا عقائد کا مجموعہ کسی دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔ اسی وجہ سے نہ تو
کسی ملک کو اور نہ ہی کسی حکومت کو، اس حوالے سے کچھ بھی بولنا چاہیے۔ ہم اسی
نظریہ پر یقین رکھتے ہیں اور یہی مانتے ہیں۔ جو لوگ اپنا مذہب دوسروں سے بہتر اور
منفرد سمجھتے ہیں، وہ اس عقیدے اور نظریے پر صحیح معنوں میں نہ تو یقین نہیں کر
سکتے ہیں اور نہ ہی عمل کر سکتے، جو ملک کے سیکولر موقف کی حمایت کرتا ہے۔
زیادہ تر مذاہب کے بنیادی
نظریات، بشمول اسلام کے، غیر مذہبی نظریات سے متصادم ہیں۔ جب لوگ بنیاد پرست ہو
جاتے ہیں، تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذہب اور ان کے عقائد باقی سب سے بہتر
ہیں۔دوسری طرف ہندوستان میں زیادہ تر مسلمان سیکولر ہیں، لیکن پھر بھی دین اسلام
کو مانتے ہیں۔ دورِ جدید اور حالات کی روشنی میں، یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے، کہ لبرل
نظریات نے پرانے اور فرسودہ مذہبی نصوص کو نئے معانی دینے میں کس حد تک اپنا کردار
ادا کیا ہے۔ یہ معانی، ہو سکتا ہے کہ ایسے بنیاد پرست اسلامی گروہوں کے لیے کوئی
اہمیت نہ رکھتے ہوں، جو سیکولر ازم کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ سبھی مختلف طریقوں کو
دیکھتے ہیں، مثلاً مذہبی نظریات کے لیے مزید ثبوت حاصل کرنا یا مذہب کے خلاف ہونا۔
مولانا ابوالکلام آزاد
جمہوریت اور مذہبی آزادی کے زبردست حامی تھے۔ وہ عیسائی دھارے میں رہتے ہوئے، مذہب
کے حوالے سے ایک آزاد خیال انسان تھے۔ اور جب انہوں نے قرآن کا مطالعہ کیا، تو ان
کا مطالعہ مولانا مودودی جیسے لوگوں کے مطالعے سے کافی الگ تھا، کیونکہ وہ جمہوریت
اور مذہبی رواداری کے خلاف تھے۔
ہندوستان میں بہت سی
مثالیں مل سکتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان قوم پرستی، آزادی اور سیکولرازم سے جڑے
ہوئے ہیں، کیونکہ وہ لبرل مذہبی خیالات کے حامل ہیں ۔ اور مضبوط رائے استعمال نہ
کرکے ۔ اس زمانے میں، ان میں سے زیادہ تر تفسیروں کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا۔ لوگ
فرسودہ مذہبی تعلیمات یا صحیفوں کے مطالعات پر عمل نہیں کرتے۔ اگر کچھ ہے تو،
مذہبیت وہی ہےجو جدید علم و آگہی کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ وہ تمام نئے نئے افکار و
نظریات ،جو لوگ لے پیش کر رہے ہیں، وہ آہستہ آہستہ مذہب کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔
مذہب میں اصلاحات ہمیشہ لبرل نظریات پر استوار کی گئی ہیں، جو جدید اقدار، ترقی
پسندی، عقلیت اور سائنسی شعور کے مطابق ہیں۔ اور اس کا سلسلہ جاری رہے گا۔
English
Article: Fundamentalist Islam vs. Liberal Islam in Indian
Context
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism