سید امجد حسین، نیو ایج اسلام
3 مارچ 2025
سردار محمد لطیف الرحمٰن ایک مجاہد آزادی، سماجی مصلح، اور قانون ساز تھے جنہوں نے ہندوستان کی آزادی اور آئین سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ سیکولرازم میں پختہ یقین رکھتے تھے، اور اپنی پوری زندگی فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تعلیم اور سماجی ترقی کے لیے وقف کر دی۔
اہم نکات:
1. مہاتما گاندھی سے متاثر ہوکر، لطیف الرحمان نے عدم تعاون کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
2. دی مدر لینڈ اخبار چلایا اور مسلمانوں کی تعلیم اور ترقی کے لیے کام کیا۔
3. بہار کی مقننہ اور دستور ساز اسمبلی میں خدمات انجام دیں۔
4. فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا اور تقسیم کے بعد ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
5. تعلیم، انفراسٹرکچر اور سماجی بہبود پر توجہ مرکوز کیا اور کانگریس پارٹی سے ایم ایل اے بنے۔
-----
Transcom Group Chairman Latifur Rahman
------------
ایک صاحب بصیرت لیڈر جو قوم کے لیے پیدا ہوا
سردار محمد لطیف الرحمٰن ہندوستان کی جنگ آزادی اور آزادی کے بعد، ملک کی تعمیر و ترقی میں حصلہ لینے والے ایک عظیم شخصیت تھے۔ وہ ایک پرجوش قوم پرست، ایک سرشار سماجی مصلح، اور ایک بااثر قانون ساز تھے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی ملک کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ وہ 24 دسمبر 1900 کو مدن پور، اورنگ آباد (بہار) میں پیدا ہوئے اور بہار کے سیاسی اور سماجی شعبوں میں سب سے زیادہ قابل احترام رہنماؤں میں سے ایک بن کر ابھرے۔
چھوٹی عمر سے ہی، وہ برطانوی سامراج کی ناانصافیوں سے بخوبی آگاہ تھے، اور ایک سماجی انقلاب کے لیے پرعزم تھے۔ سینٹ کولمبس کالج، ہزاری باغ میں ان کی تعلیم ہوئی جس سے ان کی ذہنی صلاحیت پروان چڑھی، لیکن ان کا دل جنگ آزادی کے لیے پرعزم تھا۔ جب مہاتما گاندھی نے نوجوانوں کو عدم تعاون کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی، تو انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی تعلیم کو ترک کر دیا، اور ملک کی آزادی کی تحریک کے لیے خود کو وقف کر دیا۔
جنگ آزادی میں شمولیت
عدم تعاون کی تحریک (1920-22) لطیف الرحمٰن کی زندگی میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ 12 اگست 1921 کو مہاتما گاندھی سے ان کی پہلی ملاقات کا ان پر بڑا گہرا اثر رہا۔ گاندھی کے عدم تشدد اور خود مختاری کے فلسفے سے کافی متاثر ہوئے، اور جلد ہی برطانوی سامراج کے خلاف تحریکوں میں سرگرم ہو گئے۔
جب گاندھی نے 1927 میں بہار کا دورہ کیا، تو لطیف الرحمٰن نے گیا اور اورنگ آباد کے اندر عوامی جلسوں کے لیے، لوگوں کو متحرک کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ بہاری سٹوڈنٹ کانفرنس کے 14ویں سالانہ اجلاس میں، ان کی موجودگی نے قوم پرستانہ مقاصد سے ان کی وابستگی کو مزید اجاگر کر دیا۔ وہ اس میں محض ایک سامع ہی نہیں بلکہ ایک لیڈر بھی تھے، جنہوں نے نوجوانوں کو آزادی کی تحریک کو مضبوط کرنے کی ترغیب دی۔
سماجی اصلاحات اور صحافت کے علمبردار
لطیف الرحمٰن کو پسماندہ طبقات خصوصاً مسلمانوں کی سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی کافی فکر تھی۔ مولانا مظہر الحق کی رحلت کے بعد، انہوں نے ایک معروف قوم پرست اخبار ’دی مدر لینڈ‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر کا عہدہ سنبھالا۔ ان کی قیادت میں یہ اخبار سماجی انصاف، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تحریک آزادی کی ایک مضبوط آواز بن گیا۔
پسماندہ مسلمانوں کی بہتری کے لیے ان کی لگن، آل انڈیا مومن کانفرنس میں ان کی قیادت سے عیاں تھی۔ 1934 میں، انہوں نے اس کے اجلاس کے اہتمام میں اہم کردار ادا کیا، اور بعد میں جنرل سیکرٹری اور اس کے بعد مومن کانفرنس کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے انہوں نے معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لیے تعلیم، روزگار کے مواقع اور سیاسی نمائندگی کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔
ایک سرکردہ قانون ساز اور آئین ساز
آزادی سے قبل بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن بن کر، لطیف الرحمٰن بہار میں ایک عظیم سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرے۔ زمینی سیاست، قانون سازی کے معاملات اور سماجی اصلاحات میں ان کی خدمات سے، انہیں سماج کے ہر طبقہ میں کافی عزت حاصل ہوئی۔
1946 میں وہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ تاہم، اپنے بہت سے ہم عصروں کے برعکس جنہوں نے تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا یہ فیصلہ سیکولرازم، جمہوریت اور ہندوستان کی تکثیریت میں، ان کے اٹل یقین کی عکاسی کرتا ہے۔
دستور ساز اسمبلی میں، انہوں نے بحثوں اور مباحثوں میں پوری سرگرمی سے حصہ لیا، جس پر ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے، مذہبی آزادی اور سماجی انصاف کی پالیسیوں کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کی خدمات سے ایک ایسے ملک کے ان کے خواب کی عکاسی ہوتی ہے، جہاں تمام مذاہب کے لوگ مساوی حقوق اور مواقع کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
Mr. Latifur Rahman
-----
بہار میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا محافظ
جیسے جیسے آزادی کا وقت قریب آتا گیا، بہار میں فرقہ وارانہ فسادات دیکھے جانے لگے، جس سے سماجی ہم آہنگی کے درہم برہم ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے مہاتما گاندھی نے 1947 کے اوائل میں بہار سے اپنے امن مشن کا آغاز کیا۔
25 مارچ 1947 کو، لطیف الرحمٰن نے پٹنہ میں گاندھی سے ملاقات کی، اور انہیں امن کی بحالی میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ ان کے اثر و رسوخ اور مسلسل کوششوں سے، خطے میں کافی حد تک تشدد کو روکنے کامیابی ملی۔ گاندھی نے بعد میں گیا ضلع کے جہان آباد کا سفر کیا، فسادات کے متاثرین کے ساتھ کام کیا، اور لطیف الرحمان کے ساتھ مل کر امن کی بحالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اتحاد و اتفاق اور فرقہ وارانہ امن و امان کے لیے ان کی ثابت قدمی نے، سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور میں بھی، انھیں ہندوستان کے اندر ایک ایسے لیڈر کی شناخت عطا کی جو ایک وسیع اور جامع نقطہ نظر کا حامل تھا۔
آزاد ہندوستان کی تشکیل: 1947 کے بعد ان کا سیاسی سفر
15 اگست 1947 کو ہندوستان کی آزادی کے بعد، لطیف الرحمٰن کے ایک نئے سیاسی سفر کا آغاز ہوا۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور سماجی اور سیاسی اصلاحات کے لیے وقف، ایک فعال قانون ساز بنے۔
1952 میں، ہندوستان کے پہلے عام انتخابات کے دوران، وہ کانگریس کے ٹکٹ پر گیا ضلع سے بہار قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کی جیت ان کی قیادت کے حوالے سے لوگوں کے اعتماد اور یقین کا ثبوت تھی۔ وہ 1957 میں دوبارہ منتخب ہوئے، جس سے آزادی کے بعد ہندوستان میں ایک عظیم لیڈر کے طور پر ان کا قد مزید مضبوط ہوا۔
ایک قانون ساز کے طور پر، انہوں نے کئی اہم مسائل پر کام کیے:
تعلیمی اصلاحات: انہوں نے مزید اسکولوں اور کالجوں کے قیام کی بات کی، خاص طور پر پسماندہ طبقات کے لیے۔
بنیادی ڈھانچے کی ترقی: انہوں نے پورے بہار میں بہتر سڑکوں، حفظان صحت کی سہولیات اور عوامی خدمات کو ترجیح دی۔
سماجی بہبود کی پالیسیاں: انہوں نے معاشی تفاوت کو کم کرنے اور معاشرے کے پسماندہ طبقات کے لیے منصفانہ نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے بھی کام کیا۔
سید آصف امام کاکوی کی رائے لطیف الرحمٰن کی خدمات پر
بہار کی تاریخ کے ایک محقق سید آصف امام کاکوی کے مطابق، سردار محمد لطیف الرحمٰن نے جدید بہار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، لیکن انہیں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔
خدمت بھری زندگی: ان کی خدمات کے انمٹ نقوش
31 دسمبر 1980 کو سردار محمد لطیف الرحمٰن انتقال کر گئے، اور اپنے پیچھے لگن، قربانی اور قیادت کی ایک شاندار میراث چھوڑی۔ ان کی زندگی ان لوگوں کو متاثر کرتی ہے جو سیکولرازم، جمہوریت اور سماجی انصاف کی قدروں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
آج بھی، ہندوستان کی جنگ آزادی، قانون سازی، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بحالی میں ان کی خدمات زندہ ہیں۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں رہنے کا ان کا فیصلہ، آئین ہند کی تشکیل میں ان کا کردار، اور سماجی ترقی سے ان کی غیر متزلزل وابستگی نے، انھیں ہندوستان کی تاریخ کا ایک گمنام ہیرو بنا دیا۔
نتیجہ: ایک لیڈر جس نے ہندوستان کے بنیادی اصولوں کو شرمندہ تعبیر کیا
سردار محمد لطیف الرحمٰن صرف ایک سیاست دان ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک سیاسی مدبر، ایک مصلح اور ایک صاحب بصیرت لیڈر تھے، اور ایک ایسے ہندوستان پر پختہ یقین رکھتے تھے، جہاں تمام مذاہب کے لوگ عزت اور مساوات کے ساتھ رہ سکیں۔ ان کی زندگی بھر کی خدمات ان نظریات کی نمائندگی کرتی ہیں، جن پر جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب ہندوستان سیکولرازم، سماجی انصاف اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی سے متعلق مسائل سے نبرد آزما ہے، ان کی میراثِ زندگی ہم سب کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ ان کی رودادِ زندگی ایک منصفانہ اور جامع ہندوستان کی تعمیر کے لیے ان کی ہمت، دیانت اور لگن کا ثبوت ہے۔
اگرچہ تاریخ کی کتابوں نے انہیں وہ پہچان نہیں دی جس کے وہ حقدار تھے، لیکن ان کی خدمات بہار اور ہندوستان کی روح میں منقش ہیں- جو ملک کے لیے ان کی غیر معمولی خدمات کی خاموش لیکن روشن یادگار ہے۔
حوالہ جات
سنہا، کنہیا پرساد۔ "MUSLIM OF CENTRAL BIHAR AND THE FREEDOM MOVEMENT (1910-40)۔" پروسیڈنگز آف دی انڈین ہسٹری کانگریس، جلد۔ 60، 1999، صفحہ 796–803۔
بہار پوروید پریشد "The Journal of the Bihar Purāvid Parishad: جلد 15-16۔" بہار پوروید پریشد۔ 1992، صفحہ 211-212
جاوید عالم "Jawaid Alam “Government and Politics in Colonial Bihar, 1921-1937۔" متل پبلیکیشنز۔ 2004، صفحہ 218-219
ناگیندر کر سنگھ "انسائیکلوپیڈیا آف مسلم بائیوگرافی: آئی ایم۔" اے پی ایچ پبلشنگ کارپوریشن۔ 2001، ص۔ 390
-----
English Article:From Freedom Fighter to Nation Builder: The Inspiring Journey of Sardar Mohammad Latifur Rahman
URL: https://newageislam.com/urdu-section/freedom-fighter-sardar-latifur-rahman/d/134904
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism