ادیس دودیریجا، نیو ایج اسلام
24 اکتوبر 2024
"ہیڈ اسکارف پہننا، بذات خود ایک روحانی فعل نہیں ہے۔ جو لوگ ایسا کرنے کی ضرورت "محسوس" نہیں کرتے، وہ اپنی روحانیت کو اس معیاری "لباس" سے باہر رہنے کی آزادی رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اس معیار پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، اور اسے خالق کے ساتھ قربت اور گہرے باطنی تجربے کے طور پر دیکھتے ہیں، انہیں بھی اپنی روحانیت کو "لباس" کے معیار کے مطابق کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ دونوں صورتوں میں، یہ ایک ہی آزادانہ نقطہ نظر کے مطابق اپنی روحانیت کو جینے کا معاملہ ہے۔ اسکارف اخلاق کا حصہ ہے، اور اس سے بھی پہلے عورت کا حق ہے۔ اور خواتین کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے، کہ وہ اپنے ہوش و حواس میں اسے پہننے یا نہ پہننے کا فیصلہ کر سکیں، کیونکہ اسے پہننے کا حق لازمی طور پر اسے نہ پہننے کے حق سے جڑا ہوا ہے۔ اسماء المرابط، Women and Men in the Qur’an، صفحہ 162
اسلامی دنیا کے اندر حقوقِ نسواں کے حوالے سے جاری گفتگو میں، چند ہی موضوعات ایسے ہیں جن پر اتنی گفتگو کی گئی ہو، جتنی کہ ہیڈ اسکارف کے معاملے میں ہوئی ہے۔ مراکش کی ایک مشہور و معروف ماہر نسواں اور اسلامی اسکالر اسماء المرابط، اس متنازعہ فیہ مسئلے پر ایک شاندار نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔ ان کا یہ دعویٰ، کہ ہیڈ اسکارف پہننے کو روحانی ذمہ داری کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے، بلکہ اسے ذاتی پسند اور ناپسند کا معاملہ سمجھا جانا چاہیے، آج کے معاشرتی منظر نامے کی عکاسی کرتا ہے۔ المرابط کا ہیڈ اسکارف کے حوالے سے ایک محتاط نقطہ نظر، اور ان کا اسے حق اور انتخاب دونوں کا معاملہ قرار دینا، اسلام کے اندر جدید حقوقِ نسواں کے بیانیے کے جوہر کو سمیٹے ہوئے ہے، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خود مختاری سب سے اہم ہے۔
Asma Lamrabet is a Moroccan doctor, Islamic feminist and author (Photo: Asma Lamrabet).
------
ہیڈ اسکارف کے عنوان پر بحث کے مرکز میں شناخت کا سوال ہے۔ بہت سی مسلم خواتین کے لیے، ہیڈ اسکارف ان کے مذہب اور ثقافتی ورثے کی علامت ہے - یہ خدا سے ان کے تعلق کی علامت ہے۔ جبکہ دوسروں کے لیے، یہ ایک جبر کی طرح محسوس ہو سکتا ہے، پدرانہ اصولوں کی ایک علامت جو ذاتی فیصلے کے حق کو ختم کرتا ہے۔ المرابط کی دلیل میں اس پیچیدگی کو تسلیم کیا گیا ہے: ہیڈ اسکارف پہننا فطری طور پر کوئی روحانی عمل نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ذاتی فیصلہ ہے جس کی اہمیت و معنویت ہر فرد کے لیے الگ الگ ہے۔
خواتین کے تجربات اور عقائد میں اس اختلاف کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے، ہیڈ اسکارف جبر یا آزادی کی بائنری علامت سے ہٹ کر، تشخص کے کثیر جہتی مظاہر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ المرابط کا نقطہ نظر اس بات کی مزید جامع تفہیم پیش کرتا ہے، کہ آج ایک مسلمان عورت ہونے کا مطلب کیا ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ، ہیڈ اسکارف پہننے کا انتخاب اور ہیڈ اسکارف نہ پہننے کا انتخاب، دونوں ہی مذہب کے درست مظاہر ہیں، وہ روحانیت کے لیے ایک مزید جامع نقطہ نظر کی حمایت کرتی ہیں، جس میں ذاتی اختیارات کا احترام کیا گیا ہے۔
المرابط کی دلیل کے مرکزی اصولوں میں سے ایک یہ ہے، کہ ہیڈ اسکارف بنیادی طور پر عورت کا حق ہے۔ یہ دعویٰ اپنی سادگی میں طاقتور ہے۔ خواتین کو، تمام افراد کی طرح، اپنے جسم کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی خود مختاری ہونی چاہیے، اور وہ خود کو دنیا کے سامنے کیسے پیش کرتی ہیں اس کا بھی اختیار انہیں ہونا چاہئے۔ ہیڈ اسکارف پہننے کے حق کو نہ پہننے کے حق کے ساتھ ملا کر پیش کیا جانا چاہیے، اور ایسا فریم ورک تیار کرنا چاہیے، جو خواتین کو مجبور کرنے کے بجائے انہیں بااختیار بنائے۔
تاریخی طور پر، ہیڈ اسکارف کے حوالے سے بیانیہ اکثر پولرائزیشن کا شکار رہا ہے۔ کچھ سیاق و سباق میں، اسے جبر کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جبکہ کچھ حالات میں، اسے عزت اور دینداری کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس اختلاف سے خود خواتین کا اختیار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ المرابط اس بات پر زور دیتی ہیں، کہ فیصلہ پورے ہوش و حواس میں کیا جانا چاہیے، اور ہوش و حواس میں لیے گئے فیصلے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سماجی دباؤ یا جبر کے بغیر، خواتین کو تعلیم، مکالمے اور اپنے عقائد پر غور کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔
المرابط دو ٹوک انداز میں یہ بیان کرتی ہیں، کہ روحانیت صرف ہیڈ اسکارف تک محدود نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے، ہیڈ اسکارف کا پہننا قربِ الہی کے گہرے تجربے کی علامت ہو سکتا ہے، جب کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ ہو سکتا ہے، کہ وہ روحانیت کا اظہار دوسرے طریقوں سے کریں جن میں لباس شامل نہ ہو۔ یہ جذبہ اس تصور کو ختم کرنے میں اہم ہے، کہ انسان کا دین ظاہری وضع قطع پر منحصر ہے۔
اسلام سمیت بہت سی مذہبی روایات میں، روحانیت انتہائی ذاتی اور کثیر جہتی ہے۔ المرابط کی یہ بات خواتین کی اس امر پر حوصلہ افزائی کرتی ہے، کہ وہ اپنی روحانیت کو ان طریقوں سے دریافت کریں جو ان کے انفرادی سفر کے مطابق ہو۔ یہ تلاش و جستجو آزادانہ ہے، جس سے خواتین کو اپنی شرائط پر خدا کے ساتھ اپنا تعلق استوار کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ہیڈ اسکارف پہننے کے عمل کو روحانی قدر سے الگ کر کے، المرابط نے دین کی مزید متنوع تفہیم کے لیے دروازہ کھول دیا ہے۔
المرابط کی یہ تحقیقات، حقوق نسواں اور ایمان کے باہمی تعلق کو واضح کرتی ہیں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں مغربی حقوقِ نسواں کے بیانیے، اکثر مسلم خواتین کے حوالے سے بحث پر حاوی رہتے ہیں، المرابط کی یہ باتیں کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ وہ ان دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرتی ہیں، جو مسلم خواتین کو یک سنگی مظلوم کے طور پر پیش کرتے ہیں، بجائے اس کے، کہ انہیں متنوع تجربات اور عقائد کے حامل پیچیدہ افراد کے طور پر پیش کیا جائے۔
یہ باہمی مربوط نقطہ نظر، خواتین کے حقوق کے حوالے سے مکالمے میں ثقافتی تناظر کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ بہت سے مسلم اکثریتی معاشروں میں، ہیڈ اسکارف مغربی نقطہ نظر کے مقابلے میں مختلف معنی رکھتا ہے۔ حقوقِ نسواں اور انتخاب کے بارے میں حقیقی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے، ان باریکیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ المرابط ایسے حقوقِ نسواں کی وکالت کرتی ہیں، جو نہ صرف جامع ہیں، بلکہ مسلم خواتین کی ثقافتی اور روحانی حقیقتوں سے بھی مربوط ہیں۔
المرابط کے لیے، انتخاب کا حق تعلیم اور مکالمے سے جڑا ہوا ہے۔ خواتین کو اپنے جسم اور عقائد کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کے لیے، ضروری علم اور وسائل سے لیس ہونا چاہیے۔ یہ اختیار ہیڈ اسکارف سے ماوراء ہے، تاکہ اس میں صنفی مساوات اور سماجی انصاف جیسے وسیع تر مسائل کو بھی شامل کیا جا سکے۔
اس سلسلے میں، ایسے تعلیمی اقدامات جن سے تنقیدی سوچ کو فروغ ملے، اور دین اور شناخت کے حوالے سے کھلے مکالمے کا فروغ ہو، ضروری ہیں۔ ایسے ماحول کو فروغ دے کر جہاں خواتین اپنے دین پر عمل کر سکیں، اور معاشرتی اصولوں پر سوال اٹھا سکیں، ہم انہیں ایسے فیصلے کرنے کا اختیار دیتے ہیں جو ان کی اقدار کے مطابق ہوں۔ المرابط کا سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے پر زور، خواتین کی ایک ایسی نسل کو پروان چڑھانے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے، جو اپنی شناخت پر اعتماد رکھتی ہیں، خواہ وہ ہیڈ اسکارف پہننے کا فیصلہ کریں یا نہ کریں۔
عالمی تناظر میں، ہیڈ اسکارف کے حوالے سے بحث اکثر سیاسی شکل اختیار کر جاتی ہے، جس کے مضمرات انفرادی انتخاب سے پرے ہوتے ہیں۔ کچھ ممالک میں، ایسے قوانین بنائے گئے ہیں جن کی رو سے عوامی مقامات پر ہیڈ اسکارف لگانا ممنوع ہے، اور اسے جبر کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس، دوسرے سیاق و سباق میں، ہیڈ اسکارف پہننا امتیازی سلوک اور پسماندگی کا باعث بن سکتا ہے۔ المرابط کا نظریہ ہمیں یاد دلاتا ہے، کہ ان مباحثوں کا مرکزی محور خواتین کے فیصلے کے حقوق ہونے چاہیے، بجائے اس کے، کہ ان کے تجربات پر کسی خارجی بیانیے کو مسلط کیا جائے۔
سیاست اور ذاتی اختیار کا ربط، ہیڈ اسکارف کے گرد گفتگو کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ خواتین کو ان کے مذہب یا ثقافت کے نمائندوں کے طور پر نہیں، بلکہ منفرد کہانیوں اور انتخاب کے حامل افراد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ المرابط کا نقطہ نظر ہیڈ اسکارف پر سیاست سے ہٹ کر، حقوق نسواں کی وکالت کرنے کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہے، تاکہ ان کی شناخت کو ان طریقوں سے بیان کیا جائے جو ان کے لیے اچھا ہو۔ بالآخر، ہیڈ اسکارف پر ہونے والی گفتگو کا مرکزی محور خواتین کو بااختیار بنانا ہونا چاہیے، تاکہ وہ اپنے جسم اور مذہب کے بارے میں درست فیصلے کر سکیں۔
------
English Article: The Freedom of Choice: Asma Lamrabet on the Headscarf and Women’s Rights
URL: https://newageislam.com/urdu-section/freedom-choice-asma-lamrabet-headscarf-women-rights/d/133767
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism