New Age Islam
Wed May 31 2023, 05:10 AM

Urdu Section ( 7 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Free Will: Really? کیا واقعی یہ رضا ء مندی ہے ؟

 

سید منظور عالم، نیو ایج اسلام

18 فروری، 2013

(انگریزی سے ترجمہ  ،  نیو ایج اسلام)

ہم میں سے اکثر لوگ انہیں باتو ں  پر عمل  کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں ، جن پر ہمارے آبا و اجدادنے  یقین کیا اور  عمل کیا ۔ یہ بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ " اگر آپ چاہتے  ہیں کہ کوئی شخص آپ سے  نفرت کرے  تو اسے سوچنے پر امادہ کریں "۔ ہم میں سے زیادہ تر خود کو گہرے پانی میں پاتے ہیں  کیونکہ شاذ و نادر ہی ہم اپنے  عمل کی  منصوبہ بندی کرتے  اور سوچتے  ہیں ، ہم آنکھ بند کر کے صرف ، ہمارے  ‘رول ماڈل ’ کی نقل کر لیتے ہیں ۔ یہیں سے بہت ساری  مشکلات شروع ہو تی ہیں ۔ ہماری مذہبی زندگی میں بھی، ہم شاذ و نادر ہی مسلمان یا عیسائی یا ہندو بننے کا انتخاب کرتے ہیں ، بلکہ ہم ایک مسلم خاندان، عیسائی خاندان یا ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ ، ہمیں جنت میں جانے کے لئے صرف ایک مسلم خاندان میں پیدا ہونا  ، جنت کی خوشیوں  کی ضمانت نہیں دے سکتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ ایک خدا میں یقین کرتے ہوں، 5 مرتبہ نماز ادا کرتے ہوں ، رمضان المبارک کے مہینہ میں روزے رکھتے ہوں ، زکوة وغیرہ دیتے ہوں ،یہیں  میں مرضی  اور مجبوری  کے درمیان پیدا  کرنا چا ہوں گا۔

جب ہم ایک مسلم خاندان میں پیدا ہوئے ، اور اگر ہمیں اس طرح  کے عقائد کی  تربیت دی گئی ہے جس طرح ہمارے  خاندان والے چاہتے ہیں ، تا کہ اس کے ذریعہ ہمیں جنت کا  پروانہ  دیا جائے ۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ یہ منافع غیر مستحق  ہے۔ اسی طرح جب کسی غیر مسلم خاندان میں کوئی بچہ پیدا ہوا ہے اور اسے اس طرح  کے عقائد کی  تربیت دی گئی ہے جس طرح اس کے  خاندان والے چاہتے ہیں، تو اس کی وجہ سے انہیں  جہنم میں  نہیں جانا چاہئے۔

اسلام کا مطلب ، ہماری مرضی کو خدا کے سپرد کر کے  امن کا  حصول ہے۔ اگر ہم اس کا  لفظی معنی لیں  تو مومن وہ ہے جو ان کی مقدس کتاب کی ان تعلیمات کے مطابق عمل  کرتا ہے، جس میں خدا کی مرضی کا اظہار ہے  ، اسے ایک مسلم سمجھا جانا چاہئے۔

مرضی مجبوری کا نام نہیں ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے مجبوری کی  تعریف یوں کی جا سکتی ہے، کسی دوسرے دباؤ کی وجہ سے ایمان لانے والا ، چاہے وہ اخلاقی دباؤ ہو یا  جسمانی دباؤ ہو ۔ ہمارے والدین کا ہمیں ،'ایسا' اور 'ایسا' کرنے ، اور اس میں ‘یقین کرنے’ اور اسمیں‘  یقین نہ کرنے’ کی  ہماری تربیت کرنا ، رضا ء کے زمرے کے تحت نہیں آتی، یہ بلاشبہ مجبوری ہے، اس لئے کہ یہاں ، پر اسرار اثر و رسوخ اور دباؤ کا اجراء  نیم شعوری  سطح پر  یا بے شعوری کی سطح پر  ، جو اس کے بارے میں کچھ جانے بغیر ، والدین کے ذریعہ  کیا جا رہا ہے ۔ یہ اسلام (مطلب ، اپنی رضا کو خدا کے حوالہ  کرنا ) نہیں ہے۔

نظریہ کردار  کے مطابق، ہماری زندگی اور اس کی سر گرمیاں ، بچپن سے موت تک ،جو جس طرح چاہے ،تبدیل ، اور اس پر نظر ثانی کر سکتا ہے ۔ ہماری سوچ کی  اور افعال  (طرز عمل) کی بھی تربیت کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بچے یہ کہتا  ہے کہ وہ ایک کھلاڑی بننا چاہتا ہے ،اور اگر اس کے والدین اسے اس کے فیصلے پر مبارک باد دیتے ہوں ،تو اس  سوچ کو اور مزید تقویت فراہم ہو گی ، اور اس کے مستقبل کے اقدامات اس قوی  (ایک کھلاڑی بننے کے)خیال کے ساتھ مربوط  ہو جائیں گے ۔ لیکن اگر والدین اس کے اس خیال کو نظر انداز کر دیں  یا اس پر  اس بچے کو  تھپڑ رسید کر دیں ، تو وہ بچہ اس خیال کو مسترد کر دے گا ، اس لئے کہ وہ  'سزا' کا باعث ہوا اور  اس کے مستقبل کی  سر گرمیاں مختلف ہو جائیں گی ، یا کبھی اس  خیال کے بالکل بر عکس ہوں گی  ۔ لہٰذا ، اس طرح  کوئی بھی یہ دیکھ  سکتا ہے کہ کس طرح ہماری سوچ اور عمل، کو نا واقفیت کی سطح پر بھی تبدیل  کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح جب ایک بچہ، اگر وہ ایک غیر مسلم خاندان میں پیدا ہوتا ہے، اور اس طرح کے  سوال پوچھتا ہے کہ  ‘ایک پتھر میرے لئے کیااچھا  کرے گا ؟  ’یا' کیا خدا کچھ اختیارات میں ناقص ہے کہ اسے دوسرے دیوتاوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟ 'وغیرہ ، اور اگر  وہ ایک مسلم خاندان میں پیدا ہوا ہے، تو وہ ایسے سوالات  پوچھتا ہے کہ 'جہنم میں کافروں کو خدا ہمیشہ کیوں سزا دے گا؟' یا 'کیوں خدا نے روزے کا وقت طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک رکھا ،کیوں کہ  قطبی علاقوں میں،مسلسل چھ ماہ کے لئے یا تو صرف سورج کی روشنی ہوتی ہے یا صرف اندھیرا ہوتا ہے؟ اور اگر والدین اس پر  ڈانٹ لگا دیں ،یا سوالات کو نظر اندازکر دیں ، اس کے بعد، اگرچہ ہو سکتا ہے کہ بچہ مکمل طور پر سوال کرنا بند نہ کرے ، لیکن اس کا  عقیدہ جبر پر مبنی ہو جائے گا۔

اگر بچہ ایک ایسے  خدا میں یقین رکھنا چاہتا ہے جس کی کوئی تصویر نہ ہو اور اگر اس کے والدین اسے ایسے نظریہ کے لئے 'سزا' دیں ، اور اسے ایک تصویر یا ایک پتھر کی عبادت  کرنے کے لئے مجبور کریں ، تو پھر اسے جہنم  میں کیوں جانا چاہئے ؟

روایتی نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک ہیرو ہیرو ہے ، اس لئے  کہ اس میں کچھ عظیم خوبیاں ہیں ، غنڈہ ایک غنڈہ ہے اس لئے کہ  اس میں کچھ خراب باتیں ہیں ، ایک سنت ،سنت ہے اس لئے کہ  اس کے ذہن و دماغ میں  کچھ ما ورائے عقل فطرت ہے  ۔ یہ تمام خصوصیات انسان کے اندر ہیں۔ لیکن یہ ماہر کرداریت  کے مطابق نہیں ہے۔ کردار کی حد بندیاں اجسام  کے اندر نہیں ، بلکہ اس کے باہر کے ماحول ،میں  ہوتی ہیں ۔ رویہ جس کی  ہم تعریف یا مذمت کے لئے تیار ہیں در اصل  اعضاء کے اندر اس کی تشکیل کی گئی  ہے۔ اور جب آپ کسی کی کارکردگی یا کامیابی کو سراہتے ہیں ، تو یہ سمجھتے ہیں ، کہ تم کیا تلاش کر رہے ہو، ماہر کرداریت کا کہنا ہے کہ، یہ ایک عرصہ حیات  یا کمک کی تاریخ کا نتیجہ ہے کہ اس نے اس شخص کو ایسی سمت میں  مائل کیا کہ وہ دیگر افراد یا معاشرے کی  پسندیدگی  ، حمایت اور تعریف حاصل کرے ۔ اس کی تعریف کیوں یا اس کو قصور وار ٹھہرانہ کیو ں ؟

کسی کے قابل ستائش اور قابل مذمت رویہ کا اصل ذریعہ شخص یا اس کی اندرونی خصوصیات نہیں ہے بلکہ وہ ماحول ہے۔ جس بچے کی  تائید شور مچانے کے لئے کی گئی ہو وہ  بدمعاش ہو جائے گا ، وہ مسلسل جارح ہو جاتا ہے  ، جو کبھی اس حد تک نہیں تھا ۔ ہر انسان ایسا سزاوارشخص  پاتا ہے  ، اور ہر کوئی اس شخص پر الزام عائد کرنا چاہتا ہے، اگر آپ کسی پر الزام عائد کرنا چاہتے ہیں، تو ان لوگ پر  الزام عائد کریں جو مثبت  استحکام کا اجراء رویہ   کی اس شکل  کے لئے کر رہے تھے جس کے وہ اب عادی بن چکے ہیں ۔

یہ یقیناً ، ہماری قدیم فلسفیانہ، مذہبی اور اخلاقی تجاویز کے لئے  چیلنج ہے۔ یہ یقینی طور پر ہمارے اپنے طرز عمل کی آزادی کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ اسلام انصاف پر زیادہ زور دیتا ہے:

"خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔ اور بےحیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو " (16:90)

"اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لئے سچی گواہی دو" (4:135)

قیامت کے دن کیوں، وہ شخص جو اصطلاح کی روایتی معنوں میں ایک مسلم ہے نہیں ،جہنم  میں جانا چاہئے یا روایتی معنوں میں مسلمان کو کیوں جنت میں جانا چاہئے ، اس کے پیش نظر  ہمارے افعال زیادہ تر تربیت یافتہ ہوتے ہیں  ؟

URL for English article

 https://newageislam.com/islamic-ideology/free-really/d/10468

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/free-really-/d/12936

 

Loading..

Loading..