پاکستان میں مبینہ طور پر
جبری تبدیلی مذہب کے معاملات میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ یہ اسلام میں حرام ہے
اہم نکات:
1. پاکستان میں 12 سے 25 سال کی عمر کی تقریباً 1,000 لڑکیوں کو زبردستی
اسلام قبول کروایا جاتا ہے جن سے ان کے اغوا کار شادی کر لیتے ہیں
2. اسلام کے مطابق، اگر کسی غیر مسلم کو اسلامی عقیدے کے الفاظ کہنے
پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن وہ اسلام کی بنیادی باتوں پر یقین نہیں رکھتا، تو وہ مسلمان
نہیں مانا جائے گا۔ تو پھر یہ جہالت کی تاریکی کیوں!
3. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے مطابق، کسی اسلامی ملک میں رہنے
والے غیر مسلم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں رہتے ہیں
-------
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
28 فروری 2022
پاکستان میں لوگوں نے دو روز
قبل صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں مظاہرہ کیا، جس میں نوعمر خواتین کی جبری تبدیلی
مذہب کے خاتمے اور جبری تبدیلی مذہب کے خلاف بل کی منظوری کا مطالبہ کیا گیا۔ مظاہرین
کا مطالبہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ پاکستان میں زبردستی تبدیلی مذہب ایک بڑا مسئلہ
بن چکا ہے۔ جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی اور انسانی
حقوق کی تنظیموں کی کوششوں کے باوجود، حکومت پاکستان نے اقلیتی لڑکیوں اور خواتین کے
تحفظ کے لیے مذہبی، پالیسی اور مکالمے کے فریم ورک کو وسعت دینے میں کوئی خاص دلچسپی
ظاہر نہیں کی ہے۔
پاکستانی اقلیتوں کے لیے آل
پارٹی پارلیمانی گروپ (اے پی پی جی) کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہر سال، 12 سے 25 سال کی
عمر کے درمیان تقریباً 1,000 لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروایا جاتا ہے اور پاکستان
میں ان کی اغوا کاروں سے شادی کر دی جاتی ہے، جسے "انسانی حقوق کی تباہی"
قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں جبری تبدیلی مذہب اور شادیوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے معمول
پر بھی روشنی ڈالی گئی، جس میں اس گھناؤنے جرم سے نمٹنے کے لیے حکومت کی جانب سے انتہائی
ضروری اقدامات میں ناکامی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق، پاکستان
کے اقلیتی کونسلرز نے جنوری میں مذہبی اقلیتوں کے لیے تحفظ کے فقدان کے بارے میں تشویش
کا اظہار کیا تھا کیونکہ ملک میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے
میں آیا کیونکہ 2020 میں یہ تعداد 15 سے بڑھ کر 2021 میں 60 تک پہنچ گئی۔
جن لوگوں کا زبردستی مذہب
تبدیل کیا گیا ان میں سے 70فیصد سے زیادہ نابالغ بچیاں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے
روکنے کے لیے کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ پروہبیشن آف فورسڈ کنورژب ایکٹ 2021 تیار کیا
گیا اور مقننہ میں پیش بھی کیا گیا، تاہم، اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ یہ
" اقلیتوں کے لیے مزید مسائل پیدا کرے گا۔"
جبری تبدیلی مذہب اور اس کے
بعد کم عمری کی شادیاں دونوں ہی انسانی حقوق کے سنگین جرائم ہیں جن کا ازالہ ایسے قوانین
کے ذریعے کیا جانا ضروری ہے جو دونوں کو ممنوع قرار دے۔ مزید برآں، اس بات کا تعین
کرنے کے لیے کونسلیں قائم جائیں کہ آیا کوئی شخص اپنی مرضی سے مختلف مذہب اختیار کر
رہا ہے یا اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے
ماحول پہلے سے ہی خراب ہے، اور جبری تبدیلی مذہب جیسے مسائل سے صورتحال مزید خراب ہو
رہی ہے۔
اس طرح کی رپورٹیں انٹرنیٹ
پر وافر مقدار میں دستیاب ہیں، اور ان رپورٹوں کا سچ ہونا حالات کو مزید تشویش ناک
بنا دیتا ہے۔ اسلام میں جبری تبدیلی مذہب کا تصور ناقابل قبول ہے۔ کیا پاکستان میں
یہ جہالت کا نتیجہ ہے؟ اگر یہ جہالت ہے تو علمائے اسلام اس غیر انسانی اور اسلام دشمن
عمل کی کھلے عام مذمت کیوں نہیں کر رہے؟ کیا زبردستی اسلام قبول کرنے کے بعد کسی کے
لیے مسلمان ہونا ممکن ہے؟ یہ ایک بنیادی تصور ہے کہ مسلمان ہونے کا مطلب ایک خدا پر
دل سے یقین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا حقیقی رسول تسلیم کرنا ہے۔
کوئی شخص صرف کلمہ توحید پڑھنے
اور نماز پڑھنے سے مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ وہ دل سے توحید و رسالت پر ایمان نہ لائے
یہ بات جگ ظاہر ہے کہ توحید
اور اسلامی عقیدے کی باتیں کسی کے منہ سے زبردستی نکلوائی جا سکتی ہیں، لیکن کسی کے
دل میں زبردستی ڈالی نہیں جا سکتیں۔ اگر کسی مسلمان کو کفر کے کلمات کہنے پر مجبور
کیا جائے جب کہ اس کا دل اسلام سے مطمئن ہے تو وہ قرآن پاک کے اصول کے مطابق کافر نہیں
ہوتا (16:106)۔ اسی طرح اگر کوئی غیر مسلم اسلامی عقیدے کے الفاظ کہنے پر مجبور ہو
لیکن وہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر یقین نہیں رکھتا تو وہ مسلمان نہیں ہو گا۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران
خان نے ریاست مدینہ کے ماڈل پر کام کرنے کی اپنی خواہش کا کثرت سے ذکر کیا ہے۔ یہ محض
ایک نام نہاد ریاست مدینہ کا وعدہ تھا کیونکہ ریاست مدینہ میں جبری تبدیلی مذہب کی
اجازت نہیں تھی اور نہ ہی زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مسلمان کہلانے کا تصور تھا۔ اگر
وہ واقعی ریاست مدینہ میں دلچسپی رکھتے ہیں ، تو انہیں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے
لیے ایک اینٹی کنورژن بل پاس کرنا چاہیے اور ساتھ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
درج ذیل تعلیمات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے:
اگر کسی مسلم ملک میں رہنے
والے غیر مسلموں پر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو مسلم حکومت ان کی طرف سے لڑنے کی پابند
ہے۔ اسلامی حکومت کے تحت رہنے والے غیر مسلموں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا
جائے گا۔ غیر مسلم شہریوں کی جان، مال، کارواں، تجارت اور زمین کی حفاظت اسلامی حکومت
کی شرعی ذمہ داری ہے۔ ان کے پاس جو کچھ پہلے سے ہے وہ سب انہیں کے پاس رہے گا۔ ان کے
پجاریوں، مہنتوں، پنڈتوں اور پادریوں کو ان کے عہدوں سے نہیں ہٹایا جائے گا۔
(حوالہ کے لیے دیکھیں (1) کتاب فتوح البلدان جسے 9ویں صدی کے عباسی
دور کے بغداد میں فارسی مؤرخ احمد ابن یحییٰ البلاذری نے لکھا ہے یا (2) کتاب الخراج
(ٹیکسیشن کی کتاب)، فقہ پر ایک کلاسکی کتاب جسے امام ابو یوسف یعقوب ابراہیم الانصاری
الکوفی نے لکھا ہے۔
یہ اسلامی تعلیمات حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم نے دی تھیں۔ پاکستان کو اقلیتوں کے تحفظ کے لیے جبری تبدیلی مذہب پر
پابندی لگانے والے بل منظور کرنے کے لیے تیزی سے کام کرنا چاہیے۔ حکومت کو اسلام کے
دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی سبق حاصل کرنا چاہیے، جنہوں نے فرمایا تھا
کہ ’’ہمارے ملک میں رہنے والے غیر مسلم اللہ اور رسول کی حفاظت میں ہیں۔‘‘ (کتاب فتوح
البلدان)
اسلامی ممالک کے اندر غیر
مسلم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
اللہ اور اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کو دیے گئے حقوق مثلاً
زندگی گزارنے کا حق اور مذہبی آزادی کا حق وغیرہ کے تحفظ کا حکم دیا ہے۔ اس لیے ریاستی
حکام کو اسلام کے مطابق ان کے حقوق کے تحفظ میں حقیقی دلچسپی لینا چاہیے۔
English
Article: An Anti-Forced Conversion Law Is Urgently Required in
Pakistan to Protect the Minority Rights Given under Islam
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism