New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 03:59 PM

Urdu Section ( 27 Sept 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The First Condition of Patriotism: Unity and Solidarity حب الوطنی کی پہلی شرط: اتحاد و یکجہتی

پروفیسر عتیق احمد فاروقی

22 ستمبر،2022

جو لوگ اپنے سیاسی مفادات کے لئے ملک کو ذات اور مذہب کے نام پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیا وہ محب وطن ہیں؟ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ 75 سال قبل ہندوستانی جمہوریہ کے بانیو ں کے تمام ناساز گار حالات کے باوجود ملک کو آزاد خیال اور جمہوریت پسند نیشن بنانے کا تاریخی فیصلہ کیا۔ اس ملک نے تمام موسموں کی بہار و خزاں کو جھیلا ہے لیکن ابتدائی سالوں میں جو مضبوط بنیاد رکھی گئی اس کی بدولت مشکل مخالف حالات پر غالب ہو کر یہ دنیا کے نمایاں ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔اب ہمیں اس بات کو بھول جانا چاہئے کہ بہت سے لوگ نے پیشین گوئی کی تھی کہ ہمارا ملک جو کہ مذہب ، علاقہ، زبان، ذات او رقبیلوں کی بنیاد پر تقسیم ہے او رجو صدیو ں کے نو آبادیاتی استحصال کو جھیل کر رونما ہوا ہے ، ناکام ہوجائے گا ۔ ہمارا ملک ایک وفاقی اورترقی پسند ریاست بننے میں کامیاب ہوا ۔ قومی یکجہتی کا ماحول بنا جب کہ متعدد و تہذیبو ں اور شناختوں کو مضبوطی فراہم کرنا یقینی بنایا گیا کیونکہ کے اس بات کو سبھی سمجھ گئے کہ تنوع ہماری طاقت ہے۔ ہماری تمام نا اتفاقیوں کے بیچ ہر شہری کو ہندوستان پر مساوی حق ہے ۔ اس بے تعصب سیاسی تخیل کو سائنسی مزاج نے مزید طاقت بخشی اور اس کا استعمال جدید زراعت ، بڑی صنعت ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں کیا۔ نا وابستگی کی پالیسی نے ہندوستان کو ایک دوسرے سپرپاور مقابلہ کا اکھاڑہ بننے سے بچالیا۔اس نے سرد جنگ کے دور میں ہمارے ملک کو جمہوریت کی حیثیت سے پنپنے کا موقع دیا جب کہ اس ماحول میں متعدد دیگر ممالک آمریت ، بدنظمی اور انتشار کے شکار ہوگئے ۔ اپنے ابتدائی دور میں ہندوستان عالمی برادری میں ایک بااثر آواز تھا اور یہ آواز جیسے جیسے ملک مضبوط اور خوشحال ہوتا گیا ویسے ویسے او رمضبوط ہوگئی۔

جیسے جیسے نئے نئے مسائل سامنے آئے ایک نئے اور آزاد ہندوستان نے نیا تصفیہ ایجاد کیا۔ جب خوردنی اشیاء کی کمی نظر آئی تو کرین ریوولوشن نے ملک کو خود کفیل بنایا۔ جب مناسب وقت آیا تو ہمارے عوام کی تخلیقی توانائی کو اکسانے اور اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے ، شروعاتی سالوں میں اقتصادی کنٹرول جس نے معیشت کو راستہ دکھایا تھا اس کی جگہ آزاد معیشت نے لے لی۔یہ مکمل داستان نہیں ہے بلکہ بدلتے ہوئے حالات کا ایک رد عمل تھا جس کو جائز طریقے سے نافذ کیا گیا اور جس میں محروم  طبقوں کا خصوصی خیال رکھا گیا۔ یو۔پی۔اے کی حکومت کے دوران ہم نے اس چیز کو سمجھ لیا کہ اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ بڑھتے ہوئے عدم مساوات اور تیز نمو کے زمانے میں وسائل اور مواقع سبھی شہریوں تک پہنچ سکیں۔ حکومت نے صحت اور تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کی اور دیگر اقدام جیسے مہاتما گاندھی نیشنل رورل امپلائمنٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ اور ’ آدھار‘ نے فلاحی کاموں کو مزید مؤثر بنا یا اور کروڑوں غریبوں کو غریبی کی لائن سے اوپر لا کھڑا کردیا۔ اگر چہ امیر طبقہ اور حزب مخالف نے ان اقدام کا مذاق اڑایا لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کووڈ وبا اور اقتصادی بحران میں یہ کام زندگی بچانے والی ادویات ثابت ہوئے ۔ملک کو ترقی دینے والا یہ نظام جس نے ہندوستان کو کئی وبائیوں سے محفوظ رکھا ہے اب تنقید کانشانہ بن چکا ہے۔جتنا عدم مساوات آج ہے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اتنا کبھی نہیں تھا۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں طاقت اوراختیار مٹھی بھر سیاستدانو ںاور چند بڑے صنعتکاروں کے ہاتھوں میں مرکوز ہے۔ یہ صورتحال ہماری جمہوریت اور آئینی اداروں کو آہستہ آہستہ نقصان پہنچارہی ہے۔ووٹ حاصل کرنے کے لئے سماجی یکجہتی اور اتحاد کو سب مل کر ، یعنی حکمراں جماعت کے لوگ میڈیا اور حکومت کا آئی ٹی سیل ، ختم کررہے ہیں۔ مختلف فرقوں کے بیچ نفرت پھیلا ئی جارہی ہے اور سماج میں قانون اور نظم و نسق کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ داخلی امن و امان کو خطرہ لاحق ہے۔خود مختار ادارے جیسے عدلیہ ، الیکشن کمیشن ، ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس آفس اب انتظامیہ کے آلۂ کار بن چکے ہیں جو یکطرفہ اور جابرانہ انداز میں ان کے حکم کی تعمیل کے لئے ہر وقت تیار ہیں۔نتیجتاً الیکٹورل بانڈس اور قریبی صنعتکار دوستوں کی مدد پر پیسے کی طاقت سے انتخابات کے نتیجے اثر انداز ہوتے ہیں۔ حکومت کے مبینہ ادارے کسی بھی سیاسی جماعت کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اگر وہ موجودہ حکمراں جماعت کی مخالفت کرتے ہیں ۔مشقت سے بنائی گئی سرکاری اکائیاں ،جن پر سبھی شہریوں کا برابر کا حق ہے عوام کا مالکانہ حق ختم کر کے نجی صنعتی گھرانوں کو فروخت کئے جارہی ہیں۔

آمریت کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے ۔ بنیادی حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اور فرض شناس شہریوں سے فرماں برداری اور تقلید کی توقع کی جارہی ہے۔ کمزور طبقوں ، اقلیتوں ، خواتین اور سول سوسائٹی پر مستقل حملے ہورہے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کا ایک بڑا طبقہ حکومت کی اس پالیسی کی اندھی تقلید کررہا ہے۔ اسی لئے اس طبقہ کو ’ گودی میڈیا‘ کا نام دے دیا گیا ہے ۔ پارلیمان کو حزب مخالف چلنے نہیں دے رہا ہے لیکن اس کے لئے تنہا حزب مخالف ذمہ دار نہیں ہے بلکہ حزب اقتدار کو بھی اس کی ذمہ داری لینی ہوگی ۔زرعی قوانین اور سی اے اے جیسے بل جس عجلت اور بے ضابطگی سے پاس کرائے گئے، ہر خاص و عام کو اس کا علم ہے۔ نتیجتاً احتجاج اور مخالفت صرف پارلیمان میں ہی نہیں بلکہ سڑکوں پر بھی دیکھی گئی۔ رسول پور میں مرکزی وزارت داخلہ کے ایک وزیر کے بیٹے کے ذریعے چند کسانو ں کو گاڑی سے کچلے جانے اور اس کی جانچ کے دوران اس مرکزی وزیر کو برخاست نہ کئے جانے جیسے واقعات نے بھی مرکزی حکومت کی شبیہ کو خراب کیا ہے۔ تمام مذکورہ حقائق ہمارے قومی ڈھانچے کو کمزور کرتے ہیں اور ہندوستان کے داخلی اور خارجی دشمنوں کو ملک میں انتشار پیدا کر نے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔اگر جمہوریت کو آمریت پر فتحیاب ہوناہے توہمیں ایک ساتھ کھڑے ہوکر ان طاقتور عناصر کی مدافعت کرنی پڑے گی۔

آئندہ پچیس برسوں میں ہمارے ملک کو بڑھتی ہوئی اقتصادی عدم مساوات سے سختی سے نمٹنا ہوگا، مختلف اداروں میں مزید ایمانداری اور اخلاق بلندی پیدا کرنی ہوگی ، سماجی ہم آہنگی اور رواداری کی طرف لوٹنا ہوگا، مواقع کی توسیع کرنی ہوگی اور سبھی کے حقوق اور آزادی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ملک کا یہ مستقبل ہمیں ہر قیمت پر حاصل کرنا ہے۔ جو کوئی اس مقصد کو فروغ دے گا وہی سچا محب وطن کہلائے گا اور جو شخص اس مقصد کے خلاف کام کرے گا وہ ملک مخالف اور غدار کہلائے گا۔

22 ستمبر،2022 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/first-condition-patriotism-unity-solidarity/d/128042

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..