سلطان شاہین، ایڈیٹر، نیو ایج اسلام
نیو ایج اسلام اپنے قارئین کو آگاہ کرنے کے لئے کبھی کبھار جہادی نظریات بیان کرتاہے جو پوری دنیاکے مسلمان نوجوانوں کو متوجہ کر ر ہے ہیں ۔امید ہے کہ یہ کچھ علماءکی اندر ان نظریات سے مقابلہ کرنے میں جوش پیدا کریگااور ان کی غلطیوں کی نشان دہی کریگا۔لیکن کچھ قارئین اس کام کو کرنا درست نہیں سمجھتے ہیں۔یہ مسئلہ تبصرہ کے باب میں بھی پیدا ہوتا ہے جہاں جہادی مسلمان اور اسلام مخالف سابق مسلمان قرآن کی آیتوں کو دہشت گردانہ اور صحیح حدیثوں کو فحش انداز میں پیش کرتے ہیں۔میں اپنی اسلامک ویب سائٹ نیو ایج اسلام میں قرآنی آیتوں پر پابندی لگا نا مشکل سمجھتاہوں جسے تمام مسلمان خدائی نصیحت سمجھتے ہیں،جو آج بھی ان کے لئے نصیحت ہے،اصل قرآن لوح محفوظ میں محفوظ ہےاور صحیح حدیث میں محفوظ ہے جسے تمام مسلمان مستند سمجھتے ہیں کیوں کہ وہ امام مسلم و بخاری کے ذریعہ جمع کی گئیں ہیں۔میرا خیال ہے کہ جو مسلمان ابھی تک جہادی اسلام میں تبدیل نہیں ہوئے ہیں انہیں غلط جہادی بیان بازیوں سے اور ان کے غلط موقع استعمال سے واقف ہونا ضروری ہے۔ہو سکتا ہے یہ طریقہ مسلمانوں کو جہادی نظریہ سے روکنے کے لیے کارگر نہ ہو۔میں کوئی غیب داں تونہیں۔ لیکن یقینا یہ اسکا مقابلہ اورتردید ہے۔اور ہو سکتا ہے کہ وہ قارئیں درست ہوں جو سمجھتے ہیں کہ جہادی نظریہ سے انجان رہنا ہی بہتر ہے اس کی تردید اور مقابلے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ مجھے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا کیا جانا چاہیے ۔ اس لئے کہ مجھے یقین ہے کہ میری طرح بہت سے مسلمان ہوں گے جو پورے طور پر جہادیوں کے رجحانات کے بارے میں متفکر ہیں۔آخر کیسے مسلمان خود کش حملہ آوروں کی ایک فوج کبھی بھی اور کہیں بھی موجود ہو جاتی ہے، جہاں کہیں بھی کچھ لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہندوستان میں بھی ایک ایسی فوج ہو گی، تبھی تو القاعدہ ےیہاں اس کی خواہش ظاہر کررہا ہے۔اگر القاعدہ یہاں آسکتا ہے تو پھر خلیفۃ المسلمین ، "امیر المومنین " ابوبکر البغدادی کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فوج مختصر ہوگی کیوں کہ ابھی تک اس میں ان کی اتنی دلچسپی نہیں نظر آ رہی ہے۔ اور یقینایہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے محروم نظر ہے۔لیکن بہرحال ایک فوج تیار ہوگی، بلکہ ہوچکی ہے، جسے اب صرف تحریک کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کو ذرا بھی شک ہو تو وہ خود دنیا کے موجودہ حالات کو دیکھے۔
ظاہر ہے اگر آپ جہادی مسلم نہیں ہیں اور مستقبل قریب میں ہونا بھی نہیں چاہتے توآپ کو فکر مند ہونا چاہئے۔اس لیے کہ اس جماعت کا پہلا ٹارگیٹ غیر مسلم نہیں ہیں۔یہ اب تک دنیا بھر کا تجربہ ہے۔اس کا اول نشانہ تو غیر جہادی،غیر وہابی، غیرسلفی اور غیر انتہا پسند مسلم ہیں۔جیسا کہNottingham Universityکے 18-20سالہ ایک اہل حدیثی طالب علم نے1986میں مجھے بتایا کہ تمام غیر اہل حدیث اسلام کے اولین اور اہم ترین دشمن ہیں اور ان کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔1986 میں میں نے اس بچے سے پوچھا کہ اسلام کے اول اور اہم ترین دشمن کے ساتھ کیا کرنا چاہئے تو اس نے جواب میں کہا کہ ان سب کو قتل کر دینا چاہئے۔یہ امر میرے لئے اس وقت حیران کن اور نا قابل یقین تھا ۔کچھ لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ میں کسی مقصد کے تحت تصنع آرائی سے کام لے رہا تھا ۔مجھے خود پر یقین نہیں ہورہا تھا ۔ دراصل میں دنگ رہ گیا تھا ۔یہ اس وقت کی بات ہےجب میرے دوست جو کہ ان بچوں کے والد تھے جن سے وہ اہل حدیثی لڑکا گفتگو کررہا تھا، ایک ملحقہ کمرے سے چلاتے ہوے باہر آئے اور اس لڑکے کو گھر سے باہر نکالتے ہوئے کہا کہ وہ دوبارہ شکل نہ دیکھائے۔ یہ ایک ایسی گھڑی تھی کہ میرے پاس میرے کانوں پر یقین کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ میں نے خود یہ حیرت انگیز بیان سنا تھا۔
تاہم میں نے جب صحافی کے طور پر تحقیقات کیں تو میں نے اس لڑکے کو وہی کہتے ہوئے پایا جو کہ مکمل طور پر حزب التحریر کے نظریے کے موافق تھا۔ حزب التحریر پہلے ہی برطانوی یونیورسیٹی کیمپس کے 70فی صد نوجوان مسلمانوں کو برطانوی زندگی کے اصل دھارے سے الگ کر چکا تھا ۔ حزب التحریرکے صدر عمر بکری محمد ایک بڑے کرشماتی لیڈر تھے جوWimbley Hall کو، جوکہ لندن کاسب سے بڑا ہال ہے، پورے برطانیہ کے مسلم سامعین کی گھن گھرج سے بھر دیتے تھے۔ انہوں نے بعد میں پورے لندن میں پرجوش سامعین کے ساتھ "المھاجرون "کی سرپرستی کی، یورپ میں اسامہ بن لادن کے ترجمان بنے اور پھر انہیں وہاں سے نکال دیا گیا اورواپس مصر بھیج دیاگیا۔
لیکن جو کچھ اس لڑکے نے کہا تھا وہ آج اس گزشتہ دہائی کے دوران واقع ہوا۔ غیر وہابی مسلمان ہزاروں کی تعداد میں مارے جارہے ہیں، مزارات کو منہدم کیا جا رہا ہے اور مزارات پر حاضری دینے والے زائرین کو بھی مارا جا رہاہے۔ اب اس امر میں کوئی شک کی گنجائش نہیں کہ ان کا اصل مقصد غیر وہابی مسلمانوں کا خاتمہ ہے جنہیں یہ اسلام کا اول اور اہم ترین دشمن سمجھتے ہیں اور پوری دنیا میں یہی ہو رہا ہے۔
لیکن ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ اس جہادی نظریے سے واقف ہوں جس نے ہمارے بچوں کو ہم سے دور کر رہا ہے۔ اور یہ نظریہ ہماری ان بیٹیوں کو بھی اس کی طرف مائل کر رہا ہے جو اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔برطانیہ کے پرائیویٹ اسکول کے طالب علم، پیشہ ور افراد، یورپ اور امریکی یونیورسیٹی کے تعلیم یافتہ افراد دہشت گردی میں شامل ہورے ہیں ۔ وہ لوگ یہ فعل نہ صرف قاتلوں کی طرح انجام دیتے ہیں بلکہ وہ عورتوں کو بیوی اور رکھیل بھی بناتے ہیں ۔ وہ یہ کام کسی دنیوی مفاد یا مال و زر کے لیے نہیں کرتے ہیں ۔وہ اپنے ممالک کے خودکش حملے میں جاتےہیں یا القاعدہ اور آئی ایس کو اختیار کرتے ہیں ۔اگر ہم صحیح معنی میں مسلمان ہیں تو ہمیں اس کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔ محض فوجی کارروائی کے ذریعہ دہشت گردی کو مٹانا اور اس سے مقابلہ کرنا ہمارے لیے ایک مختصر المدتی حل ہے۔ بین الاقوامی کمیٹیاں اور حکومتیں اس کام میں مصروف ہیں اور بے شک یہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ عمل دوررس نتیجہ کا حامل نہیں ہے۔ آپ ایک کو ماریں گے، وہ دس کو پیدا کرلیں گے۔ میرا یقین یہ کہتا ہے کہ اسلامی دہشت گردی کے عقیدہ کی نظریاتی تردید اور علمی مقابلہ آج ازحد ضروری ہے۔ آج ہمیں اپنے ترقی پسند مذہبی رجحانات اور اعتدال پسند نظریات کو بڑھاوا دینا چاہیے۔ اسے کرنے کے لئے ہمیں اس کی حقیقت سے آشنائی ضروری ہے۔ بہت سے قارئین اس کی مخالفت اس لئے کر رہے ہیں کیوں کہ وہ شرمندہ ہیں.کیوں کہ جو طالبانی ملا کہہ رہے ہیں وہ قرآن،حدیث اور شریعت کے مطابق ہیں، جنہیں تمام مسلمان احکام الٰہی سمجھتے ہیں۔ تقریبا تمام قارئین کا کہنا ہے کہ طالبانی ملا قرآنی آیات اور احادیث کی غلط تشریح اورغلط ترجمانی نہیں کررہے ہیں ۔ صرف یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی فوجی آفسر اور طالبانی ملاؤں کے مابین ہونے والے اس مباحثہ کو کیوں نشر کیا جارہا ہے۔
مجھ سے یہ کہا جاتا ہے کہ اوروں کی طرح آپ بھی اس معاملے میں سرد مہری کیوں نہیں اختیار کر لیتے ہیں، تو میرا جواب یہ ہوتاہے کہ میں اس کے بارے میں سنجیدہ ہوں اور اسے سدھار نے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اگر آپ کے پاس اس سے بہتر کوئی طریقہ ہے تو مجھے بتائیں اور مجھے لوگوں کی طرح غافل رہنے کو نہ کہا جائے۔
کیا آپ اقصیٰ محمود پرائویٹ سکول کی لڑکیوں کو اپنی جدو جہد سے واپس لا سکتے ہیں ؟۔کیا آپ اقصیٰ محمود کے مستقبل کو سرد مہری کے ذریعہ بحال کر سکتے ہیں؟ جہادی نظریہ کی تردید اور اس کے تشدد کے بنیادی مقاصدسے مقابلہ کرنے کو کہنا آسان ہے، لیکن کرنا مشکل۔ خصوصا اس ماحول میں جب کہ تمام مسلمان صرف لعن طعن کرنے کے موڈ میں نہیں بلکہ خودکشی کے موڈ میں ہوں۔ دیوبند مدرسہ کے فارغین جو کہ اصل میں طالبانی ہیں فطرتا اپنی دفاع میں دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی جیسے شیوخ کو پیش کریں گے۔ لیکن بریلوی صوفی علماء یہ نہیں کہتے کہ جو حدیث طالبانی ملا بیان کر رہا ہے وہ من گھڑت اور بناوٹی ہے۔ جب میں نے تحقیقات کیں تو پایا کہ نہ صرف دیوبندی علماء اور دیگر وہابی علماء بلکہ صوفی بریلوی علماء بھی اس حدیث کے مستند ہونے پر شک نہیں کرتے جو محمد ﷺکو دہشت گردی کی حمایت کرتے ہوئے پیش کرتی ہے (بے قصور عورت ،مرد،بچے اور دیگر شہریوں کے قتل کے مفہوم میں)۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بخاری ومسلم اور صحاح ستہ میں لکھا ہے۔ تو اس کا صحیح ہونا یقینی ہے۔
طالبانی علماء جو دیوبند مدرسہ سے فارغ ہیں اور جو اس حدیث کو دہشت گردی کے جواز کو ثابت کرنے کے باب میں استعمال کرتے ہیں، ان کا یہ عمل فطری ہے۔ لیکن یہ صوفی علماء اور صوفی بریلوی مدرسہ کے فارغین اس واقعہ کی توضیح پیش کرتے ہیں اور بے شمار ایسی قرآنی آیات اور احادیث بیان کرتے ہیں جن میں آپ ﷺکی ہمدردی اور بے قصور شہریوں کے قتل کی سخت وعید آئی ہے۔ اس طرح وہ یہ تأثر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو دہشت گردی میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن جہادی علماء کہتے ہیں کہ امن سے متعلق آیات اور آپ ﷺکی احادیث قرآن کی بعد کی آیتوں سے منسوخ ہو چکی ہیں۔ اور صرف ان ہی آیات کو بیان کرتے ہیں جن میں کافروں کے ساتھ جنگ اور ان کے ساتھ بھائی چارگی سے دور رہنے کو کہا گیاہے۔ اس طرح وہ لوگ محمد ابن عبد الوہاب کے بنیادی موقف کا جواز پیش کرتے ہیں کہ: "اگر کوئی مسلمان شرک سے بچا رہتا ہےاور ایک خدا پر ایمان رکھتاہے تب بھی اس کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ اپنے فعل و عمل میں کافروں کے خلاف نفرت اور دشمنی کا اظہار نہ کرے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شیخ محمد بن عبدالوہب مجموعۃالرسائل والمسائل النجدیہ4/291۔
یقینا جیسا کہ کچھ سابق جہادیوں نے انکشاف کیا ہے کہ جہادی علماء نے ان تمام شبہات کے مؤثر ازالہ کا کام کر لیا ہے جو امن و سلامتی اور ہمدردی وغمگساری سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث نبوی کی بنیاد پر بہت سے دماغوں میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ قرآن میں امن سے متعلق آیات اور آپ ﷺ کے اقوال بے شمار ہیں جو بے قصوروں کے قتل کی ممانعت پر وارد ہیں ۔ آخر ہمارے بچے روشن خیال، ترقی پسند، اعتدال پسند، صوفی بریلوی گھروں سے نکل کر جنت کی طلب میں جہادی مشن سے کیوں جڑتے چلے جا رہے ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جہادی نظریات کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی موثر طریقہء کار اور تردیدی نظریہ نہیں ہے ۔ جب حالات یہ ہیں تو ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ جہادی نظریہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ نیو ایج اسلام کے قارئین بھی یہی کہتے ہیں کہ سرد مہری اختیار کرلو، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن دوستو! حالات بہتر نہیں ہورہے ہیں، بلکہ بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ آئیے ایک لمحہ کے لیے اسکاٹش پرائویٹ اسکول کی طالبہ اقصیٰ محمود کے بارے میں سوچیں!
URL for English article:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/fighting-jihadism-with-heads-buried/d/99114