ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام
28 اپریل 2023
"تاریخ ایک ضرورت ہے۔ اگر ماضی کے تمام علوم
کو مٹا دیا جائے تو افراد، برادریاں اور معاشرے شاید ہی موجود ہوں۔ جس طرح یادداشت
فرد کے لیے ہوتی ہے، اسی طرح تاریخ معاشرے کے لیے ہوتی ہے۔ یادداشت کے بغیر، افراد
کو دوسروں سے تعلق بنائے رکھنے، اپنی تلاش کرنے اور صحیح فیصلے لینے میں بڑی دشواری
کا سامنا کرنا پڑتا ہے – کیونکہ اس صورت میں انسان اپنی شناخت کا احساس کھو چکا ہوتا ہے۔ جس معاشرے
کی تاریخ نہ ہو اس کی حالت بھی ایسی ہی ہو گی۔ آرتھر ماروک نے یہ باتیں 1970 میں اپنی
مشہور کتاب دی نیچر آف ہسٹری میں لکھی۔
----
میڈیا میں 27 اپریل کو یہ
بات شائع ہوئی کہ ایک آئی اے ایس افسر کو 15ویں صدی کے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا
(اے ایس آئی) کی محفوظ یادگار کو مبینہ طور پر مسمار کرنے کے لیے ویجیلنس ڈیپارٹمنٹ
نے نوٹس بھیجا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ یادگار چند سال قبل جنوبی دہلی کے لاجپت نگر
کے قریب موجود تھی اور یہ کہ اب اس کی جگہ اس کے خاندان کے رہنے کے لیے ایک شاندار
بنگلہ تعمیر ہے۔
کچھ ماہ قبل ، خبروں کا ایک اور حصہ اس وقت
سرخیوں میں آیا جب حکومت نے لوک سبھا میں بتایا کہ کم از کم 24 آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی محفوظ یادگاریں لاوارث پائی گئیں۔ ان میں سے نئی دہلی کے مشہور بارکھمبا
قبرستان کا غائب ہونا سب سے زیادہ افسوسناک ہے۔ 1920 کے ریکارڈ میں اس کا وجود ہے اور
اب آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اس کے صحیح مقام کا پتہ نہیں لگا سکا۔
ہیریٹیج ٹائمز پورٹل کے بانی، محمد عمر اشرف
نے کہا، "ایک معاشرے کے طور پر، ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تاریخ ہمارے حال کی وضاحت
کرتی ہے۔ کیا آپ ان لوگوں کے بارے میں سوچ سکتے ہیں جو تاریخ کے بغیر اپنا وجود رکھتے
ہوں؟ مسلمان اپنے آپ کو ماضی کی قرآنی کہانیوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں جبکہ ہندو رامائن
اور مہابھارت اور دیگر صحیفوں کی ماضی کی داستانوں کے ذریعے بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح
ہر معاشرے کی ایک تاریخ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی شناخت کرتے ہیں۔ یہاں ہم اپنی
شناخت مٹا رہے ہیں۔‘‘
تاریخ دانوں نے صدیوں سے یہی لکھا ہے۔ ماروِک
کے الفاظ میں، " صرف تاریخ کے احساس سے ہی قومیں اپنی شناخت قائم کرتی ہیں، خود
کو متعین کرتی ہیں، ماضی اور دیگر برادریوں اور معاشروں سے اپنے تعلق کو سمجھتی ہیں۔
تاریخ کے علم کے بغیر ہم، اور ہماری قومیں گمنامی کےمنھ میں چلی جائیں گی۔"
یہ ایک حقیقت ہے کہ "جیسے جیسے معاشروں
نے استحکام اور تنظیم میں ترقی کی ہے ویسے ویسے انہوں نے اپنے ماضی کو برقرار رکھنے
اور اسے محفوظ رکھنے کی زیادہ کوششیں کی ہیں"۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ ہر ترقی
یافتہ قوم نے عجائب گھروں، آرکائیوں اور یادگاروں کی دیکھ بھال کا خاص خیال رکھا ہے۔
اس وقت یوروپ اور امریکہ کو مثال کے طور پر
دیکھا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے اپنی ترقی کے عروج کے دور میں ہندوستانی، عرب، میسوپوٹامیا اور چین، وغیرہ کے
پاس ریاستی سرپرستی میں تاریخ ساز، محافظ دستاویزات اور مورخین ہوتے تھے۔
یہ تشویش کی بات ہے کہ ہندوستان میں برسراقتدار
لوگ ہماری تاریخ کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ قومی
راجدھانی میں ہو رہا ہے۔ یہ تباہی دھیرے دھیرے ہم سے قومی شناخت کا احساس چھین لے گی۔
کیا آپ ایک ایسے شخص کا تصور کر سکتے ہیں جو
ایک صبح بیدار ہوتا ہے اور اسے اپنے ماضی کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہوتا؟ وہ اپنے خاندان،
آباؤ اجداد، یا اس سے بھی بے خبر ہے کہ اس نے ایک دن پہلے کیا کیا تھا۔ جس قوم کی تاریخ
نہ ہو اس کا حال اسی طرح ہوگا۔ اپنے ورثے کو بچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔
English Article: Fifteenth-Century
Monument - A Palace Of The Pathan Period – Demolished To Construct Government
Officer's Bungalow
URL: https://newageislam.com/urdu-section/fifteenth-century-monument-pathan-period-bungalow/d/129674
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism