New Age Islam
Sat Mar 25 2023, 02:30 PM

Urdu Section ( 1 Aug 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

We Are On The Side Of Peace At Home and Abroad: Fethullah Gulen ہم سفر و حضر میں امن کے طرف دار ہیں : فتح اللہ گولین


زمرد کی  پہاڑیوں سے دو گلاب: رواداری اور مکالمے

فتح اللہ گولین

21 جون ، 2013

( انگریزی سے ترجمہ  ،  نیو ایج اسلام  )

بات چیت کا مطلب کچھ مخصوص  مسائل پر بحث کرنے کے لئے دو یا اس سے زیادہ لوگوں کا  ایک  ساتھ ملنا ، اور ان لوگوں کو آپس میں ملانا ہے ۔ اس سلسلے میں، ہم مکالمے کو  ایک ایسی سرگرمی قرار دے سکتے ہیں جو  نوع انسانی کے محور میں ہے ۔ بے شک، ہر کسی کو   اپنے خلوص اور نیت کے مطابق اجروثواب ملے گا ۔ اگر لوگ  اپنے  اعمال اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ انجام دیں  تو وہ فاتح ہو سکتے ہیں اگر چہ دوسرے انہیں نقصان اٹھانے والا سمجھیں ۔

خدا کے نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا: "اعمال کا  فیصلہ نیت کے ذریعہ کیا جا تا ہے " اور انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ  مومن کی نیت خود عمل سے زیادہ اہم ہے ۔ اگر عمل کا  دارومدار  نیک نیتی پر ہو تو وہ اچھا ہو گا۔ لہذا، کوئی اگر  کچھ بھی کرے سب سے پہلے اسے اس کے  ارادوں میں مخلص ہونا  اور خدا کی رضاء  حاصل کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا ، کسی کو بھی  ان  تعلقات کے بارے میں  غلط فیصلہ یا بہتان نہیں باندھنا چاہئے جو محبت، مکالمے اور رواداری کے نام پر مختلف گروہوں کے درمیان قائم کئے جا رہے ہیں ۔

معاشرہ بہت زیادہ  زخم کھانے کے بعد اور  بہت مرتبہ جھنجھوڑ دئے جانے کے بعد اب مزید جھٹکے برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر جمہوریت مخالف نظریہ حکومت  اس قوم  کا نا قابل برداشت  بوجھ  بن جائے  اور منطق اور فیصلہ ان نظریات کو دستیاب طاقت اور ذرائع کےذریعہ پیش کیا جائے  تو ہو سکتا ہے کہ یہ عظیم قوم نجات پانے کے قابل نہ ہو سکے ۔ اس طرح کی آفت کے نتیجے میں، اس ارض جنت  نشاںکو  15 یا 20 سال پیچھے پہنچا یا  جا سکتا ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ ہم کچھ کھو دیں اور ان کھوئی ہوئی چیزوں کے لئے بے قرار ہوں ، اور یہ بھی  ہو سکتا ہے کہ ان کا تعلق ان چیزوں سے ہو   جن پر آج ہم تنقید کرتے ہیں ۔

اس سلسلے میں اگر ہم مکالمے کے لیے اپنی کوششوں  کو اس یقین کے ساتھ شروع کریں کہ  "امن بہتر ہے" (4:128) تو ہم اس  بات  کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کہ  ہم سفرو حضر میں امن کے طرف دار ہیں ۔ بے شک، امن اسلام میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے؛ لڑائی اور جنگ صرف ثانوی واقعات ہیں جو مخصوص وجوہات اور شرائط سے مربوط ہیں ۔ اس سلسلے میں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر اس زمین میں  ایساپر امن ماحول حاصل نہیں کیا جا سکتا جہاں تمام لوگ  امن اور سلامتی کے ساتھ  رہ سکیں تو معاشرے یا انسانیت کے لئے کوئی اچھی خدمت انجام دینا ہمارے  لئے ناممکن ہو گا ۔

اگرہم اس معاملے کومختلف نقطہ نظر سے دیکھیں تو  مسلمانوں میں وقتاً فوقتاً غلط فہمیاں پائی گئی ہیں اور ان کے نتیجے میں انہیں  دباؤ اور توہین کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہم نے  مسلمانوں کو ان کے انتہائی  ذاتی اور بنیادی حقوق سے محروم کئے جانے کا  مشاہدہ کیا ہے، مثال کے طور پر ان کے کام کرنے کے حقوق ۔ وہ ظلم جس کا مومنوں کو  نشانہ بنایا گیا ہے وہ  انسانیت، انسانی حقوق، سخاوت، محبت، اور رواداری جیسی راست بازی کے نام پر انجام دیا گیا  ہے، در حقیقت یہ اسلام کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ جب کہ انہی خصوصیات اور نیکیوں کا استعمال ان لوگوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جو  مومن ہیں  اور ان تصورات کا استحصال کیا جا رہا  ہے۔

یہ بنیادی رویہ ہمیشہ  رہا ہے  ایک ایسا رویہ جو ایسے لوگوں کی جانب سے مکار و عیار ہے جو  اسلام  اور مسلمانوں کے وجود کو نہ  تو یہاں اور نہ ہی  بیرون ملک  جگہ دینا  چاہتے ۔ جن چیزوں کا دعوی کیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہیں، ایک مسلمان کبھی متعصب  نہیں ہو سکتا۔ اگر اس طرح کی  خصوصیات کے حامل کچھ لوگ اسلامی کمیونٹی میں  ظاہر ہو ئے  ہوں تب بھی  تمام مسلمانوں کے بارے میں  یہ سوچنا ناقابل تصور ہے کہ وہ افہام و تفہیم اور رواداری سے دور ہیں ۔ بے شک، اس زمانے میں  مسلمانوں نے کیا نقصان کئے ہیں  اور انہوں نے کن برائیوں کا ارتکاب کیا ہے اور کن  کے خلاف کیا ہے ؟ ان کے اچھے ارادوں کے باوجود کچھ لوگ ہمیشہ جھوٹی دقیانوسی  باتیں کرتے رہے ہیں اور اسے ناقص پیمانے پر ناپتے رہے ہیں ، وہ محبت، رواداری، آزادی اور جمہوریت کے نام پر مختلف الزامات کے لئے قربانی کے بکرے بن گئے ہیں۔

ان تمام جھوٹے الزامات کو جھیلنے کے باوجود ، سچے مسلمان کسی کو کبھی تکلیف نہیں پہنچاتے اور صرف یہ حقیقت بیان کر کے  خود کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ وہ ایسے نہیں ہیں جیسا  ہونےکا ان پر تہمت لگایا  گیا ہے۔ اب  تک  ایک مخصوص گروپ نے ان پر حملہ کرنا ختم نہیں کیا ہے ۔ بے شک، خوبصورتی ہمیشہ مسلمانوں کے خالص اور معصوم جانوں سے اور مقدس اور اس عظیم مصدر و منبع سے  جھلکتی ہے جو ان کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ کوئی  اور دوسرا طریقہ نہیں ہو سکتا، قرآن ، سنت، اور عظیم علماء کے خالص اور فاضل تشریحات میں ایسا کوئی حکم یا رویہ نہیں پایا جا تا جو محبت،  رواداری، تمام کے ساتھ مل کر  بات چیت کرنے  اور ہمارے جذبات یا خیالات کا اعلان اور اظہار کرنے  کے برعکس ہو ۔ ہم اس کے علاوہ کسی اور مذہب کا تصور نہیں کر سکتے جو  سب کے متعلق خیر اندیش ہو اور بغیر کسی استثناء کے  سب کو نجات کی دعوت دے ۔ قران عظیم کی  مندرجہ ذیل آیات اس حقیقت کا بخوبی اظہار کرتی ہیں : مومنو! تمہاری عورتیں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن (بھی) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ اور اگر معاف کردو اور درگزر کرو اور بخش دو تو خدا بھی بخشنے والا مہربان ہے۔ (64: 14)

مومنوں سے کہہ دو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو اعمال کے بدلے کے لئے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلے دے۔ (45: 14)

بے شک جب  ہم قرآن کی طرف نظر کرتے ہیں تو اسے  محبت کے سانچے  میں ڈھلا ہو ا پاتے  ہیں۔ اس سلسلے میں، مسلمانوں کی منفی تصویر کو تبدیل کرتے ہوئے  مومن دلوں کو  ان خوبصورتیوں کی باز یافت  کرنا ضروری ہے جو کہ پہلے سے ہی ہماری ہیں ۔ یہ منفی تصویر دنیا کے سامنے پیش کی گئی ہے اور اب ہمیں  ایک بار پھر اسلام کے بنیادی پہلو کی ابلاغ و ترسیل  ان لوگوں کو کرنا ضروری ہے،جولوگ ‘‘نرم  دلنشینی ’’ کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے، مہذب ہونے کا خیال رکھتے  ہیں ۔ ان کی بہتری کا لامتناہی شکریہ جس نے ہمیں  حق کے جانثاروں کا  فضل و کرم عطا کیا  اور محبت کے ان علم برداروں کا جو  ساری دنیا میں محبت، رواداری اور مکالمے کے  پیغام کو عام کررہے ہیں اور محبت سے بھرے دلوں کے ساتھ "مسلمانوں  کی نئی تصویر" تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

میں اس حقیقت پر زور دینا چاہوں گا کہ مسلمان مکالمہ، محبت، اور رواداری کو برت کر کوئی نقصان نہیں کریں گے ۔ یہ سب کے لئے  سب سے بڑا فائدہ ہے۔ اس سلسلے میں ، جو چیزیں کچھ لوگوں کو نقصانات لگ سکتی ہیں ان  چیزوں کو مسلمانوں کے ذریعہ  فوائد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جو قرآن میں بیان کیا  گیا ہے اور جسے عقلی طور پر ثابت کیا گیا ہے، یہ ایک ایسی  کتاب ہے جو  مستقبل کے تمام مسائل کو حل کرنے کے لئے کافی مضبوط ہے۔ انبیاء کرام ، جنہیں برنارڈ شا نے کہا کہ ، "انہوں نے تمام مسائل کو چٹکیوں میں حل کر دیا ،" انسانیت کی طرف  قیامت کے دن تک تمام مسائل کا  حل پیش کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ گزشتہ صدی کی طرح ، ہمارے زمانے  اور آنے والےزمانے کے مسائل  جن کے بارے میں لگتا ہے کہ  وہ کسی ٹھوس حل سے بہت دور ہیں  وہ دل اور دماغ کے معمار کے ذریعے حل کئے جائینگے، جس  کاحل  قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی زندگی پر مبنی ہو  گا  ۔

ماخذ:

http://leadership.ng/news/210613/two-roses-emerald-hills-tolerance-and-dialogue#sthash.f2wosjLj.dpuf

URL for English article: https://newageislam.com/the-war-within-islam/start-dialogue-with-belief-that/d/12254

URL for this article:https://newageislam.com/urdu-section/we-side-peace-home-abroad/d/12867

Loading..

Loading..