New Age Islam
Sun Oct 13 2024, 04:22 AM

Urdu Section ( 14 Oct 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Reformer, Thinker, Statesman and Freedom Fighter Abdul Quayyum Ansari – Part - 2 (مصلح، مفکر، مدبر، مجاہدین آزادی عبدالقیوم انصاری ( آخری قسط

 

فاروق ارگلی

14 اکتوبر، 2014

ملک و قوم کے اس مفکر قائد نے اپنے نام کے ساتھ ‘ انصاری’ جو لاحقہ لگایا وہ بہت جلدپورے ملک کی مومن برادری  کی خصوصی پہچان بن گیا ۔ انہوں نے لفظاً و معناً اپنی برادری کو مدینہ کے انصار سےوابستہ کر کے ملت کی مدد گار ( انصار) قرار دے کر عزت و وقار کی بلندیوں پر فائز کردیا ۔1927 میں سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرے میں انصاری صاحب پولیس کے لاٹھیوں سے اس قدر زخمی ہوئے کہ بہت دنوں تک ان کا علاج ہوتا رہا ۔ مومن تحریک کو اعتدال  پسند رہنماؤں کے اثر سے نکال کر تحریک آزادی  میں عملی طور پر  شامل کردینا اور اس  کو کانگریس کی سب سے بڑی حلیف پارٹی  بنا دینا عبدالقیوم انصاری کا ایسا  کارنامہ ہے کہ جس نے سیاست کا ماحول بدل دیا ۔ یہ کارنامہ انہوں نے 1938 میں اس وقت انجام دیا جب پٹنہ کی ایک اسمبلی سیٹ پر وہ مومن تحریک کے امیدوار کے طور پر چناؤ لڑنا چاہتے تھے او رانہیں  زندگی کے تلخ ترین تجربے سے دوچار ہونا پڑا تھا ۔ وہ واقعہ معروف سیاست رہنما جناب علی انور ایم پی نے انصاری صاحب کے صاحبزادے جناب خالد انور انصاری کے حوالے سےبیان کیا ہے:‘‘ 1938 میں پٹنہ کی ایک اسمبلی سیٹ پر  چناؤ ہونا تھا ۔ اس سیٹ کے لیے امیداوار طے کرنے کے لیے مسلم لیگ  کے رہنما باہر سے بھی آئے تھے ، درخواستیں  لی جارہی تھی ۔

 عبدالقیوم انصاری صاحب نےبھی اس سیٹ پر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور درخواست پیش کی۔ درخواست دے کر وہ باہر نکلے ہی تھے کہ اند ر سے قہقہوں سے ساتھ آواز سنائی پڑی ‘‘ اب  جولاہے بھی ایم ایل اے بننے کا خواب دیکھنے لگے ۔’’ یہ سننا تھا  کہ انصاری صاحب تیزی سے پلٹ کر اندر داخل ہوئے اور کہا ‘‘ میری درخواست واپس کر دیجئے ’’۔ اور پھر اسی  جگہ درخواست کو پرزہ پرزہ کردی ۔ انہوں نے  اس وقت اسی طرح اپنی توہین کو محسوس کی جس طرح مہاتما گاندھی نے جنوبی افریقہ میں ٹرین سے باہر  نکال دیئے جانے  کے وقت محسوس  کی ہوگی ۔ مومن کانفرنس میں پوری طرح خود کو وقف کر دینے کا تاریخی فیصلہ بھی  اسی واقعہ کا ردّ عمل تھا اور  پھر بہت جلد مسلم سیاست میں ان کا نام گونجنے لگا۔ مومن تحریک کے ابتدائی رہنماؤں میں سے ایک مشہور اسلامی دانشور حضرت مولانا امام الدین رام نگر ی کہتے ہیں : ‘‘ انصاری صاحب آندھی او رطوفان کی طرح مومن تحریک پر چھا گئے ، ہم لوگ جو تحریک کے بانی اور اہم  ستون تصور کیے جاتے تھے محض تماشائی بن کر رہ گئے کیونکہ  پوری مومن برادری انصاری صاحب کے گرد جمع ہوچکی تھی ۔ ایسا اس لیے ہوا تھا کہ پہلے کے مومن رہنما اس وقت کے سیاسی ضرورتوں اور مومن برادری  کی سیاسی اُمنگوں کو سمجھ کر ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے ۔ ان میں سے کچھ کا زور  اس بات پر تھا کہ تحریک کو اپنی سرگرمیاں سماجی اور تعلیمی میدان تک محدود رکھنی چاہئیں ۔

اس لیے وہ لوگ الگ تھلگ پڑ گئے ۔ انہیں مومن تحریک کا پلیٹ فارم انصاری صاحب کے سپرد کر کے الگ ہٹ جانا پڑا۔’’ ( مساوات کی جنگ ، از علی انور بحوالہ عبدالقیوم انصاری: حیات اور کار نامے) جناب شاہد رام نگری لکھتے ہیں کہ : ‘‘ انصاری صاحب نے جب پٹنہ آکر سیاست شروع کی اُس وقت بہارمیں مسلم سیاست کے  اُفق پر ڈاکٹر سیّد محمود، بیرسٹر محمد یونس ، مسٹر عزیز، سیّد ظفر امام، سر سلطان احمد اور نواب  حسن وغیرہ جگمگا رہے تھے ۔ ان اصحاب کو اپنی  صلاحیتوں کے ساتھ ہی خاندانی و قار اور دولت میں کچھ حاصل تھا ، ان کے مقابلے میں انصاری صاحب کی حیثیت  ایک ذرّے جیسی تھی، وہ حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری جیسے عظیم عالم دین کے نواسے ضرور تھے، لیکن سیاسی میدان میں یہ خوبی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ انہیں سیاست کی بساط سے ٹھکرادینے کی کوشش کی گئی ۔’’ جناب عبدالقیوم انصاری قومی تحریک آزادی کے چوٹی کے رہنماؤں  میں تھے ۔ یہ المیہ ہی ہے کہ اپنے جوش، ولولے ، حکمت عملی اور مدبرانہ سیاست کے باوجود بہار کی سیاست سے ہی وابستہ رہنے دیا گیا جب کہ مومن کانفرنس کے روحِ رواں کی حیثیت  سے ان کی شخصیت پورے ہندوستان پر اثر انداز ہوئی ۔

تقسیم وطن کے  خلاف ایک قومی نظریے پر ان کا راسخ عقیدہ اور بڑے بڑے طوفان میں بھی کانگریس کی پالیسیوں پر ان کے اعتماد کی وجہ سے وہ قومی رہنماؤں کی اگلی صف میں نمایاں نظر آتے ہیں ۔ بقول کامریڈ حبیب الرحمٰن : ‘‘ مسٹر کرپس کے یہ دریافت کرنے پر کہ مسٹر جناح کے مقابلے میں کانگریس کے ساتھ  وہ کون سے مسلم رہنما ہیں جو مسلمانوں کے کسی نہ کسی حصے  کی ترجمانی کرتے ہیں او رمسلم لیگ اور جناح کے خلاف مسلم عوام کے ایک حصہ کو کانگریس کی جنگ آزادی میں شریک کرسکتے ہیں؟ پنڈت جواہر لعل نہرو نے خان عبدالغفار خان ، حضرت مولانا  حسین احمد مدنی اور عبدالقیوم انصاری کے نام لیے تھے ۔ کانگریس کے حمایتی مسلمانوں میں یہی تین مسلم رہنما تھے، جس کے پیچھے مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔ لیکن ان تینوں میں انصاری صاحب ہی وہ واحد رہنما تھے جنہیں محنت کش عوام کے ایک بڑے حصے کی تنظیمی قوت کی ٹھوس حمایت حاصل تھی ، بلکہ اگر گہرائی سےدیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ تمام  سیاسی رہنماؤں میں وہ منفرد  شخصیت  تھے جس نے اہل وطن کے اس حصے کو اس کے معاشی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے منظّم کیا تھا ۔ جو فرنگیوں کی لوٹ کھسوٹ اور غارت گری کا سب سے زیادہ شکار ہوا تھا ۔ ا س بات کے بہت سے شواہد  دنیا کے سامنے آچکے ہیں کہ ملک کی تقسیم کی ذمہ دار صرف مسلم لیگ اور پان اسلام ازم کی جذباتی تحریک ہی نہیں تھی بلکہ ہندوستان کو ٹکڑوں میں بانٹنے میں خود کانگریس کی اعلیٰ قیادت کی نیت بھی شامل تھی، اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی قیمت پر بھی تقسیم نہ چاہنے والے عبدالقیوم انصاری کا شمار قومی سیاستدانوں کی اگلی صف میں کیا جاتا ۔

جنہوں نے کرپس مشن کی آمد پر ایک ایسا چھ نکاتی پروگرام پیش کیا تھا ۔ جس کو اگر پنڈت جواہر لعل  نہرو  نے مسترد نہ کردیا ہوتا تو مسٹر محمد علی جناح تقسیم ملک کے اپنے منصوبے میں شاید کبھی کامیاب نہ ہوتے اور ان کا یہ دعویٰ ہوا میں اڑ جاتا کہ ہندوستان کے تمام مسلمان مسلم لیگ کے ساتھ ہیں ۔ عبدالقیوم انصاری کے تاریخ ساز چھ نکاتی پروگرام میں اگرچہ مرکزی، وفاقی اور ریاستی  حکومتوں میں مومن جماعت کی موثر نمائندگی او رمومن انصار عوام کے لیے معقول ریزرویشن نیز دوسری مراعات کا مطالبہ کیا تھا، لیکن ان مطالبات میں یہ زبردست سیاسی دور اندیشی اور حکمت  عملی شامل تھی کہ مسلمانانِ ہند کی نصف سے زائد تعداد کامسلم لیگ کے ساتھ ہونا ساری دنیا پر واضح ہوجاتا یہ پروگرام انصاری صاحب نے جمعیۃ علماء ہند اور خلافت تحریک کے سر کردہ قومی رہنما ؤں کی مشاورت سے تیار کیا تھا ۔  کانگریس پارٹی  پر اکثریتی سیاست او ربالا دست عناصر کے اثرات کی واضح مثال یہ ہے کہ عبدالقیوم انصاری جیسے لائق سیاست داں کو اکثر آگے بڑھنے سے روکا گیا او رکئی بار انہیں  نظر انداز بھی کیا گیا ۔ 1967 کے اسمبلی انتخابات میں انصاری صاحب ڈہری حلقہ سے کامیاب ہوئے تھے ۔ اس بار چونکہ کانگریس کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اس لیے وہا ں مخلوط سرکار بنائی گئی لیکن یہ سرکار زیادہ نہیں چل سکی ۔ 1969 میں وسط مدتی چناؤ ہوئے۔

 اس بار انصاری صاحب کا ٹکٹ ہی کاٹ  دیا گیا لیکن کانگریس پھر بھی کامیاب نہ ہوئی ۔ کچھ عرصہ بعد وہاں  صدر راج نافذ کرنا پڑا۔ کانگریس نے اپنی غلطی کا احساس کر کے انصاری صاحب کو راجیہ سبھا کاٹکٹ دیا او رکامیاب ہوکر دہلی پہنچے ۔ 1972 میں جس وقت بہار کے کانگریس لیڈروں میں رسہ کشی  ہورہی تھی اس وقت پارٹی کا متفقہ فیصلہ ہوا کہ عبدالقیوم انصاری کو چیف مسٹر بنادیا جائے ۔ بہت سے کانگریسی  رہنماؤں نے  انصاری صاحب کو مبارکباد دی ۔ کہتے ہیں کہ  برہمن لابی کے لیڈروں  نے شریمتی اندرا گاندھی کو ورغلا کر کیدار پانڈے کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا جس کی انصاری  صاحب کو ہر گز امید نہ تھی کہ ہائی کمان ان کے ساتھ ایسا بھی کرسکتا ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ سچے کانگریسی کی طرح اپنے موقف پر قائم رہے ۔ 1946 سے 1972 تک وہ بہار کے سیاسی اُفق پر ایک نہایت  محترم، دیانت دار اور بااثر سیاستداں کی حیثیت سے نمایاں رہے ۔ انصاری صاحب کبھی خالی نہیں بیٹھے ۔ وہ عوام کی خدمت کے لیے ہر لمحہ  کمر بستہ رہتے تھے ۔ انہوں نے پسماندہ او رکمزور مسلمانوں کے لیے بہت کام کیا ۔ بہتوں کو مہاجنوں کے پنجے سے بچایا ۔ بہتوں  کو بیگار اور بندھوا مزدوری  سے نجات دلائی ۔

 غریبوں  کی مالی امداد اور نادار طلباء کو وظائف دلوائے ۔ حکومت سے ایسی تعلیمی اصلاحات کروائیں جن کی وجہ سے لاکھوں طلباء  کا مستقبل روشن ہوا ۔ بنکر سماج کی فلاح و بہبود کے لیے انہوں نے بہت سے مثبت اقدامات کیے ۔ غریب بنکر وں کی بہبودی کے لیے کوآٖپریٹو سوسائٹیاں قائم کرائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے تاحیات ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشش کی ۔ ان سے محبت کرنے والوں اور آس پاس نظر آنے والوں میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو اصحاب ہوتے تھے ۔ وہ سماج کے ہر طبقہ کی محبوب شخصیت تھے ۔ انصاری صاحب نے سیاست کو دولت اور آرام و آسائش کا ذریعہ نہیں بنایا ۔ ان کی فقیرانہ عادات و اطوار کی سادگی اور حلیمی کی مثالیں  دی جاتی تھیں ۔ عبادت گزاری، پرہیز گاری اور حق گوئی انہیں  اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملی تھی ۔ انصاری صاحب بنیادی طور پر شاعر، ادیب اور صحافی تھے ۔ انہوں نے ‘‘ حسن اور عشق ’’ اور ‘ مومن دنیا’ جیسے جرائد کی ادارت  کی ۔  ‘ حسن و عشق ’ خالص ادبی پرچہ تھا جب کہ ‘ الا صلاح’ سیاسی فلاح و بہبود کے موضوع پر دینی قسم کا واحد رسالہ تھا ۔ ‘ مومن دنیا’ کا تعلق سیاست اور انصار تحریک سے تھا ۔ آپ خاصے خوش فکر شاعر تھے اور حاوی تخلص فرماتے تھے ۔

 ان کا  کلام بے حد معیاری اور صاف ستھرا ہے ۔ غزلوں میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے ۔ ان کی نثری تحریریں بھی نہایت مرصع او رمعیاری ہیں ۔ انصاری صاحب کی گھریلو ں زندگی بے حد خوشگوار اور کامیاب رہی ۔ آپ کی شادی محترمہ اسماء بیگم سے 1932 میں ہوئی تھی جو نامور ڈاکٹر جناب عبدالغفار خاں کی صاحبزادی تھیں ۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے  اور دو بیٹیاں ہیں ۔ بڑے صاحبزادے جناب  خالد انور ریاستی  کابینہ میں وزیر اور بعد میں ایم ایل اے اور ایم ایل سی رہے ۔ دوسرے صاحبزادے ڈاکٹر حسن نشاط  انصاری پٹنہ کے پن پن کالج میں تاریخ  کے استاد رہ چکے ہیں ۔ تاریخ پر ان کے بہت مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔ مومن انصار جماعت  اور اس کی سیاست پر نکتہ چینی کو انصاری صاحب نے پورے  مذہبی وقار اور علمی استد لال کے ساتھ رد کیا ۔ انہوں نے 1944 میں ایک موقع پر کہا تھا : ‘‘ سخت افسوس کی بات  ہے کہ ہمارے ہم مذہب مومن برادری کا مذاق اُڑاتے ہیں اور اس طرح وہ اسلام کو رسوا کرتے ہیں ۔ اسلام نے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت صہیب رومی اور دوسرے زیر دستوں کو وقار بخش کر یہ ثابت کردیا کہ اسلام میں ذات پات او رچھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں ہے ۔ مگر ہندوستان کے بڑے زمیندار وں اور جاگیرداروں نے محض مومن ہونے کی وجہ سے ان کےساتھ جانور وں جیسا  برتاؤ  کیا اور اسلام  کے نام  پر بٹہ لگا یا ۔ ہم ایسے زمینداروں اور جاگیرداروں کو بدلنا چاہتے ہیں اور مومنوں کو محض اس لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا چاہتے ہیں کہ زیر دستوں  او رصنعت کاروں کا طبقہ عزت و آبرو کےساتھ زندگی گزار سکے ۔

 اگر اُونچی  ذات والے اپنا  رویہ بدل لیں اور اخوتِ اسلامی کے پیش نظر مومن برادری کو نیچی نظروں سے دیکھنا چھوڑ دیں تو معاشرے میں صحت مند انداز پیدا ہوجائے گا۔’’( تقریر محلّہ کریم گنج ، گیا، بہار) انصاری صاحب تا حیات فرقہ پرستی او رمذہبی تعصب کے خلاف جد و جہد کرتے رہے ۔  ایک مرتبہ قومی یکجہتی او رامن کانفرنس میں انہوں نے  کہا تھا : ‘‘ ہندوستان میں فرقہ واریت  کی تاریخ سو سال سے زیادہ نہیں جب کہ ہندوؤں  او رمسلمانوں کی مشترکہ تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے ۔ بقیہ نو سو سال کی تاریخ میں موجودہ نفرت ، بدگمانی، بے اعتمادی ، شکوک و شبہات کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔ ہندو او رمسلمان حکمرانوں کے درمیان جنگیں  ہوا کرتی تھیں لیکن عوامی سطح پر ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان مکمل اعتماد تھا ۔ بھروسہ  تھا، خیر سگالی اور محبت تھی ۔ جب سے انگریزوں نے دو قومی  نظریہ کا بیج بویا اور پاکستان وجود میں آیا تب سے فرقہ وارانہ تعصب اور قتل و غارت گری کی نئی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے ۔ اگر ہمیں فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے تو دو قومی نظریہ کی باقیادت کو ختم کرنا ہوگا۔ آر ایس ایس او رجن سنگھ اس ملک میں مسٹر جناح کے دو قومی نظریہ کی سب سے بڑے علمبردار ہیں ۔

اس لیے میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ فرقہ وارانہ  بنیا د پر کام کرنے والی تمام جماعتوں پر خواہ  وہ آر ایس ایس  ہو، جن سنگھ ہو خواہ جماعت اسلامی یا مسلم لیگ ہو ، سب پر قانونی پابندی لگانے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا میں ایسا نہیں سمجھتا ۔ راون  کے صرف دس سر اور ہاتھ  ہیں ۔ جب تک اس کا ایک سر یا ایک ہاتھ باقی رہے گا فرقہ پرستی کسی نہ کسی شکل میں پھیلتی پھولتی رہے گی ۔ اس لیے ایسی جماعتوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ ملک گیر تحریک منظّم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہندوؤں  کا یا مسلمانوں  کا نہیں، ساری قوم کامسئلہ ہے ۔ جب تک ہم  اس مسئلے کو حل نہیں کرلیتے ہمارا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ ‘‘ 18 جنوری 1973 کو جس وقت وہ اپنے حلقۂ انتخاب کے دورے پر تھے، اچانک حرکتِ قلب رُک جانے سے وفات پا گئے ۔ اپنے عہد کا یہ عظیم عوامی رہنما عوام کی خدمت کرتے ہوئے عوام کے درمیان دنیا سے رخصت ہوا ۔

14 اکتوبر، 2014  بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/reformer,-thinker,-statesman-freedom-fighter-part-2/d/99497

 

Loading..

Loading..