فاروق ارگلی
31 اگست ، 2014
1961ء میں مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کے انتقال کے بعد حالات میں ایسا تغیر و تبدل رونما ہوا کہ مفتی صاحب جمعیۃ علماء سے ازخود کنارہ کش ہوگئے یا صورتِ حال نے کنارہ کش ہوجانے پر مجبور کردیا، لیکن اس کے بعد اپنی ذاتی مصروفیات، ادارہ ندوۃ المصنّفین اور ماہنامہ ’برہان‘ کی اشاعتی سرگرمیوں اور ملّی مسائل سے ہمہ وقت وابستگی کے باوجود خاموش نہیں بیٹھے۔ اکثریتی عصبیت اور فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوں کو خوف وہراس میں مبتلا کردیاتھا۔انھیں ملک کے بدلے ہوئے سیاسی منظرنامے میں ایک فعال مسلم تنظیم کی ضرورت کا شدید احساس تھا جو مختلف سیاسی جماعتوں کے پھیلائے ہوئے نظریاتی گردوغبار میں ملت کو صحیح اور روشن راہ دِکھا سکے۔ اس عظیم مقصد کے لیے انھوں نے ملک بھر کے مسلم علماء اور تمام مکاتب فکر کے مراکز اور تنظیموں سے ملاقاتیں کیں اور پراثر استدلال سے تمام مسالک اور عقائد کے مسلم علماء و زعماء کو ملت کے اجتماعی مفاد کے لیے منظم کردیا۔ انھوں نے لکھنؤ میں مسلمانوں کا نمائندہ اجلاس منعقد کیا اور کل ہند متحدہ مجلسِ مشاورت کا قیام عمل میں آگیا۔ یہ کارِ عظیم ایک دوررس مفکر اور قائد ملت ہی انجام دے سکتا تھا۔ مفتی صاحب نے مسلمانوں کی اس نمائندہ تنظیم کا صدر مشہور قومی و ملّی رہنما ڈاکٹر سیّد محمود کو منتخب کرایا جبکہ خود آپ نے نائب صدر کی ذمہ داری سنبھالی۔ مفتی صاحب اپنے وقت کی ایسی واحد سیاسی اور ملّی شخصیت تھے جنھیں مسلمانوں کے تمام مسالک، طبقات اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل تھا۔ مفتی صاحب نے ایک دیوبندی عالم دین اور مفتی ہوتے ہوئے بھی عامتہ المسلمین ہی نہیں بلکہ دیگر اقوام کے ساتھ بھی رواداری اور محبت کے رشتے برقرار رکھے تھے۔ وہ کانگریس کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھے اور اربابِ حکومت ان کی نیک نیتی اور عوام دوستی کے قدرداں تھے، لیکن حکومت اور انتظامیہ سے ان کی دوستی اور قربت صرف عام لوگوں کی مدد کے لیے تھی۔ انھوں نے اپنے لیے کوئی ذاتی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ ان کی ذاتی زندگی ندوۃ المصنّفین کے اشاعتی کاروبار کے برائے نام فائدہ پر چلتی رہی۔ مجلسِ مشاورت کو ہندوستانی مسلمانوں کی مؤثر ترین تنظیم بنانے کے لیے انھوں نے ڈاکٹر سیّد محمودؒ ، جماعت اسلامی کے اخبار ’دعوت‘ کے ایڈیٹر مولانا محمد مسلم، مولانا منظوراحمد نعمانی، ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی، ابراہیم سلمان سیٹھ، مولانا منظورنبی، مسلم مسائل سے ہمدردی کے لیے مشہور پنڈت سندر لعل اور مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی کے ساتھ ملک کے طوفانی دورے کیے تھے۔ ان تاریخی اسفار کی روداد مولانا علی میاں نے خاصے دلچسپ اور معلومات افزا انداز میں بیان کی ہے۔موصوف کی یہ تحریر مفتی صاحب کی بلند شخصیت کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے۔
’’اس سلسلہ میں پہلاسفر بہار و اُڑیسہ کا ہوا، اور ایک مؤثر اور متنوّع الافراد وفد نے ستمبر 1964 ء میں رانچی، چکردھر پور، چائباسہ، جمشید پور، اور راوڑکیلا کا دورہ کیا، ہر جگہ وفد کا شاندار اور پُرجوش استقبال ہوا، مقرروں میں ڈاکٹر صاحب کے بعد مفتی صاحب پیش پیش اور نمایاں ہوتے تھے، نومبر 1964 ء میں مجلس نے مہاراشٹر کا دورہ کیا، دسمبر 1964 ء میں گجرات کا دورہ ہوا، جس میں پنڈت سندر لال بھی شریک تھے، اس سفر میں پالن پور، احمد آباد، نڈیاڈ، گودھرا، بڑودہ، سورت اور بھروچ پر یہ پروگرام اختتام کو پہنچا۔گجرات کے دورہ کا ذکر آگیا ہے تو دو واقعات کا تذکرہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاتا۔پہلا واقعہ یہ ہے کہ احمد آباد کے قریب ایک مرکزی اور اہم قصبہ میں جس کا نام (اگر حافظہ کوتاہی نہیں کرتا) بیس نگر تھا، میں نے منتظمین جلسہ اور رفقائے سفر سے درخواست کی کہ چونکہ میں کئی راتوں سے دیر میں سورہا ہوں اور بہت تھکا ہوا ہوں مجھے تقریر کا پہلے موقع دے دیا جائے، ذمّہ داروں نے منظور کرلیا،اور پہلی تقریر میری ہوئی۔ میں نے اس تقریر میں ہندوستان کی جغرافیائی وسعت، تاریخی عظمت اور سیاسی اہمیت وغیرہ بیان کرنے کے بعد ایک محبِ وطن ہندستانی کی حیثیت سے اس پر حسرت و قلق کا اظہار کیا کہ اتنے عظیم ملک کی قیادت اور انتظام کے لیے ملک کے آزاد ہونے کے بعد جس بالغ سیاسی شعور، وسیع النظری، سیرت و اخلاق کی بلندی اور اصول پسندی کی ضرورت تھی، اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے، شاید جنگِ آزادی کی مصروفیت میں قومی سیرت و اخلاق کی تعمیر کا وہ کام نہیں ہوسکا، جس کی اتنے بڑے ملک سنبھالنے کے لیے ضرورت تھی، ملک میں ذہنیت و اخلاقی انتشار، دولت کی حد سے بڑھی ہوئی محبت اور رشوت اور کرپشن پھیلا ہوا ہے، ملک کے بے لوث کارکنوں، سیاسی رہنماؤں، اور قائدین کو اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے، ورنہ اس آزادی کا برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا، میں یہ تقریر کرکے اپنی قیام گاہ پر آگیا، واپسی پرملاّجان صاحب نے بتایا (جو تحریکِ خلافت کے ایک پرانے کارکن اور مجلس مشاورت کے ایک اہم رکن تھے اور کلکتہ میں اُن کا قیام تھا) کہ تمھاری تقریر پر پنڈت سندر لال جی نے سخت تنقید اور احتجاج کیا، اور کہا کہ مولانا کو اتنے تند اور تیز لہجے میں ہندوستان پر تنقید کرنے کا کیا حق تھا؟ انھوں نے ملک کی توہین کی، خیرت ہوئی کہ مجمع نے اس پر اپنے غم و غصہ کا اظہار نہیں کیا، مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ یہ باتیں ایک محبِ وطن ہندستانی کے ناتے اور ملک کی خیرخواہی میں خلوص سے کہی گئی تھیں، اس پر اتنا بُرا ماننے کی کیا بات تھی؟ فجر کی نماز کی تیاری کے لیے ہم سب لوگ اُٹھے تو دیکھا کہ پنڈت جی اب بھی اس تقریر پر تنقید و تبصرہ کررہے ہیں، اور مسلمانوں کے بارے میں طنزیہ الفاظ بھی استعمال کررہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مسلمان زمزم کو مقدّس پانی مانتے ہیں، لیکن گنگا جل کی اُن کے یہاں کوئی عزّت نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میں نے طے کرلیا کہ میں اخیر تک خاموش رہوں گا، تاکہ سفر کے مقصد کو کوئی نقصان نہ پہنچے، اور اس وفد میں جو مختلف الخیال لوگوں پر مشتمل ہے کوئی انتشار نہ پیدا ہو، لیکن حیرت ہوئی کہ رفقائے سفر میں سے جن میں بعض خالص مسلم جماعتوں کے رہنما تھے، کوئی ایک لفظ نہیں بولا۔ (اس موقع پر ڈاکٹر سیّد محمود صاحب صدر مجلس اور مولانا ابواللیث صاحب ندوی امیر جماعت اسلامی ہند موجود نہ تھے، وہ دونوں احمد آباد رہ گئے تھے) اور پنڈت جی کا سلسلۂ کلام جاری رہا، اتنے میں مفتی صاحب کی آواز آئی جو ابھی بیدار ہی ہورہے تھے کہ پنڈت جی آخر مولانا نے کیا بے جا بات کہی۔ آپ اتنے گرم کیوں ہیں۔ اس وقت مجھے مفتی صاحب کی قدر ہوئی کہ انھوں نے نہ صرف دینی حمیت بلکہ اخلاقی جرأت سے کام لیا، اور میری تائید کی، پنڈت جی اس پر خاموش ہوگئے اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
سفر گجرات کا دوسرا قابلِ ذکر واقعہ یہ ہے کہ ہم لوگ بڑودہ میں نماز فجر وغیرہ سے فارغ ہوکر بیٹھے تھے کہ چند اہلِ محلہ گھبرائے ہوئے آئے، اور انھوں نے کہا کہ قریب ہی ایک مکان ہے جو زمین میں دھنس رہا ہے، اُس کے آثار نظر آتے ہیں، کئی روز سے اس مکان کے مکین خواب دیکھ رہے ہیں کہ اس مکان میں نامناسب کام ہوئے ہیں اور ان کی نحوست سے یہ مکان زمین میں دھنس جائے گا، آپ حضرات چلیں اور وہاں دُعا کریں، ہم سب لوگ اپنی حقیقت سے واقف تھے۔ ’ایاز قدر خودرا بشناس‘ لیکن یہ خیال ہوا کہ ملّت کے خادموں اور مختلف مسلم جماعتوں کے نمائندوں کی یہ جماعت ہے، اور یہ ایک نیک مقصد سے سفر کررہے ہیں کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے، اور یہ بلاٹل جائے۔ کچھ نظر پڑتی تھی تو حضرت مفتی صاحب پر کہ عالم، حافظ، فقیہ اور اللہ کے ایک مقبول بندہ اور صاحبِ نسبت شیخ کے فرزند ہیں، ہم لوگ ہمّت کرکے گئے اور وہاں کھڑے ہوکر دُعا کی، اور چلے آئے، لوگوں نے بتایا کہ وہ کیفیت ختم ہوگئی، مکان اب بھی اِسی حالت میں اس جگہ موجود ہے، محبی غلام محمد میمن صاحب سے (جن کا بڑودہ میں قیام ہے اور مفتی صاحب سے خاص تعلق رکھتے ہیں) جب کبھی پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ الحمد للّٰہ مکان اپنی جگہ پر قائم اور محفوظ ہے۔
مشاورت کا سب سے بڑا دورہ ریاست میسور میں ہوا، جو 11نومبر سے شروع ہوکر 22نومبر 1966ء کو ختم ہوا، اس کی مجموعی مسافت کا اندازہ ساڑھے چار ہزار میل ہے جس میں تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کی مسافت بس سے طے کی گئی، مدراس سے شروع ہوکر یہ دورہ گلبرگہ پر ختم ہوا، جھانسی ہی سے راقم السطور کی مفتی صاحب سے رفاقت ہوگئی، یہ تحریکِ خلافت کے بعد شوکتِ اسلامی کا پہلا نظارہ تھا، اس کے اہم مقامات میں بنگلور، سرنگا پٹن (مدفن سلطان ٹیپو) میسور، مرکارہ، منگلور، ہاسن، بیجا پور، شیموگا وغیرہ تھا۔
اس تاریخی دورہ میں اختتامی تقریر مفتی صاحب کی تھی، انھوں نے فرمایا کہ صحیح آزادی اور جمہوریت وہ ہوتی ہے، جس کا فیض یکساں طور پر آبادی کے تمام عناصر اور ملک کے تمام فرقوں اور طبقوں کو پہنچے، اس کی انھوں نے مثالیں دیں اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کو جو شکایات ہیں اس کا ذکر کیا، پھر اپنے پسندیدہ (جگرؔ مرحوم) کے اشعار پڑھے، جو اس دورہ میں اکثر پڑھاکرتے تھے:
بہار آئے اور اس شان کی بہار آئے
کہ پھول ہی نہیں کانٹوں پہ بھی نکھار آئے
چمن چمن ہی نہیں جس کے گوشہ گوشہ میں
کہیں بہار نہ آئے کہیں بہار آئے
(پرانے چراغ، حصہ سوم)
آزادی کے بعد ہندوستان میں ملت اسلامیہ کے فلاح کے لیے اتحاد بین المسلمین سے بڑھ کر کوئی اور حکمت عملی ہوہی نہیں سکتی تھی اس عظیم نصب العین کے لیے مجلس مشاورت کا قیام مفتی صاحب کی حکیمانہ ملی بصیرت کا عملی اظہار تھا۔ انہوں نے غیر معمولی حسن تدبر اور خلوص نیت سے مختلف الخیال مسلمانوں میں ملی اتحاد اور ذہنی ہم آہنگی کا جذبہ پیدا کیا۔نامور دانشور پروفیسر محسن عثمانی نے چشم دید واقعہ بیان کیا ہے جس سے مفتی صاحب کے ملی اخلاص کا اندازہ کیا جاسکتاہے:
’’ایک جگہ مشاورت کے ارکان کی میٹنگ تھی۔ اس میٹنگ میں جمعیۃ علماء اور جماعت اسلامی کی ایک نا پسندیدہ شکل سامنے آئی۔ جمعیۃ علماء کے ایک ذمہ دار نے کہا۔ ہمارے درمیان اتحاد کیسے ہوسکتاہے۔ جماعت اسلامی لوگوں کو کہے گی کہ آپ قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن کا مطالعہ کریں اور ہم کہیں گے کہ جماعت اسلامی نجات یافتہ گروہ نہیں اور تفہیم القرآن پڑھنے کی چیز نہیں کیوں کہ اس سے گمراہی پیدا ہوتی ہے۔ مفتی صاحب جمعےۃ کی رسہ کشی کی وجہ سے کنارہ کش ہوچکے تھے اور اب وہ مشاورت کے صدر تھے۔ مشاورت کے اس جملے میں جب باہمی تلخی بہت زیادہ ہوگئی تو مفتی صاحب تقریر کے لیے اٹھے، اور اپنی حکیمانہ اور مصالحانہ گفتگو سے باہمی مخالفت دور کرنے کی کوشش کی، انہوں نے حالات کی سنگینی کا حوالہ دیا اور کہا، یہ وقت نہیں کہ ہم ایک دوسرے پر الزام تراشی کریں، نجات کے مسئلے کو آخرت کے لیے اٹھا رکھئے اور دنیا میں لوگوں کی نجات کے فیصلے مت کیجئے، مفتی صاحب کا سینہ بہت کشادہ تھا اوران کے دل میں ملت کا بہت درد تھا وہ اختلافات میں کبھی نہیں الجھتے تھے اور دوسروں کو بھی اس سے گریز کا مشور دیتے تھے اور اپنی گفتگو کی شیرینی سے اپنی بات منوالیتے تھے۔‘‘
مفتی صاحب اپنی نجی زندگی میں نہایت نرم مزاج خوش خلق اور خاموش طبع انسان تھے، لیکن ملت اسلامیہ کی بیجا مخالفت کرنے والوں کے لیے شمشیر برہنہ تھے۔ اعلائے کلمۃ الحق کے معاملے میں دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو للکار سکتے تھے۔ ایک بار جمعےۃ علماء کے اجلاس میں اس وقت کے وزیر اعظم مرا رجی ڈیسائی نے بہت زہریلی تقریر کی اور مسلمانوں پر سخت تنقیدیں کیں۔مفتی صاحب نے اس بھرے اجلاس میں ملک کے وزیر اعظم کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا۔ آپ تو گویا اس ملک کے بادشاہ ہیں جو اپنی مرضی پر مسلمانوں کو چلنے کا فرمان سنانے آئے ہیں، آپ کو یہ بات پسند نہیں، وہ بات پسند نہیں، یہ بات آپ گوارہ نہیں کرسکتے، وہ بات برداشت نہیں کرسکتے۔آپ ہیں کیا جو مسلمان آپ کی مرضی اور آپ کی پسند اور آپ کے فرمان کی تعمیل پر اپنے آپ کو مجبور سمجھیں۔‘‘
یہ امر مسلمہ ہے مسلم مجلس مشاورت کے حوالے سے مفکر ملت مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ نے جو مقاصد اور لائحہ عمل مرتب کیا تھا وہ مختلف خانوں میں بکھری ہوئی ملت اسلامیہ کی بہتری، ترقی اور سربلندی کے ضامن ہوسکتے تھے۔مجلس مشاورت کس قدر بنیادی اور پائیدار طریق عمل تھا کہ اگر اس تنظیم کو مفتی صاحب کی طرح سوچنے والے کچھ اور رہنما مل گئے ہوتے تو ہندوستانی مسلمانوں کی اجتماعی صورت حال کچھ اور ہوتی۔ اسے ملت اسلامیہ کا المیہ ہی کہا جائے گاکہ جس طرح مفتی صاحب کی اولاد ان کے قائم کردہ اشاعتی ادارے ندوۃ المصنفین کو نہ سنبھال سکی۔اسی طرح ان کے معنوی فرزندوںیعنی ملی سیاستدانوں نے مسلم مجلس مشاورت کے حصے بخرے کرکے سیاست کے بازار میں بیچ ڈالے لیکن ابھی اس کے باقیات لیٹر ہیڈز اور ملاقاتی کارڈوں کے علاوہ اخباری بیانوں میں نظر آجاتے ہیں۔میں نے تو پچھلے دنوں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا ایک عالیشان دفتر بھی دیکھا تھا اور اس کے صدر محترم (تاحیات) سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ صاحب صدر کی باتوں میں بانی مشاورت مفتی صاحب علیہ الرحمہ جیسا ملی خلوص ٹپکتا ہوا بھی محسوس کیا۔اور میرا دل ان کے خلوص نیت اور دیانت داری کا قائل بھی ہوگیا۔معلوم ہوا کہ آل انڈ یامسلم مجلس مشاورت کے مرکزی دفتر کی یہ عمارت مشاورت کے فنڈ سے خریدی گئی ہے۔ صاحب صدر نے یہ وصیت نامہ بھی تحریر کردیا ہے کہ ان کے انتقال کے بعد اس جائیداد پر مجلس مشاورت کے ہونے والے صدر (تاحیات)کا ہی حق ہوگا۔
تحریکِ آزادی کی تاریخ میں پرخلوص مسلم مجاہدین کی ایک ایسی کہکشاں روشن ہے جس میں انگنت آفتاب و ماہتاب اور کروڑوں ستارے اپنی قربانیوں کے نور سے جگمگا رہے ہیں۔لیکن مفتی عتیق الرحمن عثمانی علیہ الرحمہ ہمارے رہنما علماء میں کچھ خاص خوبیوں سے متصف تھے۔ وہ بلالحاظ مذہب و ملت تمام انسانوں کے دُکھ درد میں شامل رہتے تھے۔ قومی یکجہتی کا فروغ ان کی ترجیحات میں سب سے اوپر تھا۔ وہ ہندوستان کی ستائی ہوئی اقلیت یعنی مسلمانوں کی فلاح کے لیے نئے نئے طریق کار سوچتے رہتے تھے۔ وہ بجا طور پر مفکر ملت کہے جانے کے مستحق تھے۔انہیں مسلمانوں کے مذہبی امور اور ان کے تشخص کے تحفظ کی ہمیشہ فکر رہتی تھی۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام میں انہوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔مفتی صاحب کی ایک اہم خوبی یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی ترقی اور بہبودی کے لیے تعلیم کو بنیادی ضرورت سمجھتے ہوئے اپنا زیادہ وقت تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کرتے تھے۔ وہ دینی مدارس کے فروغ کے لیے بھی ہمہ وقت کوشاں رہا کرتے تھے لیکن دنیوی تعلیم کی طرف بھی پوری توجہ تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اینگلو عربک اسکول کے کورٹ ممبر رہ کر انھوں نے بہت سے تعمیری کام کیے۔ مدرسہ عبدالرب دہلی کے آپ صدر تھے اور مدرسہ کی ترقی کے لیے سرگرم رہتے تھے لیکن اس کے ساتھ ہی آپ دہلی کی ایک تنظیم مسلم کلچرل اینڈ ایجوکیشنل سوسائٹی کے سربراہ تھے۔ جس کے تحت آپ ہی کی کوششوں سے لڑکیوں کا اسکول مدرستہ البنات قائم ہوا۔ ملت کے تعلیمی مسائل سے ان کی دلچسپی صرف دہلی تک محدود نہ تھی۔ وہ ملک کے کئی تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔مفتی صاحب نے حیدرآباد کے اسلامک انسٹی ٹیوٹ اور اعظم گڑھ کے دارالمصنفین، ندوۃ العلماء کے مستقل رکن رہ کر ان اداروں کے بہت سے مسائل کو حل کرنے میں گرانقدر اشتراک کیا۔ دارالعلوم کی مجلسِ شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے آپ نے اس محترم درسگاہ کی بہت خدمت کی۔ دارالعلوم کے جشن صد سالہ کی عالمگیر تقاریب کے انعقاد میں ان کا اشتراک بنیادی نوعیت کا تھا۔ مفتی صاحب کی دعوتی سرگرمیاں آخر تک جاری رہیں۔ وہ بہترین واعظ اور خطیب تھے۔ ذکروسیرت کے جلسوں میں آپ کی تقریروں سے نورِ ایمانی کی بارش ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ دینی اور ملّی موضوعات پر آپ کی تقاریر آل انڈیا ریڈیو سے مسلسل براڈکاسٹ ہوتی رہیں۔ 1980ء میں پروفیسر عنوان چشتی مرحوم نے آپ کی ریڈیائی تقاریر کا مجموعہ ’منارِصدا‘ کے نام سے شائع کیا تھا جس کے پیش لفظ میں چشتی صاحب نے لکھا تھا:
’’ان کے مطالعہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مفتی صاحب کو ریڈیو تقریر کے فنی اور تکنیکی تقاضوں کا بھرپور ادراک ہے۔ حضرت مفتی عتیق الرحمن عثمانی نے قدم قدم پر اس کا ثبوت زیر نظر کتاب میں فراہم کیا ہے۔ ریڈیو تقریر کا فن چاول پر ’قل ہو اللہ‘ لکھنے یا ساگر کو گاگر میں بند کرنے کا فن ہے۔ ریڈیو تقریر میں موضوع کے تعین کے ساتھ وقت کی حدود کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ریڈیو تقریر متعین موضوع پر معین وقت میں پڑھی جانے والی ایک ایسی تحریر ہے جو بیک وقت تحریر اور تقریر دونوں خصوصیات کی حامل ہو اور جس مقصد کے لیے لکھی گئی ہو پوری طرح اس کا حصول کرتی ہو۔ مفتی صاحب نے ان نشری تقریروں میں ایک طرف نشری تقاضوں اور دوسری طرف علمی و دینی مطالبوں کو پورا کیا۔ انھوں نے اسلامی عقائد، افکار، ارکان، تہذیب و ثقافت نیز اسلامی شخصیات پر جو ریڈیائی تقریریں سپردِ قلم کی ہیں وہ بہترین دینی وعلمی سرمایہ ہیں۔‘‘
یہ سچ ہے کہ دارالعلوم دیوبند میں حضرت مولانا اسعد مدنیؒ اور حضرت مولانا محمد سالمؒ کے مناقشے اور بدبختانہ تقسیم کے حادثے نے مفتی صاحب کو گہرا صدمہ پہنچایا۔ پروفیسر عنوان چشتی مرحوم تو اسی سانحے کو مفتی صاحب کی موت کا سبب قرار دیتے ہیں۔
’’علماء کی اس محاذ آرائی نے مفتی صاحب کو اندر ہی اندر کاٹ کر رکھ دیا تھا۔ ان کے احساس کا خون ہوچکا تھا۔ موت اور زندگی خدا کی طرف سے ہے لیکن حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب اور مفتی صاحب کی وفات حسرت آیات کا ایک سبب دارالعلوم دیوبند پر نوجوان مولویوں کے ہراول دستہ کا شب خون بھی ہے جس کو بعض علماء کی پشت پناہی حاصل تھی۔‘‘
اس جگہ راقم الحروف واللہ اعلم بالصواب کہتے ہوئے سوچتا ہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ کا ہی کرشمہ ہے کہ اس روح فرسا سانحے کے بعد دیوبند کی پاکیزہ سرزمین پر ایک اور مقدس دینی مرکز وقف دارالعلوم کی صورت میں قائم ہوگیا، گویا چراغِ قاسمی کی تابانیوں میں مزید اضافہ ہوگیا، جس کو روشن رکھنے میں لاتعداد فرزندانِ دارالعلوم کی طرح مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ کا خونِ جگر بھی شامل رہا۔ یہ اتفاق ہے کہ اسی سال اعظم گڑھ میں منعقد ایک سیمینار سے واپسی پر مفتی صاحب فالج کا شکار ہوئے اور طویل آزمائش سے گزرنے کے بعد 12مئی 1985ء کو واصل بحق ہوئے۔ نئی دہلی کے تاریخی قبرستان مہندیان میں خانوادۂ ولی اللّٰہی کے بزرگوں کے سایۂ رحمت اور اپنے محبِ خاص حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کے قرب میں آرام فرما ہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
31 اگست، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/mufti-atiqur-rehman-usmani-religious-part-2/d/99010