فاروق ارگلی
10 ستمبر، 2014
تحریک شیخ الہند، تحریکِ خلافت، جمعیۃ علماء ہند اور مجلسِ احرار وغیرہ انڈین نیشنل کانگریس کی تاریخ کے جلی عنوان اور اہم ابواب ہیں، جن میں مرقوم ہے محبِ وطن ہندوستانی مسلمانوں کی بے نظیر قربانیوں کی زرّیں داستان، اس سچی کہانی کا ایک ایک ورق مادرِ ہند سے فرزندانِ توحید کی بے پایاں محبتوں کی گواہی دے رہا ہے۔ آزادیِ وطن کے سرفروشوں کی اگلی صف میں عامتہ المسلمین اور ان کے اکابر رہنماؤں کی تعداد اتنی بڑی ہے کہ مورّخین کے لیے ان کا شمار ممکن نہیں۔ مولانا برکت اللہ بھوپالی، شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی، مفتی اعظم مولانا کفایت اللہ، مولاناابوالکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہرؔ ، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، خان عبدالغفار خاں، حکیم اجمل خاں، ڈاکٹر محمد مختارانصاری، مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے جلیل المرتبت رہنماؤں کے کارنامے تو جدوجہد آزادی کی ولولہ خیز داستان کی جان ہیں جن کے بغیر کانگریس کی تحریکِ آزادی کی تاریخ بے روح، بے رنگ اور بے معنی ہوجاتی ہے۔
کانگریس کی تحریکِ آزادی کے لاتعداد قوم پرست مسلم رہنماؤں میں سرزمینِ دہلی کی ایک تاریخ ساز شخصیت جو مہاتما گاندھی سمیت تمام ہم عصر قومی مجاہدینِ آزادی کے دوش بدوش سرگرم عمل دِکھائی دیتی ہے۔ اس عہد آفریں مجاہدِ آزادی کا نام ہے آصف علی، جنھیں آزادیِ ہند کے آخری مرحلے میں وہ اہمیت حاصل ہے کہ ان کے بغیر ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی طاقت انڈین نیشنل کانگریس کی تاریخ کا یہ باب مکمل ہی نہیں ہوسکتا۔ آصف علی صاحب کا شمار ان مقتدر مسلم سیاستدانوں اور مجاہدینِ آزادی میں کیا جاتا ہے جن پر ہندوستانی جمہوریت کو بجاطور پر ناز ہے۔ انھیں دہلی شہر کی شان سمجھا جاتا ہے۔ دہلی کے نامور مجاہدِ آزادی، سیاستداں اور صحافی، میرِ دہلی جناب میرمشتاق احمد مرحوم نے بالکل درست لکھا ہے کہ:
’’مرحوم آصف علی ہمارے ان رہنماؤں میں سے ایک ہوئے ہیں جن کی یاد ہمیشہ دہلی کے باشندوں کے دلوں میں ایک خاص مقام بنائے رہے گی۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی عوام کی خدمت کی اور انھیں دل سے پیار کیا۔ آصف علی دہلی کی تہذیب و روایت کی روشن علامت تھے۔ علم و فضل اور ذوقِ سلیم کے حامل آصف علی نے اپنی ساری زندگی وطن اور برادرانِ وطن کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ جنگِ آزادی کے ایک بے باک مردِ مجاہد، دلنواز مقرر، پارلیمانی امور کی ماہر شخصیت اور سب سے زیادہ ایک مدبر سیاستداں کی ممتاز خوبیوں نے انھیں ہندوستان کے صفِ اوّل کے قومی رہنماؤں میں شامل کردیا۔ ایثار اور فرض شناسی کے جو معیارات انھوں نے پیش کیے وہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ کا کام دیتے رہیں گے۔ مرحوم آصف علی اور ان کی بہادر اور ذہین شریکِ حیات ارونا آصف علی نے آزادی کی جدوجہد میں جو اہم کردار ادا کیا وہ ہماری تاریخ میں ایک شاندار اور روشن باب کے اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (مضامینِ میر، ص160)
آصف علی کا تعلق دہلی کے ممتاز اور متمول خاندان سے تھا۔ ان کی پیدائش 1888ء میں ہوئی۔ انھوں نے اینگلو عربک اسکول اور اس کے بعد سینٹ اسٹیفن کالج میں تعلیم پائی۔ گریجویشن کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 1909ء میں انگلینڈ گئے اور پانچ برسوں تک لندن لنکسن اِن میں رہ کر بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ آصف علی کو اوائل عمری سے ہی ادبیات، تاریخ اور سیاسیات کے مطالعے کا شوق تھا۔ تعلیم کے مدارج طے کرتے ہوئے بین الاقوامی سیاست اور تہذیب و تمدن کے موضوع پر ان کا تجربہ اور مشاہدہ بڑھتا گیا۔ جب وہ لندن میں زیر تعلیم تھے تو ان کے مضامین اہم ہندوستانی اخبارات میں شائع ہونے لگے تھے۔ مشہور انگریزی روزنامہ ’’بمبئی کرانیکل‘‘ میں ان کی تحریریں مسلسل شائع ہوتی تھیں جن میں وہ اس وقت کے بین الاقوامی موضوعات پر بڑی سنجیدگی اور گہرائی سے روشنی ڈالتے تھے۔ ہندوستان واپسی سے پہلے ہی ان کا نام ایک ذہن اور بالغ نظر قلمکار کی حیثیت سے معروف ہوچکا تھا۔ انگریزی زبان و ادب پر ان کو غیرمعمولی دسترس حاصل تھی۔ اس کے ساتھ ہی فارسی اور اُردو ادبیات اور سماجی موضوعات پر ان کی گہری نظر تھی۔ شعروشاعری سے بھی انھیں بیحد دلچسپی تھی۔ آصف علی نہ صرف اساتذہ اور ہم عصر شعراء کا کلام سننے اور پڑھنے کے شوقین تھے بلکہ خود بھی اشعار کہتے تھے۔ اپنے حلقۂ احباب میں آصف علی ایک ادیب، دانشور اور شاعر سمجھے جاتے تھے۔ ان کا علمی و ادبی ذوق و شوق دیکھ کر اس وقت یہ اندازہ لگایا جانے لگا تھا کہ آگے چل کر وہ علم و فن کی دُنیا کی بہت بڑی شخصیت بن کر اُبھریں گے۔ اُردو زبان اور تہذیب سے ان کا گہرا لگاؤ خود انھیں اسی شاہراہ پر لے جاتا لیکن جب وہ 1915ء میں بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آئے تو وطن کی تحریکِ آزادی نے ان کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔ اپنی غیرمعمولی ذہانت اور قانونی مہارت کی وجہ سے وہ ہندوستان آتے ہی کامیاب وکیل بن گئے۔ یقیناًاگر انھوں نے وکالت کو پیشہ بنایا ہوتا تو ان کے آگے دولت کے انبار لگ جاتے لیکن انھوں نے تحریکِ آزادی میں پوری طرح شامل ہوکر سیاست کا خارِزار اپنے لیے پسند کیا۔ 1916ء میں مسز اینی بیسنٹ نے انڈین ہوم رول لیگ کا آغاز کیا، جس میں لوکمانیہ تلک اور مدن موہن مالویہ جیسے نامور رہنما شامل تھے۔ ہوم رول لیگ کی شاخ دہلی میں قائم ہوئی تو آصف علی کو آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کا راستہ مل گیا۔ بہت جلد ہوم رول لیگ کے اہم کارکن بن گئے۔ ان کے تدبر، دوراندیشی اور ملکی امور کی گہری بصیرت نے انھیں بہت جلد اس وقت کے بڑے لیڈروں اور تحریکات سے جوڑ دیا۔
1917ء میں مانٹیگو اصلاحات نے سارے ملک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ اس فارمولے کے تحت برطانوی حکومت ایک ایسا فارمولا تلاش کررہی تھی جس کے تحت ہندوستان میں ایسی حکومت قائم ہو جس کی باگ ڈور تو انگریزوں کے ہاتھ میں ہو لیکن وہ ہندوستانی عوام کی سرکار ہو۔ مانٹیگو کی رپورٹ 8جولائی 1918ء کو برطانوی حکومت نے منظور کی۔ مسز اینی بیسنٹ نے مانٹیگو فارمولے کی یہ کہہ کر مذمت کی کہ یہ اسکیم برطانیہ اور ہندوستان دونوں کے شایانِ شان نہیں۔ لوک مانیہ تلک نے بھی سخت الفاظ میں اسے مسترد کیا۔
27اگست 1919 کو بمبئی میں کانگریس کا خصوصی اجلاس ہوا جس کی صدارت عظیم قومی رہنما حسن امام نے کی تھی۔ کانگریس نے مطالبہ کیا کہ ہندوستانیوں کو اپنے معاملات پر خود فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہو، مسلم لیگ کا بھی نظریہ یہی تھا۔ اس دَور میں آصف علی نے پوری طرح اپنے ملک کے عوام کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ گاندھی جی سے انھیں خاص عقیدت پیدا ہوئی کیونکہ ان کے نظریات آصف علی کے دل میں عرصہ سے پرورش پارہے وطنی تصورات کے عین مطابق تھے۔ انھوں نے کانگریس کے اپنے پیش رو رہنماؤں کے ساتھ دل و جان سے وابستہ ہوکر تحریکات میں عملی حصہ لینا شروع کردیا۔ انھوں نے اپنی قانونی مہارت اور وکالت کی غیرمعمولی صلاحیتوں کو انقلاب کے لیے وقف کردیا۔ وہ ان انقلابیوں کے وکیل کہلائے جن پر وطن کی آزادی کے لیے لڑنے کے جرم میں مقدمے چلائے جاتے تھے۔ کانگریس کی تحریکات سے وابستہ رہتے ہوئے مجاہدینِ آزادی کے متعدد مقدمات میں وکیل دفاع کی حیثیت سے آخر تک سرگرم رہے۔کراچی کیس، لال قلعے میں آزاد ہند فوج کا تاریخی مقدمہ اور عظیم انقلابی بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے وکیل آصف صاحب ہی تھے۔
آصف علی اپنے عہد کے کس قدر فعال اور جنون کی حد تک تحریکِ آزادی سے وابستہ رہنما ثابت ہوئے اس کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کانگریس کی تحریکوں میں پیش پیش رہنے کے ساتھ ہی بیک وقت سوراج پارٹی اور مسلم نیشنلسٹ پارٹی کے روحِ رواں اور تحریکِ خلافت میں علی بھائیوں کے دستِ راست ڈاکٹر مختار احمد انصاری، گاندھی جی اور مختلف الخیال نرم اور گرم انقلابی مہمات میں برابر کے شریک رہے۔
رولٹ ایکٹ کی مخالفت میں مہاتما گاندھی نے ملک گیر تحریک شروع کی تو ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں، سوامی شردھانند، مولانا حسرت موہانی اور لالہ شنکر لال کے ساتھ ستیاگرہ کی تحریک کو طاقتور بنانے میں آصف علی کی بے پناہ صلاحیتوں کا بنیادی کردار تھا۔ تنظیمی کاموں اور عوام کو بیداراور منظم کرنے میں ان کی لیاقت مسلمہ سمجھی جاتی تھی۔۔ ان کی تقریریں لوگوں کے دلوں پر براہِ راست اثر کرتی تھیں۔ مارچ 1919ء میں رولٹ ایکٹ منظور ہوا جس کے خلاف وائسرائے کی کونسل کی رکنیت سے پنڈت مدن موہن مالویہ اور محمد علی جناح اوران کے دیگر ساتھیوں نے استعفیٰ دے دیا۔
سارے ہندوستان میں بے چینی کا ماحول پیدا ہوگیا۔ دہلی میں زبردست ہڑتال ہوئی۔ بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ پولیس نے عوام پر گولیاں چلائیں۔ اپریل میں مہاتما گاندھی کو گرفتار کرلیا گیا۔ دہلی میں کئی جگہ پولیس اور عوام کی زبردست جھڑپیں ہوئیں۔ اس نازک وقت میں آصف علی کانگریس رہنماؤں کے ساتھ سینہ تان کر حالات کا مقابلہ کررہے تھے۔ دلّی اور آس پاس کے مسلمان اور ہندو ان کی ایک آواز پر جمع ہوجاتے تھے۔ یہ ان کی شخصیت کا سحر تھا کہ جو بھی ان کو ایک بار پاس سے دیکھ لیتا تھا اور ان کی باتیں سن لیتا تھا وہ ان کا اپنا بن جاتا تھا۔ آصف علی کی فطرت تھی کہ وہ دوسروں کے دُکھ درد کو اپنا دُکھ درد سمجھ کر اُسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ ستیا گرہ کی تحریک کو کامیاب بنانے اور دور دور تک پھیلانے میں آصف علی کی یہ خوبیاں بہت کام آئیں۔ جلیاں والا باغ کا خونیں سانحہ انہی دنوں میں ہوا جس نے پورے ملک میں برطانوی حکومت کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکادی۔ دہلی میں نومبر 1919ء میں خلافت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مہاتما گاندھی بھی شریک ہوئے۔ اس تاریخ ساز کانفرنس میں مفتی اعظم ہند مولانا کفایت اللہ، ڈاکٹر انصاری اور تحریکِ آزادی کے اہم قومی رہنماؤں نے شرکت کی۔ آصف علی نے اس کانفرنس کے انعقاد میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اس اجتماع میں غیرملکی سامان کے بائیکاٹ کی مہم شروع ہوئی۔ دلّی شہر انگریز حکومت کے خلاف نفرت اور غصّے میں ڈوبا ہوا تھا۔ جگہ جگہ ولایتی کپڑوں کی ہولیاں جلائی جارہی تھیں۔ یہ تحریک بہت جلد سارے ملک میں پھیل گئی۔ اس سال احتجاجاً پھول والوں کی سیر کا میلہ دلّی والوں نے نہیں منایا۔ اسی زمانہ میں پرنس آف ویلزکی ہندوستان آمد پر اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر مختار احمد انصاری، لالہ شنکر لال، دیش بندھو گپتا اور آصف علی کو گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن برطانوی حکومت کے اس اعلیٰ ترین شخص کے خلاف احتجاج اور مقاطعہ زبردست طریقے پر کامیاب رہا۔
1921-22ء میں کانگریس کی عدم تعاون تحریک کی ملک گیر کامیابی میں آصف علی کی مدبرانہ مساعی کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہے جس کا اعتراف خود گاندھی جی کو بھی تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی آصف علی کو بیحد عقیدت اور محبت تھی۔
علی برادران اور تحریک خلافت سے آصف علی کی وابستگی بے پناہ رہی۔ انھوں نے تحریک خلافت کے لیے دن رات کام کیا۔ ان کے قلم اور زبان میں انگریز حکومت کے لیے بے انتہا نفرت تھی۔ وہ بنیادی طور پر مغربی اقوام کی غیرانسانی تہذیب کے مخالف تھے۔ برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور انگریزی زبان، ادب اور تہذیب کے بہت بڑا جانکار ہونے کے باوجود انھیں اسلامی اقدار و تعلیمات اور مشرقی تمدن و روایات سے عشق تھا۔ ان کی تقریروں میں ان جذبات کی اس قدر شدت ہوتی تھی کہ انگریز افسران انھیں ’’تیززبان‘‘ والا انسان کہتے تھے۔ جس زمانہ میں رولٹ ایکٹ کے خلاف ستیا گرہ کی تحریک جاری تھی، آصف علی کی تقریریں عوام کے جوش و خروش اور جذبۂ آزادی کو برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کے شعلوں میں تبدیل کررہی تھیں۔ اس وقت دہلی کے چیف کمشنر سر میلکم ہیلی نے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت آصف علی پر تقریر کرنے کی پابندی عائد کردی تھی۔ اس زبان بندی کے باوجود انھوں نے بھوانی ضلع حصار (ہریانہ) کے انقلابی پنڈت نیکی رام شرما کے ساتھ مل کر لکشمی نارائن دھرم شالہ (پرانی دہلی) میں حکومت کے خلاف ایک جلسہ منعقد کرکے زبردست تقریر کرکے سرکاری حکم کی دھجیاں اُڑا دیں۔ انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ قانون شکنی کے الزام میں ان پر مقدمہ چلا۔ اپنے مقدمے کی انھوں نے خود پیروی کی۔ ان کی دلیلیں اس قدر وزن دار تھیں کہ مجسٹریٹ کو انھیں باعزت بری کرنا پڑا۔ لیکن 1921ء اور 1922ء کی عدم تعاون تحریک میں آصف علی حکومت کے لیے اتنا بڑا خطرہ بن گئے کہ انھیں گرفتار کرکے بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ اس بار انھیں ڈیڑھ سال قید کی سزا ملی۔ جیل میں ان کے ساتھ بہت سی سختیاں کی گئیں جنھیں اس مردِ مجاہد نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ قید کی صعوبتوں نے ان کے جذبۂ آزادی کو مزید راسخ کردیا۔
آصف علی ہندو مسلم اتحاد اور سیکولر اقدار کو برِّصغیر کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لیے لازمی تصور کرتے تھے۔ وہ تمام تر سیاسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے رات دن کوشاں رہتے تھے۔ وہ عوامی جلسوں وغیرہ میں تقریر کرتے وقت عوام سے کہا کرتے تھے کہ ’’ہندوستانیوں کی فرقہ پرستی اور آپسی پھوٹ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے غیرملکی لٹیروں نے اس ملک کو غلام بنایا۔ اگر ہندوستان کو دُنیا کے نقشے پر ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر اُبھرنا ہے تو اس میں ملک کے تمام مذاہب اور قوموں کا اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہوگی۔‘‘
بیرسٹر آصف علی اپنی سماجی زندگی میں بیحد کشادہ ذہن اور سیکولر انسان تھے۔ ان کی زندگی میں ملک میں کئی بار بڑے بڑے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ذاتی طور پر وہ ایک خوش عقیدہ مسلمان تھے، فسادات میں مسلمانوں پر ہونے والے ہندوؤں کے مظالم کی انھوں نے مذمت کی اور اس پر افسوس بھی ظاہر کیا۔ لیکن کبھی ایسی بات نہیں کہی جس سے ان پر فرقہ پرست ہونے کا الزام عائد کیا جاسکے۔ فرقہ وارانہ جنون کو وہ لوگوں کی جہالت اور کم علمی پر محمول کرتے تھے اور حتی الامکان فرقہ واریت کو ختم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں سیکولرزم کامجسم نمونہ تھے۔ ان کی نظر میں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب برابر تھے اور سب کی مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔
10 ستمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند، دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/lawyer-freedom-fighters-barrister-asaf-part-1/d/99028