فاروق ارگلی
27اگست 2014
صوبہ سرحد کے پٹھان قبائل جو آج پاکستان کے گمراہ سیاست داں اور غیر ملکی سازشوں کے آلۂ کار بن کر افغانستان، پاکستان اور ہندستان بلکہ تمام دنیائے انسانیت کو دشمن بنا چکے ہیں۔ آج وزیری، آفریدی، ہلمند، محسود، خٹک، یوسف زئی اور آغازئی پٹھانوں کے قبیلے اور ان کا سارا علاقہ جنگ، خونریزی اور تباہی کا میدان بنا ہوا ہے۔ افغانستان پر روسی حملے کے خلاف امریکہ اور مغربی طاقتوں نے انھیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ مغرب کے زرخرید غلام پاکستان میں اسلام کے نام پر، مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے پٹھانوں کی سادہ لوح، جفا کش اور غیور نسل کی رگوں میں ایسا زہر اُتار دیا گیا جو آج برصغیر ہی نہیں پورے کرۂ ارض کے لیے ایک خوفناک طاقت بن چکی ہے۔
آج امریکہ اپنی ہی بنائی ہوئی طالبانی فوج سے افغانستان کی حفاظت کے نام پرجنگ میں مصروف ہے لیکن ان کی جڑیں پاکستان میں اتنی گہری اُتری ہوئی ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ بے بس نظر آرہا ہے۔ پاکستان کی بے بصیرت سیاست نے پورے قبائلی سماج کو بنام اسلام دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا ہے یہاں تک کہ یہ پورا معاشرہ جو صدیوں سے اسلام کی اعلیٰ قدروں میں ایمان رکھتا رہا ہے، پاکستانی منافقانہ پالیسیوں اور اسلام دشمن مغربی سازشوں کی بدولت اس درجہ گمراہی کا شکار ہے کہ امن و سلامتی کے جس مذہب اسلام پر ان کا یقین وایمان تھا اُسے ہی تمام عالم میں بدنام کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستانی سیاسی دماغوں نے اس زہر آلود سیاست کو اپنے پڑوسی ہندوستان کے لیے تیار کیا تھا۔ کشمیر کے نام پر اپنے ملک کے مسلم عوام کے جذبات سے کھیل کر حکمرانی کرنے میں انھیں سب سے زیادہ آسانی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن آج جب یہ حقیقت واضح ہوکر سامنے ہے کہ نئی دنیا میں اگر کسی ملک کو امن، تعمیر اور ترقی کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو جمہوریت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ پاکستان نے گزشتہ 60 برسوں میں مذہب کی سیاست اور فوجی آمریت کے تجربے کرلیے جو بری طرح ناکام رہے۔ اب وہ اپنے پڑوسی ہندوستان کی طرح جمہوری بننا تو چاہتا ہے لیکن سرحدی قبائل سے لے کر خود اس کے عوام کے اندرون میں دہشت گردی اور غیرانسانی، غیراسلامی رجحانات کے جو زہریلے ناگ پالے گئے وہ اب اسی کے وجود کو ڈس رہے ہیں۔ پاکستان اب اپنی لگائی ہوئی آگ میں خود جل رہاہے۔ آثار و قرائن بتاتے ہیں کہ اس سرحدی علاقہ اور وہاں رہنے والے قبائل ہی پاکستان کے وجود کو ختم کردینے کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان کی بے دست وپا سیاست خود کو بچانے کے لیے اس طوفان کو اسلام اور کشمیر کے نام پر ہندوستان کی طرف دھکیلنے کی مسلسل کوشش سالہاسال سے کرتی آرہی ہے۔ ہندوستان میں بدترین دہشت گردانہ حملے پاکستان کی اسی کوشش کا نتیجہ ہیں۔
وزیرستان اور افغانستان سے ملحق علاقوں کے پٹھان قبیلوں کی تاریخ شروع سے ہی عجیب و غریب رہی ہے۔ یہ لوگ فطرتاً آزاد واقع ہوئے ہیں۔ یہ کسی کی غلامی اور بالادستی برداشت نہیں کرسکتے۔ انھیں کمزور بن کر زندہ رہنے سے نفرت رہی ہے۔ وہ طاقت کا اصول سمجھتے ہیں، لیکن ان میں کمزوروں کی مدد کرنے کا جذبہ بھی تھا۔ دھوکہ، دغابازی اور بدعہدی سے واقف نہیں تھے۔ اپنے ساتھ دھوکہ اور دغابازی کرنے والوں کو معاف کرنا ان کی سرشت میں شامل نہیں رہا۔ وہ عزت دینے والے کا احترام کرنا اور توہین کرنے والے کی جان لینے میں یقین رکھتے تھے۔ انھیں بزدلی کسی صورت میں پسند نہیں، شجاعت اور عالی حوصلگی ان کا مزاج رہا ہے۔ یہ قبیلے افغانستان اور ہندوستان پر انگریزوں کے استعمار کے خلاف سینہ سپر رہے۔ انگریزوں نے اپنی شاطرانہ چالوں سے ان کی وحدت کو ختم کردیا اور آپس میں جنگ و جدل کی آگ میں جھونک دیا۔ لیکن انیسویں صدی میں پورے برصغیر اور افغانستان پر برطانوی سامراج قائم ہوجانے کے باوجود یہ قبیلے اپنے خوفناک پہاڑوں میں آزادی کی زندگی گزارتے رہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی یہ آزادی بدلتی ہوئی نئی دنیا سے بالکل الگ جہالت، غریبی اور پستی کی وہ زندگی تھی جو موت کی گرم بازاری کا دوسرا نام تھی۔
اسی وحشی کہی جانے والی قوم میں ایک ایسا عظیم انسان پیدا ہوا جس نے انھیں اسلام کے پیغامِ امن و سلامتی اور برصغیر کی آزادی کے سب سے بڑے قائد مہاتما گاندھی کے فلسفۂ عدم تشدد کے زرّیں اصول کے ساتھ انہیں حب الوطنی اور قومی وحدت کے رشتے میں باندھ کر ملک کی آزادی کے لیے بیدار اور منظم کیا۔ سرحد کے ایک ممتاز قبیلے کا وہ روشن دماغ رہنما اپنی قوم کو ترقی یافتہ دُنیا میں سرخرو اور نمایاں کرنے کا آرزومند تھا۔ برصغیر کے سرحدی قبائل کے اس مسیحا کو خان عبدالغفار خان، بادشاہ خان، باچاخان، کنگ خان یا سرحدی گاندھی کے نام سے ساری دُنیا جانتی ہے۔ برصغیر، ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخِ آزادی اس نام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ نہ اس عظیم شخصیت کے کارناموں اور اس کے افکار و نظریات کو آئندہ نسلیں بھی فراموش کرسکتی ہیں۔
بادشاہ خان آزادی کی جدوجہد میں 1911ء سے ہی سرگرم ہوچکے تھے۔ انھوں نے گاندھی جی کے افریقہ سے ہندوستان لوٹنے سے قبل ہی اپنی تحریک کا لائحۂ عمل طے کرلیا تھا، وہ عدم تشدد کی اس راہ سے دبے کچلے اور کمزور انسانوں کی آزادی اور ترقی چاہتے تھے لیکن 1920ء میں گاندھی جی کی قربت حاصل ہوئی تو ان کے عزائم کو زندگی اورحقیقی قوت حاصل ہوگئی اور وہ کانگریس کی جہدِ آزادی میں دوسرے گاندھی (سرحدی گاندھی) بن گئے۔ انھوں نے سرحدی قبائل کو منظم کرکے ایک مرکز پر کھڑا کرنے کے لیے ’’انجمن اصلاحِ افاغنہ‘‘ سے اپنے قائدانہ نصب العین کی تکمیل کا آغاز کیا۔ ان کی اس انجمن کا مقصد پٹھانوں کی اصلاح کرنا اور ان کی زندگی کو نئی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنا تھا۔ انجمن اصلاحِ افاغنہ نے ہی ’’خدائی خدمتگار تحریک‘‘ کی صورت اختیار کی۔ خان بادشاہ کی قیادت میں خدائی خدمتگار تنظیم کے بنیادی مقاصد پٹھانوں کے حقوق کا تحفظ اور ہندوستان کی آزادی تھے۔ سرخ پوش خدائی خدمتگاروں کی قربانیاں ہماری تحریکِ آزادی کا نہایت اہم حصہ ہیں۔ 1918ء میں خدائی خدمتگار جماعت بادشاہ خان کی پرخلوص قیادت میں سرحد کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئی۔ قبائل میں تنظیمی جذبہ بیدار ہوا اور برصغیر کی آزادی میں پٹھان قوم کے اشتراک کی شاندار تاریخ مرتب ہوئی۔
سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کی ولادت پشاور کے قریب چارسدہ کے اتمان زئی نامی مقام پر 1890ء میں ہوئی۔ ان کے والد بہرام خان ایک امن پسند، روشن خیال، نیک سیرت اور دیندار انسان تھے۔ انھوں نے اپنے بڑے بیٹے خان عبدالجبار خان(ڈاکٹر خان صاحب) کو اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ بھیجا تھا جس کے لیے انھیں قدامت پسند اہلِ خاندان اور مولویوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ ان کے قبیلے کا پہلا واقعہ تھا۔ خان عبدالغفار خان کی تعلیم مکتب سے شروع ہوئی لیکن پھر ان کے والد نے انھیں کنگ ایڈورڈ مشن اسکول پشاور میں داخل کرایا۔ خان عبدالغفار خان پڑھنے لکھنے میں نہایت ذہین تھے۔ انھوں نے ہائی اسکول کا امتحان امتیاز کے ساتھ پاس کیا۔ وہ اپنے استاد فادر ویگرم سے بہت متاثر تھے جو ان کی ذہانت اور اچھی عادتوں کی وجہ سے بہت محبت کرتے تھے۔ امتحان پاس کرنے کے فوراً بعد انھیں فوج میں ملازمت کی پیشکش آگئی۔ خان بادشاہ بھرتی کے لیے گئے بھی لیکن ہندوستانیوں کے ساتھ انگریز افسروں کے اہانت آمیز رویے کو دیکھ کر انھوں نے فوج کی ملازمت ٹھکرادی۔ فادر ویگرم نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے بھائی عبدالجبار خان کے پاس لندن چلے جائیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ اس کے لیے ان کے والد تو رضامند ہوگئے لیکن ان کی والدہ جو بڑے بیٹے کو لندن بھیجنے سے رنجیدہ تھیں، انھوں نے اجازت نہیں دی۔ وہ پرانے خیال کی دیندار خاتون تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ بڑا بیٹا تو کرشٹانوں کے دیس جاکر دین و مذہب سے بیگانہ ہوگیا ہے اور اب وہ ایک اور بیٹے کو اپنے دین، تہذیب اور سماجی قدروں سے دور نہیں ہونے دینا چاہتی تھیں۔ سعادت مند بیٹے نے ماں کی مرضی کے آگے سر جھکا دیا اور اپنے والد کے ساتھ کاشتکاری کے کام میں مصروف ہوگئے۔
شمالی مغربی صوبہ سرحد برطانوی حکومت میں پوری طرح پسماندہ صوبہ تھا۔ قبائلی علاقوں میں جدید تعلیم کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ خان عبدالغفار خان اگرچہ صرف ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرسکے تھے لیکن ان کے ذہن میں یہ خیال گھر کرچکا تھا کہ نئی تعلیم کے بغیر ان کی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ وہ صرف سوچتے نہیں تھے بلکہ اپنے خیالوں کو عملی جامہ پہنانے کا مادّہ رکھتے تھے، خان عبدالغفار خان نے صرف بیس سال کی عمر میں اپنے گاؤں اتمان زئی میں پہلا اسکول قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کام میں انھیں قبائل کی زبردست مخالفت اور ذرائع کی کمی کا سامنا کرنا پڑا لیکن پٹھانوں میں جدید تعلیم کی روشنی پھیلانے کی شدید خواہش نے انھیں بالآخر کامیابی عطا کی۔ کافی لوگ ان کی دلیلوں سے متاثر ہوکر ہم خیال بن گئے اور اسکول چل پڑا۔
خان عبدالغفار خان نے 1913ء اور 1915ء کے درمیان پورے صوبے کے دورے کیے اور پٹھانوں کو علم کی ضرورت کا احساس کرانے کے لیے زبردست دلیلوں کا سہارا لیا۔ یہ مہم کامیاب ہوئی۔ انھوں نے پورے سرحدی علاقے میں سینکڑوں اسکول قائم کرادیئے اور پٹھانوں میں تعلیم کی روشنی پھیلانے والے سب سے پہلے رہنما بن گئے۔
1912ء میں آپ کی شادی ایک معزز پٹھان یار محمد خان کی صاحبزادی مہرقند سے ہوئی۔ ان کا تعلق مہمند زئی خاندان سے تھا۔ 1913ء میں ان کے پہلے بیٹے خان عبدالغنی خان کی ولادت ہوئی جو مشہور شاعر اور فنکار ہوئے۔ دوسرے بیٹے خان عبدالولی خان 1917ء میں پیدا ہوئے جو پاکستان کی سیاست میں ایک اہم شخصیت ثابت ہوئے۔ 1918ء میں ان کی اہلیہ مہرقند کا انتقال ہوگیا۔ 1919ء میں خان عبدالغفار خان کی دوسری شادی پہلی اہلیہ کی عم زاد بہن سے ہوئی جو سلطان محمد خان کی بیٹی تھیں۔ ان کے بطن سے ایک بیٹی مہرتاج اور ایک بیٹا عبدالعلی خان پیدا ہوئے۔ بدقسمتی سے خان بادشاہ خان کی دوسری اہلیہ بھی زینے سے گرجانے کی وجہ سے 1926ء میں انتقال کرگئیں جب وہ زیارت کے لیے بیت المقدس گئی ہوئی تھیں۔
پٹھانوں میں جدید تعلیم کا انقلاب برپا کرنے میں انھیں شروع میں تکلیف ضرور اُٹھانی پڑی تھی لیکن پھر وہ پورے قبائلی معاشرے کی نہایت محبوب شخصیت بن گئے تھے۔ لوگ انھیں پیار سے باچاخان (بادشاہ خان) کہنے لگے تھے۔ وہ ایک روشن خیال انسان تھے اور پورے ملک کے حالات پر نظر رکھتے تھے۔ وہ نہ صرف پٹھانوں کی تنظیم کے قائل تھے بلکہ وسیع و عریض ہندوستان کی آزادی اور خوشحالی کے لیے ہندو مسلم اتحاد کو اصل قوت مانتے تھے۔ وہ علمائے دیوبند کے قومی نظریے سے متاثر تھے۔ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد نے ان کے دل کی گہرائیوں کو چھو لیا تھا۔ انھوں نے انہی بنیادوں پر اپنی تعلیمی اصلاحی تنظیم اصلاحِ افاغنہ کو خدائی خدمتگار جرگے میں تبدیل کردیا۔ اس تنظیم میں انھوں نے ایک لاکھ سے زائد رضاکار بھرتی کرلیے اور پھر برطانوی فوج اور پولیس کے مظالم اور استحصال کے خلاف ہڑتالوں اور جلوسوں کا آغاز ہوگیا۔ خدائی خدمتگاروں کی سرخ پوش فوج نے انگریزوں کا ناطقہ بند کردیا۔ خان بادشاہ کے ساتھ سرحد کے علاقے میں سرگرم خدائی خدمتگار رہ چکے اُردو ادیب و شاعر شری رام سرن نگینہ لکھتے ہیں:
’’دیش کے کونے کونے میں آزادی کی تحریک پھیل گئی، بھلا ایسے وقت میں سرحد کا پٹھان کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ وہ نئے جذبے اور نئی اُمنگوں کے ساتھ آزادی کی جنگ میں کود پڑا۔ کسانوں نے لہلاتے کھیت چھوڑ دیئے۔ مزدوروں نے آزادی کے لہراتے ہوئے پرچم کو تھام لیا۔ گاؤں کے گاؤں لال کردیئے گئے۔ جگہ جگہ سرخ پرچم لہرانے لگے، قدم قدم پر ترنگے جھنڈے بل کھاتے نکل آئے۔ ایک طرف مظلوم جنتا تھی، دوسری طرف انگریز اور اس کے پٹھو تھے۔ ایک طرف انقلاب کے ترانے تھے، دوسری طرف کفر اور بغاوت کے بہتان تراشے جارہے تھے۔ ظالم اور مظلوم میں جنگ تھی، انصاف اور تشدد میں جنگ تھی، انسانیت اور حیوانیت میں جنگ تھی۔‘‘ (پٹھانستان ہی کیوں، ص۶۱)
اس انقلاب اور آزادی کی غیرمعمولی تحریک کے رہنما تھے خان عبدالغفار خان، جو گاندھی جی سے ملنے کے بعد پوری طرح گاندھین ہوگئے تھے، جس زمانے میں انگریز وں نے صوبہ سرحد میں ان کا داخلہ ممنوع کررکھا تھا وہ باپو کے ساتھ سابرمتی آشرم میں رہے اور وہ پوری طرح ان کی رنگ میں رنگ گئے،وہی سادگی، وہی فقیرانہ انداز اور وطن کی آزادی کا وہی شدید جذبہ۔ وہ کس قدر بیدار مغزاور متحرک رہنما تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دن رات دوروں اور تقریروں میں سرگرم رہتے تھے۔ گرفتاری، مقدمات، قید ان کی زندگی کا حصہ بن چکے تھے۔ انھوں نے پورے سرحدی علاقے تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے پشتو زبان میں اخبارات جاری کیے۔خلافت تحریک اور اس عہد کے تمام کانگریسی رہنماؤں، قوم پرست رہنماؤں اور انقلابی لیڈروں سے ان کے رابطے قائم تھے۔ انھیں کانگریس کے اجلاسوں اور جلسوں میں پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں کی صف میں نمایاں مقام حاصل تھا۔ ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب بھی تحریکِ آزادی کی نہایت اہم شخصیت ثابت ہوئے۔ انھوں نے تحریک کے سیاسی شعبہ کی قیادت سنبھالی۔ اسمبلی کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔ آپ 1932ء سے 1947ء میں ملک کی تقسیم تک صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ تھے، پاکستان بننے کے بعد محمد علی جناح نے ان کی سرکار کو برخاست کیا تھا کیونکہ وہ کانگریس کے سیکولر نظریے پر قائم ہوئی تھی جبکہ مسلم لیگ صرف مسلمانوں کی جماعت ہونے کی مدعی تھی۔
گاندھی جی کے ساتھ سیاسی ذہنی اور روحانی طور پر وابستہ ہوجانے کے بعد خان عبدالغفار خان صرف پختونوں اور پٹھانوں کے ہی مسلمہ رہنما نہیں بلکہ پورے ملک کے قائد بن گئے تھے۔ 1931ء کے کراچی کانگریس اجلاس میں انھوں نے حصہ لیا اور اپنے بھائی ڈاکٹر خان صاحب کے ساتھ گرفتار کرلیے گئے اور انھیں ہزاری باغ جیل (بہار) میں قید کیا گیا۔ اس وقت بادشاہ خان کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔ 1932ء میں پہلی بار صوبہ سرحد کو سیاسی اصلاحات ملیں۔ اس سے پہلے یہاں کمشنر راج تھا۔کانگریس پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر خان صاحب کو پہلی اسمبلی میں ہی زبردست کامیابی ملی تھی جبکہ انگریزوں کے بڑے بڑے حلیف رؤسا اور نوابوں نے ان کا مقابلہ کیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم سے اختلاف کی بنا پر کانگریس وزارتیں مستعفی ہوگئیں تو ڈاکٹر خان صاحب نے بھی اپنی سرکار چھوڑ دی۔ اب خان بادشاہ اور ڈاکٹر خان صاحب نے کانگریس کی تنظیم و تحریک میں پوری توجہ مرکوز کردی۔
1935ء میں جب سرحد کے مجاہدینِ آزادی پرامن تحریک جاری رکھے ہوئے تھے، اس دوران 23اپریل کو پشاور کے قصہ خوانی بازار کا خونیں واقعہ پیش آیا جو جلیانوالا باغ کی طرح آزادی کے لیے قربانیوں کی لازوال تاریخ بن گیا۔ اس دن پشاور کے قصہ خوانی بازار سے رضاکاروں کا پرامن جلوس نکل رہا تھا۔ برطانوی فوج اور پولیس نے نہتے مجاہدین آزادی پر گولیوں کی برسات کردی۔ سینکڑوں شہیدوں کے خون کا دریا بہہ نکلا۔ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔یہاں جنگجو فطرت کے پٹھانوں نے اپنے رہنما بادشاہ خان کی عدم تشدد کی تعلیم پر یقین رکھنے کا عملی مظاہرہ کیا، اور ایک بار نہیں سالہا سال تک۔ یہ سرحدی گاندھی کا روحانی کمال ہی کہا جائے گا جس نے لاکھوں دلوں کو بدل ڈالا تھا۔ برطانوی سامراج نے یہ بہیمانہ حرکت اس ناپاک ارادے سے کی تھی کہ خان بادشاہ اور ان کے بھائی کی تحریک اس قتلِ عام سے خوفزدہ ہوکر دم توڑ دے گی، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس خوفناک خونریزی نے سرحدی قبائل میں انقلاب کی روح پھونک دی، انگریزوں کے خلاف ردِّعمل کی لہر پورے صوبے میں پھیل گئی۔ پشاور کے کھجوری میدان میں روزانہ احتجاجی جلسے اور مظاہرے ہوتے، ہزاروں پٹھان قید ہوئے، گولیوں کا شکار بنائے گئے،گاؤں کے گاؤں جلاکر راکھ کردیئے گئے، خدائی خدمتگاروں پر اس قدر حیوانی مظالم توڑے گئے جن کی مثال ہلاکو اور چنگیز خاں کے مظالم سے دی جانے لگی۔ ان دنوں صوبے کے گاؤں گاؤں میں خدائی خدمتگاروں کو ڈھونڈڈھونڈکر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ رام سرن نگینہ نے ایک سرخ پوش مجاہد کا چشم دید بیان اپنی کتاب میں نقل کیا ہے:
’’سردی زوروں پر تھی، میرے گاؤں کے خدائی خدمتگار میٹنگ کی تیاریاں کررہے تھے۔ دن چڑھے گاؤں میں گوری فوج آگئی اور بے شمار گولیاں چلانا شروع کردیں۔ عورتوں کو بے عزت کیا جانے لگا، لوگوں کو پکڑ پکڑ کر گھوڑوں کی دُم سے باندھ کر بے دردی سے گھسیٹنا شروع کردیا، کوڑے مارے گئے۔ کہا گیا کہ لال وردی اُتاردو، سرخ پوشی سے توبہ کرلو، ہم نے انکار کیا تو ہم میں کئی نوجوانوں کو درختوں کی شاخوں سے الٹا لٹکا دیا گیا۔ رات بھر ندی کے پانی میں غوطے دیئے جاتے رہے۔‘‘
گول میز کانفرنس سے واپسی پر کانگریسی لیڈروں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ گاندھی کی گرفتاری اور انگریزوں کی بدعہدی نے پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑا دی۔ بادشاہ خان وطن نہ لوٹ سکے وہ جیل میں بند تھے۔ اپنے محبوب رہنما کا قید ہونا پٹھانوں کے غم و غصہ میں اضافے کا باعث بنا۔ زبردست جنگ شروع ہوگئی۔ انگریز مشینری نے بھی بڑی بے رحمی سے تحریک کوکچلنے کی کوشش کی۔ ہزاروں قید ہوئے، بہتوں کو گولی ماری گئی اور کئیوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا۔
1942ء میں جب تحریک آزادی اپنے شباب پر تھی خان بادشاہ 27 اپریل کو مردان کی زبردست احتجاجی ریلی میں شرکت کے لیے جانے کی تیاری کررہے تھے۔ پولیس نے آپ کو روکنا چاہا لیکن مردِ مجاہد سرپر کفن باندھ چکا تھا۔ آپ مردان کے لیے نکل پڑے۔ پولیس والے آپ کا راستہ روک رہے تھے اور مجاہدینِ آزادی مزاحمت کر رہے تھے، پولیس نے زبردست لاٹھی چارج کیا۔ خان بادشاہ پر لاٹھیاں برسیں، آپ کی دوپسلیاں ٹوٹ گئیں۔ زخمی حالت میں آپ کو گرفتار کیا گیا۔ قید کا یہ عرصہ بہت طویل تھا۔ آپ چار سال سے زائد مدت تک جیل میں بند رہے۔
خان بادشاہ مسلم لیگ کی پالیسیوں اور مذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے سخت ترین مخالف تھے۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے تقسیمی فارمولے کے خلاف ان کی جدوجہد، گرفتاری اور جیل کی عقوبتیں برداشت کرنے کی تکلیف دہ داستان بہت طویل ہے۔بادشاہ خان جناح کو برصغیر کے مسلمانوں کا دوست نہیں دشمن مانتے تھے۔جوملک کے ٹکڑے کرانے والی انگریزوں کی سازش کے آلہ کار بن گئے تھے جب کہ بادشاہ خان از اوّل تا آخر ایک حقیقی خدائی خدمتگار اور کانگریسی لیڈر رہے۔ آپ سالہا سال تک کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے۔ صرف ایک بار 1939ء میں وار پالیسی کے معاملے میں پارٹی سے اختلاف ہونے کی وجہ سے مستعفی ہوئے، لیکن کانگریس نے ان کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے پالیسی تبدیل کردی تو آپ پھر پارٹی میں شامل ہوگئے۔
ملک کی تقسیم کے وہ سخت ترین مخالفوں میں سے تھے انگریزوں نے جب صوبہ سرحد کے معاملے میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا تو بادشاہ خان نے اس کی اس لیے مخالفت کی کہ اس طرح تقسیم ملک سازش کو تقویت ملتی تھی۔انہوں نے اس زمانے کی خدائی خدمت گاروں کے ایک اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’میں نے مسلم لیگی لیڈروں سے کہا تھا کہ ’’ ملک آزاد ہورہا ہے اور انگریز اپنا بستر گول کررہا ہے۔ آؤ مل کر ملک کے مستقبل کے متعلق سوچیں اور باہم مل کر کوئی ایسا پروگرام تیار کریں جس سے ملک اور قوم کو فائدہ پہنچے۔ وائسرائے نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا کہ اگر آپ لوگ آپس میں مل کر کوئی فیصلہ کرلیں تو یہ اچھا ہوگا اور جس قدر تم آپس میں جلدی سمجھوتہ کرلو گے۔ہم اس قدر جلد یہاں سے رخصت ہوجائیں گے۔ لیکن افسوس ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی مخالف طاقتیں اتحاد واتفاق کے لیے کسی طور پر بھی تیار نظر نہیں آئیں۔ اس ملک میں جس قدر لوگ ہیں چاہے وہ سبز پوش (مسلمان) ہیں یا نیلی پوش (ہندو سکھ) ہیں سب کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں اور میں ان سے کہتا ہوں کہ اے میرے بھائیو! تم کیوں دیوانے ہوگئے۔ انگریز جارہا ہے اور یہ وقت فتنہ وشر پیدا کرنے کا نہیں ہے۔ اور کیا یہ بات ان کے لیے شرم کا باعث نہیں کہ ان کے
بھائی ہندو سکھ تو شہروں میں ڈر ڈر کر گھوم رہے ہیں۔ اور ان کو یہ خوف وہراس دامن گیر رہتاہے کہ کوئی ان پر پستول نہ چلادے یا چھرے کا وار نہ کردے، لیکن انگریز میمیں اور انگریز بے خوف وخطر شہر ودیہات میں پھرتے ہیں۔ اور ان کی دیوانگی کاتماشہ دیکھنے آتے ہیں۔ ‘‘
اس جگہ 1947ء سے پہلے بطور قومی رہنما اور مجاہد آزادی بادشاہ خان کے عظیم الشان کارناموں کی تاریخ دہرانا اس لیے ضروری نہیں کہ یہ تمام حالات ہندو پاک کے ہر باخبر انسان کو معلوم ہیں۔کیونکہ یہ ایک خوش کن صداقت ہے کہ سرحدی گاندھی کے معاملے میں ہماری جمہوری حکومتوں نے دوسرے مسلم مجاہدین آزادی کی طرح نظر انداز نہیں کیایا پھر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔سرحدی گاندھی کی پرخلوص وطنی سیاست کا سب سے روشن پہلویہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسے آزاد اور مسلمہ ہندوستان کا خواب دیکھا تھا جہاں صدیوں پرانی ہندو مسلم مشترکہ تہذیب اور رواداری اور امن واتحاد کے چراغ روشن ہوتے۔ لیکن یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ وطن عزیز کے بٹوارے کے ضمن میں تمام قوم پرست مسلم رہنماؤں کی طرح سرحدی گاندھی بھی تقسیم چاہنے والوں سے ہار گئے وہ سرزمینِ وطن کو فرقہ پرستی کی آگ سے بچانا چاہتے تھے، لیکن مغربی سیاست جیت گئی، خالص ہندستانی وطنی خلوص ہار گیا۔ دونوں ملکوں نے انسانی لاشوں پر اپنی آزادی کی عمارت کھڑی کی لیکن وہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی برصغیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اتحاد کے نظریے سے دستبردار نہ ہوئے۔
پاکستان بننے کے بعد خان بادشاہ اپنے ملک میں سرحدی قبائل کو ان کا حق دلانے، انھیں امن اور فلاح کے راستے پر لے جانے کے لیے مسلسل کوشاں رہے، لیکن لیگی سیاست نے اس گاندھین رہنما کی تعمیری کوششوں کو بھی مملکت خداداد اسلامی پاکستان کے خلاف تحریک تصور کیا۔ ان کی اصلاحی کوششوں کو بغاوت کہا گیا، انھیں پاکستان کا دشمن نمبر ایک قرار دیا گیا کیونکہ سرحدی گاندھی کو دونوں ملکوں میں اتحاد اور دوستی میں ہی برصغیر کے عوام کی فلاح دِکھائی دیتی تھی۔خان بادشاہ کے دل میں اپنی قوم یعنی پٹھان قبائل کی آزادی اور ترقی کا شدید جذبہ تھا۔ پاکستان بننے کے بعد بھی پٹھانوں کے ساتھ لیگی سیاست میں سرحدی علاقے کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ اس وقت خان بادشاہ نے آزاد پٹھانستان کی تحریک شروع کردی۔ انہوں نے کہا تھا کہ’’میں پٹھانوں کو تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا میں اپنی زندگی قربان کرکے بھی پٹھانوں کی زندگی بناؤں گا۔آج کا پاکستان برطانیہ کی پیداوارہے یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے اور میری قوم کو دبائے رکھنا اور اس پر حکمراں بننا چاہتاہے۔‘‘ یہ وہ جرم تھا جس کے لیے پاکستان کی جیل مستقلاً ان کا مقدر بنی رہی۔
خان عبدالغفار خان صرف نام کے سرحدی گاندھی نہیں تھے، ان کی نجی زندگی ایک بوریہ نشین فقیر کی زندگی تھی، انھوں نے اپنی طویل عمر کا ایک ایک لمحہ قوم و وطن کی خدمت کے لیے وقف کیا۔ سرحدی گاندھی نے پہلے انگریزوں اور بعد میں پاکستان کی جیلوں کی صعوبتیں جتنی مدت تک برداشت کیں، کسی دوسرے بڑے سے بڑے لیڈر کی برصغیر میں ایسی مثال موجود نہیں ہے۔ آپ تقریباً پچیس برسوں تک جیلوں میں رہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بادشاہ خان پاکستان کے شہری اور سرحدی پٹھانوں کے لیڈر ہونے کے باوجود ہندوستان کے سواسو کروڑ ہندو مسلم عوام کے دلوں پر راج کرنے والے ہندوستانی تاریخ کے واحد مسلم رہنما تھے۔ 1962ء میں آپ کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پریزنر آف دی ایئر قرار دیا گیا۔ اس طرح اپنے جائز موقف کے لیے جدوجہد کرنے والے بین الاقوامی قیدی تسلیم کیے گئے۔ 1985ء میں کانگریس صدی تقریبات کے موقع پر ہندوستان کے کروڑوں عوام کی طرف سے ان کا تاریخ ساز خیرمقدم کیا گیا۔ اس موقع پر انھیں ملک کے سب سے بڑے اعزاز بھارت رتن سے سرفراز کیا گیا۔
1988ء میں آپ علاج کی غرض سے ہندوستان آئے تھے۔ یہاں وہ اپنے بھتیجے اور نامور مجاہد آزادی جناب محمد یونس کی سرکاری قیام گاہ نمبر ایک تغلق روڈ میں قیام پذیر تھے۔ راقم السطور کو اسی دوران ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا۔ بھارت سرکار کی طرف سے وزیر مملکت برائے صحت شریمتی سروج کھاپرڈے، معروف سماجی کارکن خواجہ خلیل اللہ اور یونس صاحب کے فرزند عادل شہر یار ان کی تیمارداری اور علاج کی نگرانی کے لیے ہمہ وقت مستعد تھے۔ حکومت کی جانب سے علاج معالجہ کی تمام سہولیات یونس صاحب کی کوٹھی پر ہی فراہم کی گئی تھیں۔ میں ان دنوں عالمی اُردو کانفرنس کا سیکریٹری تھا۔ چونکہ محمد یونس صاحب اور عالمی اُردو کانفرنس کے بانی جناب علی صدیقی کے گھریلو تعلقات تھے اس لیے راقم السطور کوبھی ان تک رسائی کا موقع صدیقی صاحب کے ساتھ مل گیا۔ میں نے سلام کے بعد ان کی صحت کے لیے دعا مانگتے ہوئے کہا کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام پر تادیر قائم رکھے۔‘‘جواب میں انھوں نے فرمایاتھا:
’’اس محبت کا شکریہ، اللہ کا کرم ہے کہ ہندوستان اور پاکستان آزاد ہیں، لیکن سچی آزادی ابھی کہاں ملی، میں ساری عمر اُسی سچی آزادی کے لیے لڑتا رہا ہوں۔ یہ لڑائی اب نئی نسلوں کو لڑنی ہوگی۔‘‘
حد سے زیادہ نقاہت کے عالم میں بھی بادشاہ خان بولتے گئے:
’’میں آج بھی ہندوستان کو دو ٹکڑوں میں بنٹا ہوا نہیں محسوس کرتا۔ بنگال ہو یا پنجاب، سندھ ہو یا بلوچستان، سب جگہ ہندوستانی بستے ہیں، اور سب جگہ غریبی اور بدحالی ہے۔ سب کے دُکھ درد یکساں ہیں۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ہندو مسلمان سکھ سب کو ایک ہوکر انسانیت کی بھلائی کے لیے جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ جو مذہب کے نام پر لوگ لڑتے ہیں، ایک دن پچھتائیں گے۔‘‘
یہ شاید ان کی آخری گفتگو تھی کیونکہ اسی شب کو بادشاہ خان کوما میں چلے گئے۔ اسی حالت میں انھیں پاکستان لے جایا گیا۔جہاں اسی بے ہوشی میں 20؍جنوری 1988ء کو ان کا انتقال ہوا۔ بادشاہ خان کی وصیت تھی کہ وہ پاکستان کی زمین میں دفن نہ کیے جائیں۔ ان کی وصیت پوری کی گئی۔ آپ کا مزار جلال آباد (افغانستان) میں ہے۔
آج جب وزیر ستان اوربلوچستان سے لے کر افغانستان تک پھیلی ہوئی دہشت گردی اور خونریزی کا بازار گرم ہے، سرحدی قبائل مسلسل تباہی کی طرف گامزن ہیں تو یہ خیال ذہن میں ابھرتا ہے کہ اگر ہندوستان کی تقسیم نہ ہوئی ہوتی یا پھر سرحدی گاندھی کا پٹھانستان ہی بن گیا ہوتا تو اس خطہ ارض کی صورت حال کچھ اور ہوتی۔
27 اگست ، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/khan-abdul-ghaffar-khan-frontier/d/98970