فاروق ازگلی
3 ستمبر، 2014
دسمبر 1933ء میں کراچی میں انھوں نے انگریز اقتدار کے خلاف زبردست باغیانہ تقریر کی جس کے بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ اس بار انھیں تین سال کی سزا ہوئی اور بدنامِ زمانہ مچھ جیل میں بند کیے گئے جہاں انھیں سخت تکلیفیں پہنچائی گئیں لیکن ان پر کیا گیا ہر ظلم ان کے عقیدۂ آزادی کو مزید پختہ کرتا گیا۔ گاندھین انداز میں بھوک ہڑتالیں کیں، تزکیۂ نفس کے لیے عبادت و ریاضت کی، انگریزی زبان میں مہارت پیدا کی اور اسلامیات کا گہرا مطالعہ کیا۔ طویل زمانہ قید میں صابر، شاکر اور مطمئن نظر آئے۔ 1935ء میں کوئٹہ میں زبردست زلزلہ آیا جس نے ہر طرف تباہی برپا کردی۔ بلوچ قوم کے بہت سے اہم سیاسی رہنما زلزلہ میں ختم ہوگئے۔ اس خطہ میں تحریکِ آزادی کو بھی نقصان پہنچا۔ اسی سال ہندوستان میں ریاستوں کی محدود خودمختاری کا قانون نافذ ہوا تھا لیکن اس کا اطلاق جنوبی پختون خوا یعنی برٹش بلوچستان پر نہیں ہوتا تھا۔ 1936ء میں خان صاحب قیدفرنگ سے رہا کردیئے گئے۔ آزاد ہوتے ہی انھوں نے پریس قوانین میں تبدیلی اور پشتو زبان میں حقِ طباعت و اشاعت کے لیے جدوجہد شروع کردی۔ اس میں انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔ دو سال کی مسلسل کوششوں کے بعد انھوں نے کوئٹہ سے پشتو اور اُردو زبان میں اپنے تاریخ ساز اخبار ’استقلال‘ کی اشاعت کی۔ اس اخبار میں لکھے گئے ان کے فکرانگیز اداریوں اور مضامین نے بالکل گاندھی جی کے اخبار ’ہریجن‘ کی طرح پورے ملک میں مقبولیت اور سیاسی اہمیت حاصل کی۔
بلوچی گاندھی اپنے وقت کے بہترین صحافی اور صاحبِ قلم ثابت ہوئے۔اردو انگریزی، فارسی، عربی،سندھی زبان میں مہارت حاصل تھی۔ اپنی مادری زبان پشتومیں ان کی علمی لیاقت اس درجے تھی کہ ان کا شمار پشتو کے ماہرین لسانیات میں ہوتاہے۔ ان کی علمی، ادبی و صحافتی عظمت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر قرآن ’ترجمان القرآن‘ کا پشتو زبان میں ترجمہ کرکے مولانا کے تئیں اپنی عقیدت اور محبت کا عملی ثبوت پیش کیا۔ انھوں نے حضرت امام غزالیؒ کی مشہور عالم کتاب ’کیمیائے سعادت‘ اور شیخ سعدیؒ کی ’گلستاں‘ کو بھی پشتو میں منتقل کیا۔خان صاحب نے براہِ راست انگریزی سے مغربی مفکر چارلٹ اوڈیسن کی مشہور کتاب ’ہورائزن آف فریڈم‘ کا ترجمہ سلیس اُردو زبان میں ’آزادی کا اُفق‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ یہ کتاب اُردو کے بہترین تراجم کی فہرست میں شامل کی گئی۔ وہ پشتونوں کی تعلیمی، تہذیبی، سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے ہر میدان میں سرگرم رہے۔ انھوں نے ’صمد اللغات‘ کے عنوان سے پشتو اُردو ڈکشنری بھی مرتب کی جو پشتو لسانیات میں خاص اہمیت کی حامل علمی کاوش قرار دی گئی۔ علامہ سلیمان ندویؒ کی عظیم تالیف ’سیرت النبیؐ‘ کی پہلی جلد کا بھی انھوں نے پشتو زبان میں ترجمہ کیا۔ تحریکِ آزادی کی مسلسل سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بلوچی گاندھی نے اپنی فکر اور قلم کو بھی جہادِ آزادی کے لیے وقف کیا۔ بلوچستان کے معروف ادیب جناب منان دوتانی نے بالکل درست لکھا ہے:
’’خان عبدالصمد خان شہید کے اخبار ’استقلال‘ نے یہاں کے ثقافتی ورثے کو سامنے لاکر صدیوں پرانی قابلِ لحاظ قدروں کے تحفظ اور یہاں کی مخصوص روایات کی حفاظت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بدلتے حالات میں اپنی ذمہ داریوں سے بہتر طور پر عہدہ برآ ہونے پر تیار کیا۔ اس کے علاوہ تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی ترقی کے لیے بھی اس اخبار نے خان شہید کی سرکردگی میں تاریخ ساز کردار ادا کیا اور تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حق گوئی کے ساتھ اپنے مافی الضمیر کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘
1938ء میں خان صاحب نے اپنے پرجوش ساتھیوں کے ساتھ ’انجمنِ وطن‘ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کردی جس کے وہ خود صدر منتخب ہوئے۔ 16-17جون 1939ء کو منعقد پارٹی کے پہلے سالانہ اجلاس میں بلوچی گاندھی نے بلوچستان کے عوام کی سربلندی کے لیے اپنا وہ نصب العین دنیا پر واضح کردیا جس کے تحت قوم اور علاقہ کی بہتری کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان کی آزادی پارٹی کا بنیادی مقصد تھا۔ انجمنِ وطن نے صوبہ بلوچستان کے مطلق العنان اقتدار کے خاتمے اور عوام کی منتخب کردہ حکومت کو اختیارات دینے، سرداری اور موروثی جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے ساتھ ساتھ قومی آزادی اور غیرملکی اقتدار سے سرزمینِ وطن کو نجات دلانے کے عزائم ظاہر کیے تھے۔ انجمنِ وطن کے سربراہ خان شہید اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کی تنظیم خدائی خدمتگار نے آواز سے آواز ملاکر آزادی کے نعرے لگائے۔ دونوں لیڈروں نے پورے خطے کے دورے کیے۔ 1939ء میں قومی عدم تعاون تحریک میں پورے جوش و حوصلے کے ساتھ حصہ لیا۔ 1940ء میں کانگریس کی ہندوستان چھوڑو تحریک میں خدائی خدمتگاروں اور انجمن وطن نے اس وسیع پیمانے پر حصہ لیا کہ انگریزی حکومت بوکھلا گئی۔اس وقت 14ہزار پٹھانوں نے گرفتاریاں دیں۔ دو برسوں تک ان تنظیموں نے ہر مرحلہ پر قومی تحریک آزادی کے ساتھ نبردآزما رہیں۔ 1942ء میں بلوچی گاندھی گرفتار کرلیے گئے۔ 1929ء سے 1947ء تک بلوچی گاندھی کے جہادِ آزادی اور بلوچستان کے عوام کے حقوق کی بازیابی کے لیے طویل جدوجہد کی طویل تاریخ ہے جس کے ہر مرحلے پر وہ ایک سرفروش مجاہد کی طرح مصروفِ پیکار نظر آتے ہیں۔ نامور پختون رہنما شیرعلی باچا کے مطابق:
’’کانگریس نے کراچی اجلاس کی قراردادوں میں خودمختار لسانی ریاستوں کا یقین دلایا تھا۔ اس سے ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے مستقبل کے بارے میں بہتر امیدیں تھیں۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم اور کشمیر میں استصوابِ رائے اور آبادی کی تباہ کن تبدیلی وہ باتیں تھیں جنھیں روکا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خان شہید اور ان کے ساتھیوں کو نظریۂ پاکستان پسند نہ آیا اور اس کی (مسلم لیگ اور جناح صاحب کی) سخت مخالفت کی اپنی پارٹی انجمن وطن کا الحاق 1946ء میں کانگریس سے کرلیا تاکہ انگریز کو ہندوستان کی آزادی میں تاخیری حربے استعمال کرنے کے حیلے بہانے سے محروم کردیا جائے۔ گوکہ انجمن وطن کا الحاق کانگریس کے ساتھ کافی دیر سے ہوا لیکن انھوں نے انگریز کے خلاف اپنا مبارزہ آزادانہ اپنے خطے میں جاری رکھا تھا۔ انھوں نے ہندوستان چھوڑو تحریک میں جوش و خروش سے حصہ لیا۔ دوسری عالمی جنگ میں انگریزوں کی مدد کرنے سے انکار کردیا۔ جس وقت کانگریس ہندوستان میں یہ تحریک زورشور کے ساتھ چلا رہی تھی، بلوچی گاندھی اور ان کے ساتھی نہایت مردانگی سے عوام کو انگریز کے خلاف مبارزہ کے لیے تیار کررہے تھے۔ اسی کے نتیجے میں وہ گرفتار کیے گئے۔ ایک طرف ہندوستان میں تمام قومیں اور عوام اُٹھ کھڑے ہوئے اور دوسری طرف انگریز سامراج عالمی جنگ میں کامیاب ہونے کے باوجود اتنا پٹ چکا تھا کہ وہ موجودہ شکل میں ہندوستان پر اپنا اقتدار قائم نہیں رکھ سکتا تھا۔‘‘
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پختونوں کے دونوں بازوؤں، سرحد اور بلوچستان کے عوام اور رہنماؤں نے قومی تحریک سے خود کو وابستہ کرکے اپنے علاقوں کی فلاح کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن کانگریسی اور لیگی سیاست نے اس انداز میں ملک کے حصے بخرے کیے جانے کو تسلیم کرلیا کہ پختون ہر لحاظ سے نظرانداز ہوگئے جیسا کہ جناب شیر علی باچا لکھتے ہیں:
’’...ان وجوہات کی بنا پر انگریز نئی نوآبادیاتی پالیسی اختیار کرنے اور ہندوستان سے نکلنے کے لیے تیار ہوگیا اور مزید اپنی جسمانی موجودگی کو یہاں نقصان دہ اور غیرضروری سمجھا۔ اپنی آزمودہ ڈیوائڈ اینڈ رول(تقسیم کرو اور حکومت کرو) کی پالیسی کے تحت تقسیم ہند کے حالات سازگار کیے۔ مسلم لیگ اور دیگر فرقہ پرست جماعتوں کے درمیان میں فرقہ پرستی زنجیر کی کڑیاں تھیں اور اس کے نتیجے میں دونوں حریف گروہوں سے تقسیم ہند کا قانون تسلیم کرایا۔ بھارت ہند / ملّی بورژوائی کے حصے میں آیا اور تقسیم شدہ علاقے پاکستان کے نام سے پنجابی استعمارگروں کی حکمرانی میں دے دیئے گئے۔ پشتونوں کو کسی نے نہ پوچھا۔‘‘
(بابائے پشتون اور پشتونخو، مرتبہ پروفیسر عبدالغنی غنو، جلد چہارم)
بلوچستانی سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ کانگریس نے ان کے ساتھ دغابازی کی۔ بلوچی گاندھی بھی تقسیم ملک اور پختونوں کے ساتھ اس ناانصافی سے مایوس اوررنجیدہ ہوئے۔ لیکن قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی آزاد پختونستان کا آوازہ بلند کرتے ہوئے بلوچی گاندھی ایک بار پھر میدانِ کارزار میں اُتر آئے۔ مسلم لیگ ان سے پہلے ہی بیزار تھی، اور پاکستان کے لیے خطرہ تصور کرتی تھی۔ انھیں 1948ء میں قیدکرکے چھ سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔انہیں برملا کانگریس اور ہندوستانیوں کا دوست کہا جاتاتھا۔ اپنوں یعنی پاکستان کے مسلم حکمرانوں کی قید سے رہا ہونے کے بعد وہ خاموش نہیں بیٹھے۔ انھوں نے 1954ء میں ’’ وَروَر پشتون ‘‘کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی جس کا مقصد ایک خود مختار پشتون ریاست کا قیام اور پشتون عوام کی زندگی، دین، زبان، تہذیب و تمدن، اقتصادیات اور تعلیمی ترقی کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ یہ پارٹی ملک کے آئین کے مطابق اہل وطن کے اشتراک اور مشاورت کی بنیاد پر قائم کی گئی اس لیے بہت جلد عوام میں مقبول ہوگئی، لیکن بانیِ جماعت بلوچی گاندھی کو نظربند کردیا گیا۔ 1955ء میں رہائی ہوئی لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھیں اس الزام میں گرفتار کرلیا گیا کہ انھوں نے ایک دشمن ملک کے جھنڈے کو سلامی دی ہے لہٰذا ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ 1956ء میں چھ سیاسی جماعتوں کے انضمام سے پاکستان نیشنل پارٹی قائم ہوئی جس میں خان عبدالغفار خان کی خدائی خدمتگار پارٹی، بلوچی گاندھی کی قیادت میں وَروَر پشتون، جی ایم سیّد کا سند ھ محاذ، پنجاب کی آزاد پاکستان پارٹی، میاں افتخار الدین اور محمود علی قصوری کی سربراہی میں بلوچستان کی استمانِ گل جماعت اور حیدربخت جتوئی کی سندھ ہاری پارٹی شامل تھی۔ 1957ء میں بنگال کے مولانا عبدالحمید بھاشانی بھی اس پارٹی میں شامل ہوگئے۔ ان کی پارٹی کا نام عوامی لیگ تھا۔ پاکستان نیشنل پارٹی میں انضمام کے وقت عوامی لفظ مولانا بھاشانی کی پارٹی کی شناخت کے طور پر جوڑا گیا۔ اس طرح پارٹی کا نام پاکستان نیشنل عوامی پارٹی ہوگیا۔ اس جماعت کا منشور اور پروگرام جمہوری، ترقی پسند اور قومی تھا یعنی پارٹی سامراجی استعمار اور جاگیرداری نظام کے خلاف تھی اور سیٹو اور سینٹو جیسے سامراجی عہدناموں کو ختم کرنے کے حق میں تھی۔ یہ پارٹی ایک مضبوط جمہوری پاکستان کی اساس بن سکتی تھی مگر پاکستانی عوام کی قسمت میں اصلی جمہوریت کا سکھ نہیں تھا۔ 1958ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ فوجی حکومت نے سیاسی لیڈروں کو مارشل لاء کی زنجیروں میں جکڑ دیا اور ایوب حکومت نے جمہوریت چاہنے کے جرم میں بلوچی گاندھی کو چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنائی۔ ایوبی قید کی اسی طویل مدت میں خان صاحب کے علمی جواہر دُنیا کے سامنے آئے۔ اسی قید کے دوران انھوں نے پشتو عالم، پشتو فاضل اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ اسی مدت میں انھوں نے تفسیر قرآن، مولانا آزاد کی بیان القرآن کا پشتو ترجمہ مکمل کیا۔ ان کی مشہور کتابیں اسی طویل زمانۂ قید و بند کی دین ہیں۔ 1969ء میں آپ رہا ہوئے۔ کوئٹہ میں عوام نے ان کا اس قدر پرجوش استقبال کیا کہ ایوب سرکار گھبراگئی اور انھیں پھر جیل میں ڈال دیا۔ ایک سال بعد عوامی احتجاج اور مطالبوں سے پریشان ہوکر فوجی حکومت نے انھیں رہا کیا۔
جنرل ایوب خاں کے بعد جب اقتدار پر یحییٰ خاں فوجی حکومت کا سربراہ ہوا تو اس نے فوجی آمریت کو جمہوریت کا لباس پہنانے کے لیے نیشنل عوامی پارٹی کے زوردار مطالبے کو تسلیم کرلیا اور بلوچستان کے نام سے ایک نیا صوبہ وجود میں آگیا اور پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق صوبہ کے عوام کو ملا۔ 1970ء کے انتخابات میں بلوچی گاندھی مرکزی اسمبلی کے لیے چناؤ میدان میں اُترے لیکن ان کے نظریاتی مخالفین نے اسلام کے نام پر عوام کو گمراہ کردیا اور وہ 18ہزار ووٹ ہی حاصل کرسکے اور مرکزی سیٹ پر بری طرح ہار گئے لیکن ریاستی سطح پر ان کی پارٹی نے زبردست کامیابی حاصل کی اور ان کی قیادت میں پہلی بار ریاستی سرکار قائم ہوئی۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی تھی کہ ایک پشتون مخالف سیاسی طبقے نے انتخابات کو ماننے سے ہی انکار کردیا۔ بھٹو صاحب نے بنگالی شیخ مجیب الرحمن کو کسی قیمت پر پاکستان کا وزیر اعظم نہ بننے دینے کے لیے رجعت پسند طاقتوں سے ہاتھ ملا لیا۔ یہی پاکستان کے ٹوٹنے اور بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کا شاخسانہ ثابت ہوا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش بن گیا اور پاکستان کو اس جنگ میں بھاری نقصان اور ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بلوچی گاندھی مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ترقی پسند جمہوری پارٹی مانتے تھے لیکن اس حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی۔ بلوچستان اسمبلی توڑ دی گئی، اس کے سرکردہ رہنما گرفتار کرلیے گئے۔ صوبے میں فوج تعینات کی گئی جس نے بزور طاقت مزاحمت کو کچل دیا۔ شیرعلی باچا کے مطابق:
’’ان حالات میں خان شہید نے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں ایک اہم اجلاس 6دسمبر 1973ء کو اسلام آباد میں ہونے والا تھا۔ بلوچی گاندھی حکومت کے ساتھ اس مذاکرے میں شریک ہونے والے تھے لیکن اس سے پہلے ہی استعمارگروں اور ان کے دلالوں اور عوام دشمن طبقات نے ایک سازش کے ذریعہ اس بہادر، غیرت مند، مثالی پشتون اور باعمل رہبر کو 2دسمبر 1973ء کی صبح 4 بجے کوئٹہ میں شارع جمال الدین افغانی پر اپنے کمرے میں سوتے ہوئے بموں سے شہید کردیا۔‘‘
جس طرح مہاتما گاندھی کو فرقہ پرست ہندو تنظیم آر ایس ایس نے قتل کیا اسی طرح بلوچی گاندھی اپنے ہی ملک اور ہم مذہب قاتلوں کا شکار ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ میں سرحدی گاندھی اور بلوچی گاندھی ہی وہ نمایاں شخصیتیں ہیں جنھوں نے ملک میں ایسے سیکولر جمہوری نظام کا خواب دیکھا جہاں مذہبی رواداری ہو، انسان انسان کا استحصال نہ کرسکے، اور عوام آزادی کے ساتھ زندہ رہ سکیں۔اپنے نصب العین کے لیے بلوچی گاندھی نے اپنی 66سال کی زندگی میں 30برس انگریزوں اور پاکستانیوں کی جیلوں میں گزارے ملک کے اتنے بڑے رہنما ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی اپنی حفاظت کے لیے سیکورٹی رکھنا قبول نہیں کیا۔ ان کے گھرکے دروازے ہر شخص کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے ان کی ذاتی زندگی بالکل سادہ اور درویشانہ تھی۔ قاتلوں نے بڑی آسانی سے ان کے گھر میں گھس کر شہید کردیا۔ ایک پاکستانی قلمکار جناب عبدالواحد آریسر بیان کرتے ہیں کہ: ’’پاکستان کے مُلّا اور مذہبی لوگ بلوچی گاندھی کو کافر اور مرتد وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے تھے اور لوگوں کو ان سے نفرت دلاتے تھے۔ وہاں برصغیر کے بہت سے علماء جمعیۃ علماء ہند کے علماء، جمعیت علماء سند ھ کے علما ان کی بہت عزت اور قدر کرتے تھے اور ان کو پکا اور سچا انسان دوست مسلمان اور مجاہد تصور کرتے تھے۔ ان کی زندگی کے تین مقاصد تھے، اوّل برِّصغیر سے برطانوی سامراج کو ہمیشہ کے لیے نکال دیا جائے، دوسرا ان کی زندگی کا مقصد یہ تھا کہ مذہبی رجعت پسندوں، سرداروں، خانوں اور کمنداروں کی غریب عوام پر بالادستی کو ختم کرکے مذہبی رواداری، معاشی مساوات اور انسانی عزت و وقار پر مبنی ایک معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ انھوں نے پشتون قوم کے لیے اور برِّصغیر کی تمام قوموں کے لیے تحریکِ آزادی میں جس قدر شاندار کردار ادا کیا ہے اُسے برِّصغیر کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ مظلوم قوموں کے لیے، مظلوم قوموں کے کارکنوں کے لیے، مظلوم قوموں کے رہنماؤں کے لیے اور مظلوم قوموں کے عوام کے لیے ان کا کردار مشعلِ راہ بنا رہے گا۔‘‘ (مقالہ سیمینار خان شہید، کابل، مارچ 1990)
3 ستمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/father-pashtuns-khan-abdus-samad-part-2/d/98950