New Age Islam
Thu Oct 10 2024, 12:46 PM

Urdu Section ( 6 Sept 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Father of Pashtuns Khan Abdus Samad Khan Achakzai – Part- 1 (بابائے پشتون، بلوچی گاندھی خان عبدالصمد خان اچکزئی ( قسط اوّل

 

فاروق ارگلی  

2 ستمبر، 2014

جس وقت ہندوستان اپنی آزادی کی آخری فیصلہ کن جنگ لڑ رہا تھا، بابائے ہند مہاتما گاندھی کی فقیرانہ شخصیت، ان کی غیرمعمولی قومی، وطنی اور سیاسی بصیرت اور ان کے عظیم فلسفۂ عدم تشدد کی جادو اثری نے بلالحاظ مذہب و ملت کروڑوں ہندوستانیوں کو بیدار و متحد کرکے برطانوی اقتدار کو لرزہ براندام کردیا تھا۔ علمائے دیوبند، جمعیۃ علماء ہند اور تحریکِ خلافت کی نظریاتی حمایت نے کانگریس کو مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پورے برِّصغیر کی متحدہ سیاسی جماعت بنادیا۔ سیّد احمد شہیدؒ کے جہادِ حریت اور تحریکِ شیخ الہندؒ کے وقت سے افغانستان میں برطانوی استعمار کے خلاف نبردآزما غیور سرحدی قبائل جو صرف تلوار اور بندوق میں یقین رکھتے تھے گاندھی جی کے نظریۂ عدم تشدد کے قائل ہوکر کانگریس کی قومی تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب صوبۂ سرحد میں سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خاں اور بلوچستان میں بلوچی گاندھی خان عبدالصمد خان شہید بیک وقت کانگریس سے وابستہ ہوکر گاندھی جی کے راستے سے آزادی کی لڑائی لڑ رہے تھے۔

برِّصغیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں بہت سی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں جنھوں نے خود کو پوری طرح گاندھی جی کے وطنی خلوص، ایثار و قربانی، مذہبی، علاقائی اور لسانی فراخدلی اور ان کی درویشانہ سادگی کے سانچے میں ڈھال کر مادرِ وطن کی خدمت کی ہے لیکن تحریکِ آزادی کی تاریخ میں سرحدی گاندھی اور بلوچی گاندھی کے نام اس لیے سب سے نمایاں ہیں کہ آزاد برِّصغیر کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اقتدار کی بھوکی خود غرض سیاست نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا اور سرحد و بلوچستان کو پاکستان کے سپرد کرکے ان دونوں گاندھیوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ کون نہیں جانتا کہ ملک کی تقسیم کے مخالف، ایک مضبوط متحد ہندوستان میں آزاد، خوشحال اور ترقی یافتہ سرحدی ریاستوں کا خواب دیکھنے والے ان قوم پرست پختون رہنماؤں کا پاکستان میں کیا حال ہوا۔ خدائی خدمتگار خان عبدالغفار خان کی زندگی پاکستان کی جیلوں میں کٹی اور بلوچی گاندھی مہاتما گاندھی کی طرح اپنے ہم مذہبوں کے ہاتھوں قتل کیے گئے۔ ہندوستان میں گاندھی کا سینہ گولیوں سے چھلنی کیا گیا تو بلوچی گاندھی کو بم سے اُڑا کر انسانوں سے محبت اور حق پرستی کا انعام دیا گیا۔ بلوچی گاندھی بابائے پشتون خان عبدالصمد خان نے پاکستان میں بلوچیوں کے عظیم رہنما کی حیثیت سے اپنی قوم کی آزادی اور خوشحالی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان قربان کرکے انسانی جذبۂ حریت کی عالمی تاریخ میں لافانی مرتبہ حاصل کیا۔ پختون قبائل قیامت تک اپنے اس عظیم فرزند پر ناز کرتے رہیں گے۔ لیکن بلوچی گاندھی کی ذاتِ گرامی آزاد ہندستان کے کروڑوں وطن پرست مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے بھی قابلِ احترام ہے کہ وہ آزادیِ ہند کے مجاہد تھے۔ انھوں نے اپنی مؤثر قائدانہ اور مجاہدانہ صلاحیتوں سے بلوچستان میں کانگریس ستیاگرہ، سول نافرمانی اور بھارت چھوڑو جیسی تحریکات کو جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھایا کہ برطانوی استعمار بوکھلا گیا۔ بلوچی گاندھی کی قیادت میں پختون عوام کی بے مثال قربانیوں سے قومی تحریکِ آزادی کو بیحد تقویت حاصل ہوئی۔ خان عبدالغفار خان کی ’خدائی خدمتگار تنظیم‘ کی طرح بلوچی گاندھی کی ’انجمنِ وطن‘ کے کارناموں پر پاکستان کی تنگ نظر سیاست لاکھ علیحدگی پسندی اور ہندوستان دوستی کا الزام عائد کرے لیکن یہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں کے لیے ہمیشہ باعثِ فخر رہیں گی کہ پٹھانوں کی یہ تنظیمیں تقسیمِ وطن کے خلاف ہمارے وطنی جذبات کی آئینہ دار تھیں اور آج جب ان علاقوں میں بسنے والے قبائل پاکستان، امریکہ اور مغربی اقوام کی شیطانی سیاستوں سے دہشت گردی کے جال میں پھنس کر تباہی کا شکار ہورہے ہیں تو برِّصغیر کے ہر ہوشمند اور صاحبِ شعور انسان کو یہ خیال ضرور آتا ہوگا کہ اگر ملک تقسیم نہ ہوا ہوتا یا پھر پاکستان اپنے مسلمان گاندھیوں کے راستے پر آگے بڑھا ہوتا تو شاید اس کی تصویر آج جیسی ہرگز نہ ہوتی۔

مجاہدِ آزادی خان عبدالصمد خان اچکزئی 7جولائی 1907ء کو بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) کی تحصیل گلستان کے گاؤں عنایت اللہ کاریز میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نورمحمد خان اپنے قبیلہ اچک زئی حریت پسند اور قوم پرست اصحاب میں سے تھے۔ اس خاندان کے جدِّاعلیٰ احمد شاہ بابا افغان حکومت کے اہم سردار تھے۔ انھوں نے احمدشاہ ابدالی کے ساتھ پانی پت کی لڑائی میں حصہ لیا تھا۔ اسی خانوادے کے بزرگ غازی عبداللہ اچک زئی نے 1848ء کی انگریز افغان جنگ کے دوران برطانوی استعمار کے خلاف افغان ملّی تحریک قائم کی جس کے ذریعہ انگریزوں اور ان کے حلیف شاہ شجاع کا خاتمہ ہوا تھا اور اس خوفناک جنگ میں انگریزوں کا صرف ایک فوجی افسر ڈاکٹر برائیڈن اپنی قوم کی عبرتناک شکست کا حال سنانے کے لیے زندہ بچ سکا تھا۔ فرنگی طاقت کے ساتھ اس جہاد میں غازی عبداللہ خاں اچک زئی، ان کے ایک بھائی اور دو بیٹے شہید ہوئے تھے۔ ضلع پشین کا قلعہ عبداللہ انہی کے نام سے موسوم ہے۔ بلوچی گاندھی کے والد 1880ء میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں شریک تھے، بعد میں جب انگریزوں کی سازش سے افغانستان پر عبدالرحمن کی حکومت قائم ہوئی، اُس وقت ایک معاہدے کے تحت قبیلہ اچک زئی قندھار ڈویژن کے علاقہ دیگ میں آباد ہوا۔ نورمحمد خان اچک زئی پشین ضلع کی تحصیل میں اپنے دادا عنایت اللہ خاں کے آبادکردہ موضع عنایت اللہ کاریز میں رہنے لگے۔ نورمحمد خاں اپنی چند ایکڑ زمین اور پھلوں کے کچھ باغات پر زندگی گزارتے تھے۔ وہ دوسرے زمینداروں کی طرح دولت مند نہیں تھے لیکن دینداری اور تعلیم یافتہ ہونے کے سبب قبیلہ میں انہیں ممتاز حیثیت حاصل تھی۔

خان عبدالصمد بچپن سے ہی زیرک اور غیرمعمولی ذہین تھے۔ صرف پانچ سال کی عمر میں انھوں نے لکھنے پڑھنے میں خاص استعداد حاصل کرلی تھی۔ ان کے والد مسجد میں پابندی سے وعظ اور درس دیا کرتے تھے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ دس سال کی عمر تک عبدالصمد خان قرآن کریم، احادیث اور عربی، فارسی اور پشتو کی دینی کتب کا مطالعہ کرکے اپنی عمر کے بچوں سے کہیں زیادہ لائق و فائق بن گئے۔ 1918ء میں اچانک نور محمد خان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد ان کے ماموں نے سرپرستی کی اور انھیں 1919ء میں گلستان کے مڈل اسکول میں داخل کرادیا۔ چوتھی جماعت میں وہ پورے صوبے میں اوّل رہے تو 12روپے ماہوار کا وظیفہ مقرر ہوگیا۔ غریبوں اور ناداروں سے ہمدردی کا جذبہ بچپن سے ہی ان کے دل میں تھا، وہ ہر ماہ وظیفہ کی رقم اپنے ہیڈماسٹر صاحب کو دے دیتے تھے تاکہ اس سے غریب طلبا کی مدد کی جاسکے۔

1919ء میں غازی امان اللہ خان نے افغانستان کی آزادی کا اعلان کیا تو فرنگیوں نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ اس جنگ میں پختونوں نے جی جان سے حصہ لیا لیکن انگریز فاتح رہے۔ ان واقعات کا عبدالصمد خان کے ذہن پر گہرا اثر ہوا۔ آٹھویں جماعت تک ان کا سیاسی اور ملّی شعور اس قدر پختہ ہوگیا تھا کہ وہ انگریزوں سے برملا اپنی نفرت کا اظہار کرنے لگے تھے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد انھوں نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کرکے میوؤں کی تجارت شروع کردی۔ پنجاب اور سندھ کے شہروں میں تجارت کے لیے آنا جانا ہوا تو شعور مزید بیدار ہوا۔ انھوں نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کی۔ حالاتِ حاضرہ پر ان کی گہری نظر رہنے لگی۔

1929ء میں انگریزوں نے غازی امان اللہ کی حکومت ختم کرادی تو وہ قندھار آگئے۔ کوئٹہ اور پشین کے ہزاروں پٹھان نوجوان غازی صاحب کے ساتھ انگریزوں سے لڑنے مرنے کو تیار ہوگئے لیکن یہ جوش اس لیے کام نہ آیا کہ انگریزوں نے قبائل کے بااثر لوگوں کو خطابات، جاگیریں اور بڑی بڑی ملازمتیں دے کر اپنے ساتھ ملالیا تھا۔ خان عبدالغفار خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی قندھار جاکر غازی صاحب کے حق میں لڑنے کا فیصلہ کیا تھا، یہ لوگ راستے میں ہی گرفتار کرلیے گئے۔ اس موقع پر نوجوان خان عبدالصمد نے بھی آزادی کے جہاد میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا اور قندھار کے سفر پر نکل پڑے۔ انگریز پولیس کو اس کا پتہ چل گیا۔ گرفتار کرلیے گئے اور 28دن کے لیے جیل میں بند کردیئے گئے۔ بلوچی گاندھی کی زندگی میں یہ پہلی سزا تھی جس کے بعد ان کی سیاسی زندگی کا عملاً آغاز ہوگیا۔

خان عبدالصمد اور ان کے بھائی عبدالسلام خان نے فرنگی استعمار کے خلاف اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ایک تنظیم بنائی اور گاؤں گاؤں پھر کر مسجدوں میں غیرملکی آقاؤں کے خلاف تقاریر شروع کردیں۔ اسی سال وہ لاہور گئے جہاں کانگریس، بھارت سبھا اور تحریکِ آزادی کی دوسری تنظیموں کے جلسے مسلسل ہورہے تھے۔ 1930ء میں عظیم کانگریس رہنما ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور پنجاب کے نامور مجاہدِ آزادی کاکا صنوبر حسین کی تقریروں نے انھیں بیحد متاثر کیا اور وہ پوری طرح انگریز سرکار کی مخالفت میں آواز بلند کرنے لگے۔ انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ بغاوت کے جرم میں انگریز کے تابع فرمان نام نہاد جرگہ نے انھیں ایک سال کی سزا سنا دی۔ 1931ء میں وہ اس وقت جیل سے رہا ہوئے جب ہندوستان کے سیاسی رہنما گول میز کانفرنس کے لیے لندن جانے والے تھے۔ گاندھی جی اور وائسرائے لارڈ اروِن کے مابین معاہدے کے تحت تمام سیاسی قیدی رہا کردیئے گئے تھے۔ اب خان عبدالصمد پوری طرح برِّصغیر کی قومی تحریکِ آزادی کے سپاہی بن چکے تھے۔ جیل سے رہا ہوتے ہی وہ بمبئی روانہ ہوگئے تاکہ گول میز کانفرنس میں شامل ہونے جارہے رہنماؤں کو بلوچستان کے حالات سے آگاہ کرسکیں۔ یہ سفر ان کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم موڑ ثابت ہوا۔ گاندھی جی سے ملاقات ہوئی۔ مہاتما گاندھی نے نہ صرف ان کی بات سنی بلکہ تحریری طور پر بلوچی عوام کی صورتِ حال کی مکمل جانکاری حاصل کی۔ مہاتما گاندھی اس نوجوان مجاہدِ آزادی سے بیحد متاثر ہوئے اور پندرہ دنوں تک اپنے ساتھ رکھا۔ گاندھی جی کی سادہ زندگی، ان کی دلوں میں اُترجانے والی باتیں اور ان کا فلسفہ ستیہ اور اہنسا،خان عبدالصمد خان پر اس طرح اثرانداز ہوئے کہ صرف کھدر کا لباس ہی نہیں زندگی کا ہر پہلو گاندھی جی کے رنگ میں رنگ چکا تھا۔ خدائی خدمتگار رہنما اور مشرقی پختون علاقہ کے عظیم گاندھیائی لیڈر خان عبدالغفار خان سے بمبئی میں ہی ملاقات ہوئی جس کے بارے میں خود بلوچی گاندھی نے اپنی خودنوشت میں تحریر کیا ہے:

’’ایک دن گاندھی جی نے بلایا، کہا کل باچاخان ریل سے آرہے ہیں، آپ کو جانا ہے، اسٹیشن گیا، باچاخان، امیرمحمد خان لالہ، میاں احمد شاہ خدائی خدمتگاروں کے ساتھ آگئے، باچاخان اور امیرمحمد خان لالہ گاندھی جی کے ہاں آگئے۔ ادھر باچاخان میرے کمرے میں ٹھہر گئے، پہلے دو ایک روز میں باچاخان سے بہت تنگ ہوا۔ اس لیے کہ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے۔ اور میں بزرگوں کی طرح ان کی خدمت کرنا چاہتا تھا، جبکہ وہ میری خدمت کرنا چاہ رہے تھے، کبھی چائے بناکر دیتے، کبھی کچھ اور، مجھے بڑی شرمندگی ہوتی لیکن آخر میں زیادہ اصرار کرنے لگا اور قدرے سخت ہوا مگر ایک دوسرے سے آشنا اور شیروشکر ہوگئے۔ بعد میں ہم بہت قریب اور گہرے ساتھی بن گئے۔ میں نے ان میں بہت سی خوبیاں پائیں، لیکن ان کی جس بات نے مجھ پر بہت اثر کیا وہ یہ تھی کہ بمبئی سے واپس آنے کے چند ماہ بعد باچاخان ایک اجتماع کے لیے جارہے تھے۔ میں لاہور میں تھا۔ اسٹیشن گیا، بہت سے کانگریسی لیڈر اور ورکر ان کے گرد جمع ہوگئے، میں خود ایک طرف قدرے دور کھڑا ہوگیا۔ انھوں نے بھیڑ میں مجھے دیکھ لیا۔ میرے پاس آئے اور مجھے گلے لگایا۔ اس چھوٹی سی بات سے میں نے ان کے دل میں پشتون اور پشتونوں سے ان کی محبت کا اندازہ لگایا۔‘‘

خان عبدالصمد نے گاندھی جی، کانگریس اور دوسرے قومی رہنماؤں کے ساتھ مل کر آزادی کی تحریک میں مسلسل آگے بڑھتے ہوئے خود کو صرف نام یا لباس سے ہی نہیں اپنی عملی سیاست سے بھی خود کو سچا بلوچی گاندھی ثابت کیا۔ وہ اپنی قوم کو انگریز کے پیداکردہ نام نہاد اعلیٰ اور ذہنی طور پر غلام طبقہ کی خود غرض، مفاد پرست سیاست سے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ بھولے بھالے پسماندہ، توہم پرست اور قدیم رسم و روایات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بلوچ قبائل کو پرامن، خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کے خواہاں تھے۔ انھوں نے 1932ء میں جیکب آباد میں تاریخی بلوچستان کانفرنس منعقد کی اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا بنیادی مقصد بلوچستان کے عوام کو بیدار و متحد کرنا اور پشتو زبان کی تعلیم و ترویج کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ لیکن اس کا اہم ترین نصب العین انگریز کی غلامی کے خلاف عوام کومنظم کرنا بھی تھا۔ ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں پر برطانوی حکومت گہری نظر رکھتی تھی۔

2 ستمبر، 2014  بشکریہ : روز نامہ عزیز الہند  ، نئی دہلی 

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/father-pashtuns-khan-abdus-samad-part-1/d/98934

 

Loading..

Loading..