New Age Islam
Wed May 31 2023, 04:19 PM

Urdu Section ( 20 Dec 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

False Authority of Men over Women: Part 41 عورت اور ان پر مردوں کی جھوٹی فضیلت: قسط 41

حقوق النسواں مولوی ممتاز علی کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1898میں لکھی گئی تھی ۔مولوی ممتاز علی  علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کے ہمعصر تھے ۔حقو ق النسواں اسلام میں عورتوں کے حقوق پر پہلی مستند تصنیف ہے۔ مولوی ممتاز علی نے نہایت مدلل طریقے سے قرآنی آیات اور مستند احادیث کی مدد سے یہ ثابت کیا ہے کہ مردوں کی عورتوں پر  نام نہاد برتری اور فضلیت اسلام یا قرآن کا تصور نہیں ،بلکہ ان مفسرین کے ذہنی روبہ کا نتیجہ ہے ،جو مردانہ شاونیت (Chauvanism)کے شکار تھے۔اس کتاب کی اشاعت نے آج سے 111سال پہلے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا تھا ۔کچھ نے اس کتاب کی سخت مخالفت کی ،لیکن بہت سے علما نے اس تصنیف کا خیر مقدم کیا او رکچھ نے خاموشی ہی میں بہتری سمجھی  روزنامہ ‘‘صحافت’’ ممبئی  اسے اس لئے سلسلہ وار شائع کررہا ہے کہ ایک صدی بعد بھی یہ تصنیف اور اس کے مضامین آج کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں ، اس لئے بالکل نئے معلوم ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مضامین بغور پڑھے جائیں گے اور اس عظیم الشان تصنیف کا شایان شان خیر مقدم کیا جائے گا۔ایڈیٹر

مجھے امید ہے کے اگر ان صلاحوں پر یا ان کے قریب قریب اسی قسم کی اصلاحوں پر باضابطہ عملدرآمد ہوتو نکاح جیسا ذریعہ شادی وخوشی کا ہے ویسا ہی بن جائے اور ہزاروں گھرانے ان اصلاحوں کی بدولت خوش وخرم ہوں۔ گھر کے لوگوں میں دلی محبت و یکجہتی پیدا ہو اور گروہ انسان سے ہزار ہا رنج وغم دورہوں ۔

معاشرت زوجین :۔

جب عورت کے حقوق کا با لکل مردوں کے حقوق کے  مساوی ہونا ثابت ہوچکا ۔ اور ایسی قسم کی تعلیم کی جو اس کو مرد کا جلیس انیس بنانے کے لئے ضرور ہو متحقق ہوچکی اور سنت بنوی علی صاحبا التحیۃ والسلام کی دوبارہ نکا ح معلوم ہوچکی تو معاشرت زوجین کی نسبت کچھ زیادہ کہنا فضول تھا¬کیو نکہ جب عورت او ر مرد خلقت میں یکساں ہیں تو ظاہر ہے کہ جو امود مرد کو رنج دینے والے ہیں وہ ہی عورت کو رنج دینے والے ہیں اور جو امور مرد کو خوش کرنے والے ہیں وہ ہی عورت کو خوش کرنے والے ہیں مگر لوگ بیویوں کے حقوق کے ادا کرنے میں طریق شریعت سے اس قدر دورجا پڑے ہیں کہ صرف سرسری راہ نمائی ان کو راہ پر نہیں لاسکتی بلکہ ضرور راہ نما ئی ان کو راہ پر نہیں لاسکتی بلکہ ضرور ہے کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر طریق شریعت پرکھڑا کیا جائے۔ شوہر وزوجہ میں جونا چاقیاں اور بے لطیفیاں پیدا ہوتی ہیں وہ تاہل کو تلخْ اور خراب کردیتی ہیں۔ ان کے اسباب عموماً یہ ہوتے ہیں۔ فریقین ازدواج کے درجہ تعلیم میں بے حد تفاوت کا ہونا یا طبعی بدمزاجی یا ساس نند کے تنازعات ۔تعلیم کی نسبت ہم بہت کچھ کہہ چکے ہیں اور بتلا چکے ہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوان ناخواندہ بیویوں سے کبھی خوش نہیں رہ سکتے اور جبکہ زمانہ حال میں لڑکیوں میں ابتدائی تعلیم کا آغاز ہے تو لائق نوجوان کو لائق رفیق ملنے مشکل ہیں البتہ کمی تعلیم کی کس قدر تلافی خوش تربیتی اور سلیقہ مندی سے ہوجاتی ہے ۔شوہر جانتے ہیں کہ بیوی بڑھی ہوئی نہیں ہے اس لئے وہ ناخواندہ سے ہوسکتے۔

بعض وقت لائق شوہر کو جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک بھی اچھا کرتا ہے۔ محبت بھی بے انتہا رکھتا ہے او رکوئی دقیقہ انس و ہمدردی کا اس کے لئے اٹھا نہیں رکھتا اس بات سے نہایت رنج و بیدلی ہوتی ہے کہ وہ بیوی باوجود خواندہ ہونے کے اپنے شوہر کے اوصاف کی پوری قدر دانی نہیں کرتے اور قدر دانی نہ کرسکنے کے باعث وہ اس قدر خوش وبشاش بھی نہیں پائی جاتی جس قدر اس کو ایسے حالات میں پایا جانا چاہئے تھا۔ ہمارے مخدوم دوست پنڈت شیو نرائن اگنی ہوتری جو بانی دیو دھرم ہیں بیوی کے ساتھ حسن سلوک میں اپنی قوم میں بے نظیر ہیں ۔ مستورات کے باب میں ان کی فیاضانہ ارائیں اور دلی درد مندیاں اور منصفانہ فیصلے اس قابل ہیں کہ اہل اسلام بھی ان کی پیروی کریں۔ پنڈت صاحب موصوف کی شادی نومبر 1881میں ایک برہمن خاندان میں گنیش سندری دیوی سے ہوئی ۔ یہ لڑکی اگر چہ کسی قدر تعلیم یافتہ تھی اور عبادت اور مذہبی رسومات کے ادا کرنے کا اس کوبے حد شوق تھا اور اپنے شوہر کی خوبیوں کو سمجھ سکتی اور ان سے پورے طور پر مستفید  ہوسکتی ۔ اندریں صورت ان میں وہ خوشی اور بشاشت جو ایسے لائق شوہر کے حاصل ہونے سے ہونی چاہئے تھی حاصل نہ تھی ۔پنڈت صاحب موصوف اپنی قوم میں ایک ہی شخص ہیں جو مستورات کے حقوق کے بڑے بھاری حامی ہیں۔ جس خوش نصیب برہمن لڑکی کو ان کی زوجیت کی عزت حاصل ہوتی وہ ان کے وجود کو منعتمنات سے گنتی ۔ ایسی ہی بعض مثالیں اپنے احباب اہل اسلام کی ہیں مگر وہ اپنا نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔ ایک ہمارے مخدوم ہیں جن کا دل قوم کی محبت اور ہمدردی کے جوش سے لبریز ہے اور جس دن وہ نہ ہوگا سارا ہندوستان اسے روئے گا۔ اس کی زندگی کا ایک ایک سانس قوم کے لئے دوراہے ۔  ان بیچاروں کو بھی رفیق ایسا ملا ہے کہ اس کی نظر میں  وہ زمانہ بھر کا ہمدرد اس کا ہمدرد نہیں ہے۔

زمانہ بھر میں اگر کوئی ان کا شاکی ہے تو ان کی بیوی ایک ہمارےنہایت فاضل دوست ہیں جو بحر علوم  عربیہ میں شنا دری کرنے والے اور نہایت خوش مذاق خوش خیال شخص ہیں جن کی ذات گروہ علما میں منعتنمات سے ہے مگر ہم طریق زندگی نے ان کو کسی کام کانہیں رکھا ۔ان کے بے انتہا علم سے ایک ذرہ کی برابر فیض کسی کو نہیں پہنچتا ۔ ہم تو جب کبھی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں تو یہ سنا کہ مولوی صاحب بیڑھا ٹھوک رہے ہیں۔یاچار پائی کی ادوائن کس رہے ہیں۔ یا پسناری کو گیہوں تول کر دے رہے ہیں۔یابچوں کی آبد ست کررہے ہیں ۔ پس جس شخص کو اس قسم کی خانہ داری نصیب ہو اس کو کیا راحت نصیب ہوسکتی ہے۔ بعض لوگوں کو ایسی بیویاں ملتی ہیں جو اچھی پڑھی لکھی ہیں۔ شوہر کی اطاعت بھی کرتی ہیں ۔کفایت شعار بھی ہیں۔ مگر خوش سلیقہ نہیں ۔ بعض مردوں کو مکان کی زینت و آرائش کا بہت شوق ہوتا ہے اور خود بیوی کو بھی صاف اجلے لباس میں ہی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں مگر بیوی اپنی طبی سادہ مزاجی کی وجہ سے اپنے شوہر کی اس خواہش کی طرف پوری توجہ نہیں کرتی اس لئے شوہر کے دل سے رفتہ رفتہ وہ اتر جاتی ہے اور وہ اس کو پھوڑ سمجھنے لگتا ہے۔(جاری)

بشکریہ : روز نامہ صحافت ، ممبئی

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-41/d/2245


Loading..

Loading..