مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق نسواں’’
پس اگر اس زمانہ میں بھی اس
قسم کے لوگ ہوں کہ ان کے اختیار میں یتیم لڑکیاں اور ان سے نکاح کرنے میں یہ اندیشہ
ہو کہ انصاف قائم نہیں رہ سکے گا تو اس آیت کے رو سے ان کو جائز ہے کہ وہ بشر ط عدل
ایک سے زیادہ نکاح کرلیں الا اگر یہ صورت نہیں ہے تو عام نکاح کی نسبت جائز ہے یا نہیں
قرآن مجید ساکت ہے اور غالباً اس امر کا تصفیہ حالت تمدنی وتہذیب زمانہ وسہولت فریقین
پر چھوڑ ا گیا ہے ۔پس اس حکم قرآنی سے کسی طرح تعداد ازدواج کا جوازبالعموم ثابت نہیں
ہوتا اور اس لئے یہ حکم مردوں کی فضیلت کی دلیل نہیں ہوسکتا ۔
طلاق کا اختیار جو مردوں کو
دیا گیا ہے وہ ایسا ہے کہ مردوں کو اس سے شرمانا چاہئے اور اگر ان میں شرافت انسانی
کا ثبوت ہوسکتا ہے تو اس اختیار کو استعمال میں نہ لانے سے ہوسکتا ہے طلاق ایک نہایت
تلخ مزہ دوا ہے جو صرف ایسے مرض کا علاج ہے جس کی اور کوئی تدبیر معالجہ نہ ہوسکے۔
میاں بیوی کے باہمی تعلقات ایسے نازک اور اہم
اور قابل اخفا ہوتے ہیں کہ دنیاوی عدالتوں کی طرف ان کے انفصال کے لئے رجوع
کرنا ان رنجشوں کو اور ترقی دینا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ نکاح ایک معاہدہ مثل دیگر معاہدوں
کے ہے اور معاہدوں کی تکمیل کے بعد ہر فریق کو اختیار ہے کہ عہد شکن فریق کو ایفائے
معاہدہ پر شرعا مجبور کرے یا کرائے۔ مگر یہ عہد شکنی ایسی حالت قلبی کا نتیجہ ہوتا
ہے کہ اس حالت کی موجودگی میں جبراً ایفائے معاہدہ کرنا صرف ایک ظاہری ایفا ہوسکتا
ہے ۔ لیکن حقیقتاً وہ معاہدہ شوہر و زوجہ کے قلبی ارتباط سے تعلق رکھتا ہے اور جبر
سے اس کا ایفا حقیقی ممکن نہیں ہے کچھ نہیں ہے کچھ شک نہیں کہ ظاہر ی معاہدہ ایک بیرونی
نشان او ر اعلان دوشخصیتوں میں روحانی رشتہ پیدا ہونے کا ہے لیکن روح کھو کر صرف جسم
باقی رکھنا یعنی اصل اغراض نکاح کوچھوڑ کر عدالت سے ظاہری معاہدہ کا ایفا بہ جبر کرانا
کیا فائدہ دے سکتا ہے۔ ضرور ہے کہ ایسے ناگریز حالات میں فریقن کی رائے سے علیحدگی کی اجازت دی جائے مگر سوال یہ
ہے کہ کس فریق کے ہاتھ میں یہ اختیار رکھا جاوے ہماری رائے میں جہاں ہوا س کا اختیار
دونوں فریق میں کسی ہاتھ میں ہونا یکساں نتیجہ پیدا کرے گا۔
کیونکہ عموماً یہ ممکن نہیں
ہے کہ مرد تو اپنی بیوی سے یہ کہے کہ میں آئندہ تجھ کو اپنی بیوی بنا کر رکھنا نہیں
چاہتا ۔ اور بیوی کو اس مرد سے ایسی محبت قلبی ہو کے اس سے جدا نہ ہونا چاہئے ۔پس ایسی
حالت میں ضرور ہے کہ علیحدگی ہو خواہ اس کا اظہار مرد کی جانب سے ہو خواہ عورت کی جانب
سے۔
کوئی شخص اس امر سے انکار
نہیں کرسکتا کہ عورت میں شرم اور حیا اور خواہش حفظ ناموس مرد سے بدر جہاں زیادہ سے
شرم وحیا اس کی سرشت میں گویا خمیرکردی گئی ہے او رتمام وہ اخلاق لطیفہ جن سے نرمی
مزاج جو عورت کو طبعادی گئی ہے ظاہر ہو ان میں بدرجہ اتم و اکمل پائے جاتے ہیں۔ رحم
۔ترس ۔خوف خدا۔ ہمدردی ۔محبت عورت کی خلقی صفات ہیں۔ جو علیحدگی طلاق کے ذریعہ سے عمل
میں آتی ہے خواہ و ہ خاص حالات میں کیسی ہی معقول وجوہات پرمبنی ہو لیکن اس کا ظہور
ایسے انسان سے جس کی سرشت محبت و الفت سے بنی ہو نہایت مکروہ وبدنما معلوم ہوتا ۔ اور
اس سراپا الفت پر جس کے رگ وریشہ میں سچی وفاداری رکھی ہے نہایت بدزیب داغ ہوتا اس
لئے خدائے تعالیٰ نے ایسے کریہ الزام سے جس کو رسول خدائے تعالیٰ نے ایسے کریہ الزام
سے جس کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ دنیا کی تمام جائز چیز وں
میں سے بدترین چیز ہے عورت کی ذات کو محفوظ رکھنا ۔ افسوس ہے مردوں کے حال پر اور ان
کی نالائقی پر کہ خدائے تعالیٰ تو ایک چیز کو بدترین شے فرمادے او رمرد اس کو اپنی
فضیلت کا موجب قرار دیں ۔ البتہ یہ بات غور طلب ہے کہ آیا مردوں کو کوئی ایسا اختیار
تو نہیں دیا گیا کہ اس کے ذریعہ سے وہ عورتیں کو ناواجب طور پر ستاسکیں۔
ممکن تھا کہ مرد باوجود رنجش
باہمی کے عورت کو طلاق دے کر علیحد ہ نہ کرتا اس غرض سے کہ وہ اس حالت زبون سے بجات نہ پائے اسی صورت میں
عورت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جبراً مرد سے بذریعہ قاضی طلاق حاصل کرے۔ او رعورت
کے اس حق کو عرف شروع میں خلع کہتے ہیں۔
اس صورت میں بھی گوعورت اپنا
مقصد علیحدگی حاصل کرلیتی ہے ۔مگر بقول شخصے کہ سانپ مرے اور لاٹھی نہ ٹوٹے خدائے تعالیٰ
نے علیحدگی کا الزام عورت پر آنے نہیں دیا بلکہ ظاہر اس کو قاضی کی طرف منتقل کردیا۔
اخبار صحیح میں لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں حفصہ بنت سہل ایک نہایت حسینہ وشکیلہ عورت
تھی ۔ اس کا شوہر جو نہایت بدشکل تھا اس کے حسن وجمال پر فریفتہ تھا مگر بیوی کو اس
سے سخت نفرت تھی اور ان میں ہرروز بدمزگی ورنجش رہتی تھی۔ آخرش حفصہ نے آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا حضرت میرا دل اپنے شوہر سے ازحد نفرت رکھتا ہے اور
خوف ہے کہ مبادا حقوق شوہر میں کمی کرنےسے مجھ سے مواخذہ ہو۔ آپ مجھے اس سے جدا کردیجئے
۔آپ نے بہت کچھ سمجھایا ۔مگر جب دیکھا کہ ان کا اتفاق مشکل ہے تو اس کے شوہر سے اس
کو علیحدہ کرنے کو کہا ۔شوہر نے عرض کیا کہ میں نے اس کوایک باغ دیا ہے اور اب یہ خود
بلا میرے قصور کے مجھ سے علیحدہ ہوتی ہے پس میرا باغ واپس کرادیجئے ۔حفصہ نے کہا کہ
اگر باغ کے ساتھ کچھ او ربھی لے کر مجھے چھور دے تو غنیمت ہے۔ آخر حضرت نے صرف باغ
واپس کراکر ان کو علیحدہ کردیا۔ پس مرد کے بدسلوکیوں سے بچنے کے لئے عورتوں کو اس سے
بہتر او رکیا حق دیا جاسکتا تھا اور اس سے زیادہ دلجوئی ومراعات عورت کی کیا ہوسکتی
تھی جو شارع علیہ السلام نے قانون شرعی میں ملحوظ رکھی۔ دنیا کے سب دلائل جب محض نکمی
نکلیں تو مرد عالم آخرت کے طرف دوڑے اور اپنی فضلیت کا دار مدار حوران بہشتی پر ٹھہرایا
۔مگر یہ دلیل بھی اپنی بے ہودگی میں باقی دلائل
سے کم نہیں ۔قرآن مجید کے الفاظ جن پر یہ فرضی بزرگی ثابت کی جاتی ہے یہ ہیں ۔ ولہم
فیہا ازواج مطہر ۃ یعنی ان کے لئے بہشت میں پاک جوڑے ہوں گے۔ ان الفاظ سے وہ یہ سمجھتے
ہیں کہ ہم جو ضمیر مذکر ہے مردوں کی طرف راجع ہے اور ازدواج سے حوران بہشتی مراد ہیں
۔مگر میں آیت کے یہ معنی سمجھنا قرآن مجید کے طرز خطاب وسیاق کلام اور خاص اسلوب
کلام الہٰی سے ناآشنا ظاہر کرا تا ہے۔ (جاری)
بشکریہ روزنانہ صحافت ،ممبئی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-7-b/d/2085