New Age Islam
Wed May 14 2025, 03:22 AM

Urdu Section ( 11 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Fall of Syria: Concerns and Possibilities سقوط شام: اندیشے اور امکانات

ڈاکٹر تسلیم رحمانی

9دسمبر،2024

آخر کار شام میں بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہوہی گیا۔ اس کے ساتھ ہی ظلم واستبداد کے 61 / سالہ عہد کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ نیز عرب دنیا میں کمیونسٹ نظریے کی حامی بعث پارٹی کا آخری قلعہ بھی منہدم ہوگیا۔ 2011 میں بہار عرب کے آغاز کے وقت جب عرب حکومت کے خلاف جمہوریت کے قیام کی خاطر عوامی تحریک کھڑی ہوئی تھی تبھی شام میں بھی اس عوامی تحریک کا آغاز ہوا تھا جسے بزور قوت مسلح افواج کے ذریعہ کچلنے کی کوشش کا ظالمانہ سلسلہ بھی شروع ہوا تھا جو گزشتہ 13سال سے ابھی تک جاری تھا۔ اس دوران تقریباً آٹھ لاکھ لوگوں کو قتل کیا گیا اور تقریباً 60لاکھ لوگوں کو یا تو ملک کے اندر ہی ہجرت کرنی پڑی یا ملک بدر ہونا پڑا۔ سو ا دو کروڑ کی آبادی والے شام میں سے تقریباً 40فیصد لوگوں کو یا تو قتل یا دربدر کردیا گیا اور یہ صرف اس لیے ہوا کہ شام میں بشاالاسد اپنی حکومت کو قائم رکھ سکے۔اس صدی میں غالباً اپنے ہی ملک کے حکمراں کے ذریعے اپنے ہی شہر یوں کے قتل عام کی شاید کوئی دوسری مثال مل سکے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال میں غزہ او رلبنان میں اسرائیل، امریکہ اور ناٹو نے تقریباً پچاس ہزار فلسطینیوں کو شہید کیا ہے جب کہ دولاکھ کے قریب زخمی ہیں اور بیس لاکھ لوگ بے گھر و بے یارو مددگار ہیں۔ شاہی حکمراں کے جبر کی داستان اس سے کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ اس سے قبل بشا الاسد کے والد حافظ الاسد جو 1963 میں وہاں کی ہوائی فوجوں کے سربراہ بنے تھے۔ انہوں نے بھی اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے لاکھوں شہریوں کا قتل عام کیا تھا اس طرح ظلم جبر اور استبداد کا یہ سلسلہ 1963 سے جب جاری ہوا وہ اب تک جاری رہا۔ شام میں کسی کو اظہار رائے کی آزادی حاصل نہیں تھی اخباروں پر پابندی تھی او رجاسوسی کا اتنا بڑا نیٹ ورک تھا کہ شام کے عوام عوامی سطح پر کچھ بھی بولتے ہوئے ہمیشہ ڈرتے رہے اوراپنی رائے کو ظاہر نہیں کرتے تھے او ریہ وجہ ہے کہ 8دسمبر 2024 کو جب سقوط شام ہوا اور بشار الاسد کواچانک غیر متوقع طور پر اپنے ہی ملک سے فرار ہونا پڑا۔ اس وقت حزب اختلاف کی فوجوں نے صیدنا جیل سے جن لوگوں کو رہا کیا ان رہا ہونے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو تقریباً نصف صدی سے جیلوں کے اندر محبوس تھے۔

شام کا یہ انقلاب حیرت انگیز طور پر اچانک اور غیر متوقع ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ غزہ اورلبنان میں اسرائیلی و امریکی قتل عام جاری ہے اور ساری دنیا کی نظریں ادھر ہی مرکوز ہیں۔ شام میں یہ تختہ پلٹ کی کوئی امید نہیں کی جارہی تھی۔ چنانچہ ہر طرف امیدوں، اندیشوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ جہاں شام میں عوامی جشن کا ماحول ہے اور دنیا کا اسلام پسند طبقہ پر امید اورپرجوش ہے وہیں تجزیہ نگار مستقبل کے اندیشوں کے شکا رہیں۔ یہ انقلاب شام کے سب سے زیادہ طاقتور عسکری گروپ ہئیتتحریک الشام کے ذریعہ بپا کیا گیاہے۔ یہ گروپ اور اس سے وابستہ متعدد عسکری گروپ شام کے شمالی خطے میں 2013 سے ہی قابض ہیں۔ سچ یہ ہے کہ شام کے زاید از نصف حصے پر تب سے ہی یہ گروپ قابض رہے ہیں لیکن چھوٹے چھوٹے خطوں پر الگ الگ اور چھوٹے چھوٹے گروپ ہی کا قبضہ رہا جو آپس میں بھی متحارب تھے جب کہ بشارالاسد بقیہ ملک پرتنہا قابض رہے جس کے نتیجے میں ان کی حکمرانی عالمی سطح پر تسلیم شدہ رہی نیز یہ کہ ایران وروس کی حمایت کی وجہ سے مستحکم بھی رہی۔ ادھر حز ب اللہ کی عسکری قوت بھی بشار کو تعاون کرتی رہی، لیکن اس سال اکتوبر سے جنوبی لبنان پراسرائیل کے پے درپے ظالمانہ حملوں نے حز ب اللہ کو کافی حد تک کمزور کیا ہے۔ حالانکہ حز ب اللہ کو ختم کرنے کا اسرائیلی ہدف آج بھی پورا نہیں ہوسکا۔ چنانچہ حز ب اللہ کو شمالی شام سے اپنے کچھ فوجی محاذ کو خالی کرنا پڑا جن پر موقع دیکھ کر وہاں کے کرد مسلح گروہوں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اسی دوران ہئیت تحریک الشام نے بھی پیش قدمی کی اور کرد گروپس کو ان مورچوں پر قابض نہیں ہونے دیا۔ اس کامیابی سے پرجوش تحریک نے مزید پیش قدمی بھی کی او رپورے حلب او رادلب پربھی قبضہ کرلیا۔ یہ ممکن تھا کہ ایرانی اور روسی افواج کے تعاون سے اس پیش قدمی کو وہیں محدود کردیا جاتا، ابتدا میں اس کی کوشش بھی کی گئی لیکن پھر کچھ ایسا ضرور ہوا کہ ان دونوں ممالک نے یہ کوشش محض نمائشی طور پر ہی جاری رکھی۔ اس سلسلے میں گزشتہ ہفتے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا ترکی دورہ اور ترکی کے ہم منصب سے ملاقات اور مشترکہ پریس کانفرنس بہت اہمیت کی حا مل ہے۔ بند کمرے میں کیا بات چیت ہوئی، اس کی تفصیل ابھی تک منظر عام پرب نہیں آئی ہے لیکن اعلامیہ میں دونوں ممالک کے علاقائی مفادات اور خطے میں امن کی بحالی کی بات ضرور کی گئی۔ اسی طرح ترکی کے فوراً بعد ایرانی وزیر خارجہ کا قطر کا دورہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔ جس کے بعد محض چند دنوں کے اندر شامی مسلح گروپ یکے بعد دیگرے تمام شہروں کی جانب آسانی سے کوچ کرتے چلے گئے او رانہیں کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ شام کی افواج بھی پہلی بار ہتھیار ڈالتی نظر آئیں۔پچھلے تین دن کے واقعات سے یہ ظاہر ہونے لگا تھا کہ اب دمشق بھی دورنہیں۔بالکل افغانستان کی طرح شام بھی مسلح حزب اختلاف نے فتح کرلیا۔

حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہناغلط نہیں ہوگاکہ شام کی فتح کسی نہ کسی سیاسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ ادھر امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا تجزیہ ہے کہ روس کی یوکرین میں مصروف اور اسرائیل کی وجہ سے کمزور ہوتا ہوا ایران شام میں اپنی توانائی صرف نہیں کرسکتا،صحیح نہیں لگتا۔ایران پر اسرائیلی جارحیت کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر ایران کو داخلی سلامتی کی فکر وامن گیر ہے۔ یہ حملہ عربوں کی فضائی اور سمندر ی حدود کے استعمال کے بغیرممکن نہیں ہے۔ ادھر عرب ممالک بھی مخدوش خلیج فارس او ر بحرا حمر میں ایرانی حمایت یافتہ یمنی عسکریت پسندوں کی دخل اندازی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ عربوں کے علاوہ ان بحری رہداریوں کے بند یا مخدوش ہونے سے پورے یوروپ اور ایشیا کے درمیان تجارتی راہیں مسدور ہوجاتی ہیں جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہیں۔ اس لیے ایک بشار الاسد پر سمجھوتہ کرکے سب کو محفوظ کیاجاسکتا ہے۔ شام کی آزادی ترکی، ایران، عرب اور یوروپ سب کے مفاد میں نظر آتی ہے۔ جہاں تک خدشات کا  تعلق ہے تو یقینا ایک طرف خطے میں کردوں کی مسلح جدوجہد میں تیزی آنے کا امکان ہے۔ وہیں دوسرا اہم معاملہ فلسطینی کاز کاہے۔ ہئیت تحریک الشام کا موقف ہمیشہ فلسطینی حمایت کا رہا ہے۔ سات اکتوبر کے بعدبھی اس گروہ نے غزہ کی حمایت کی تھی او راب گولان کی پہاڑیوں پر ان کے قبضے کی وجہ سے اسرائیل کو مزید محتاط رہنا پڑے گا۔اگر حکمت عملی سے کام لیاگیا تو شام کابدلتا منظر نامہ اسرائیل سلامتی کے مستقبل پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

9 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/fall-syria-concerns-possibilities/d/133994

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..