فیضان مصطفی
11 جنوری، 2018
تعزیرات ہند کے تحت 'چوری' اور 'زنا' کے جرم کے درمیان نمایاں مشابہت موجود ہے۔ انسائیکلوپیڈیا ڈی ڈیڈیرٹ اور ڈی المبرٹ ، جلد۔ 1 (1751) میں زنا کو چوری کے مساوی قرار دیا گیا ہے: " قتل کے بعد، زناکی سزا تمام قسم کے جرائم سے سخت ہے، کیونکہ یہ سب سے زیادہ سنگین چوری ہے۔"
1707 میں، انگریزی لارڈ چیف جسٹس جان ہولٹ نے کہا کہ کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کی بیوی کے ساتھ جنسی تعلق رکھنا "جائداد میں سب سے بڑی دخل" اندازی ہے۔ اکثر معاشروں میں ازدواجی زنا کو نفرت انگیز مانا گیا ہے۔ ہماری عدالت عظمیٰ کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایک ازدواجی گھر توڑنا کسی کے گھر میں زبردستی دخل اندازی کرنے سے کم سنگین جرم نہیں ہے اور اس نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفع 497 کو کالعدم قراردینے سے انکار کر دیا تھا، جس کے تحت مردوں پر زنا کے لئے سزا کا مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔
5 جنوری کو بھارت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین ججوں کے بینچ نے معاشرے کی طرف سے پیش رفت کی روشنی میں زنا کو ایک تعزیری جرم بنانے کے جواز کی از سر نو تحقیق و تفتیش کرنے پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔
صنفی دلائل
آئین ہند کےدفعہ 497 کے تحت ایک بیوی اپنے شوہر یا اپنے عاشق پر ازدواجی گھر کے نام نہاد تقدس کی پامالی کے لئے مقدمہ نہیں چلا سکتی کیونکہ شوہر اس کی خصوصی ملکیت نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف ایک شوہر ہی اپنی بیوی کے عاشق پر تعزیراتی کوڈ، 1973 ء کے آئین ہند کے دفع 198 (2) کے تحت مقدمہ چلا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر شوہر کے کسی غیر شادی شدہ ، مطلقہ یا بیوہ خاتون کے ساتھ تعلقات ہیں تو زنا کا جرم کسی کے خلاف ثابت نہیں ہوتا۔
مؤثر طور پر آئین ہند کے دفع 497 کے تحت صرف ایک شخص کو کسی دوسرے کی جائیداد، یعنی اس کی بیوی کو چوری کرنے کے لئے ہی سزا دی جاتی ہے۔ عدالت نے ریاست کے ذریعہ بنائے گئے دفعہ 4 9 7 کو آئین کے دفع 15 (3) کے تحت اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے خواتین کے حق میں ایک خصوصی شق شمار کیا ہے (یوسف عزیز بمقابلہ بمبئی ریاست)۔ عدالت نے زنا کے شق کو یہ کہتے ہوئے برقرار رکھا ہے کہ صرف ایک 'بیرونی' ذمہ دار ہے اور یہ استثناء بنیادی طور پر "خواتین کے حق میں متضاد امتیاز" ہے (رواتھی بمقابلہ متحدہ بھارت)۔ چونکہ شوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے پر مقدمہ نہیں چلا سکتے اسی لئے ایک متروک زنا کے قانون کو آئینی طور پر جائز قرار دیا گیا تھا۔
منو میں زنا کے لئے بشمول "موت کی سزائے کے’’، بڑی سزا کو جواز فراہم کیا گیا ہے، ‘‘بشرطیکہ ملزم برہمن نہ ہو’’۔ ازدواجی وفاداری کی خلاف ورزی کرنے والی بیویوں کے لئے کیا سزا تھی؟ موجودہ قانون کی طرح غلطی کرنے والی بیویوں کے لئے سزا غیر وفادار مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہمدردانہ تھی۔ اسلامی قانون میں زنا کے لئے 100 کوڑے کی سزا بیان کی گئی ہے، جس کی تعبیر انتہائی تنگ الفاظ میں بیان کی گئی ہے، یعنی شادی کے بغیر جنسی تعلق قائم کرنا۔
اور اسلامی قانون میں اس کی شہادت کے لئے بھی ناممکن الحصول شرائط وضع کیے ہیں جس کے تحت چار عینی شاہدین کی گواہی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ، اگر چار عینی شاہدین نے گواہی نہیں دی تو اس شخص کے خلاف الزام لگانے والے دوسرے شخص اور اس کے حق میں گواہی دینے والے گواہوں کو 80 کوڑے لگائے جائیں گے اور کبھی بھی مستقبل میں ان کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔ لیکن مرد اور عورت دونوں کو ہندو اور اسلامی قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔ یہودیت اور عیسائیت میں بھی زنا کے لئے سزائے موت دی جائے گی۔
آئی پی سی کا مسودہ کرتے ہوئے برطانیہ نے خواتین کو مستثنیٰ کیوں قرار دیا؟ دراصل، پہلا لاء کمیشن جس نے تھامس بابنگٹن مکاؤلے کے تحت، آئی پی سی تیار کیا اس نے زنا کو جرم کی حیثیت سے شامل نہیں کیا اور اسے صرف ایک سماجی غلطی قرار دیا۔ جان رومیلی کی سربراہی میں دوسرے لاء کمیشن نے مکاؤلے سے اتفاق نہیں کیا لیکن خواتین کو ان کی افسوس ناک حالت کی وجہ سے زنا کی سزا سے الگ رکھا۔ 1860 کے بعد سے ، جب کہ آئی پی سی کا نفاذ ہوا تھا ، تعلیم، خواتین کو بااختیار بنائے جانے اور تعدد ازدواج کے خاتمے سمیت اب تک بہت ساری چیزیں بدل چکی ہیں۔
پوری دنیا میں
آج، اکثر یورپین ممالک میں زنا کوئی مجرمانہ عمل نہیں ہے۔ امریکہ میں زنا کے لئے بالعموم کچھ ریاستوں میں سزا صرف اسی صورت میں دی جاتی ہے کہ جب اس کا ارتکاب بطور عادت کیا جائے یاعوامی سطح پر رسوائی کے ساتھ کیا جائے۔ لیکن سعودی عرب، یمن اور پاکستان جیسے ملکوں میں زنا کے لئے اب بھی موت کی ہی سزا ہے۔
لاء کمیشن (1971) کی 42ویں رپورٹ میں کچھ تردد کے ساتھ، قانون میں زنا کی شق کو برقرار رکھنے کی سفارش کی گئی تھی، اس لئے کہ اس کے مطابق ابھی اسے ختم کرنے کا مناست وقت نہیں آیا تھا ، لیکن اس میں اس قانون کو صنفی طور پر غیر جانب دار بنانے اور اس کی سزا کو پانچ سال کی جیل سے گھٹا کر صرف دو سال تک کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اپنی 156ویں رپورٹ میں لاءکمیشن (1997) نے زنا کے قانون کو بہتر بنانے میں قانون سازی کی کوششوں کی حمایت کی لیکن کمیشن نے پانچ سال جیل کی سزا کو برقرار رکھا۔
جسٹس ملائیماتھ کمیٹی (2003) نے بھی ازدواجی تقدس کے تحفظ کی حمایت کی ہے اور اس طرح صنفی غیر جانبدار زنا کے قوانین کے امساک کو جائز قرار دیا ہے۔ 2006 میں، قومی کمیشن برائے خواتین نے سفارش کی ہے کہ زنا کو ایک غیر تعزیری عمل قرار دیا جائے۔
انفرادی خودمختاری اور آزادی کو حق رازداری کا ایک لازمی جز تسلیم کئے جانے کے بعد زنا کے اس قانون کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں پیدا ہوتا۔
چونکہ عقد نکاح ایک دیوانی معاہدہ ہے ، اسی لئے بشمول تین طلاق کے زنا یا طلاق کی صورت میں اس کی خلاف ورزی کے نتائج بھی دیوانی ہونے چاہئے، اس لئے کہ اس معاملے میں کوئی جائز ریاستی مفاد ملوث نہیں ہے ، کہ جس کی بنیاد پر تعزیراتی نظام انصاف کے استعمال کا جواز پیش کیا جا سکے۔ سپریم کورٹ کو آئین سے زنا کو خارج کر دینا چاہئے کیونکہ بغیر شادی ایک دوسرے کے ساتھ رہنا پہلے سے ہی قانونی ہے۔ صرف صنفی غیر جانبدار بنانا کافی نہیں ہوگا۔
فیضان مصطفی نالسار یونیورسٹی آف لاء، حیدرآباد کے وائس چانسلر ہیں۔
ماخذ:
thehindu.com/opinion/op-ed/not-a-criminal-act/article22413886.ece?utm
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/faizan-mustafa/marriage-is-a-civil-contract-—-adultery-or-divorce-should-have-only-civil-consequences/d/113894
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism